ایک سوال

السلام اعلیکم
تمام احباب محفل بطور خاص جناب الف عین سر، جناب محمد وارث صاحب، جناب راحیل فاروق بھائی، جناب محمد ریحان قریشی صاحب، جناب فاتح بھائی، جناب آوازِ دوست بھائی، جناب محمد تابش صدیقی بھائی
میری غزل کا ایک شعر ہے:
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !

کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ دیوار گرتی ہے، ڈھے جاتی ہے، گلتی نہیں۔
کیا اس شعر میں دیوار کے گرنا درست استدلال نہیں ہے۔
اگر مصرع "گری دیوارِ ِ" سے بدل بھی دیا جائے تو دیوار "آہستہ آہستہ" کیسے "گرے گی" ۔ سلو موشن میں !!
ہم نے اکثر دیواروں کے "گلنے" کے بابت نثر میں پڑھا ہوگا۔ اور ویسے بھی اشک فشانی سے دیوار "گل" ہی سکتی ہے الّا یہ کہ اشکوں کا کوئی طوفان دیوار کو "بہا" لے جائے !
رہنمائی فرمائیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں آپ کے معترضین کسی حد تک صحیح کہہ رہے ہیں، دیوار کا گلنا سڑنا محاورہ نہیں ہے۔ پانی سے پتھر وغیرہ گھِس سکتے ہیں، یا پگھلنا بھی مستعمل ہے لیکن گلنا سڑنا پھر بھی استعمال میں نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی
لیکن شعر میں دیوار کی ساخت کی بابت تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نمی سے تو مٹّی کی دیوار بھی گل جاتی ہے؟
درست، لیکن ایسے استعمال میں نہیں ہے، آپ کو مناسب الفاظ ڈھونڈنے ہونگے یا دوسرے مصرعے کی ساخت مکمل طور پر بدلنی ہوگی۔ آئیڈیا بہرحال اچھا ہے :)
 
دیوار کا گلنا محاورہ واقعی نہیں ہے۔ مگر ہمارے رائے میں شعر میں محاورہ باندھنا خوبی ہو تو ہو لازم بہرحال نہیں۔ مثلاً میرؔ کا شعر ہے:
میرؔ کو واقعہ کیا جانیے درپیش تھا کیا
کہ سوئے دشت بگولا سا چلا جاتا تھا​
اس شعر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے تیکھے پن، تاثیر اور حسن کے باوجود شعر میں درحقیقت کوئی محاورہ نظم نہیں کیا گیا۔ بگولا سا جانا میرؔ کی اپنی اختراع ہے۔ واقعہ درپیش ہونا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
بات یہ ہے کہ اگر طرزِ بیان معنیٰ کا حق ادا کرتا ہے تو محاورے کی پابندی کا سوال اہم نہیں رہتا۔ داغؔ نے اپنے کلام میں محاورے کا نہایت لحاظ کیا ہے مگر غالبؔ الا ماشاءاللہ اردو کے محاورے کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ اس سے کیا کسر شان میں آئی؟
 
میرے خیال میں آپ کے معترضین کسی حد تک صحیح کہہ رہے ہیں، دیوار کا گلنا سڑنا محاورہ نہیں ہے۔ پانی سے پتھر وغیرہ گھِس سکتے ہیں، یا پگھلنا بھی مستعمل ہے لیکن گلنا سڑنا پھر بھی استعمال میں نہیں ہے۔
متفق ہو ں آپ سے وارث سر ۔۔۔
نمی سے تو مٹّی کی دیوار بھی گل جاتی ہے
صاحب گَلنا اور معنی میں مستعمل ہے جبکہ گُھلنا اور معنی میں۔۔۔نمی سے دیوار کی مٹی گُھلنے لگتی ہے اور کمزور پڑتے پڑتے دیوار ڈھے جاتی ہے۔۔۔جس طرح نمک کی خاصیت ہے کہ پانی میں ملایا جائے تو اس میں گُھل جاتاہے۔۔۔اسی طرح مٹی بھی پانی میں گُھل جاتی ہے۔۔۔گَلتی نہیں۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
 

آوازِ دوست

محفلین
کاشف صاحب اساتذہ یقیناً اس کی بہتر وضاحت کر سکتے ہیں میں محض اپنے محسوسات بیان کر سکتا ہوں. شہرِغم اور دیوارِ گریہ جیسی اعلٰی تراکیب میں لفظ گلنا آپ کی وضاحت کے حوالے سے غلط تو نہیں مگر مخمل میں ٹاٹ کے پیوند جیسا لگتا ہے. گلنا شائد کوئی متناسب کمپوزیشن نہیں بناتا. آپ گلی کو مِٹی سے تبدیل کر کے دیکھیں شائد نتیجے میں کوئی بہتری مل سکے. مُراد ہو گا کہ آنسوؤں کی شدت اور تسلسل سے دیوار گریہ حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی. اس سے بہتر اور زیادہ لطیف ترکیب زیادہ عمدہ نتائج دے گی. واللّہ اعلم
 
دیوار کا گلنا محاورہ واقعی نہیں ہے۔ مگر ہمارے رائے میں شعر میں محاورہ باندھنا خوبی ہو تو ہو لازم بہرحال نہیں۔ مثلاً میرؔ کا شعر ہے:
میرؔ کو واقعہ کیا جانیے درپیش تھا کیا
کہ سوئے دشت بگولا سا چلا جاتا تھا​
اس شعر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے تیکھے پن، تاثیر اور حسن کے باوجود شعر میں درحقیقت کوئی محاورہ نظم نہیں کیا گیا۔ بگولا سا جانا میرؔ کی اپنی اختراع ہے۔ واقعہ درپیش ہونا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
بات یہ ہے کہ اگر طرزِ بیان معنیٰ کا حق ادا کرتا ہے تو محاورے کی پابندی کا سوال اہم نہیں رہتا۔ داغؔ نے اپنے کلام میں محاورے کا نہایت لحاظ کیا ہے مگر غالبؔ الا ماشاءاللہ اردو کے محاورے کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ اس سے کیا کسر شان میں آئی؟
بہت عمدہ راحیل بھائی
تقریباََ ایسا ہی استدلال میرا بھی تھا (اتنا دقیع نہیں) !
یہاں محاورہ باندھنے کا کوئی محرک شاعر کی طرف سے تو نظر نہیں آتا !
 
کاشف صاحب اساتذہ یقیناً اس کی بہتر وضاحت کر سکتے ہیں میں محض اپنے محسوسات بیان کر سکتا ہوں. شہرِغم اور دیوارِ گریہ جیسی اعلٰی تراکیب میں لفظ گلنا آپ کی وضاحت کے حوالے سے غلط تو نہیں مگر مخمل میں ٹاٹ کے پیوند جیسا لگتا ہے. گلنا شائد کوئی متناسب کمپوزیشن نہیں بناتا. آپ گلی کو مِٹی سے تبدیل کر کے دیکھیں شائد نتیجے میں کوئی بہتری مل سکے. مُراد ہو گا کہ آنسوؤں کی شدت اور تسلسل سے دیوار گریہ حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی. اس سے بہتر اور زیادہ لطیف ترکیب زیادہ عمدہ نتائج دے گی. واللّہ اعلم
نذیر بھائی معذرت کے ساتھ
گویا "دیوارِ گریہ" کا مِٹ جانا (جو مجھے سراسر عجیب لگا) قابلِ قبول ہوگا لیکن اس کا گل جانا "چہ معنی دارد" کے اطلاق پر ختم ہوگا ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
دیوار کا گلنا محاورہ واقعی نہیں ہے۔ مگر ہمارے رائے میں شعر میں محاورہ باندھنا خوبی ہو تو ہو لازم بہرحال نہیں۔ مثلاً میرؔ کا شعر ہے:
میرؔ کو واقعہ کیا جانیے درپیش تھا کیا
کہ سوئے دشت بگولا سا چلا جاتا تھا​
اس شعر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے تیکھے پن، تاثیر اور حسن کے باوجود شعر میں درحقیقت کوئی محاورہ نظم نہیں کیا گیا۔ بگولا سا جانا میرؔ کی اپنی اختراع ہے۔ واقعہ درپیش ہونا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
بات یہ ہے کہ اگر طرزِ بیان معنیٰ کا حق ادا کرتا ہے تو محاورے کی پابندی کا سوال اہم نہیں رہتا۔ داغؔ نے اپنے کلام میں محاورے کا نہایت لحاظ کیا ہے مگر غالبؔ الا ماشاءاللہ اردو کے محاورے کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ اس سے کیا کسر شان میں آئی؟
درست فرمایا آپ نے، لیکن میرے خیال میں یہاں اس شعر کے سیاق و سباق تک ہی رہنا چاہیے۔ میر و غالب و داغ نے جو کچھ کیا وہ ان اساتذہ کا حق تھا، وہ کر سکتے تھے۔ گلنا سڑنا ایک بائیو کیمیکل عمل ہے شاید اور مٹی پتھر دیوار مکان میں یہ نہیں ہوتا، یہ نہ صرف خلافِ محاورہ ہے بلکہ خلافِ معاملہ بھی، بگولے کا چلنا اس طرح خلاف معاملہ نہیں ہے۔ یہاں جیسے غزنوی صاحب نے فرمایا گلنے کی بجائے گھُلنے کا محل ہے۔
 
متفق ہو ں آپ سے وارث سر ۔۔۔

صاحب گَلنا اور معنی میں مستعمل ہے جبکہ گُھلنا اور معنی میں۔۔۔نمی سے دیوار کی مٹی گُھلنے لگتی ہے اور کمزور پڑتے پڑتے دیوار ڈھے جاتی ہے۔۔۔جس طرح نمک کی خاصیت ہے کہ پانی میں ملایا جائے تو اس میں گُھل جاتاہے۔۔۔اسی طرح مٹی بھی پانی میں گُھل جاتی ہے۔۔۔گَلتی نہیں۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
جی۔
یہ کافی حد تک درست ہے کہ دیوار "گُھل" سکتی ہے !
لیکن "گھلنے" اور "گلنے" یہاں اس مصرع میں معنی کے لحاظ سے کافی قریب قریب ہیں ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
نذیر بھائی معذرت کے ساتھ
گویا "دیوارِ گریہ" کا مِٹ جانا (جو مجھے سراسر عجیب لگا) قابلِ قبول ہوگا لیکن اس کا گل جانا "چہ معنی دارد" کے اطلاق پر ختم ہوگا ؟
مجھے اس کے بر محل ہونے پر قطعاً اصرار نہیں کاشف یہ فقط ایک مثال دینے کی کوشش ہے. مجھے گلنا لفظ تھوڑا غیر ادبی سا محسوس ہوتا ہے اور شاعری سے زیادہ کچن کے استعمال کی چیز لگتا ہے. یہ محض میری ذاتی فیلنگز ہیں میں اگر اس لفظ سے احتراز کرتا تو وجہ یہی ہوتی کہ یہ لفظ آپ کے تخیل کو سطح زمین سے زیادہ اوپر نہیں اُٹھنے دیتا :)
 
مجھے اس کے بر محل ہونے پر قطعاً اصرار نہیں کاشف یہ فقط ایک مثال دینے کی کوشش ہے. مجھے گلنا لفظ تھوڑا غیر ادبی سا محسوس ہوتا ہے اور شاعری سے زیادہ کچن کے استعمال کی چیز لگتا ہے. یہ محض میری ذاتی فیلنگز ہیں میں اگر اس لفظ سے احتراز کرتا تو وجہ یہی ہوتی کہ یہ لفظ آپ کے تخیل کو سطح زمین سے زیادہ اوپر نہیں اُٹھنے دیتا :)
بہت بہتر۔
تصحیح کر دی ہے۔ "گھُلی دیوارِ گریہ"۔۔۔ کیا اب بہتر ہے ؟
 
متفق ہو ں آپ سے وارث سر ۔۔۔

صاحب گَلنا اور معنی میں مستعمل ہے جبکہ گُھلنا اور معنی میں۔۔۔نمی سے دیوار کی مٹی گُھلنے لگتی ہے اور کمزور پڑتے پڑتے دیوار ڈھے جاتی ہے۔۔۔جس طرح نمک کی خاصیت ہے کہ پانی میں ملایا جائے تو اس میں گُھل جاتاہے۔۔۔اسی طرح مٹی بھی پانی میں گُھل جاتی ہے۔۔۔گَلتی نہیں۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ سید لبید غزنوی صاحب !
 

فاتح

لائبریرین
میں شہرِ غم میں کاشف ایسی تاریخی جگہ پر ہوں
گلی دیوارِ گریہ بھی جہاں آہستہ آہستہ !
دیوار گلنے پر تو تفصیلی گفتگو ہو چکی یہاں۔ پنجابی میں شاید دیوار گلنا استعمال ہوتا ہو گا لیکن اردو میں دیوار بوسیدہ ہونا، دیوار شکستہ ہونا، دیوار کہنہ ہونا یا دیوار گرنا، دیوار ڈھے جانا، دیوار میں رخنہ آنا، وغیرہ وغیرہ مستعمل ہیں۔
اور جن معنوں میں آپ نے "گلنا" استعمال کیا ہے ان میں تاریخی یا اچنھبے کی بات کیا ہے؟ دیوار بوسیدہ تو ہوتی ہی آہستہ آہستہ ہے۔ پلک جھپکتے یا یکایک بوسیدگی کا عمل رونما نہیں ہوتا۔
بہت بہتر۔
تصحیح کر دی ہے۔ "گھُلی دیوارِ گریہ"۔۔۔ کیا اب بہتر ہے ؟
رہی بات گھلنے کی تو باقی شعر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں بن رہا ہے۔ کیوں گھلی؟ کیسے گھلی؟
 
آخری تدوین:
دیوار گلنے پر تو تفصیلی گفتگو ہو چکی یہاں۔ پنجابی میں شاید دیوار گلنا استعمال ہوتا ہو گا لیکن اردو میں دیوار بوسیدہ ہونا، دیوار شکستہ ہونا، دیوار کہنہ ہونا یا دیوار گرنا، دیوار ڈھے جانا، دیوار میں رخنہ آنا، وغیرہ وغیرہ مستعمل ہیں۔
اور جن معنوں میں آپ نے "گلنا" استعمال کیا ہے ان میں تاریخی یا اچنھبے کی بات کیا ہے؟ دیوار بوسیدہ تو ہوتی ہی آہستہ آہستہ ہے۔ پلک جھپکتے یا یکایک بوسیدگی کا عمل رونما نہیں ہوتا۔

رہی بات گھلنے کی تو باقی شعر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں بن رہا ہے۔ کیوں گھلی؟ کیسے گھلی؟
فاتح بھائی
اچنبھے یا تعجّب کی بات دیوار کا گلنا یا گھلنا نہیں بلکہ شاعر کا اچانک ایسی جگہ پہنچ جانا جہاں شدّت گریہ سے دیوار گھل (گل) چکی ہے۔ اور یوں اپنی وہاں موجودگی پر کہنے والا متعجّب ہے۔
اس ضمن میں دیوار کے گھلنے (گلنے) کا تعلّق بھی صاف ہو جاتا ہے۔
 
Top