ایک بہادر آدمی کے آنے پر --- ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

الف نظامی

لائبریرین
لاہور اور کراچی کے فقیدالمثال جلسے بھی ایک سیاسی دھماکہ ہیں مگر سب سے بڑا دھماکہ جاوید ہاشمی کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت ہے۔ جتنے لوگ اس سے پہلے شریک ہوئے تو لوگ پریشان ہوئے۔ ایک بہادر آدمی کے آنے سے لوگ حیران ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف میں اسے آپ منصفانہ شرکت کہہ سکتے ہیں۔ عمران کے لئے ایک نرم گوشہ میرے تار تار دل میں ہے۔ مشرف کے وزیروں اور کرپٹ سیاسی لوگوں کی شمولیت سے عمران کے ساتھ محبت کرنے والوں کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے اور کوئی جواب دینے والا نہ تھا۔ عمران نے بھی اس حوالے سے اچھے بیانات نہ دئیے۔ وہ مشرف کے ساتھیوں کو کون سے شک کا فائدہ دینا چاہتے ہیں؟ جاوید ہاشمی آیا ہے تو سب لاجواب ہو گئے ہیں۔ اب تو سوال بھی چمک اٹھے ہیں۔

بہادر آدمی کے لئے کتنی عزت محبت لوگوں کے دلوں میں ہے۔ ہم تو ظالموں کے درمیان پھنس گئے ہیں اور ظالم بہادر نہیں ہوتا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہم نے جاوید ہاشمی کے لئے ایک نعرہ لگایا جو مجیب الرحمن شامی کے دفتر میں سوچا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ شامی صاحب نے مجھ سے بھی فون پر اس حوالے سے اپنی بے قراری کا اظہار کیا تھا۔ جاوید ہاشمی نے اپنے لئے اس نعرے کی لاج رکھی۔ اسے مال و منال اور حرام کے پیسے کی ضرورت نہ تھی۔ اسے جو عزت محبت ملی وہ سرشار کر دینے کے لئے کافی ہے۔ سرشاری بے قراری کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جاوید ہاشمی بے قرار اور دردمند دل لے کے پیدا ہوا ہے۔ میری اور اس کی محبت کئی رنگوں کی ہے۔
نواز شریف کی مسلم لیگ ن میں اس کی جدوجہد کے نتائج دوسروں کے قدموں میں ذلیل ہوئے۔ جلاوطنی میں اپوزیشن کا جھنڈا جاوید ہاشمی نے اٹھائے رکھا۔ ہم وطنی میں اس جھنڈے سے ڈنڈے کا کام چودھری نثار کے سپرد کر دیا گیا۔ نواز شریف کی طرف سے سینئر وزیر کا حلف صدر جنرل مشرف سے لینے کا چودھری نثار کو بہت لطف آیا۔ جبکہ بہادر آدمی نے جنرل مشرف سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جانتے ہیں کہ یہ بھی جرات انکار ہے مگر اقرار کے لئے بھی جرات چاہئے۔ جرات اقرار جرات انکار جیسی ہوتی ہے۔ جاوید ہاشمی کا عمران کا ساتھ دینے کا فیصلہ جرات مندانہ ہے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنانے کا مشورہ چودھری نثار کا تھا۔ اسے سینئر وزیر کس کے مشورے پر بنایا گیا۔ اس سے زیادہ اہم ہے کہ پھر اسے اپوزیشن لیڈر کس کے مشورے پر بنایا گیا۔ اس دوران کئی موقعوں پر چودھری نثار نواز شریف پر گندی اور ننگی تنقید کا براہ راست موقعہ فراہم کرتا رہا۔
اگر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جاوید ہاشمی ہوتا تو اس کا اتنا فائدہ نواز شریف کو ہوتا جس کا اندازہ وہ بھی کر سکتے ۔ فرینڈلی اپوزیشن اور سرکاری اپوزیشن کی تہمت بھی نہ لگائی جاتی۔ ایک بہادر آدمی کے سامنے کھڑا ہونے سے ساری مخالفانہ آوازیں دم توڑ دیتیں نواز شریف اس لحاظ سے بدقسمت آدمی ہیں کہ وہ ذمہ داریوں کی تقسیم بھی اپنی پسند و ناپسند کے مطابق کرتے ہیں۔ صدارتی الیکشن کے لئے جاوید ہاشمی نے چودھری شجاعت سے بات کی انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف آپ کو ٹکٹ دے دیں تو ہم حاضر ہیں۔ ہاشمی نے کہا کہ یہ بات پکی ہو گئی چودھری صاحب نے کہا کہ اس لئے پکی ہے کہ آپ کو نواز شریف کبھی صدارتی امیدوار بھی نہیں بنائیں گے۔ چند روز کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے فون کیا تو جاوید ہاشمی نے صرف خاموشی اختیار کی۔ کلثوم نواز نے پہلے جاوید ہاشمی کو منانے کا خیال نہ کیا۔ جب وہ نواز شریف کے لئے تحریک جلاوطنی چلا رہی تھیں جسے تحریک جمہوریت جان کر جاوید ہاشمی ان کے آگے آگے تھے۔ جتنی رعونت جاوید ہاشمی کے لئے برتی گئی یہ کسی سیاستدان کو زیب نہیں دیتی۔ جبکہ سارے لوگ اور مسلم لیگ (ن) کے اکثر لوگ جانتے تھے کہ جاوید ہاشمی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ روز بروز نواز شریف اور اس کی مسلم لیگ (ن) کےلئے پریشانیوں میں اضافہ ہوا جاوید ہاشمی کےلئے ایک شعر یاد آیا ہے

میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں

لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے ایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی ایک بہادر آدمی عمران خان کے ساتھ آ کے کھڑا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں بڑے بڑوں کے آنے پر کبھی عمران کے چہرے پر یہ چمک نظر نہیں آئی جو جاوید ہاشمی کے آنے پر آئی۔ اب سے بہت دن پہلے پشاور کے دھرنے میں جاوید ہاشمی نے شرکت کی تھی۔ کئی لوگوں نے تب آرزو کی تھی کہ جاوید ہاشمی کوئی بڑا اعلان کرے مگر جاوید ہاشمی کو یہ معلوم ہے کہ کون سا کام کس وقت کیا جانا چاہئے۔ ملتان والے تحریک انصاف کے دھرنے میں اسے بلایا ہی نہ گیا تھا۔ میرے ساتھ فون پر یہ شکایت اس نے کی۔ مگر یہ اچھا ہوا کہ وہاں جاوید ہاشمی کوئی اعلان کر دیتا تو کیا ہوتا۔ یہ اعلان کرنے کا یہی موقع تھا۔ اس سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ان لوگوں کو پریشانی ہوئی جن کے سامنے زندگی اور سیاست کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ لوگ عمران خان کے پاس گئے اور عمران خان جاوید ہاشمی کے پاس گیا۔
اس حوالے سے بڑی کوشش بڑے دل والے عمران خان کے سچے ساتھی حفیظ اللہ خان نیازی نے کی۔ وہ بھی بہادر آدمی ہے۔ اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی اس کی نظریاتی اور ایمان و آگہی سے مالا مال جذبوں کی گواہ ہے۔ یہ سچے لوگ عمران خان کو بھٹکنے نہیں دینگے۔ حفیظ اللہ تو عمران خان کا چچا زاد بھائی اور بہنوئی ہے۔ جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں لا کے لوگوں کی الجھنوں کو آسودگی عطا ہوئی ہے۔ اب تک عمران جھوٹوں کے درمیان ایک سچے آدمی کی طرح ثابت قدم کھڑا تھا۔ اس کیلئے طرح طرح کی باتیں سن سن کر بھی لوگ اسکے ساتھ ہیں۔

جاوید ہاشمی کو عمران نے پاکستان تحریک انصاف کی چیئرمینی بھی آفر کردی ہے۔ وہ سٹیج پر آیا تو عمران خان کھڑا ہوگیا۔ برادرم توفیق بٹ وہاں موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ عمران خان کا خیال تھا کہ جاوید ہاشمی کی تقریر کے بعد جلسہ ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ جوش و خروش سے لبالب بھرے ہوئے لوگوں نے عمران خان کی طرح جاوید ہاشمی کی پذیرائی کی۔ ایک بہادر آدمی کے نعروں سے کراچی کی فضائیں گونج رہی تھیں۔ جاوید ہاشمی نے عمران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے وعدے یاد رکھیں ورنہ میں باغی ہوں۔ اسکے بعد پورے جلسے میں دیر تک باغی باغی کی آوازیں ہواوں کے ساتھ ٹکراتی رہیں۔ آج لگ رہا تھا کہ لوگوں نے بغاوت کا اعلان کردیا ہے۔ آج پتہ چل رہا تھا کہ عمران خان کو اپنے جیسا ایک ساتھی مل گیا ہے۔ وہ لوگ مایوس ہوئے ہونگے جنہیں تحریک انصاف میں بھیجا جا رہا ہے۔ آج شاہ محمود قریشی ہارے ہوئے دل کے ساتھ موجود تھا کہ اسے اپنی موجودگی مشکوک لگ رہی تھی۔ ایٹمی اثاثوں کیلئے جو باتیں آج اس نے کرنا تھیں وہ شاید اسے بھول گئی تھیں اور اس نے عمران کا پورا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جتنا مرضی میری چمچہ گیری کرلو تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عمران خان نہیں جانتے مگر چمچہ گیری کرنیوالے جانتے ہیں کہ فائدہ کس طرح اٹھایا جاتا ہے۔ وہ اس لالچ میں عمران کے نقصان کا بھی خیال نہیں کریں گے۔ جاوید ہاشمی کے آنے پر تحریک انصاف میں کچھ نمایاں لوگوں کو پریشانی ہوئی ہے تو مسلم لیگ (ن) کے کچھ ضروری آدمیوں کو تکلیف ہوئی ہے۔ رانا ثناءاللہ کی باتوں میں دکھ بھری راتوں کی اذیت کسمسا رہی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ جاوید ہاشمی اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے جبکہ اسکے تحریک انصاف میں جانے والے ان لوگوں کا اعتبار بھی قائم ہوا جو واقعی اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں۔ رانا صاحب یہ بتائیں کہ پھر ہاشمی اتنی مدت مسلم لیگ (ن) میں کیا کرتے رہے۔ سنا ہے ہر جماعت میں ایسے آدمی ہوتے ہیں۔ پرویز رشید نے بھی قربانیاں دی ہیں مگر اسے انکا صلہ مل چکا ہے۔ جاوید ہاشمی تو بیرون ملک بھی نہ گیا اور جلاوطنی کے مزے نہ لوٹے۔ مردِ میداں ہو کر آمریت کا مقابلہ کیا۔ جس جمہوریت کے ثمرات کھائے اور لٹائے جا رہے ہیں۔ وہ جاوید ہاشمی جیسے بہادر آدمیوں کے صبر کا اجر ہے
روزنامہ نوائے وقت
 
Top