ایک زمین تین شاعر

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ، ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مِرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل، کیا رہے گا اُس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشمِ تر سے، عمربھر یُوں دم بہ دم نکلے
نکلنا خُلد سے آدم کا سُنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرُو ہو کر تِرے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اُس طُرّۂ پُرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط ، تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح، اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دَور میں منسُوب مُجھ سے، بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ ، جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توّقع، خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ سِتم نکلے
محبّت میں نہیں ہے فرق، جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دَم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ !
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
مرزا اسداللہ غالب
……
نکال اب تیر سینے سے کہ جانِ پُرالم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
تمنا وصل کی اک رات میں کیا اے صنم نکلے
قیامت تک یہ نکلے گر نہایت کم سے کم نکلے
مرے دل سے کوئی پوچھے شبِ فرقت کی بے تابی
یہی فریاد تھی لب پر کہ یارب جلد دم نکلے
ہوئے مغرور جب جب آہ میری بے اثر دیکھی
کسی کا اس طرح یا رب نہ دنیا ميں بھرم نکلے
مبارک ہو یہ گھر غیروں کو، تم کو، پاسبانوں کو
ہمارا کیا اجارہ ہے ، نکالا تم نے، ہم نکلے
نہ اٹھّے مر کے بھی ایسے ترے کوچے میں ہم بیٹھے
محبت ميں اگر نکلے تو ہم ثابت قدم نکلے
رہِ الفت کو اک سیدھا سا رستہ ہم نے جانا تھا
مگر دیکھا تو اس رستے ميں صدہا پیچ و خم نکلے
سمجھ کر رحم دل تم کو دیا تھا ہم نے دل اپنا
مگر تم تو بلا نکلے، غضب نکلے ، ستم نکلے
نہ نکلا دل ہی سینے سے نہ پیکاں ہی جدا نکلا
اگر نکلے تو دونوں آشنا ہو کر بہم نکلے
برا ہو اس محبت کا کہ اس نے جان سے کھویا
لگا دل اس ستمگر سے اجل کا جس سے دم نکلے
دمِ پُرسش جو دیکھا اُس بتِ سفّاک کو مُضطر
صفِ محشر سے دل پکڑے ہوئے گبھرا کے ہم نکلے
کہیں کیا دل میں کیا آيا، کہیں کیا منہ سے کیا نکلا
کہیں جو چلتے پھرتے ہم سوئےبیت الصنم نکلے
گئے ہیں رنج و غم اے داغ! بعدِ مرگ ساتھ اپنے
اگر نکلے تو یہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے
داغ دہلوی
___
وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے
بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے
کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے
یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے
مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا
قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے
نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں
ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے
تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں
تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے
نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے
جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے
جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں
تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے
اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے
مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے
کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے
کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے
شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے
تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے
خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے
ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے
بہادر شاہ ظفر

 
Top