ایک خط جو کہ قاضی فہد کے نام لکھا گیا

قاضی فہد کے نام
گر بصورت آدمی انسان بدے
احمد و بوجہل خود یکساں بدے
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اُس نے رب کو پہچانا)
واضح ہو کہ انسان کی پیدائش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے قطر ے سے نہیں ہوئی ہے بلکہ اس سے تو تن کی پیدائش ہوئی ہے انسان تو اور چیز ہے ۔یہ تن تو ایک سواری اور مرکب ہے اور یہ تمام ہاتھ پاوں منہ کان آنکھیں ناک وغیرہ ہتھیار ہیں ان تمام اعضاءکے مجموعے کا نام تن ہے جو کہ فقط ایک سواری ہے جس کے ذریعے معرفت کا شکار کھیلا جاتا ہے ۔تن کو انسان ہرگز نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اپنی پیدائش و اصل کے لحاظ سے ناقص چیز ہے(کیونکہ یہ ۔۔۔۔۔۔۔ کے قطرے سے پیدا ہوا ہے) بلکہ انسان وہ ہے جو کہ اس سواری کا سوار ہے اور وہ روح ہے جو کہ اس سرکش
سواری سے کام لے لیکن پہلے واضح ہو کہ معرفت کے شکار کے لیئے روح کے پاس کونسا لاو لشکرو ہتھیار ہیں
 
قاضی صاحب جان لیجئے کہ ! بدن یا جسم یا تن جو کہ سواری ہے اس کو چار عناصر یعنی نمی مٹی حرارت اور تری سے مل کر بنا ہے ۔اس کو بھوک بھی لگتی ہے اسی وجہ سے کھانے پینے کی حاجت محسوس ہوتی ہے اور اس کو آگ پانی اور درندوں سے بھی ہلاکت کا خطر ہ ہے اس لیئے اس کو دو لشکروں کی ضرورت ہوئی ایک ظاہری لشکر جیسے ہاتھ پاوں منہ دانت معدہ اور دوسرا نہ نظر آنے والا لشکریعنی غصہ اور خواہش اور جاسوسی کا نظام ۔جس میں دیکھنے،سننے ،سونگھنے،چکھنے اور چھونے کی ظاہر ی صلاحیت اورخیال ،تفکر،حفظ،وہم اور بولنے کی باطنی صلاحیت ۔اس ہر صلاحیت چاہے وہ ظاہری ہے کہ باطنی اس کا اپنا طریقہ کار ہے اور اگر کسی میں بھی خرابی پیدا ہو تو پھر دنیا و آخرت کے کاموں میں خلل پڑتا ہے ۔
 
فہد میاں! جان لیجئے کہ اس سب لشکر کا بادشاہ روح ہے اور ان سب کو اللہ نے آپ کے اختیار میں دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے معرفت کا شکار کھیلیں اور آخرت کے لیئے سودا سلف خرید لےںاور اپنے قلب کے میدان میں سعادت کا باغ لگائیں اور پھراس کا پھل کھائیں۔
ایک مثال بیان کرتا ہوں تاکہ بات مزید واضح ہو سمجھو کہ جسم گویا ایک سلطنت ہے ۔ہاتھ پاوں کام کاج کرنے والے یعنی مزدود یا نوکر ہیں دل بادشاہ ہے۔غصہ پولیس یا فوج ہے ۔عقل وزیر ہے ۔خواہش افسر شاہی(Burro-creasy) ہے ۔اب بادشاہ کو توملک کا نظام چلانے کے لیئے ان سب کی ضرورت ہے لیکن افسر شاہی (یہ انگریز کا بنایا ہوا نظام ہے جسمیں محکوم لوگوں کو دبا کر رکھا جاتا ہے اور افسران بالا کو لوگوں کی قسمتوں کا مالک بنادیا جاتا ہے افسر شاہی کے اختیارات جاننے کے شہاب نامہ پڑھیے )جو کہ جھوٹ بولنے والی اور زیادتی کرنے والی ہے اور ہمیشہ عقل جو کہ وزیر ہے کی باتوں اور اقدامات کی مخالفت کرتی رہتی ہے اور ہمیشہ اس کی یہی کوشش ہوتی ہے( خبثِ باطن کی وجہ سے) کہ سلطنت میں جتنا مال ہے سب پر انتہائی ظالمانہ اور بے رحمانہ ٹیکس لگائے اور اسی بہانے سے سب مال ہتھیا لے(جیسا کہ آج کل ہورہا ہے کہ ایک گاڑی جو کہ علاقہ غیر یا افغانستان میں ایک لاکھ روپے قیمت میں آسانی سے مل جاتی ہے ملک پاکستان میں دس لاکھ کی ملتی ہے کیونکہ اس پر ۹ لاکھ روپے ٹیکس لگ جاتا ہے اسی طرح آج کل جو کہ حال ہی میں کاربن ٹیکس لگایا گیا ہے جس کو ایک مرتبہ چیف جسٹس نے ختم کروایا لیکن ظالم حکمران نے دوبارہ باقاعدہ بل پاس کرواکر اس کو نافذ کروایا )اسی طرح غصہ جو کہ پولیس یا فوج ہے اس کی فطرت ہے مار ڈالنا ،زخمی کرنا اور یہ سب باتیں اس کو اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔
 
بادشاہ(قلب) سب باتوں میں وزیر(عقل) سے مشورہ کرتا ہے اور خواہش (افسر شاہی )اور غصہ (پولیس یا فوج) کو دبائے رکھتا ہے کہ حد سے زیادہ نہیں بڑھنا ہے بلکہ سب کے ساتھ گزارہ کرنا ہے اور صرف اس بندے پر ہاتھ ڈالنا ہے جو کہ واقعی شرارتی یا چور ہو ۔
تو اس طریقے سے بادشاہ کے ملک کا انتظام و انتصرام قائم اور ملک میں خوشی اور امن رہتا ہے ۔اور اگراس کے خلاف کرے گا تو خواہش (افسر شاہی )اور غصہ (پولیس یا فوج) کے ذریعے وقتی طور پر تو عوام کو دبا لے گا لیکن جلد ہی لاوا پھٹے گا اور پورے میں بغاوت اور جانہ جنگی پھیل جائے گی اور بادشاہ ہلاک اور ملک تباہ ہوجائے گا۔
 
پیارے دوست !بالکل اسی طرح سے اگر تو خواہش اور غصہ کو تابع کرکے کہ عقل کو ان پر حاوی کردے تو بدن کی سلطنت کا انتظام درست ہوگا اورآپ سعادت کی راہ پر چلتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں آسانی سے پہنچ جائیں گے ۔اور اگر عقل کو خواہش اور غصہ کا محکوم بنادیں گے توپھر سیدھا اسفل السافلین(حیوانیت کا گڑھا) میں جاگریں گے۔
 
اے قاضی فہد جان لیں کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اسے ایک سلطنت دی ہے اور تن کی سواری عنایت کی ہے تاکہ اس پر بیٹھ کر عالم خاک سے اعلیٰ علیین کی سیر کرے ۔آپ کو چاہیئے ہے کہ قلب کے تخت پر بادشاہ کی طرح بیٹھیں اور معرفت کو اپنا Target(مقصد حیات)بنائیں اور اب اس مقصد کے حصول کے لیئے یعنی اس کو فتح کرنے کے لیئے دنیا کو منزل (Headquarter)بدن کو سواری، ہاتھ پاوں کو خدمت گار ،عقل کو وزیر اعظم ،خواہش کووزیر خزانہ،غصہ کو ملٹری اور حواس کو جاسوسی کا کام سونپ کر ہر یک کو ا سکے کام پر لگا دیں تاکہ جس علاقے کو فتح کرنا ہے اس کے اندر کی خبریں لیکر آئیں ۔اور قوتِ خیال (Third Eye)جو کہ دونوں آنکھوں کے درمیان میں ہے جو کہ وزیر اطلاعات ہے تو وزارت اطلاعات میں جو خبریںجاسوس لے کر آئیں ان کوقوت حافظہ جو کہ دماغ کی پچھلی طرف ہے جو کہ وزیر دفاع ہے وہ ان خبروں کو اپنی پاس حفاظت سے ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کرلے ۔وزیر اعظم(عقل ) کو ہمہ وقت ملک کے تمام محکموں پر کڑی نظر رکھنی چاہیئے ہے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ تو نہیں کررہا ہے مثلاً خواہش جو کہ وزیر خزانہ ہے اس نے کہیں لوٹ مار تو نہیں شروع کردی اسی طرح دیکھے کہ غصہ جو کہ فوج یا پولیس ہے کہیں اس نے اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر اپنے ہی ملک کے لوگوں کو تو لوٹنا نہیں شروع کردیا (جس طرح کہ سندھ کے بعض حصوں میں پولیس والے خود ہی ڈکیتیاں کرتے ہیں اور اسی طرح فوج جو کہ ملک کی حفاظت کے لیئے ہے وہ اپنے ہی لوگوں کو تنگ کرنا شروع کردیتی ہے جیسے کہ کوئٹہ میں ڈاکٹر شازیہ خالد والا کیس ہوا ہے)اگر ایسا ہوچکاہے تو فوراً ہی جہاد کے راستے سے ان سب کی اصلاح کرے ان کو مارنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ اس کے بغیر سلطنت نہیں چلے گی ۔بلکہ ایسی تدبیر کرے کہ ان کو اپنے قابو میں لائے اور جو سفر اس کو طے کرنا ہے اس میں یہ مددگار بن جائیں نہ کہ دشمن ہوجائیں (ایسا نفس کے خلاف کرے گا تو تبھی ہوگا )
 
اے دوست واضح ہو کہ آدمی میں چار طرح کی خصلتیں یا Behaviorsہیں:
۱۔چارپایوں کے اخلاق ۲۔ درندوں کے اخلاق ۳۔ شیطانوں کے اخلاق ۴۔ فرشتوں کے اخلاق
چارپایوں کے اخلاق: یہ عام سے لوگ ہوتے ہیں کھانا پینا جماع کرنا اور دولت سے محبت اور دولت جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں عوام الناس میں زیادہ تر یہی لوگ ہوتے ہیں ۔پھر جب اس آدمی پر اس حال میں زیادہ وقت گزر جاتا ہے اور یہ کسی ایسی محفل میں بیٹھنا شروع کردیتا ہے کہ جو لوگ مندرجہ ذیل اخلاق کے مالک ہوتے ہیں تو پھر یہ بھی ان ہی کے رنگ میں رنگاجاتا ہے۔
درندوں کے اخلاق: چونکہ آدمی میں لالچ اور خواہش ہے اس وجہ سے اس کو غصہ بھی چڑھتا ہے اور یہ لوگوں سے لڑتا جھگڑتا اور گالی گلوچ کرتا ہے اورہر چیز کو اپنا حق سمجھتا ہے اور چھین لیتا ہے اور اگر کوئی نہ دے تو اس کو قتل کردیتا ہے ۔اجرتی قاتل ۔بدمعاش وغیرہ ایسے لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں ۔اب اس Nature کے بندوں پر شیطان مزید تلبیس کرتا ہے اور ان کو اپنا جانشین بنا لیتا ہے وہ
اسطرح:
 
شیطانوں کے اخلاق: جب شیطان دیکھتا ہے کہ یہ بندہ مکمل طور پراپنے نفس کی بندگی کررہا ہے تو پھر اس کو اس مقام سے ہٹا کر دوسری راہ سجھاتا ہے وہ اس طرح کے یہی بندہ اب سوشل بدمعاش بن جاتا ہے ۔جعل سازی کرتا ہے ۔ملاوٹ کے کام کرتا ہے ۔جعلی ادویات بناتا ہے یعنی ہر ایسا کام کرتا ہے جس سے پوری انسانیت کو نقصان ہوتا ہے ۔
فرشتوں کے اخلاق: چونکہ آدمی میں عقل ہے اس کے باعث فرشتوں کے سے کام کرتا ہے ۔مثلاً علم حاصل کرتا ہے ۔برے کاموں سے اجتناب کرتا ہے ۔لوگوں کی فلاح بہبود کے کام کرتا ہے ۔
قاضی صاحب اس حقیقت کو جان کہ کتا اپنی صورت کی وجہ سے برا نہیں بلکہ برا اور قابل نفرت اس کا رویہ ہے کہ اپنے ہی بھائی بند یعنی دوسرے کتے کو جدھردیکھتا ہے اس سے لڑ پڑتا ہے ۔اسی طرح سور اپنی شکل و صورت کی وجہ سے برا نہیں ہے بلکہ اپنی بے غیرتی کی وجہ سے برا اور قابل نفرت ہے کیونکہ یہ بے حیا گندہ اور پلید ہے ۔
آدمی کو چاہیئے ہے کہ عقل کا نور جو کہ فرشتوں کے انوار اور آثار میں سے ہے اس کے ذریعے سے شیطان کا مکر اور اور حیلہ معلوم کرے تاکہ شیطان کے فریب میں نہ آسکے۔
 
اے نیک بخت تجھے چاہیئے ہے کہ لالچ و خواہش کے خنزیر( اکثر دیکھا گیا ہے کہ جتنے بھی بڑے بڑے افسر ہوتے ہیں ان کی بیویاں اور بیٹیاں حد سے زیادہ بے حیا اور بدکردار ہوتی ہیں ) اور غصے اور غضب کے کتے کو اپنا تابع رکھے ۔وہ اس طرح کہ خواہش و لالچ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی رکھے اور غصے کو صرف اور صرف اپنے نفس پر استعمال کرے کہ جب یہ نافرمانی کرے تو غصے
میں آکر مجاہدہ کرے روزے رکھے اس طرح سے اس کو قابو میں رکھے ۔( اگر اس کے خلاف کرے گا اور خود خواہش اور غصے کے تابع ہوجائے گا تو پھر اپنے آپ کو خواب وغیرہ میںاپنے آپ کو کتے یا خنزیرکی صورت میںدیکھے گا یا یہ دیکھے گا کہ کتے یا خنزیر کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہے یا خود کو ننگا دیکھے گا کہ ننگا بازاروں میں گھوم پھر رہا ہے۔خود ہی سوچو کہ کسی مسلمان بندے کو کسی کافر کے سپرد کردو تو وہ اس مسلمان کا کیا حشر کرے گا یہ آپ بہتر جانتے ہیں )۔
 
اے دوست جان کہ اس دنیا میں چاروں اخلاق میں جس اخلاق پر تیری زندگی کا خاتمہ ہوگا اسی صورت میں روز محشر اٹھاجائےگا یعنی جن پر خواہش اور لالچ غالب ہے وہ سور کی صورت اور جن پر غضب اور غصہ غالب ہے وہ بھیڑیے یا کتے کی صورت قبر سے اٹھائے جائیں گے۔
اے دوست آپ کو دیکھنا چاہیئے ہے کہ آپ چار اخلاق میں کس اخلاق والے ہیں یعنی کس کی اطاعت میں ہیں یعنی اگرآپ خواہش کے سور غلام ہوگئے ہیں تو پلیدی ،بے حیائی ،لالچ،خوشامد،گندگی اور دوسرے کی برائی پر خوش ہونگیں۔
اور اگرآپ نے اس خنزیر پر قابو پالیا تو قناعت ،شرم وحیا ،دانائی،پارسائی،کسی سے بغیر لالچ کے مدد کرنایعنی بے طمعی اور فقیری کے اوصاف پیدا ہونگیں۔
اگر آپ غضب کے کتے یا بھیڑیے کے غلام ہوگئے ہیں تو نڈر(یعنی برائی کرتے ہوئے اللہ سے نہ ڈرنا )بڑا بول بولنا ۔غرور ، تکبر ، اپنی بڑائی چاہنا ۔کسی کو اچھا ہوتے نہ دیکھ سکنا۔دوسروں کو کم تر اور حقیر سمجھنا۔
 
اگرآپ اس غضب کے کتے کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر صبر ، بردباری،درگزر،استقلال،بہادری،عزت،بزرگی وغیرہکے اوصاف سے متصف ہونگیں۔
اگر تو شیطان کی اطاعت کرے گا جس کا کام سور اور کتے کو ورغلا کر نڈر کرنا ہے تو نتیجتاًتجھ میں یہ قباحتیں پیدا ہونگیں مکر وفریب، دھوکا
دینا،جعل سازی کرنا،جھوٹ بولنا۔
اگر آپ اس کے فریب میں نہ آئے اور آپ نے عقل کے لشکر کی مدد کی تو دانائی ،معرفت،علم،حکمت،صالحیت،بزرگی جیسی صفات پیدا ہونگیں۔
اے دوست جان کہ اچھے کاموں کو حسنات اور برے کاموں کو سیئات کہتے ہیں ۔آدمی کسی حال میں بھی حسنات یا سیئات سے خالی نہیں ہوتا ہے یعنی اچھے اعمال عبادت اور برے اعمال گناہ کہلاتے ہیں ۔
اے دوست جان کہ قلب ایک روشن آئینہ ہے اور برے اخلاق دھواں اور گرد و غبار ہیں جب قلب تک پہنچتے ہیں تو اسے اندھا کردیتے ہیں اور اچھے اخلاق یعنی حسنات نور ہیں جو کہ قلب تک پہنچتے ہیں تو اس سے سیاہی دور کرکے صاف کردیتے ہیں اسی لیئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!
اِتَّبِعَ السَّیَّئةَ لَّمحُھَا(ہر برائی کے بعد نیکی کر کہ نیکی برائی کو مٹا دیتی ہے)
 
انسان کی بڑی شان ہے جس کی معرفت سے ملائک بھی عاجز ہیں( تبھی تو کہا تھا کہ یہ زمین پر جا کر فساد کرے گا) درحقیقت انسان کی معرفت اللہ کی معرفت ہے (من عرف نفسہ فقد عرف ربہ) اس کا جسم عالم ناسوت سے ہے اور اس کی روح عالم ملکوت سے ہے انسان کا نام انسان اسی وجہ سے ہے کہ یہ عالم ناسوت اور عالم ملکوت کا مجموعہ ہے
ظاہری ناسوت ہے انسان کا
باطنی ملکوت ہے انسان کا
جب تجلیٰ ہوا اس شان پر
نام اس کا ہوگیا انسان تب
یعنی جس وقت انسان سو جائے تو عالم مثال (عالم غیب یا عالم برزخ)آباد ہوجاتا ہے اور جب جا گتا ہے تو عالم شہادت یا عالم ناسوت کو پاتا ہے یعنی سوجائے تو یہ جہان غائب ہوجاتا ہے اور جاگ جائے تو وہ جہاں غائب ہوجاتا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ عالم شہادت اور عالم غیب کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ دونوں کو ثبات(Constant)نہیں ہے اصل چیز انسان خود ہے کیونکہ یہ دونوں جہان اس کے گرد ہی گھومتے ہیں بقول اقبال
وہی جہاں ہے تیرا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے
 
جس طرف انسان کا رخ ہوجائے وہی جہاں پیدا ہوتا ہے دراصل یہ دونوں جہان انسان کے اندر سے پیدا ہورہے ہیں پس دونوں جہاں اس کے اندر ہیں ۔مگرہائے افسوس کہ انسان نادان اور نسیان کا مریض ہے ہوا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں اس جہان کے اندر ہوں ۔پس وہم اور بھول نے انسان کو ذلیل و خوار کیا ہوا ہے ۔
روح اللہ کا امر ہے (قل الروح من امر ربی)یہ عوام کو خطاب ہے ۔خاصوں کو خطاب ہے کہ (الروح ھو اللّٰہ)یعنی روح وہی اللہ ہے لہٰذا روح کی معرفت اللہ کی معرفت ہے اور یہ روح اللہ نے پھونکی ہے اور اس پھونک کا نام انسان ہے ظاہری اعضاءکے مجموعے کا نام انسان نہیں ہے اسی لیئے مولانا روم فرماتے ہیں
گر بصورت آدمی انسان بدے احمد و بوجہل خود یکساں بدے
واقعی انسان کی حقیقت بڑی اعلیٰ معرفت ہے یعنی ایسی معرفت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اُس نے رب کو پہچانا) باالفاظ دیگر اللہ اسم ہے تو انسان مسمیٰ ہے ۔
اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (الانسان سِرِی وَ انَّا سِرُّ ہ) انسان میرا راز ہے اور اس کا راز ہوں ۔
اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (وَ ھُوَ معکم اینما کنتم) وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہوتے ہیں
اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ (وَ فِی انفسلم افلا تبصرون) میں تمہارے نفسوں کے اندر ہوں کیا اب بھی تم مجھے نہیں دیکھتے ؟
والسلام آپ کا خادم عظیم اللہ
 
Top