ایک تازہ غزل

محمد نعمان

محفلین
غزل

میں موج دریا ھوں، ابھی خود کو سمندر میں گرانا ھے
کبھی جی کر دکھایا تھا، ابھی مر کر دکھانا ھے

مجھے تم دشت کر دو خود ھو اءے ہجر ھو جاءو
مجھے خود سے جدا کر کے بھی اپنا ھی بنانا ھے

بہت سے درد سہنے ہیں، بہت سے زخم کھانے ہیں
اسے پھر یاد کرنا ھے، اسے پھر سے بھلانا ھے

کہیں نہ باد بہار میری وحشتوں کے ٹھکانوں تک چلیٓائے
ابھی اس دشت میں نقش کف پا کو چھپانا ھے

ہمیں کیا کام ساحل سے اسے بس چھونے ٓائے تھے
ہمیں تو موج بن کے ساحلوں سے دور جانا ہے

کہاں تک جی سکا کوئی، کہاں تک ہم نے جینا ہے
نہ یہ تیرا زمانہ ہے نہ یہ میرا زمانہ ہے


کچھ پل وصل کے دے دو پھر چاہے ہجر دے دینا
وہاں تک آزما لینا جہاں تک آزمانا ہے

جو دشت ہجر میں لکھ کر مٹا دی ہے ہوائوں نے
وہی تیری کہانی ہے وہی میرا فسانہ ہے

مجھے اس دل کی بستی میں بسیرا اپنا کرنا ہے
ان ٓانکھوں کے بھنور کو پا ر کر کے دور جانا ہے

نہ وہ ہمت، نہ وہ طاقت، نہ وہ صبر و قرار اسکا
ابھی اس دل کو اسکے ہجر میں سب کچھ سکھانا ہے

ابھی کچھ پتھر ایسے ہیں جنہیں سجدے ضرورت ہیں
ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں سجدہ سکھانا ہے

نعمان اس دل کو اسکی یاد میں یوں راکھ کرنا ہے
جلانا ہے، بجھانا ہے، بجھا کے پھر جلانا ہے



مشورے کا متمنی آپکا نعمان
 
Top