ایک افسانہ چھت از ایم مبین

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

mmubin

محفلین
Urdu Short Story

Chhat



By M.Mubin






گھر آکر اس نےکپڑےاتارےبھی نہیں تھےکہ نسرین نےدبےلہجےمیں آواز لگائی ۔
” پانی آج بھی نہیں آیا ۔ گھر میں پینےکےلئےبھی پانی نہیں ہے۔ “ نسرین کی بات سنتےہی جھنجھلا کر غصےسےاس نےنسرین کی طرف دیکھا پھر بےبسی سےپلنگ پر بیٹھ گیا ۔
” اتنا بھی پانی نہیں ہےکہ آج کا کام چل جائے؟ “
” نہیں .... ! “ نسرین نےدھیرےسےجواب دیا اور اپنا سر جھکا لیا ۔ ” اگر ایک کین بھی پانی مل جائےتو کام چل جائےگا ۔ کل پانی ضرور آئےگا ۔ اس وقت سامنےوالی آبادی میں پانی آتا ہے۔ جھونپڑ پٹی کی دوسری عورتیں وہاں سےپانی لارہی ہیں ۔ “
” دوسری عورتیں وہاں سےپانی لا رہی ہیں لیکن تم نہیں لا سکتیں کیونکہ تم ایک وائٹ کالر جاب والےآدمی کی بیوی ہو ۔ “ اس نےسوچا اور پھر دھیرےسےبولا ۔
” ٹھیک ہےکین مجھےدو میں پانی لاتا ہوں ۔ “
آفس سےآیا تو اتنا تھک گیا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بستر پر لیٹ کر ساری دنیا سےبےخبر ہوجائے۔ لیکن نسرین نےجو مسئلہ پیش کیا تھا ایک ایسا مسئلہ تھا جس سےوہ دو دونوں سےآنکھ چرا رہا تھا ۔ اور اب اس سےآنکھ چرانا نا ممکن تھا ۔
اس گندی بستی کو جس پائپ لائن سےپانی سپلائی ہوتا تھا اس کا پائپ پھٹ گیا تھا اور تین دنوں سےنلوں میں پانی نہیں آرہا تھا ۔ شکایت کی گئی تھی لیکن جواب دیا گیا تھا کہ کام چل رہا ہے۔ کام ختم ہوجائےگا تو معمول سےایک گھنٹہ زیادہ پانی دیا جائےگا ۔ کام چیونٹی کی رفتار سےچل رہا تھا کب ختم ہوگا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا اور کب پانی آئےگا کہا نہیں جاسکتا تھا ۔
جھونپڑ پٹی کا معاملہ تھا ۔ میونسپلٹی والےجھونپرپٹی والوں کو پانی سپلائی کرنےکی ذمہ داری نبھانےکےتابعدار نہیں تھے۔ کیونکہ ان کی نظرمیں وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی ہے۔ اس جھونپڑ پٹی میں غیر قانونی ڈھنگ سےرشوت دےکر نل کےکنکشن دئےگئےہیں ۔ میونسپلٹی چاہےتو ان تمام کنکشنوں کو کاٹ کر پانی کی سپلائی بند کرسکتی ہے۔ لیکن انسانیت کےناطےاس بستی کو پانی سپلائی کررہی تھی ۔ اس لئےاس بستی کےلوگوںکو میونسپلٹی والوں کا شکر گذار ہونا چاہئے۔ قانون کی زبان میں بات کرنےکےبجائےعاجزی سےدرخواست کرنی چاہیئے۔ تب میونسپلٹی کےاعلیٰ افسران ان کی پریشانیوں کےبارےمیں سنجیدگی سےغور کریں گے۔
ہاتھ میں بیس لیٹر پانی کا کین لےکر وہ کرانتی نگر کی پرپیچ گلیوں سےہوتا سڑک پر آیا اور سڑک پار کرکےدوسری بستی میں ۔ اس بستی میں وہ کوئی ایسا نل تلاش کرنےلگا جہاں اسےپانی مل سکے۔ ہر نل پر بھیڑ تھی ۔ نلوں پر پانی بھرنےوالی زیادہ تر کرانتی نگر کی عورتیں ہی تھیں ۔
ایک نل پر اسےایک شناسا عورت دکھائی دی ۔ اس نےاس کا کین بھر دیا تو وہ کین اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑا ۔ بیس لیٹر کا کین اٹھا کر گھر کی طرف جانا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ بار بار ہاتھ شل ہوجارہےتھےاور توازن بگڑ رارہا تھا ۔ بگڑتےتوازن سےایسا لگتا جیسےوہ گر پڑےگا ۔
جب بھی ایسی صورت حال اسےمحسوس ہوتی وہ جلدی سےکین ہاتھ سےدوسرےہاتھ میں لےلیتا ۔ اس طرح شل ہوتےہاتھ کو بھی آرام مل جاتا اور اس کا توازن بھی برقرار رہتا ۔
خدا خدا کرکےوہ سڑک پار کرتا ہوا کرانتی نگر کی سرحد میں داخل ہوا ۔ اب اس کین کو گھر تک لےجانا سب سےبڑا امتحان تھا ۔ کرانتی نگر کی پر پیچ گلیاں ‘ جگہ جگہ بہتا گندی گٹروں کا پانی ، اونچےنیچےراستوں سےہوکر گذرنا کسی کرتب بازی سےکم نہیں تھا ۔ دل میں آیا کہ کین کو یا تو کاندھےپر رکھ لےیا پھر سر پر اٹھا لےلیکن خود اس بات پر شرماگیا کہ آس پاس کےلوگ اسےاس حالت میں دیکھیں گےتو ہنسیں گے۔
” انور صاحب کین سر پر اٹھاکےپانی بھر رہےہیں ۔ “
اس لئےاس نےکین ہاتھوں میں لےجانا ہی مناسب سمجھا ۔
گندی گٹروں کےپانی اور اونچےنیچےتنگ راستوں پر وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہا تھا ۔ مگر ساری محنت بےکار گئی ۔ اچانک ایک جگہ اس کا پیر پھسلا اور ہاتھ میں بیس لیٹر کا کین تھا وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور دھڑام سےگر گیا ۔ جہاں وہ گرا تھا اس جگہ گٹر کا گندہ پانی ابل کر جمع ہوا تھا ۔ وہ سارا بدبودار گندہ پانی اس کےجسم اور کپڑوں سےلپٹ گیا ۔
گرتےگرتےاس نےکین کو بچا لیا ۔ اس وقت وہ پانی اس کےلئےاپنی جان سےبھی زیادہ قیمتی تھا ۔ اس نےکین کو ایسےانداز میں اٹھائےرکھا کہ پانی نہ گرسکےاور وہ اس کوشش میں کامیاب رہا ۔ واپس اٹھ کر اس نےپانی کا کین اٹھایا اور گھر کی طرف چل دیا ۔ جسمکیکئیحصوں پرزخم آئےتھےاوروہ زخم انگارےبنےہوئےتھےلیکن اس کےباوجود وہ کین اٹھائےآگےبڑھ رہا تھا ۔
آس پاس کےلوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس دیتےاور اندازہ لگالیتےکہ اس کےساتھ کیا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ خوش تھا ۔ اسےاتنا پانی تو مل گیا کہ آج کا کام چل جائےگھر آکر اس نےکپڑےبدلےاور نہانےکےلئےبیٹھا تو یاد آیا کہ اس کےنہانےکےلئےپانی کہا ںہے۔ کفایت شعاری کا ثبوت دیتےہوئےاس نےایک دو لیٹر پانی سےاپنےجسم پر لگی گندگی صاف کی ۔
رات میں اس پر دوہرا عذاب مسلط تھا ۔ گرنےکی وجہ سےاس کےجسم پر جو خراشیں اور زخم آئےتھےوہ درد کررہےتھےاور بجلی بھی نہیں تھی ۔ گھر بھٹی بنا ہوا تھا ۔ ہاتھوں سےپنکھا جھل کر وہ اور نسرین گرمی دور کرنےکی کوشش کر رہےتھےلیکن پھر بھی آرام نہیں مل رہا تھا ۔ گھبرا کر وہ دروازےکےباہر چادر بچھا کر لیٹ گیا ۔ باہر اسےاندر کی بہ نسبت تھوڑا آرام محسوس ہوا ۔ لیکن پاس کی گٹر کی بدبو اس کا دماغ پھاڑ رہی تھی اور بھنبھناتےمچھر اسےکاٹتےتو اس کےمنھ سےسسکی نکل جاتی ۔
بجلی کب آئےگی کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا بجلی کےبنا نیند نہیں آئےگی ۔ کل ڈیوٹی جانا ہے۔ اگر وہ ٹھیک طرح سےسو نہیں سکا تو بھلا پھر ڈیوٹی کس طرح انجام دےگا ۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ اکثر آدھی رات کو بجلی چلی جاتی تھی اور اسےاسی عذاب کو برداشت کرنا پڑتا تھا جس عذاب میں وہ اس وقت مبتلا تھا ۔ آنکھوں میں ساری رات گذرجاتی تھی ۔ لیکن بجلی نہیں آتی تھی ۔ سویرا ہوجاتا تو ڈیوٹی پر جانےکی تیاریاں کرنی پڑتی ۔ آنکھیں نیند سےبوجھل ہوتیں لیکن سو نہیں سکتےتھےکیونکہ ڈیوٹی جانا تھا ۔ آفس آتا تو نیند سےپلکیں بوجھل ہونےلگتیں ‘ کوئی کام نہیں ہوتا اور غلط سلط کام ہوتےتو باس کی ڈانٹیں سننی پڑتیں ۔
نسرین نےویسےتو اس سےکبھی سوال یا شکایت نہیںکی تھی کہ اس نےکرانتی نگر میں ہی گھر کیوں لیا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی مجبوری جانتی تھی ۔ اسےموجودہ حالات میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں گھر مل ہی نہیں سکتا تھا ۔ کیونکہ اس میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں اور گھر لینےکی مالی استطاعت نہیں تھی ۔
کبھی سوچتا کہ اس نےشادی کرنےمیں جلدی کرکےغلطی کی کرانتی نگر میں گھر لےکر کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ شادی دیر سےکرتا تو ان پریشانیوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا۔ نوکریملی تو سب سےپہلا مسئلہ ایک چھت کا پیدا ہوا ۔ ایک چھت کی شدت سےضرورت محسوس ہوئی جس کےنیچےسر چھپا سکے۔ دو چار دن اِدھر اُدھر گذار کر چھت کی تلاش شروع ہوئی ۔ اسےمحسوس ہوا نوکری اسےجتنی آسانی سےمل گئی تھی چھت اسےاتنی آسانی سےملنی ممکن نہیں تھی ۔
شہر میں اس کی طرح ہزاروں لاکھوں لوگ چھت کےمتلاشی ہیں اور وہ چھت کےلئےہزاروں لاکھوں روپےدینےکو تیار ہیں ۔لیکن اس کی استطاعت کےمطابق کرانتی نگر میں ہی چھت مل سکی ۔
کرانتی نگر ایک جھونپڑپٹی تھی ۔ کسی کی زمین پر ایک دادا نےناجائز قبضہ کرکےلکڑی کےٹکڑوں ، پتروں سےکئی جھونپڑےبنائےتھےاور انہیں کرائےپر دےرکھا تھا اور ان کا کرایہ وصول کرتا تھا ۔ وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی تھی اور کبھی بھی ٹوٹ سکتی تھی ۔ لیکن داو¿د بھائی کا کہنا تھا کہ میں گذشتہ پانچ سالوں سےیہاں رہ رہا ہوں اور پانچ سالوں سےسن رہا ہوں کہ جھونپڑپٹی ٹوٹنےوالی ہےمگر ابھی تک نہیں ٹوٹ سکی اور اب مجھےیقین ہےآئندہ دس سالوں تک یہ جھونپڑپٹی نہیں ٹوٹ سکتی ۔
اس نےکرانتی نگر میں کھولی داو¿د بھائی کےذریعےحاصل کی تھی ۔ داو¿د بھائی کی کرانتی نگر میں کرانےکی دوکان تھی کسی نےاس سےکہا تھا کہ اگر اسےکرانتی نگر میں کھولی چاہیئےتو داو¿د بھائی سےمل لینا وہ سب کچھ کردیں گے۔
وہ داو¿د بھائی سےملا اپنا تعارف کرایا اور اپنا مسئلہ پیش کیا ۔ ” آپ اس علاقےمیں روم چاہتےہیں ‘ روم تو مل جائےگا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقہ آپ کےلئےمناسب نہیں ہے۔ میں آپ کی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں ۔ مجھےعلم ہےآپ کس مجبوری کےتحت اس جھونپڑپٹی میں کھولی لےرہےہیں ۔ آپ جیسےکئی لوگ اس سےقبل اسی مجبوری کےتحت یہاں سال دو سال رہ کر گئےہیں ۔ سال دو سال میں ان کےپاس پیسہ جمع ہوگیا انہیں اچھی جگہ اس سےاچھا روم مل گیا پھر وہ یہ بستی چھوڑ کر چلےگئے۔ انور بھائی آپ گھبرائیےنہیں ۔ آپ بھی ایسا کیجئے۔ ابھی وقتی طور پر یہ روم لےلیجئے۔ بعد میں اس سےاچھا روم مل جائےگا تو اسےچھوڑ دیجئے۔ “
دس ہزار روپےڈپازٹ اور ڈھائی سو روپےمہینہ پر اسے٢١x٠١ کا ایک کمرہ ملا جس کی چھت پترےکی تھی ۔ نل اور بجلی کا اس میں انتظام تھا ۔ دس ہزار روپےاس نےگھر والوں سےقرض کےطور پر حاصل کئےاور کمرہ لےلیا وہ کمرہ لےکر وہاں رہنےلگا تو اسےوہاں پر کچھ بھی اجنبی نہیں لگا۔ ویسےبھی وہ سویرےجو آفس جاتا تو شام کو ہی گھر آتا تھا ۔ اپنی چھت کےنیچےسر چھپانےکےلئے۔ دن بھر وہاں کیا ہورہا ہے۔ اسےکچھ پتہ نہیں چلتا تھا ۔ رات میں کبھی کبھی آس پاس کےلوگوں کےساتھ ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر بستی کی خیر و خبر معلوم کرلیتا ۔ یا بستی میں ہونےوالےجھگڑوں کو تماشائی بن کر دیکھ لیتا تھا ۔
کبھی پانی کی گٹر پر سےبھیکو اور چندو کا جھگڑا ہوگیا ۔ کبھی بھولو دتا رام سےبلاوجہ الجھ گیا ۔ کبھی دشرتھ رات میں شراب پی کر آیا اور اس نےساری بستی کو سر پر اٹھا لیا ۔ کاشی رام کی بیوی کو جادھو نےچھیڑا تھا اس لئےغصےمیں کاشی رام نےجادھو کو استرا مار دیا۔ دھوترےکی بیوی اپنےسےدس سال چھوٹےلڑکےکےساتھ بھاگ گئی ۔ واگھمارےکی بیوی کالو کےبستر میں رنگےہاتھوں پکڑی گئی ۔ شراب کےنشےمیں دھت اشوک سریش کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی کےساتھ زبردستی کرنےکی کوشش کی ۔
وہ ساری باتیں بڑی دلچسپی سےسنتا اور ان سےلطف اندوز ہوتا تھا ۔ اس کا اس جگہ دل لگ گیا تھا ۔ پھر گھر والوں کو اس کی شادی کی سوجھی اور وہ بھی شادی کےلئےتیار ہوگیا ۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ کب تک ہوٹل میں کھاتا رہےگا ۔ بیوی گھر آجائےگی تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائےگا اور اسےاس اجنبی شہر میں ایک ساتھی مونس و غمخوار بھی مل جائےگا ۔
شادی ہوگئی ۔ نسرین گھر میں آئی اور جیسےاس پر مسائل نےایک ساتھ حملہ کردیا ۔ شادی کےبعد اسےمعلوم ہوا تھا کہ بستی میں کبھی کبھی تین تین دنوں تک پانی نہیں آتا ہے۔ اور بستی کےلوگو ںکو پانی کےلئےمارےمارےپھرنا پڑتا ہے۔
مٹی کا تیل کتنی مشکلوں سےملتا ہے۔ اس سےتو اسٹو جلتا ہےجس پر کھانا پکتا ہے۔ اگر وہ نہ ملےتو اسٹو نہیں جل سکتا اور کھانا بھی نہیں پک سکتا تھا اور نمک لانےکےلئےداو¿د بھائی کی دوکان تک جانا پڑتا ہے۔ اگر تازہ سبزیاں چاہیئےتو سبزیاں لانےکےلئےشہر میں سبزی مارکیٹ تک جانا پڑتا ہے۔ سبزی مارکیٹ میں ہی تازہ سبزیاں ملتی ہیں ۔ کرانتی نگر میں جو سبزیاں ملتی ہیں وہ باسی اور مہنگی ہوتی ہیں ۔ اگر اچانک کوئی بیمار ہوجائےتو دن میں بھی کرانتی نگر میں ڈاکٹر نہیں ملتا ہے۔ ڈاکٹر کےلئےشہر جانا پڑتا ہی۔ دن میں شرابی آوارہ بدمعاش گھروں میں گھس جاتےہیں اور گھر کی عورتوں کو چھیڑتےہیں ۔ غنڈےبدمعاشوں کی تلاش میں کبھی کبھی پولس بستی میں آتی ہےتو بستی کی عورتوں کےساتھ نازیبا برتاو¿ کرتی ہے۔
ان تمام مسائل میں سےکچھ کےحل نکل آئےتھےکچھ کےحل باقی تھے۔ جب کبھی نسرین اسےبتاتی کہ آج ایک شرابی گھر میں گھس آیا تھا تو وہ سر سےپیر تک پسینےمیںنہا جاتا تھا ۔ اس کا حل تو نکل آیا تھا ۔ اس نےآس پاس کی عورتوں کو کہہ دیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ نسرین کا خیال رکھیں ۔ وہ اتنی مخلص تھیں کہ نسرین کی ایک آواز پر دوڑی آتی تھیں ۔ اس طرح نسرین کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا ۔
زندگی کسی طرح طرح گذر رہی تھی کہ اچانک ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی ۔ جس شخص کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکےوہ جھونپڑا بستی بسائی تھی ۔ اس کےغنڈےآکر لوگوں کو تنگ کرنےلگےکہ وہ لوگ جھونپڑےخالی کردیں ورنہ وہ ان کےساتھ سختی سےپیش آئیں گے۔ اس شخص نےشاید میونسپلٹی والوں کو بھی ہموار کردیا تھا ۔ اس لئےاکثر میونسپلٹی کےچھوٹےبڑےآفیسر ، ملازمین آکر بستی والوں کو دھمکیاں دیا کرتےتھےکہ وہ بستی خالی کردیں ۔ کیونکہ یہ ایک ناجائز بستی ہے۔ میونسپلٹی کبھی بھی آکر اس بستی کو بل ڈوزر سےمسمار کردےگی ۔ بستی میں زیادہ تر جاہل ان پڑھ لوگ تھے۔ جو قانون کی زبان نہیں سمجھتےتھےاور جو پڑھےلکھےتھےاس جھمیلےمیں پڑنا نہیں چاہتےتھے۔
اسےبھی فکر لاحق ہونےلگی کہ اگر کسی دن میونسپلٹی نےبستی توڑ دی تو اس کےدس ہزار روپےڈوب جائیں گےجو اس نےڈپازٹ کی صورت میں دئےہیں ۔ اس سلسلےمیں داو¿د بھائی سےبات کی تو داو¿د بھائی نےاسےسمجھایا ۔ ” دیکھئےآپ کو فکر کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔ جس شخص نےآپ سےڈپازٹ لیا ہےجو کرایہ وصول کرتا ہےاور جس نےیہ بستی بسائی ہےوہ بھی مانا ہوا غنڈہ ہے۔ زمین کےمالک کےچھوڑےہوئےغنڈوں سےوہ نپٹ لےگا ۔ جہاں تک میونسپلٹی والوں کا سوال ہےان کو اس طرح کی قانون کی زبان استعمال کرنےکا حق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جھونپڑپٹی نجی زمین پر آباد ہےسرکاری زمین پر نہیں ہے۔ اس لئےمیونسپلٹی اسےتوڑ نہیں سکتی پھر جس میونسپلٹی کےملازمین نےرشوت لےکر اس بستی کےنل کنکشن دئے۔ بجلی کےکنکشن دئےوہ قانون اور غیر قانون کی بات کس طرح کرسکتےہیں ۔ داو¿د بھائی کی بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی ۔ داو¿د بھائی نےتو یہاں تک کہاتھا کہ اگر آپ کو شک ہےتو آپ اپنےڈپازٹ کا پیسہ واپس لےکر کھولی خالی کردیں ۔
وہ کھولی خالی نہیں کرسکتا تھا ۔ کیونکہ دوسری جگہ گھر کا انتظام ناممکن تھا اس کےپاس اتنا پیسہ نہیں تھا ۔ پھر وہ اپنےآپ کو اس چھت کےنیچےبہت محفوظ سمجھتا تھا ۔ وہ اپنےلئےاتنی جلدی دوسری چھت کا انتظام نہیں کرسکتا تھا پھر بھلا یہ چھت کس طرح چھوڑ سکتا تھا ۔
ان مسائل کو دیکھتےہوئےاس نےطےکر لیا تھا کہ وہ اب جلد ہی یہ جگہ چھوڑدےگا ۔ یہ جگہ اس کےجیسےشریف آدمی کےلائق نہیں ہے۔ اس نےدوسری جگہ تلاش کرنی شروع بھی کردی تھی اور پیسو ں کا انتظام کرنا بھی شروع کردیا تھا ۔ ایک رات ایک شور سن کر اس کی آنکھ کھلی تو وہ اچانک گھبرا گئے۔ انہیں لگا جیسےان کا کمرہ جہنم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ وہ گھبرا کر جب باہر آئےتو انہوں نےدیکھا کہ پوری بستی شعلوں میں گھری ہوئی ہےلوگ اپنی اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہےہیں ۔ اپنی متاع زندگی کو آگ سےبچانےکی کوشش کررہےتھے۔
آگ بڑھتی جارہی ہے۔ کیونکہ بستی کےمکان کچےتھےاس لئےاس آگ کو بڑھنےسےکوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ آگ بجھانےکےلئےفائر بریگیڈ کو فون کیا گیا تھا۔لیکن اس کا بھی نام و نشان نہیں تھا ۔ شاید یہ بھی آگ لگانےوالوں اور فائر بریگیڈ کی ملی بھگت تھی ۔
آگ ان کےگھرکی طرف بڑھ رہی تھی ۔ اس لئےانہوں نےاپنی متاع زندگی کو بچانےکی کوشش شروع کردی ۔ ابھی تھوڑا سا سامان ہی بچا پائےتھےکہ آگ نےان کےگھر کو اپنی لپیٹ میں لےلیا اور دیکھتےہی دیکھتےان کا گھر جل کر خاک ہوگیا ۔
وہ دور میدان میں اپنا تھوڑا سا بچا ہوا سرمایہ ¿ حیات لئےبیٹھےتھے۔ سامنےپوری جلی ہوئی بستی دکھائی دےرہی تھی ۔ جس سےدھواں اٹھ رہا تھا ۔ وہ حسرت سےکبھی اس جلی ہوئی بستی کو دیکھتےتو کبھی آسمان کو ۔
ان کےسر کی چھت چھینی جا چکی تھی ۔
اب ان کےسر پر صرف آسمان کی چھت تھی ۔
ll


رابطہ
ایم مبین
303 کلاسک پلازہ،
تین بتی
بھیونڈی 421302
ضلع تھانہ انڈیا
 

قیصرانی

لائبریرین

یہ موضوع وکی پر منتقل ہو گیا ہے۔ ابھی اس پر مزید کام کو مندرجہ ذیل وکی کے لنک سے آگے جاری کیجئے گا

چھت
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top