ایلی کا خواب نگر : ترجمہ و تالیف : محمد خالد اختر

ایلی کا خواب نگر
( ایلس ان ونڈر لینڈ
) مصنفہ : لوئس کیرول

ترجمہ و تالیف : محمد خالد اختر
پہلاباب
خرگوش کے بھٹ میں سے نیچے
ایلی کنارے پر اپنی بہن کی بغل میں بےکار بیٹھے بیٹھے بےحد اُکتانے لگی تھی۔ ( اُس کے کرنے کےلئے بھی تو کچھ نہ تھا )۔ ایک دو بار اس نے اس کتاب میں جھانکا تھا جسے اس کی بہن پڑھ رہی تھی لیکن اس میں نہ تو تصویریں تھیں اور نہ کوئی سوال و جواب۔
" ایسی کتاب بھی بھلا کس کام کی " ایلی نے سوچا " جس میں نہ تصویریں ہوں نہ سوال و جواب"
سو وہ اپنے دل میں اس بات پر " غور " کر رہی تھی ( جس حد تک وہ غور کر سکتی تھی۔ کیونکہ دن کی تیزی سے اس کی آنکھیں نیند کے مارے بوجھل ہو رہی تھیں اور وہ خود کو احمق لگنے لگی تھی ) کہ آیا موتیے کے پھولوں کا ایک ہار پرونے کی مسرت ایسی ہے کہ اس کی خاطر اٹھ کرموتیے کے پھول چننےکی مصیبت مول لی جائے۔ اتنے میں اچانک ایک گلابی آنکھوں والا سفید خرگوش اس کے قریب سے بھاگتا ہوا گزرا۔
اس میں کوئی اتنی حیران ہونے والی بات نہ تھی۔ نہ ہی ایلی کو یہ بات کچھ معمول سے ہٹ کر لگی کہ خرگوش اپنے آپ سے یہ کہتا جاتا تھا " اُف رے میری ماں ! اُف رے میری ماں۔ مجھ کو بڑی دیر ہو جائے گی۔"۔ ( جب ایلی نے بعد میں سوچا تو اُسے سُوجھا کہ اسے اس بات پر حیران ہونا چاہئے تھا مگر اس وقت اسے یہ سب بالکل قدرتی معلوم ہوا)۔ لیکن جب خرگوش نے سچ مچ اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک گھڑی نکالی اور اس کو دیکھا اور پھر آگے قدم چلانے کی کی تو ایلی چونک کر اچھل کھڑی ہوئی۔ کیونکہ اس کے ذہن میں اچانک یہ بات آئی کہ اُس نے پہلے کبھی کسی خرگوش کو واسکٹ پہنے یا اس کو جیب سے گھڑی نکالتے نہیں دیکھا تھا۔ اور تجسس سے بےحال ، وہ کھیت میں سے اُس کے پیچھے بھاگی اور اُس کو بس ٹھیک اُس موقع پر جا لیا جب اُس نے باڑ تلے ایک بڑے خرگوش کے بھٹ میں ڈبکی لگائی ہی تھی۔
اگلے لمحے کچھ سوچے اور دیکھے بغیر ایلی بھی خرگوش کے پیچھے بھٍٍٹ میں جا اُتری۔اُسے ایک دفعہ بھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ اس میں سے پھر نکلے گی کیونکر۔
خرگوش کا بھٹ کچھ راستہ تو ایک سرنگ کی طرح سیدھ میں گیا اور پھر یکلخت جو کھلا تو ایلی کو اپنے آپ کو روکنے اور سوچنے کا وقت بھی نہ ملا اور اتنے میں ایلی نے خود کو گویا ایک بڑے ہی گہرے کنویں میں گرتے ہوئے پایا۔
اب یا تو کنواں بڑا گہرا تھا یا وہ سست رفتاری سے گرتی چلی جا رہی تھی کیونکہ گرتے ہوئے اُس کے پاس اپنے گردا گرد دیکھنے کو ڈھیروں وقت تھا، اور اس پر حیران ہونے کا بھی کہ اب آگے کیا ہوگا۔پہلے پہل تو اُس نے نیچے کو دیکھنے اور اپنی منزل کی سوجھ لگانے کی کوشش کی مگر وہاںاندھیرا اس قدر تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ پھر اُس نے کنویں کی دیواروں کو جو گھورا تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ الماریوں اور کتابوں کے طاقچوںسے اٹی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں اُسے کھونٹیوں سے آویزاں نقشے اور تصویریں بھی نظر آیئں۔ اُس نے نیچے کو گزرتے گزرتے ایک طاقچےپر سے ایک مرتبان اچک لیا۔ مرتبان پر " مربہ نارنگی " کا لیبل چسپاں تھا۔ لیکن اُسے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ یہ اندر سے خالی تھا۔مرتبان کو ہاتھ سے چھوڑ کر نیچے گرا دینے کو اُس کا دل نہ مانا۔ کیونکہ اُس کو یہ ڈر تھا کہ نیچے کوئی ہوا تو اُس کا سر پھٹ جائے گا۔ اس لئے جب وہ ایک الماری کے پاس سے گرتی ہوئی گزری تو اُس نے کسی نہ کسی طرح مرتبان کو اس میں دھر دیا۔
" خیر بھئی " ایلی دل میں سوچنے لگی۔" اس طرح کے گرنے کے بعد تو میں گھر کی سیڑھیوں پر سے لڑھکنیاں کھانے کو کوئی بات ہی نہیں جانوں گی۔ گھر میں سب لوگ کہیں گے دیکھو یہ کتنی بہادر نڈر لڑکی ہے۔ بلکہ میں گھر کی چھت پر سے بھی نیچے آن گروں تو اس کا ذکر تک نہ کروں گی" ( اور یہ غالباً سچ تھا)۔
نیچے۔ نیچے۔ نیچے۔ کیا یہ گرنا کبھی ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ وہ اونچا بولنے لگی " اللہ جانے میں اب تک کتنے میل " گر " چکی ہوں گی۔ ہو نہ ہو میں زمین کے مرکز کے نزدیک ہی کہیں پہنچنے والی ہوں گی۔ دیکھوں تو یہ فاصلہ کوئی چار ہزارمیل نیچے ہوگا۔ میرا خیال ہے" ۔ ( کیونکہ تم جانو ایلی نے اس قسم کی بہت سی باتیں اسکول میں پڑھے اپنے سبقوں سے سیکھی تھیں اور اگرچہ یہ اپنی علمیت بگھارنے کا کوئی بہت اچھا موقع نہ تھا کہ وہاں اسے سننے والا کوئی نہ تھا۔ پھر بھی اس کا یہ سب کچھ دہرانا سبق کی اچھی خاصی مشق ضرورتھی)۔۔ ہاں تقریباً اتنا ہی فاصلہ ہے۔ چار ہزار میل۔ لیکن پھر میں سوچوں تو بھلا میں کس عرض بلد اور طول بلد میں پہنچی ہوں گی۔( ایلی کی جانے بلا کہ عرض بلد اور طول بلد کیا ہوتے ہیں۔ مگر اُس نے سوچا کہ یہ بولنے میں خوب مزے کے شاندار الفاظ ہیں )۔ ( جاری ہے )
 
مدیر کی آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

تھوڑے وقفے کے بعد وہ پھر شروع ہو گئی۔ " کیوں بھئی ۔ کہیں میں گرتی ہوئی زمین کے بیچوں بیچ میں سے دوسری طرف تو نہ جا نکلوں گی۔ آہاہا۔ یہ بھی کیا مزے کی بات ہوگی کہ وہاں لوگ سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کئے چلتے ہوں گے! ۔۔۔خلافِ عادت، میرا خیال ہے ۔۔۔" ( وہ ایک طرح خوش تھی کہ کوئی اُس کی باتیں سن نہیں رہا تھا ۔ کیونکہ یہ صحیح لفظ معلوم نہیں ہوتا تھا ) ۔۔ " لیکن تم جانو مجھے ان سے ملک کا نام پوچھنا پڑے گا۔ " اری خالہ جی ! کیا یہ نیوزی لینڈ ہے ؟ یا آسٹریلیا ہے ؟ " ( اور یہ الفاظ بولتے ہوئے اس نے تعظیماً جھکنے کی کوشش کی ۔۔۔ ذرا ہوا میں سے گرتے ہوئے تعظیماً جھکنے کا سوچو تو ! تم کر سکتی ہو ایسا کرتب ؟ ) ۔۔۔" اور وہ خالہ جی میرے پوچھنے پر مجھے کتنی نالائق ، جاہل چھوٹی لڑکی سمجھیں گی کہ یہ اتنا بھی نہیں جانتی ۔ نہیں ۔ یوں پوچھنا درست نہیں ہوگا۔۔۔اور شاید ملک کا نام کہیں لکھا ہوا ہی ہو ۔ اور میری نظر وہاں پڑ جائے "۔
نیچے ۔ نیچے۔ نیچے ۔! اور تو کرنے کو کچھ تھا نہیں ۔ اس لئے ایلی پھر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی۔ " میرا خیال ہے ڈینا آج رات مجھے نہ پا کر بڑی اداس ہو گی۔ ( ڈینا گھر کی بلی مانو تھی ) ۔۔۔ خدا کرے چائے پر ان کو اس کی دودھ کی پرچ یاد رہ جائے۔ اری ڈینا میری پیاری۔ میرا جی کرتا ہے کہ تم اس وقت یہاں میرے ساتھ نیچے ہوتیں۔ کیا لطف آتا۔ نہیں بھئی ۔ ہوا میں چوہے تو ہوں گے نہیں ۔ نہ سہی ۔ لیکن تم شاید کوئی چمگادڑ دبوچ سکو اور وہ بھی تو تم جانو ہو بہو چوہے کی طرح ہوتی ہیں ۔ لیکن ارے ! کیا بلیاں چمگادڑیں کھاتی ہیں " اور یہاں ایلی کو کچھ کچھ نیند سی آنے لگی اور وہ خواب آلود کیفیت میں خود سے یوں بولتی چلی گئی ۔ " کیا بلیاں چمگادڑیں کھاتی ہیں ۔ " اور کبھی " کیا چمگادڑیں بلیاں کھاتی ہیں ۔" ان میں سے کسی سوال کا جواب تو اس کو آتا نہیں تھا۔ اس لئے سوال کو الٹا سیدھا کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا تھا۔ یوں کہہ لو یا یوں کہہ لو ۔۔۔۔
اس نے محسوس کیا کہ وہ سوتی جا رہی ہے اور اس نے ایک خواب دیکھنا بھی شروع کر دیا جس میں وہ ڈینا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہی تھی اور بڑے سنجیدہ طریقے سے اس سے پوچھ رہی تھی " ڈینا ۔ سچ سچ بتاو ۔ کیا تم نے کبھی چمگادڑ کا نوالہ کیا ہے " اتنے میں اچانک بھد ! بھد ! بھد ! وہ شاخوں اور خشک پتوں کی ایک ڈھیری پر آن دھنسی اور گرنے والا قصہ ختم ہو گیا ۔
ایلی کو ذرہ برابر بھی چوٹ نہ آئی اور وہ جھٹ سے اُچھل کر کھڑی ہوئی ۔ اس نے اوپر نگاہ ڈالی لیکن اوپر اندھیرا ہی اندھیرا چھایا تھا ۔ اس کے سامنے ایک لمبی رہگزرتھی ۔ اور سفید خرگوش اس میں جلدی جلدی قدم مارتا ہوا ابھی تک اس کی نگاہوں میں تھا ۔ ایک لمحہ بھی تو گنوانے کا نہ تھا ۔ ایلی خرگوش کے پیچھے ہوا کی طرح لپکی اور عین اس موقع پر جا پہنچی جہاں خرگوش ایک موڑ مڑتے ہوئے یہ کہتا جاتا تھا " اوہ ۔ میرے کان اوہ ! میری مونچھیں ! کتنی دیر ہوتی جاتی ہے ۔" ایلی تھی تو خرگوش سے بس چار قدم پیچھے ہی لیکن جب اس نے موڑ کاٹا تو خرگوش کا کہیں اتہ پتہ نہ تھا ۔ اس نے خود کو ایک نیچی چھت والے لمبے سے ہال کمرے میں پایا ۔ چھت سے لٹکی ہوئی لالٹینوں کی قطار اس ہال کو روشن کئے ہوئے تھی ۔
ہال کے چاروں طرف دروازے تھے مگر سارے کے سارے بند اور اُن میں تالے لگے ہوئے تھے ۔ ایلی نے ایک کونے سے دوسرے کونے اور پھر اُلٹے رخ چل پھر کر ہر ایک دروازے کو باری باری کھولنے کی کوشش کی ۔ پھر وہ یہ سوچتی ہوئی کہ یہاں سے باہر کیونکر جا سکوں گی، ہال کے درمیان چلنے لگی ۔
اچانک وہ ایک چھوٹی سی تین پایوں کی میز کے پاس سے گزری جو ساری کی ساری ٹھوس بلور کی بنی تھی ۔ اُس کے اوپر کچھ بھی نہ تھا ۔ ماسوائے ایک ننھی سی سنہری چابی کے، اور ایلی کو سب سے پہلے جو خیال آیا وہ یہ تھا کہ ہو نہ ہو یہ ہال کے کسی ایک دروازے کے تالے کو لگتی ہوگی ۔ لیکن ہائے ری مصیبت ! یا تو تالے بہت بڑے نکلے، یا پھر چابی بہت چھوٹی تھی۔ ایک دروازہ بھی تو اس چابی سے نہ کھل سکا ۔ دوسری بار اس نے جو ہال کا چکر کاٹا تو دیکھتی کیا ہے کہ ایک جگہ ایک چھوٹا سا دروازہ ہے ، بس کوئی پندرہ انچ اونچا ۔ اس نے ننھی سنہری چابی کو تالے کے سوراخ میں جو آزما کر دیکھا تو واہ رے واہ ، وہ اس کو لگ گئی ۔
ایلی نے دروازہ کھولا ۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹی سی گلی میں کھلتا ہے ۔ گلی بھی اتنی چوڑی جتنا ایک خرگوش کا بھٹ ۔ اس نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر جو نگاہ ڈالی تو گلی میں آگے جا کر ایک خوبصورت ترین باغ کھلا تھا ، ایسا کہ اس جیسا اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔
اوہ ! اس کا کتنا دل چاہا کہ وہ کسی طرح اس اندھیرے ہال کمرے سے نکل سکے اور ان چمکیلے پھولوں کے تختوں اور ان ٹھنڈے پھوار برساتے فواروں میں سیر سپاٹا کرے ۔ لیکن وہ تو دروازے میں سے اپنے سر کو بھی نہیں گھسیڑ سکتی تھی ۔
" اور اگر میرا سر دروازے میں سے نکل بھی جائے " غریب ایلی نے سوچا ۔ " میرے کندھے تو پیچھے رہ جایئں گے ۔ اور کندھوں کے بغیر سر کا کیا فایدہ ۔ اوہ کاش میں ایک دوربین کی طرح پچک سکتی ۔ میرا خیال ہے میں شاید پچک تو جاوں اگر مجھے پچکنے کی ابتدا کرنی آجائے "۔ تم جانو اتنی خلافِ معمول عجیب و غریب چیزیں ہال میں اس کے ساتھ ساتھ واقع ہوئی تھیں کہ ایلی سوچنے لگی کہ بہت ہی کم چیزیں ایسی ہوں گی جن کا ہونا بالکل نا ممکن ہو ۔ ( جاری )
 
آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

چھوٹے دروازے کے پاس انتظار کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔ اس لئے وہ میز کی طرف پلٹ گئی ۔ اُسے کچھ کچھ اُمید تھی کہ اُس پر ایک اور چابی رکھی ہوگی یا چابی نہیں تو ایک ایسی کتاب ہی جس میں لوگوں کو دوربین کی طرح پچکانے کی ترکیبیں درج ہوں گی ۔ اس بار ایلی کو اس پر ایک چھوٹی سی بوتل دھری ہوئی ملی ۔ ( ایلی نے سوچا " یقیناً یہ پہلے تو یہاں نہیں تھی " ) ۔ بوتل کے تنگ حصے کے گردا گرد ایک کاغذ کا لیبل چسپاں تھا ۔ اس لیبل پر جلی حروف میں یہ الفاظ بڑے خوبصورت چھپے تھے ۔ " مجھ کو پی جاو "۔
" مجھ کو پی جاو " کہنا تو خیر ٹھیک تھا ۔ مگر سیانی چھوٹی ایلی ایسی الل ٹپ حرکت کرنے کو تیار نہ ہوئی ۔ " نہ بھئی نہ " ایلی نے کہا ۔ " میں پہلے اچھی طرح پتہ لگاوں گی اور دیکھوں گی کہ اس پر " زہر " کا نشان چھپا ہوا ہے یا نہیں "۔ بات یہ تھی کہ ایلی نے بچوں کے متعلق بہت ہی مزے کی چھوٹی کہانیاں پڑھ رکھی تھیں جن میں بچے یا تو آگ میں جل جاتے تھے یا جنگلی جانور ان کو لقمہ بنا لیتے تھے یا اور گڑ بڑ باتیں ہوتی تھیں ۔ اور یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ اپنے دوستوں کے سکھائے ہوئے عام اصول یاد نہیں رکھتے تھے ۔ مثلاً ایک سرخ دہکتے چمٹے کو زیادہ دیر تک پکڑے رکھو تو تمھارا ہاتھ جل جائے گا۔ اور اگر تم اپنی انگلی کو خوب زور سے چاقو سے تراشو تو اس میں سے خون نکل آئے گا اور اس طرح ایلی یہ نہیں بھولی تھی کہ اگر تم " زہر " کا نشان لگی بوتل سے زیادہ خوراک پی لو گے تو جلد یا بدیر تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔
خیر اس بوتل پر " زہر " کا نشان نہیں لگا تھا ۔ اس لئے ایلی نے ہمت کر کے اس میں پڑی دوائی کو چکھا ۔ وہ تھی بڑی مزیدار ( ذائقہ ایسا تھا کہ ایلی اسے دو تین گھونٹ میں چٹ کر گئی ) ۔
" کتنی اُوٹ پٹانگ سی بات ہے " ایلی نے کہا " میں ضرور ایک دوربین کی طرح پچک رہی ہوں "۔
اور تھی بھی یہی بات ! وہ اب صرف نو انچ اونچی تھی اور اس کا چہرہ اس خیال سے چمک اٹھا کہ وہ چھوٹے دروازے میں داخل ہو کر خوبصورت باغ میں جانے کے لئے بس ٹھیک قد کی ہو گئی ہے ۔ پہلے تو اس نے چند منٹ انتظار کیا کہ دیکھوں تو اس سے اور زیادہ پچکتی ہوں یا نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ پریشان بھی تھی ۔
" تم جانو " ایلی نے اپنے آپ سے کہا " اگر تم یوں ہی پچکتی گئیں تو عین ممکن ہے کہ موم بتی کی طرح گم ہو جاو۔ اللہ جانے اس وقت میں کیسی ہوں گی " اور اس نے تصور باندھنے کی کوشش کی کہ موم بتی کے بجھائے جانے پر اس کا شعلہ کیسا دکھائی دیتا ہوگا ۔ اسے کبھی ایسے شعلے کو دیکھنا یاد نہ تھا ۔
تھوڑی دیر کے بعد یہ دیکھ کر کہ مزید کچھ نہیں ہو رہا اور وہ پچک کر جتنی ہو گئی تھی اتنی ہی تھی ، اُس نے
فی الفور باغ میں جانے کا ارادہ کیا ۔ لیکن ہائے رے غریب ایلی ، جونہی وہ دروازے تک پہنچی اسے یاد آیا کہ ننھی سنہری چابی کو تو وہ میز پر بھول آئی ہے ۔ اور جب وہ اس کو لینے کی خاطر پلٹ کر میز کی طرف گئی تو اُس نے دیکھا کہ وہ اُس تک پہنچ ہی نہیں سکتی ۔ بھلا نو انچ قد والی ایلی کے لئے یہ کیسے ممکن تھا ۔ وہ چابی کو شیشے میں سے صاف دیکھ سکتی تھی اور اس نے میز کے ایک پائے سے اوپر چڑھنے کے سب جتن کئے مگر بالکل بےکار ! یہ بڑا پھسلنا تھا۔ جب وہ کوشش کر کر کے تھک ہار گئی تو بےچاری چھوٹی ہاتھ بھر کی لڑکی بیٹھ گئی اور رونے لگی ۔
" بھئی اس طرح رونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ میں تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ اِسی لمحے رونا بند کرو "۔
وہ عام طور پر اپنے آپ کو بڑی اچھی نصیحت کیا کرتی تھی ( اگرچہ اس پر عمل کبھی کبھار ہی کرتی تھی )۔ ۔ اور بعض اوقات تو وہ اپنے آپ کو اتنی سختی سے کوسنے دیا کرتی کہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے اور ایک دفعہ اسے یاد آیا کہ اُس نے اپنے کانوں پر چپت لگانے کی کوشش کی تھی ۔ وہ اس قصور پر کہ اُس نے " کروکے " کے کھیل میں جو وہ اپنے ساتھ کھیل رہی تھی ، خود کو جھانسا دیا تھا ۔ یہ سُن لو کہ یہ عجیب بچی اپنے آپ کو دو ہستیاں سمجھنے کی بڑی شوقین تھی ۔ " مگر بھئی اب دو ایلی بننے کا کوئی فائدہ نہیں " غریب ایلی سوچنے لگی " میرا تو اب اتنا کچھ بھی نہیں بچا ( پچکنے سے ) جو ایک ہی معقول لڑکی بن سکوں "۔
جلد ہی اُس کی نظر شیشے کی ایک چھوٹی سی صندوقچی پر پڑی جو میز تلے رکھی تھی ۔ اُس کو جو کھولا تو اُس میں سے ایک بہت ننھا سا کیک نکلا جس پر " مجھے کھا لو " کے الفاظ کشمش کے دانوں سے بڑے خوبصورت نقش تھے ۔
" اچھا تو میں اِسے کھا لیتی ہوں " ایلی نے کہا " اور اگر اس کے کھانے سے بڑی ہو جاوں تو میں چابی تک پہنچ سکوں گی ۔ اور اگر اور زیادہ پچک جاوں تو آسانی سے دروازے کے نیچے سے گھسٹ کر رینگ سکوں گی ۔ یعنی دونوں صورتوں میں میں باغ میں جا پہنچوں گی ۔ جو ہو سو ہو ۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں "۔
اُس نے تھوڑا سا کیک کترا اور فکر کرتی ہوئی اپنے آپ سے کہنے لگی " کس طرف کو بھئی ۔ کس طرف کو بھئی "۔ یہ کہتے وقت اُس نے اپنا ہاتھ اپنے سر کی چوٹی پر رکھ کر دبایا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ پتہ لگے کہ وہ کس طرف کو جا رہی ہے ! ) وہ یہ دیکھ کر بڑی حیران ہوئی کہ وہ اتنی کی اتنی ہی رہی اور اُس کا قد نہ بڑھا نہ گھٹا ۔ ویسے جب کوئی کیک کھاتا ہے تو عموماً یہی کچھ ہوتا ہے ۔ اب ایلی خلافِ معمول اُلٹ پُلٹ باتوں کے ہو گزرنے کی اس قدر توقع کرنے لگی تھی کہ زندگی کا اس طرح عام طریقے سے چلنا اُسے بڑا غیر دلچسپ اور بےہودہ معلوم ہوا ۔ اس لئے اُس نے کیک کھانا شروع کر دیا، اور دو تین منٹ کے بعد بےچارے کیک کا پتہ تک نہ تھا ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

دوسرا باب
آنسوؤں کا جوہڑ
" عجیب تر اور عجیب ترین " ایلی چلائی ( وہ اس حد تک حیران تھی کہ وقتی طور پر صحیح زبان بولنا بھی بھول گئی ) " اب میں ایک ایسی بڑی دوربین کی طرح جو کبھی کسی نے بنائی ہو گی، کھلتی چلی جا رہی ہوں ۔ پاوں ! تمھیں خدا حافظ !" ( وہ اس لئے کہ جب اس نے نیچے کو نگاہ ڈال کر اپنے پاوں کو دیکھا تو وہ اتنی دور جا چکے تھے کہ تقریباً اوجھل ہو رہے تھے )۔
" اُف میرے غریب چھوٹے سے پاوں ۔ ہائے میرے پیارو ۔ اب تمھیں تمہارے جوتے اور جرابیں کون پہنائے گا ۔ مجھ کو یقین ہے کہ اب میں تو یہ نہیں کر سکوں گی ۔ میں تم سے اتنی دور ہوں گی کہ کیوں تمہارا تردد کرنے لگی ۔ اب بھئی خود ہی جیسے تیسے اپنا بندوبست کر لینا "۔
" لیکن مجھ کو اپنے پاوں سے شفقت کا برتاو کرنا ہوگا ۔" ایلی کہتی گئی ۔ " ورنہ وہ اس سمت کو نہیں اٹھیں گے جدھر کو میں جانا چاہوں گی، اچھا۔ ایسا کیوں نہ کروں ! میں ہر عید پر ان کو جوتوں کا ایک نیا جوڑا دے دیا کروں گی ۔ پھر تو وہ ناراض نہیں ہوں گے "۔
اور وہ اپنے دل میں منصوبے تیار کرنے لگی کہ کیونکر جوتوں کو پاوں تک پہنچاوں گی ۔
" جوتوں کو قاصدوں کے ذریعے ارسال کرنا پڑے گا " اس نے سوچا "اور اپنے ہی پاوں کو تحفہ بھیجنا کتنا مضحکہ خیز ہو گا ۔ اور پتے پر درج ہدایات بھی کتنی عجیب لگیں گی ۔

ایلی کے دائیں پاوں صاحب بہادر
بمقام ۔ آتش دان کا نمدہ
نزد جنگلا
( ایلی کا بہت بہت پیار )
اوہ ایلی تم بھی حد کرتی ہو ! کیسی انٹ شنٹ باتیں سوچتی ہو "۔
عین اسی وقت اس کا سر ہال کمرے کی چھت سے جا ٹکرایا ۔ اصل میں وہ اب نو فٹ سے کچھ اوپر ہی اونچی تھی اور اس نے جھٹ پٹ ننھی سنہری چابی کو اُٹھایا اور بھاگی باغیچے کے دروازے کو ۔
بےچاری ایلی ! اس سے زیادہ وہ اور کیا کر سکتی تھی کہ کروٹ پر لیٹ کر ایک آنکھ سے دروازے کے سوراخ میں سے باغیچے کا نظارہ کرے۔ نو فٹ کی بڑھتی ہوئی ایلی دروازے میں سے گھسڑم گھسیڑ نکلے تو کیونکر ! وہ بیٹھ گئی اور پھر رونے لگی ۔
" اری کچھ شرم کر " ایلی نے کہا۔ " تمہارے جتنی بڑی لڑکی ( اب وہ یہ یقیناً کہہ سکتی تھی ) اور اس طرح روتی چلی جائے ۔ میں تمہیں حکم دیتی ہوں ۔ فوراً یہ رونا بند کرو "۔ ( جاری ہے )
 
مدیر کی آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

لیکن وہ اسی طرح روتی رہی ۔آنسوؤں کے گھڑے کے گھڑے بہاتی ہوئی حتٰی کہ اس کے گردا گرد کوئی چار انچ گہرا اور ہال کمرے کے نصف تک پھیلا ایک بڑا جوہڑ سا بن گیا ۔ ( اس طرح متواتر بےتحاشا روتے رہنے سے جوہڑ تو کیا ایک اچھی خاصی جھیل بھی بن سکتی ہے ۔)
تھوڑے عرصے کے بعد اس نے کچھ فاصلے سے آتی ہوئی پاؤں کی ہلکی تھپ تھپ کی آواز سنی اور اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا چیز آ رہی ہے جلدی سے آنسو پونچھے اور آنکھوں کو خشک کیا۔ لو یہ تو وہی سفید خرگوش نکلا ۔ لیکن واہ رے سج دھج ! وہ چھیل چھبیلا بنا ، بھڑکدار وردی پہنے ، ایک ہاتھ میں سپید نمدے کے چمڑے کے دستانوں کا جوڑا اور دوسرے میں ایک بڑا پنکھا لئے چلا آرہا تھا ۔ وہ پنجوں کے بل تیز قدم اُٹھاتا اپنے آپ سے بڑبڑاتا جاتا تھا ۔ " اوہ نوابزادی ! اوہ نوابزادی ! اگر اُس کو میری راہ دیکھنا پڑی ہے تو وہ مجھ کو کچا کھا جائے گی "۔
ایلی کی جان پر اتنی بنی تھی کہ وہ ہر کسی سے مدد چاہنے کو تیار تھی ۔ اس لئے جب خرگوش اُس کے نزدیک آیا تو وہ دھیمی دبی ہوئی آواز میں یوں شروع ہوئی " جناب ! اگر تکلیف نہ ہو تو ۔۔۔۔۔" خرگوش یک لخت بِدکا ، دستانے اور پنکھا اُس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گر گئے اور اُس نے اندھیرے میں اتنی تیزی سے بھاگنے کی کی، جتنی تیزی سے اُس کے قدم اُسے لےجا سکتے تھے ۔
ایلی نے پنکھا اُٹھا لیا ، اور چونکہ ہال کمرہ بڑا گرم تھا اس لئے جتنی دیر وہ باتیں کرتی رہی وہ اپنے آپ کو پنکھا بھی جھلتی رہی " ڈئیر ! ڈئیر ! آج ہر ایک چیز کیسی عجیب ہے اور کل سب چیزیں معمول کے مطابق ہوتی رہیں ۔ کہیں میں خود ہی راتوں رات تو نہیں بدل گئی ، ذرا سوچوں تو ! کیا میں وہی تھی جب میں اس صبح بستر سے اُٹھی ۔ کچھ کچھ خیال ہوتا ہے کہ میں قدرے مختلف محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اگر میں وہی نہیں ہوں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں ہوں کون ۔ دراصل یہی تو بڑی اُلجھن ہے کہ اگر میں کل والی ایلی نہیں ہوں تو پھر کون لڑکی ہوں اور میرا نام کیا ہے " اور وہ ان سب بچوں کے متعلق سوچنے لگی جن کو وہ جانتی تھی اور جو اُس کے ہم عمر تھے ۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ ان میں سے کسی کے ساتھ تو نہیں بدل گئی ۔
" یہ تو مجھے یقین ہے کہ ادا میں نہیں ہوں " اُس نے کہا " کیونکہ اُس کے بال اتنی گھونگھریالی لٹوں میں اُڑتے رہتے ہیں اور میرے تو گھونگھریالے ہیں ہی نہیں ۔۔۔ اور میں عذرا بھی نہیں ہو سکتی ۔ مجھے تو سب طرح کی باتیں آتی ہیں اور عذرا کو کچھ بھی نہیں آتا ۔ اس کے علاوہ وہ وہ ہے اور میں میں ۔۔۔ اور ۔۔۔بھئی یہ سب کچھ کتنا چکرا دینے والا ہے ۔ میں دیکھوں تو کیا اب میں وہ سب چیزیں جانتی ہوں جو میں پہلے جانتی تھی ۔ ہاں ۔ چار ضرب پانچ بارہ ہوتے ہیں اور چار ضرب چھ ہوئے تیرہ ۔ اور چار ضرب سات یہ بنے ۔۔۔۔اوہ اس رفتار سے تو میں کبھی بیس تک نہ پہنچ سکوں گی ۔ خیر ضرب کا پہاڑا کچھ ظاہر نہیں کرتا ۔۔۔۔۔اب جغرافیے کو آزما کر دیکھیں ۔ لندن پیرس کا دارالخلافہ ہے اور پیرس روم کا دارالخلافہ ہے اور روم ۔۔۔۔۔نہیں نہیں ۔ یہ سارے کے سارے جواب غلط ہیں ۔ مجھے اس کا یقین ہے ۔ میں ضرور عذرا میں بدلی گئی ہوں ۔ تبھی تو مجھے کچھ نہیں آ رہا ۔ اچھا اب میں وہ کتاب کا گیت تو دُہرا کر دیکھوں ۔ مجھے یاد ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔
" کرتا ہے وہ کیسے چھوٹا ۔۔۔ "
اور اُس نے اپنے ہاتھوں کو اپنی گودی میں ڈال لیا جیسے وہ اپنا سبق پڑھ رہی ہو اور اس گیت کو دُہرانے کگی ، مگر اُس کی آواز بھاری اور اُکھڑی ہوئی نکلی اور الفاظ بھی جو آئے تو اُلٹ سُلٹ ، ویسے نہیں جیسے پہلے اُس کی زبان پر آتے تھے ۔
کرتا ہے وہ کیسے چھوٹا مگرمچھ
ننھا گل گوتھنا مگرمچھ
اپنی چمکیلی دُم کو پالش
نیل کے پانی کو کیسے
زریں کھپروں پر پھینکے
کیا دانت نکالے ہنستا ہے وہ !
کتنا اچھا لگتا ہے وہ !
اور پنجے کیسے پھیلاتا ہے
کتنے ستھرے پیارے پنجے
چھوٹی ننھی منی مچھلیاں
اُن کو پاس بلاتا ہے
اور جبڑوں میں لے جاتا ہے
گل گوتھنا مگرمچھ
ننھا منا مگرمچھ
" مجھے یقین کہ یہ گیت کے صحیح الفاظ نہیں ہیں " بےچاری ایلی نے کہا ۔اور آگے جاری رکھتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں پھر آنسو اُمڈ آئے ۔
" ہو نہ ہو میں ضرور عذرا ہی ہوں ۔ اور مجھ کو اب جا کر اُس گندے چھوٹے سے گھر میں رہنا پڑے گا اور میرے کھیلنے کو بس اونے پونے کھلونے ہوں گے ۔ اتنے سارے سبق بھی تو مجھے یاد کرنے پڑیں گے ۔ نہیں بھئی ۔ میں نے اب اس بارے میں اپنا دل پکا کر لیا ہے ۔ اگر میں عذرا ہوں تو یہیں پہ ٹہر جاؤں گی اور یہاں سے جانے کا نام نہ لوں گی ۔ بےشک وہ اپنے سر نیچے کر کے پکارتے رہیں " پیاری اوپر آجاؤ "۔ میں نہیں جاؤں گی ۔ توبہ ! توبہ ! میں محض اوپر دیکھوں گی اور پوچھوں گی " بھلا میں کون ہوں ۔ پہلے مجھے یہ تو بتایئے ۔ اور پھر اگر مجھے وہ لڑکی ہونا پسند ہوا تو میں اوپر چلی آؤں گی ۔ اگر نہیں تو میں یہیں ٹہروں گی اور جب تک میں کوئی اور نہیں ہو جاتی ادھر سے ہلوں گی نہیں ۔۔۔۔"
پھر ایلی اچانک پھوٹ پھوٹ کر ایسے رونے لگی کہ اُس کے آنسو ختم ہونے میں نہ آئے " ہائے کاش وہ سر نیچے کر کے سوراخ میں سے جھانکیں تو ۔۔۔ اُف ! میں یہاں اکیلی ہونے سے کتنی بہت سی اُکتا گئی ہوں "۔
یہ کہتے ہوئے اُس نے نظریں نیچی کر کے اپنے ہاتھوں کو جو دیکھا تو بڑی حیران ہوئی کہ یوں باتیں کرنے کے دوران میں اُس نے خرگوش کے سفید نمدے کی کھال کے دستانے اپنے ایک ہاتھ پر چڑھا لئے تھے ۔
" لو بھئی ۔ خوب رہی ! " اُس نے سوچا " میرا ہاتھ اس دستانے میں کیونکر گھس گیا ۔ میں ضرور پھر سُکڑ رہی ہوں "۔
وہ اُٹھی اور اپنے قد کو میز کے ساتھ ماپنے کے لئے میز کے پاس گئی ۔ اُس نے دیکھا کہ جہاں تک وہ اندازہ لگا سکتی تھی وہ اب تقریباً دو فٹ اونچی رہ گئی تھی اور تیزی سے مزید سکڑتی جا رہی تھی ۔ اُس نے فوراً جان لیا کہ اس کا سبب وہ پنکھا تھا جسے وہ ہاتھ میں لئے ہوئے تھی ۔ اُس نے پنکھے کو پھینکنے میں دیر نہ کی اور یوں سمجھو عین وقت پر اپنے کو بالکل ہی پچک کر غائب ہو جانے سے بچا لیا ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
( گذشتہ سے پیوستہ )

" یہ تو میں بال بال بچی " ایلی اس اچانک تبدیلی پر بےحد سہم گئی تھی مگر ساتھ ہی خود کو " موجود " پا کر بےحد خوش بھی ہوئی ۔ " اور بھئی اب بھاگوں باغیچے میں " اُس نے کہا ۔ اور وہ سر پر پیر رکھ کر چھوٹے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی ۔ پر افسوس ! چھوٹا دروازہ پھر بند ہو چکا تھا اور ننھی سنہری چابی پہلے کی طرح شیشے کی میز پر دھری تھی ۔ غریب ایلی سوچنے لگی " اب تو معاملہ اور بھی چوپٹ ہو گیا ۔ کیونکہ اتنی چھوٹی تو میں پہلے کبھی نہیں تھی ۔ کبھی بھی نہیں ۔ اور میں اس بات کا اعلان کئے دیتی ہوں کہ یہ بہت ہی بُرا ہوا ہے "۔
یہ الفاظ کہتے وقت اس کے پاؤں جو پھسلے تو غڑاپ ! وہ تھوڑی دیر تک نمکین پانی میں تھی ۔ پہلے پہل وہ سمجھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح سمندر میں جا پڑی ہے ۔ " اگر میں سمندر میں جا پڑی ہوں " وہ اپنے آپ سے کہنے لگی " تو ایسی خاص فکر کی بات نہیں ۔ اس صورت میں میں ریل میں بیٹھ کر گھر واپس پہنچ سکتی ہوں "۔
ایلی اپنی زندکی میں فقط ایک دفعہ ساحلِ سمندر پر گئی تھی اور اس عام نتیجے پر پہنچی تھی کہ انگلستان کے ساحل پر جہاں بھی جاؤ وہاں کنارے کے ساتھ کچھ غسل کرنے کی مشینیں ضرور ہوتی ہیں ۔ اور لکڑی سے بنے پھاؤڑوں سے ریت کو کھودتے ہوئے چند بچے ۔۔ اور پھر رہنے کے مکانوں کی قطار اور ان کے پیچھے ریلوے اسٹیشن ۔ خیر اُس نے جلد ہی بھانپ لیا کہ وہ اُن آنسوؤں کے جوہڑ میں پڑی ہے جو اُس نے نو فٹ ہو جانے پر بڑی فراخدلی سے بہائے تھے ۔
" کاش میں اتنی زیادہ نہ روتی " ایلی نے جوہڑ میں سے نکلنے کی راہ پانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے کہا " میرا خیال ہے اب اپنے ہی آنسوؤں میں ڈوب مرنے کی سزا پاؤں گی ۔ ہوگی یقیناً یہ بڑی عجیب و غریب بات ! خیر ویسے آج تو ہر ایک بات عجیب ہی ہو رہی ہے "۔
اس وقت اس نے جوہڑ میں تھوڑی دور کسی چیز کی چھپ چھپ کی آواز سنی اور وہ اس کے قریب تیرتی ہوئی گئی کہ دیکھوں یہ ہے کیا ۔ پہلے تو اس کو خیال گزرا کہ یہ کوئی دریائی گھوڑا ہوگا ۔ مگر پھر اُسے یاد آ گیا کہ وہ تو پچک کر بہت چھوٹی سے رہ گئی تھی اور جلد ہی اُسے پتہ چل گیا کہ یہ تو محض ایک چوہا تھا جو اس کی طرح پھسل کر جوہڑ میں آن پڑا تھا ۔
" اب اس چوہے سے بات چیت کرنے کا کچھ فائدہ ہوگا ؟" ایلی نے سوچا " ہر ایک چیز یہاں نیچے اتنی اُلٹ پُلٹ ہے کہ میرے خیال میں شاید یہ بول سکتا ہوگا ۔ چلو ۔ اس سے بات کر کے دیکھنے میں تو کوئی ہرج نہیں " سو اُس نے آغاز کیا ۔
" میاں چوہے ! کیا آپ کو اس جوہڑ سے نکلنے کا راستہ معلوم ہے ۔ چوہے جی ! میں یہاں تیرتے تیرتے تھک کر چُور ہو گئی ہوں "۔
ایلی نے سوچا کہ چوہے سے بات کرنے کا یہ مناسب طریقہ ہے ۔ اُس نے پہلے ایسا کبھی نہیں کیا تھا ۔ مگر اُسے اپنے بھائی کی لاطینی گرائمر کی یہ گردان یاد آ گئی تھی ۔

ایک چوہا
چوہے کا
چوہے کو
ایک چوہا
او چوہے
چوہے نے اُسے ذرا شریر سی نظروں سے دیکھا ۔ ایلی کو یوں محسوس ہوا جیسے چوہے نے اُسے آنکھ ماری ہو ۔ لیکن اُس نے کہا کہوایا کچھ بھی نہیں۔
" شاید اسے انگریزی نہیں آتی " ایلی نے سوچا ۔" یقیناً یہ فرانسیسی چوہا ہے جو ولیم فاتح کے ساتھ انگلستان میں اترا ہے "۔
( تاریخ کی اتنی ساری معلومات کے باوجود ایلی کو کوئی واضح پتہ نہ تھا کہ کسی واقعے کو ہوئے کتنی مدت ہو چکی ہے ) اس لئے اُس نے اب چوہے پر فرانسیسی زبان آزمائی ۔ " واشت میا ۔ چٹال "۔ جو اس کی فرانسیسی پڑھائی کی کتاب کا پہلا پہلا فقرہ تھا ۔ چوہے نے پانی میں سے اچانک ایک جست لگائی اور ڈر کے مارے تھر تھر کانپنے لگا ۔
" او بھئی معافی چاہتی ہوں " ایلی جلدی سے چلائی ۔ وہ اس بات پر پریشان ہو گئی کہ شاید اُس نے بےچارے چوہے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے " میں بھول ہی گئی تھی کہ تمہیں بلیاں اچھی نہیں لگتیں "۔
" بلیاں اچھی نہیں لگتیں ! واہ رے واہ " چوہا جذباتی انداز میں مگر لرزتی آواز میں چلایا ۔ " یہ بتاؤ کہ اگر تم میری جگہ ہوتیں تو بلیاں تمہیں اچھی لگتیں ؟"۔
" ہاں شاید مجھے بھی اچھی نہ لگتیں " ایلی نے تسلی آمیز لہجے میں کہا " بھئی خفا مت ہو ۔۔۔ اور پھر میں چاہتی ہوں تم ہماری بلی ڈینا سے کبھی ملو۔ اگر تم اس کو دیکھ لو تو سچ مچ دنیا جہان کی سب بلیاں تمہیں اچھی لگنے لگیں ۔۔۔ ڈینا اتنی پیاری خاموش سی بلی ہے "۔
ایلی اسی طرح آرام سے جوہڑ میں تیرتے ہوئے آدھی خود کو اور آدھی چوہے کو مخاطب کرکے بولتی چلی گئی ۔ " اور چوہے ۔ ہماری ڈینا آگ کے پاس بڑی نفاست سے خرخراتی ہوئی بیٹھی رہتی ہے ۔ ہائے اپنے پنجے چاٹتی اور منہ دھوتی ہوئی بڑی ہی اچھی لگتی ہے ۔۔۔ اور وہ تھپکنے کے لئے اتنی گدری گدری ہے ۔۔۔۔ اور چوہے پکڑنے میں تو وہ اتنی مہارت رکھتی ہے ۔۔۔۔ اوہ بھئی مجھے معاف کرنا " ( وہ چوہے کو بھول گئی تھی ) " اوہ بھئی مجھے معاف کرنا "۔ ایلی پھر چلا اُٹھی ۔
اس بار چوہے کا بال بال کھڑا تھا ۔ اور ایلی کو یقین تھا کہ وہ بہت سخت ناراض ہو رہا ہوگا ۔
" اچھا اب ہم ڈینا کی بات نہیں کریں گے " ۔ ایلی نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا ۔ " اگر تمہیں پسند نہیں تو ۔۔۔"
" ہنہ ۔۔تم نے خوب کہا "۔ چوہا چیخا ۔ وہ اب اپنی دُم کی پھننگ تک لرز رہا تھا ۔ " جیسے میں اس موضوع پر بات کرنا پسند کروں گا ۔ ہمارے خاندان میں بلیوں کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ ابا ، امی ، چچے ، خالایئں ، پھوپھے، پھپھیاں سب کو بلیوں سے نفرت تھی ۔۔۔۔ آخ تھو ۔ کیا بدخو ، نیچ اور اوچھی مخلوق ہے ۔۔۔۔۔۔ بس ان کا نام دوبارہ نہ لینا "۔
" میں بالکل نہیں لوں گی "۔ ایلی گفتگو کے موضوع کو تبدیل کرنے کی خاطر بڑی جلدی جلدی بولی " کیا تم ۔۔ کیا تم ۔۔ کتوں کو پسند کرتے ہو " چوہے نے اس سوال کا جواب نہ دیا ۔ اس لیے ایلی نے بڑے اشتیاق سے اپنی بات جاری رکھی۔ " ہمارے گھر کے پاس ایک بڑا ہی پیارا چھوٹا کتا رہتا ہے ۔ تم چلو تو میں تمہاری اس سے ملاقات کراؤں ۔ تم جانو ۔ ایک چھوٹا ، چمکدار دیدوں والا، شریر اور بال اُس کے بھی خوب لمبے، گھونگھریالے اور بھورے بھی ۔ اور تم کوئی چیز مثلاً گیند وغیرہ پھینکو تو وہ اس کو اٹھا کر تمہارے پاؤں میں لا رکھے گا ۔ اور وہ اپنے کولھوں پر بیٹھ کر کھانا مانگے گا ۔ اور بھی اس کی بہت سی باتیں ہیں ۔ مجھ کو تو آدھی بھی یاد نہیں ۔ اور تم جانو وہ ایک کسان کا کتا ہے ۔ وہ اتنے کام کا ہے کہ ہزاروں روپے اس کی قیمت ہونی چاہیے ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ کتا سب چوہوں کا صفایا کر ڈالتا ہے ۔ اوہ ! یہ میں کیا کہہ گئی !"۔
" یہ میرے منہ سے کیا نکل گیا " ایلی ایک غضبناک لہجے میں چلائی ۔ " مجھے ڈر ہے کہ میں نے پھر چوہے کو ناراض کر دیا ہے "۔
( کیونکہ چوہا اس کے پاس سے تیرتا ہوا پرے جا رہا تھا اتنی تیز رفتاری سے جتنا اس کے لئے ممکن تھا ۔ اور جاتے ہوئے جوہڑ میں اچھی خاصی ہلچل مچا رہا تھا ) اس لئے اُس نے بڑی ملائمت سے اسے آواز دی " پیارے چوہے ۔ چوہے جی ۔ واپس آجاؤ ۔ اب ہم بلیوں اور کتوں ، کسی کے بارے میں بات نہیں کریں گے ۔ اگر تم ان کو پسند نہیں کرتے "۔
چوہے نے جو یہ سنا تو پلٹا اور آہستہ اہستہ اس کی طرف تیر کر آنے لگا ۔ اس کا چہرہ بالکل پیلا ہو رہا تھا ۔ ( شدتِ جذبات سے۔ ایلی نے سوچا ) اور اس نے ایک دھیمی اور کپکپاتی آواز میں کہا " آؤ ، ساحل کو چلیں اور پھر میں تمہیں اپنی آپ بیتی سناؤں گا ۔ اور تم سمجھ جاؤ گی کی میں بلیوں اور کتوں کو کیوں ناپسند کرتا ہوں "۔
اور اب وقت بھی تھا کہ یہاں سے چل دیا جائے کیونکہ جوہڑ ان پرندوں اور جانوروں سے جو اس میں آن گرتے تھے بھرتا جا رہا تھا ۔ اور اس میں بڑی بھیڑ ہونے لگی تھی ۔ ایک بطخے، ایک ڈوڈو، ایک لوری اور ایک عقابچے کے علاوہ اور بھی بہت سے عجیب و غریب جانور جوہڑ میں تیرتے پھرتے تھے۔
ایلی اس مجمع کے آگے آگے تیرتی ہوئی چلی اور اس کی رہنمائی میں یہ کل قافلہ سلامتی سے ساحل پر جا اُترا ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
(گذشتہ سےپیوستہ)

تیسرا باب
ایک بین الاقوامی دوڑ ۔ ایک لمبی کہانی
بلاشبہ یہ ٹولی جو ساحل پر جمع ہوئی بڑی عجیب طرح کی تھی لوتھڑے لٹکتے پروں والے پرندے ، ایسے جانور جن کی کھال گویا اُن کے بدن پر کسی تھی۔ اور یہ سب کے سب پانی سے شرابور ، بھیگے ، نُچے ، جلے بُھنے اور سخت بدحال ۔
پہلا مرحلہ اُن کو یہ درپیش تھا کہ پروں کو پونچھ پونچھ کر سکھایا کیونکر جائے ۔ اہلِ مجلس نے اول اس بارے میں باہم تبادلہء خیالات کیا ، اور چند ہی منٹوں میں ایلی کو اُن سے فرفر بےتکلفی سے باتیں کرنا بالکل قدرتی لگا ۔ جیسے وہ انہیں برسوں سے جانتی ہو ۔ خصوصاً اس کے اور لوری کے درمیان طویل گرما گرم بحث ہوئی ۔ آخر کار لوری روٹھ سا گیا اور صرف اتنا کہا " میں تم سے عمر میں بڑا ہوں ۔ اس لئے بہتر سمجھتا ہوں "۔ اور ایلی یہ جانے بغیر کہ لوری کی عمر کتنی ہے اس کی دلیل ماننے کے لئے تیار نہیں تھی ۔ کیونکہ لوری نے اپنی عمر بتانے سے قطعی انکار کر دیا ۔ اس کے ساتھ مزید بحث گرنا وقت ضائع کرنا تھا ۔
بالآخر چوہا جو ان کے درمیان بہت معتبر اور پردھان لگتا تھا ، پکارا " بھائیو سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاؤ اور میری سنو ۔ میں ابھی فٹافٹ تمہیں سکھا دوں گا "۔
وہ سب حلقہ ڈال کر بیٹھ گئے ۔ چوہے صاحب درمیان میں براجمان تھے ۔ ایلی نے کچھ تشویش سے اپنی نظریں اس پر جما رکھی تھیں ۔ کیونکہ اسے یہ فکر لاحق تھی کہ اگر اس کے کپڑے جلدی خشک نہ ہوئے تو وہ سردی سے سخت نزلہ زکام میں مبتلا ہو جائے گی ۔
" اہوں ! اہوں ! " چوہے نے اہم انداز میں کھنکھارتے ہوئے آغاز کیا ۔ " کیا آپ سب لوگ تیار ہیں ۔ اس سے بڑھ کر خشک چیز میرے علم میں اور کوئی نہیں ۔ بھائی آپ سب لوگ خاموش ہو جایئں ۔ شور بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ اہوں ! اہوں !۔ دلیم فاتح جس کو آپ سب جانتے ہیں اس کے ملک کو پاپائے روم کی حمایت حاصل تھی ۔ پاپائے روم کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ۔ خیر اس ولیم فاتح نے جلد ہی انگریزوں پر دھونس جما لی اور یہ کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ انگریزوں کو لیڈروں کی ضرورت تھی کیونکہ وہ شکست کھانے اور مغلوب ہونے کے عادی ہو چکے تھے اور فاتح اشخاص کا شاندار استقبال کرتے تھے ۔ اہوں ! اہوں ! کیا کہہ رہا تھا میں ! انگریزوں کی طرح تم سب کو بھی لیڈروں کی ضرورت ہے ۔ ان کے بغیر دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اہوں ! تو اس لئے ولیم فاتح نے انگلستان کو فتح کر لیا ۔ ایڈون اور مورکار جو مرشیا اور نارتھمبر کے نواب تھے ۔"
" ا غ ۔۔ت۔۔ " لوری نے تھراتے ہوئے کہا ۔
" معاف کیجیے گا " چوہے نے ناک چڑھاتے ہوئے مگر نہایت شائستگی سے کہا ۔ " یہ آپ کچھ بولے تھے؟"
" نہیں میں تو نہیں " لوری نے پٹاخ سے جواب دیا ۔
"میں نے سمجھا آپ بولے تھے " چوہے نے کہا ۔" خیر میں اپنی بات جاری رکھتا ہوں ۔ ایڈون اور مورکار جو مرشیا اور نارتھمبر کے نواب تھے ان دونوں نے ولیم کو بادشاہ تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ بلکہ کینٹربری کا محبِ وطن لاٹ پادری ۔۔۔ میرا خیال ہے اس کا نام سٹی گینڈ یا گینڈ سٹی تھا اس نے بھی خیریت اس میں دیکھی ۔"
" کیا دیکھی ؟" بطخے کہا ۔
"اس میں دیکھی " چوہے نے قدرے برہم ہو کر جواب دیا ۔ " یقیناً تم ' اس میں' کا مطلب تو سمجھتے ہو ۔"
" اس کے معنی مجھے بخوبی معلوم ہیں " بطخے نے کہا " جب میں کوئی کام کی چیز دیکھتا ہوں تو یہ " اس " بالعموم ایک مینڈک یا ایک کیڑا ہوتا ہے ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ لاٹ پادری نے کیا چیز دیکھی ۔"
چوہے نے اس سوال کو نظرانداز کر دیا ۔ اور جلدی سے بات کو آگے بڑھانے کی کی ۔ " خیریت اس میں دیکھی کہ ایڈگر ایتھلنگ کے ساتھ مل کر ولیم کے استقبال کو جائے اور تاج اس کے سر پر رکھے۔ مگر اس کے جو نارمن فوجی تھے ان کے گستاخانہ رویئے نے ۔۔۔ کیوں ۔۔میری پیاری ! اب تمھارا کیا حال ہے ؟" چوہے نے یکلخت ایلی کی طرف مڑ کر پوچھا ۔
" اتنی ہی بھیگی ہوئی ہوں جتنی پہلے تھی " ایلی ایک نڈھال غمناک لہجے میں بولی ۔ " اس تقریر سے تو میرے کپڑے ذرہ بھر بھی نہیں سوکھے ۔"
" اس صورتحال میں " ڈو ڈو نے کمال سنجیدگی اور وقار سے کہا ۔" میں اس اسمبلی کے سامنے یہ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ بہتر ہوگا اجلاس کو فی الفور ملتوی کر دیا جائے تاکہ زیادہ کارگر اور مئوثر تجاویز پر عمل درآمد ہو سکے "۔
" اہوں ! انگریزی میں بولو " عقابچے نے کہا ۔ " مجھے تو ان لمبے لمبے الفاظ میں سے آدھے لفظوں کے معنی بھی نہیں آتے ۔اور مجھے یقین ہے کہ خود تمہیں بھی نہیں آتے ہوں گے ۔"
اور عقابچے نے یہ کہہ کر اپنی ہنسی چھپانے کی خاطر سر نیچے کر لیا ۔چند دوسرے پرندے بھی اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے ۔
" میں یہ تجویز پیش کرنے والا تھا " ڈوڈو نے رنجیدہ لہجے میں کہا ۔ " کہ اپنے آپ کو خشک کرنے کے لئے یعنی سکھانے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مقابلے کی ' کاکوس ' دوڑ لگائی جائے "۔
" یہ کاکوس دوڑ ہوتی کیا ہے ؟" ایلی نے پوچھا ۔ یہ بات نہ تھی کہ ایلی یہ جاننا چاہتی تھی۔ مگر ڈوڈو بات کرتے ہوئے کچھ ایسے انداز میں رُک گیا تھا جیسے اس کو خیال ہو کہ کسی کو کوئی بات پوچھنی چاہیئے ۔ اور دوسرا کوئی بھی سوال کرنے پر آمادہ نہ تھا ۔
"اس سوال کی میں توقع کر رہا تھا "۔ ڈوڈو بولا ۔" اسے سمجھانے کا بہترین طریقہ اس کو کر کے دکھانا ہے ۔"
( اور شاید تم بھی کسی سردی کے دن یہ کاکوس دوڑ دوڑنا چاہو ۔ اس لئے سن لو کہ ڈوڈو نے کیسے اس کا انتظام کیا ۔)
پہلے ڈوڈو نے دائرے کی صورت میں ایک دوڑ کے میدان کا نقشہ کھینچا ۔ ( اس نے کہا کہ دائرہ پورا پورا گول نہ بھی بن سکے تو کوئی بات نہیں )۔ پھر ساری ٹولی کے پرندے اور جانور کوئی یہاں کوئی وہاں اس میدان میں کھڑے کر دیئے گئے ۔ اس دوڑ میں " ایک ، دو ، تین ، بھاگو " نہیں ہوا ۔ کاگوس معنی بین الاقوامی دوڑ میں ایک دو تین والی بات نہیں تھی ۔ دوڑنے والے جب ان کا دل کہتا دوڑنے لگتے ۔ جب مرضی نہ ہوتی دوڑ چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے یا بیٹھ جاتے ۔ اس لئے یہ کہنا مشکل تھا کہ یہ دوڑ کب ختم ہوئی ۔ خیر جب وہ تقریباً آدھ گھنٹے تک دوڑ چکے اور ان کی گیلی کھالیں اور پر سوکھ ساکھ گئے تو ڈوڈو نے ہانک لگائی " یارو اب دوڑ ختم ہو چکی ہے "۔ بےدم اور ہانپتے ہوئے وہ ڈوڈو کے گرد اکھٹے ہو گئے اور پوچھنے لگے " میاں ڈوڈو یہ تو بتاؤ دوڑ جیتا کون ؟ "
ظاہر ہے کہ ڈوڈو بہت سوچ بچار کے بغیر اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھا ۔ اس لئے وہ انگلی ماتھے پر رکھے بڑی دیر تک غور و فکر کرتا رہا ، اسی طرح کی محویت میں جس میں تم بالعموم شیکسپئیر یا اقبال کو ان کی تصویروں میں دیکھتے ہو ! اس عرصے میں سب لوگ خاموشی سے منتظر رہے ۔ آخر ڈوڈو نے مراقبے سے چونک کر کہا " ہر کوئی جیتا ہےاور سب کو انعامات تقسیم ہوں گے ۔"
" لیکن انعامات کون دے گا ؟ " بہت سی ملی جلی آوازیں ایک ساتھ آیئں ۔
" یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے " ڈوڈو نے انگلی سے ایلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔" یہ لڑکی ۔۔ اور کون "!
اس پر ساری ٹولی نے ایلی کو گھیر لیا اور گڑبڑاتی ہوئی آوازیں آیئں " انعامات ! انعامات ! " ( جاری ہے )
 
(گزشتہ سے پیوستہ)

ایلی بےچاری کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کرے تو کیا کرے ۔ ہار کر اُس نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا اور چینی چڑھی مونگ پھلی کا ایک ڈبہ نکالا ۔ ( خوش قسمتی سے نمک کا پانی اس میں نہیں گیا تھا ) وہ چینی چڑھی مونگ پھلیوں کو انعامات کے طور پر تقسیم کرنے لگی ۔ شکر ہے یہ ڈبہ اس کی جیب میں تھا ورنہ بڑی مصیبت ہوتی ۔ ہر ایک پرندے اور جانور کے حصے میں ایک ایک ڈلی آ گئی ۔ انعامات کی تقسیم کے بعد ڈبے میں کچھ نہ بچا ۔
" لیکن اس کو خود بھی ایک انعام ملنا چاہیئے " چوہے نے کہا ۔
" ہاں ۔ ضرور !" ڈوڈو نے بڑی متانت سے کہا " تمہاری جیب میں اور کیا کچھ ہے "؟ ڈوڈو نے ایلی کی طرف متوجہ ہو کر اپنی بات جاری رکھی۔
" بس ۔ ایک انگشتانہ ہے " ایلی حسرت سے بولی ۔
" انگشتانہ ۔ کبھی یہ لفظ نہیں سنا " ڈوڈو نے کہا ۔ " انگشتانہ ! خوب ۔ لاؤ اسے ادھر دو "۔
وہ سب ایک بار پھر اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور ڈوڈو نے بڑے وقار سے انگشتانہ اُس کی خدمت میں پیش کیا ۔ ڈوڈو نے اس موقعے پر یہ الفاظ کہے ۔ " ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے اس حقیر تحفے ۔ اس نفیس انگشتانے کو شرفِ قبولیت بخشیں "۔ ( ڈوڈو کو بھاری بھرکم ۔ مشکل الفاظ بولنے کا بڑا شوق تھا ! ) جب ڈوڈو اپنی مختصر ، اگرچہ دھوم دھام والی ، تقریر ختم کر چکا تو سب نے تالیاں بجایئں ۔
ایلی کو یہ سارا قصہ بڑا اوٹ پٹانگ اور مضحکہ خیز لگا ۔ لیکن وہ سب اتنے متین اور سنجیدہ چہرے بنائے ہوئے تھے کہ اُسے ہنسنے کی جراءت نہ ہوئی ۔ اور چونکہ اسے اس موقعے پر کہنے کے لئے کچھ نہ سوجھا ( حالانکہ ایسے موقعے پر کچھ نہ کچھ ضرور کہنا چاہیئے ) اس نے بہت ادب سے جُھک کر اور اتنی سنجیدہ ہو کر جتنی وہ ہو سکتی تھی انگشتانہ لے لیا ۔
اب دوسرا مسئلہ چینی چڑھی مونگ پھلیوں کے کھانے کا تھا ۔ اس میں کافی شور شرابا اور گڑبڑ مچی ۔ بڑے پرندوں کو شکایت تھی کہ وہ اپنی مونگ پھلیاں چکھ نہیں سکتے اور چھوٹے پرندے مونگ پھلیاں نگلنے کی کوشش میں ان کو اپنے حلق میں پھنسا بیٹھے اور ان کو پیٹھ پر تھپکنا پڑا تاکہ پھنسی ہوئی چیز حلق سے نیچے اتر جائے ۔ جوں توں کرکے یہ قصہ بھی ختم ہوا اور وہ ایک حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے ۔ چوہے سے درخواست کی گئی کہ وہ ان کو اپنی معلومات سے مزید فائدہ پہنچائے ۔
" تم جانو ! چوہے جی " ایلی بولی " تم نے مجھ سے اپنی آپ بیتی کہنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اور یہ بھی کہ تم ' ب ' اور ' ک ' کو کیوں ناپسند کرتے ہو " اس نے یہ آخری فقرہ زیر ِ لب اور سرگوشی میں کہا ۔ وہ کچھ کچھ ڈرتی تھی کہ چوہا پھر نہ برا مان جائے ۔
" میری ایک لمبی اور الم ناک کہانی (دم) ہے۔ " چوہا ایلی کی طرف مڑتے ہوئے اور آہ بھرتے ہوئے گویا ہوا ۔
" یہ یقیناً ایک لمبی ٹیل ( دم ) ہے " ایلی نے چوہے کی دم کو حیرت اور شوق سے تکتے ہوئے جواب دیا ۔ " لیکن تم اسے الم ناک کس لئے کہتے ہو ۔ یقیناً اس کا تمہاری ناک سے کوئی تعلق نہیں ۔"
چوہے کی داستان گوئی کے دوران وہ اس بارے میں بڑی حیران ہوتی رہی ۔ اس لئے چوہے کی کہانی کے متعلق اس کا جو خیال بندھا وہ کچھ اس طرح تھا ۔

" ڈبو کتے نے چوہے سے کہا
جو اس کو گھر آتا ملا
آؤ ہم دونوں
چلیں ہائی کورٹ
میں کرتا ہوں تمہارے خلاف
رٹ پٹیشن دائر
انکار جو کرو گے تم
میں نہیں مانوں گا
پیشی ہوگی ضرور
مقدمہ چلے گا ضرور
تم مانو یا نہ مانو
اصل بات ہے جو پوچھو
تو وہ ہے یوں
کہ آج کام نہیں ہے مجھ کو کوئی
چوہے بولا کتورے سے
اے کتورے ڈبو
ایسی پیشی ۔ ایسا مقدمہ
جس میں کوئی وکیل نہ ہو
نہ ہو جیوری ، نہ کوئی جج
اس میں بےکار وقت گنوایا
مفت کی بخ بخ ہف ہف کرنا
بات کرو کوئی اور پیارے
کتا بولا میں ہوں گا جج
میں جیوری اور میں وکیل
رٹ پٹیشن سنوں گا میں ہی
اور سولی کا حکم سناؤں گا "
" تم میری بات کو دھیان تو دے ہی نہیں رہیں " چوہے نے درشتی سے ایلی سے کہا ۔ " تم کیا سوچ رہی ہو ؟"
" چوہے جی مجھے معاف کرنا بھئی " ایلی بےحد عاجزی سے بولی ۔ " میرا خیال ہے تم پانچویں موڑ تک پہنچ چکے ہو "
" نہیں ۔ میں نہیں پہنچا ۔چوہا بڑی تیزی اور خفگی سے چلایا ۔
" پائنچا ! " ایلی نے کہا ۔ " شلواروں اور پتلونوں کے پائنچے ہوتے ہیں ۔ تم نے پتلون تو کوئی پہن نہیں رکھی ۔" ایلی نے بےتابی سے ادھر ادھر دیکھا " تمہارے کوئی پتلون ہو اور اس کا پائینچا پھٹا ہوا ہو تو میں اس کی مرمت کر دوں گی !"
" میں اس قسم کی کوئی بات نہیں کروں گا ۔" چوہے نے اُٹھتے اور چلتے ہوئے کہا ۔ " ایسی احمقانہ، اوٹ پٹانگ باتوں سے تم میری توہین کر رہی ہو ۔ میں توہین برداشت نہیں کر سکتا ۔"
" میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔ تمہاری تو ۔ تو۔ ہی ۔ ن کرنا ۔" غریب ایلی نے منت کی ۔" چوہے جی ۔ تم جانو ۔ تم چھوٹی چھوٹی بات پر فوراً ناراض ہو جاتے ہو ۔"
چوہا جواب میں صرف خرخرایا ۔
" چوہے جی ۔ لوٹ آؤ ۔ اور اپنی کہانی تو ختم کرتے جاؤ " ایلی نے چوہے کے پیچھے آواز دی اور ٹولی کے دوسرے افراد بھی ایک ساتھ پکارے ۔" چوہے صاحب ۔ بھئی آجاؤ ۔ غصہ تھوک دو ۔"
مگر چوہا نہ مانا ۔ اس نے بےصبری سے سر کو جھٹکا ۔ اور زیادہ تیزی سے چلنے لگا ۔
" کتنے افسوس کا مقام ہے کہ یہ ہمارے پاس ٹھہرا نہیں ۔" لوری نے چوہے کے نظروں سے بالکل اوجھل ہوتے ہی اپنی رائے کا اظہار کیا اور ایک بوڑھی کیکڑی نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بیٹی کو نصیحت کی ۔" دیکھا ۔ میری پیاری ننھی ۔ اس سے تم کو سبق سیکھنا چاہیئے کہ غصہ کرنا بڑی بری چیز ہے ۔"
"اری ماں ۔" چھوٹی کیکڑی نے قدرے جھنجھلا کر جواب دیا ۔" تم تو خواہ مخواہ میرے پیچھے پڑی رہتی ہو ۔ چپ ہی رہا کرو تو بہتر ہے ۔ ٹھیک کہتے ہیں ۔ بڑھاپے میں مت ماری جاتی ہے ۔ تم تو کتورا مچھلی کے صبر آزمانے کے لئے ہی کافی ہو ۔"
" کاش ہماری ڈینا یہاں ہوتی ۔" ایلی نے خاص طور سے کسی سے مخاطب ہوئے بغیر بلند آواز سے کہا ۔ " ڈینا ہوتی تو ابھی اس چوہے کو لوٹا لاتی ۔"
" اور اگر یہ جسارت پر محمول نہ ہو ۔" لوری بولا ۔ " تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ ڈینا ہے کون ؟"
ایلی نے بڑے بےتابانہ اشتیاق سے جواب دیا ۔ ( کیونکہ وہ اپنی پالتو بلی کے بارے میں باتیں کرنے کو ہمیشہ تیار ہوتی تھی ) " ڈینا ہماری بلی ہے ۔۔۔ اور وہ چوہے پکڑنے میں اتنی طاق ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔۔ اور میں چاہتی ہوں کبھی تم اسے پرندوں کی گھات میں دیکھ سکو ۔ اس نے ایک چھوٹا پرندہ دیکھا نہیں اور چٹم !"
اس تقریر نے اس ٹولی میں اچھی خاصی سنسنی پیدا کردی ۔ کچھ پرندے تو فی الفور وہاں سے کھسک گئے ۔ ایک بوڑھی مینا تو اپنی شال کو احتیاط سے اپنے جسم پر لپیٹتی ہوئی بولی " مجھے تو اب گھر چلنا چاہیئے ۔ رات کی ہوا میرے گلے کے لئے زہر ہے !" اور لرزتی ہوئی آواز میں اپنے بچوں کو پکارا ۔ " چلو میرے ننھو ۔ منو ۔ اب تک تو تم کو اپنے بستروں میں ہونا چاہیئے تھا ۔" اس طرح کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرکے سب پرندے اور جانور ایک ایک کرکے چلتے بنے اور جلد ہی ایلی تنہا رہ گئی ۔
" میں ڈینا کا ذکر نہ ہی چھیڑتی تو بہتر تھا ۔ " اس نے اپنے آپ سے غمگین لہجے میں کہا ۔ یہاں نیچے کسی کو بھی وہ اچھی نہیں لگتی ۔ اور مجھ کو یقین ہے کہ اس سے پیاری بلی دنیا بھر میں اور ہو ہی نہیں سکتی ۔اوہ ۔ میری پیاری ڈینا ۔ سوچتی ہوں پھر کبھی تمہاری پیاری صورت دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں ۔"
اور یہاں غریب ایلی پھر رونے لگی کیونکہ وہ بڑی اکیلی اور بجھی ہوئی محسوس کر رہی تھی ۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر کچھ فاصلے پر قدموں کی ننھی تھپ تھپ کی آواز سنی اور اس نے اشتیاق سے اوپر نظر کی ۔ اسے کچھ کچھ امید تھی کہ شاید چوہے نے اپنا ارادہ بدل دیا ہو اور اپنی کہانی کو ختم کرنے کے لئے واپس آرہا ہو ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
(گزشتہ سے پیوستہ )

چوتھا باب
خرگوش ایک چھوٹا سا بِل بھجواتا ہے
یہ سفید خرگوش تھا اور وہ اپنی دُلکی چال چلتا ہوا پھر واپس آ رہا تھا ۔ چلتے چلتے وہ بےچین نظروں سے اِدھر اُدھر تکتا جاتا تھا جیسے اُس کی کوئی چیز کھو گئی ہو اور وہ اُسے ڈھونڈتا ہو ۔ ایلی نے اُسے آپ ہی آپ بڑبڑاتے سنا " ہو ! نوابزادی ہا ! نوابزادی ! اُف میرے پیارے پنجے ! اُف میری پشم اور مونچھیں ! جیسے گاجریں یا نیولے ، گاجریں اور نیولے ہی ہوتے ہیں ویسے ہی یہ بھی یقین ہے کہ نوابزادی میری گردن مروادے گی ۔ اب میں اُن کو کہاں گرا بیٹھا ؟"
ایلی ایک لمحے میں بھانپ گئی کہ وہ پنکھے اور سفید نمدے کی کھال کے دستانوں کو ڈھونڈ رہا ہے اور بڑی خوش دلی سے خود بھی اس کی تلاش میں اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگی ۔ مگر وہ کہیں بھی تو دکھائی نہ دیتے تھے ۔ جوہڑ کی تیراکی کے بعد سے سارا نقشہ ہی دوسرا تھا اور سب کچھ بدل چکا تھا ۔ ہال کمرہ اپنے بلوریں میز اور چھوٹے دروازے سمیت مکمل طور پر غائب ہو گیا تھا ۔
جلد ہی خرگوش کی نظر ایلی پر پڑی جو ابھی تک کھوئے ہوئے پنکھے اور دستانوں کے جوڑے کی تلاش میں کونے کھدرے چھان رہی تھی ۔
اُس نے اُسے ایک غصیلے لہجے میں آواز دی ۔ : اری ۔ خالہ رضیہ ! تو یہاں کیا کرتی پھر رہی ہے ۔ ابھی ابھی گھر جا اور مجھے ایک دستانے کا جوڑا اور ایک پنکھا لا دے ۔۔۔۔ بس پھرتی دکھا ۔ فٹا فٹ ! فٹا فٹ "۔
اور ایلی اتنی ڈری کہ خرگوش کی غلط فہمی دور کرنے کی بجائے فی الفور اس سمت میں جس میں خرگوش نے اشارہ کیا تھا بھاگ کھڑی ہوئی ۔ وہ اُسے یہ بھی نہ کہہ سکی کہ " میاں جی ! دیدوں کا علاج کراؤ ۔ میں تو ایلی ہوں "ِ
" وہ مجھے اپنے گھر کی خادمہ خالہ رضیہ سمجھے بیٹھا ہے " ایلی بھاگتے بھاگتے خود سے کہنے لگی ۔ " جب اُسے پتہ چلے گا کہ میں کون ہوں تو وہ بڑا حیران ہو گا لیکن بہتر یہی ہے کہ میں اُس کا پنکھا اور دستانوں کا جوڑا اُسے لا ہی دوں ۔۔۔ بشرطیکہ وہ مجھے مل جائیں "۔
وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ ایک صاف ستھرے چھوٹے مکان پر آ پہنچی جس کے دروازے پر ایک چمک دار پیتل کی تختی ٹنگی تھی ۔ اس پر " ڈبلیو خرگوش صاحب " یعنی خرگوش کا نام لکھا تھا ۔وہ دستک دیئے بغیر اندر داخل ہو گئی اور تیزی سے زینہ پھلانگنے لگی ۔ دل میں ڈر بھی رہی تھی کہ اگر اصل خالہ رضیہ سے مڈھ بھیڑ ہو گئی تو کہیں وہ پنکھے اور دستانوں کو لےت بغیر ہی گھر سے کھڑی کھڑی نکال ہی نہ سی جائے ۔ اور جو خالہ رضیہ جھاڑو اُٹھا اُس کے پیچھے دوڑ پڑی تو !
" کیا عجیب و غریب سی بات ہے "۔ ایلی نے خود سے کہا ۔ " کہ میں ایک خرگوش کے کام کاج پر دوڑی پھرتی ہوں ۔۔۔ کل کو شاید ڈینا بھی مجھے اپنے کاموں پر بھیجا کرے ( اری ایلی ! پرچ میں دودھ تو ڈال دے ۔ جا ری ایلی ۔ باغ میں دیکھ کر آ ۔ کوئی چوہا یا پرندہ وغیرہ ہے ۔ ۔۔ اری ایلی ۔ یہ میرے ناخن تو ذرا پالش کردے اور ہاں قینچی بھی لیتی آنا ۔ مونچھوں کی تراش خراش کو ایک مہینہ تو ہو چکا !)
اور ایلی ان باتوں کا تصور کرنے لگی ۔ جو اس صورت میں اس کے ساتھ گزریں گی ۔ اس کی آیا اسے کہے گی " مس ایلی ! فوراً یہاں آؤ ۔ اور اپنی سیر کے لئے تیار ہو جاؤ '۔ وہ جواب دے گی " آیا ابھی آتی ہوں ۔ لیکن مجھے ڈینا کی واپسی تک اس چوہے کے بِل کا خیال کرنا ہے کہ کہیں چوہا اس میں سے نکل کر کہیں اور نہ چلتا بنے "۔ " ہاں میرا یہ خیال نہیں " ایلی سوچتی گئی " کہ اگر ڈینا اس طرح لوگوں پر حکم چلانے لگے تو کوئی اسے پل بھر بھی گھر میں رہنے دے گا ؟"
اس عرصے میں اُس نے ایک صاف ستھرے چھوٹے کمرے کی راہ پا لی جس میں دریچے کے پاس ایک میز رکھی تھی اور اس پر ( جیسا کہ وہ توقع کر رہی تھی ) ایک پنکھا اور ننھے سپید نمدے کی کھال کے دستانوں کے تین چار جوزے دھرے تھے ۔ اُس نے پنکھا اور ایک دستانوں کا جوڑا اٹھایا اور کمرے سے جانے ہی کو تھی کہ اُس کی نظر ایک چھوٹی بوتل پر جا پڑی جو آئینے کے قریب ہی رکھی تھی ۔ اس دفعہ " مجھ کو پی لو " کا لیبل ویبل تو کچھ تھا نہیں پھر بھی چٹوری ایلی نے بوتل کا ڈاٹ کھول کر اس کو منہ سے لگا لیا ۔
ایلی نے کہا " جب بھی میں کوئی چیز کھاتی یا پیتی ہوں تو کوئی دلچسپ چیز ضرور ہو کے رہتی ہے ۔ اس لئے دیلھوں تو بھلا اس بوتل سے کیا ہوتا ہے ! اُمید تو یہ ہے کہ اس سے میں پھر بڑی ہو جاؤں گی ۔ کیونکہ واقعی میں اتنی ننھی منی ہونے سے بیزار ہو چلی ہوں "۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )

بوتل میں سے پینے سے ہوا یہی کچھ اور اس سے بھی جلدی جتنی اُسے اُمید تھی ۔ ابھی اُس نے بمشکل آدھی بوتل ہی پی ہوگی کہ اُس نے دیکھا کہ اُس کا سر چھت سے جا لگا ہے اور دبتا جاتا ہے ۔ اُسے اپنی گردن کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے دوہری ہونا پڑا ۔اُس نے فوراً بوتل دھرنے کی کی اور خود سے کہنے لگی " بس ۔ یہ کافی ہے ۔ مجھے اُمید ہے کہ میں اس سے زیادہ نہیں بڑھنے پاؤں گی ۔اور اب بھی میں دروازے میں سے نہیں نکل سکتی ۔ ۔ ہائے ۔ کاش میں اتنا بہت سا نہ پی لیتی "۔
افسوس ! اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گیئں کھیت ۔ نصف بوتل پینے سے پہلے ایلی یوں سوچتی تو کوئی بات بھی تھی ۔ وہ بڑھتی اور بڑھتی چلی گئی ۔ اور جلد ہی اُسے فرش پر گھٹنوں کے بل ہو کر دبکنا پڑا ۔ ایک منٹ اور گزرا اور اب دیکھنے کی جگہ بھی نہ رہی ۔ اُس نے دروازے کے ساتھ کہنی ٹکا کر اور دوسرے بازو کو سر کے گرد حمائل کرکے لیٹ کر بھی دیکھا کہ شاید اس سے کوئی فرق پڑے ۔ لیکن توبہ ! وہ بڑھتی ہی چلی گئی ۔ آخری جتن اس نے یہ کیا کہ ایک بازو کو دریچے میں سے باہر نکال دیا ۔ ایک پاؤں کو چمنی میں گھسیڑا ۔ پھر وہ خود سے کہنے لگی ۔ " اب جو ہو سو ہو ۔ اس سے زیادہ تو میں کچھ کر نہیں سکتی ۔۔۔ ہائے میرا بنے گا کیا ؟"۔
ایلی کی خوش قسمتی سمجھو کہ چھوٹی جادو کی بوتل کا جتنا اثر ہو سکتا تھا وہ پورا ہو چکا تھا ۔اور وہ زیادہ بڑی نہ ہوئی ۔ پھر بھی وہ تھی بڑی بےآرام اور مشکل میں اور چونکہ اس کمرے میں سے کبھی بھی نکل سکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ۔ وہ ناخوش نہ ہوتی تو کیا ہوتی ۔
" بھئی گھر میں تو اس سے کہیں اچھا تھا ۔" غریب ایلی سوچنے لگی " کم از کم وہاں آدمی بڑھتا ، سکڑتا تو نہیں رہتا تھا ۔ نہ ہی وہاں چوہے اور خرگوش یوں حکم چلاتے اور کام پر بھیجتے تھے ۔ ۔۔ کاش میں اس خرگوش کے بھٹ میں نہ پھلانگتی اور ۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔۔ تم جانو ۔ اس قسم کی زندگی ہے عجیب و غریب ۔ سوچوں تو یہ میرے ساتھ ہو کیا ہے ۔۔۔ اب جب میں پریوں جنوں کی کہانیاں پڑھا کرتی تھی ۔ میں سوچا کرتی کہ اس قسم کی باتیں تو کبھی سچ مچ نہیں ہوتیں ۔ ۔۔ اور اب یہاں میں خود ایک پریوں کی کہانی کے بیچوں بیچ آن پہنچی ہوں ۔۔۔ میرے متعلق بھی تو کوئی کتاب ، کہانی لکھی جانی چاہیئے ۔ کسی کو لکھنا چاہیئے ۔ ضرور ! ۔۔۔ اور جب میں بڑی ہوں گی میں ضرور ایک کتاب لکھوں گی ۔ ۔۔۔ لیکن اس وقت بھی تو میں کافی بڑی ہو چلی ہوں" وہ ایک غمگین سی آواز میں بولتی گئی ۔ " کم از کم یہاں تو مجھ کو اس سے زیادہ اور بڑی ہونے کی کوئی گنجائش تو نظر آتی نہیں !"
" لیکن پھر یہ بھی تو ہے " ایلی سوچنے لگی ۔ " اتنی عمر جتنی میری اب ہے کیا یہ اتنی ہی رہے گی ۔اور اس سے زیادہ نہیں ہوگی ! ایک طرح سے تو یہ بڑا آرام ہے کہ میں کبھی بوڑھی نہ ہوں ۔۔۔ مگر پھر ہر وقت یہ سبق یاد کرنے کی مصیبت ! ۔۔۔۔"
" اری گاؤدی ، احمق ایلی " اُس نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا ۔ " یہاں بھلا کون تمہیں سبق یاد کرنے کو کہے گا ۔ یا حساب ، جغرافیہ پڑھانے آ بیٹھے گا ۔ یہاں تم خود ہی مشکل سے سمائی ہو ۔ کتابوں کاپیوں کی جگہ بھلا کہاں سے آئے گی ۔" اور اس طرح وہ بولتی چلی گئی ۔ خود ہی سوال کرتی اور پھر دوسری ایلی بن کر اس کا جواب دیتی۔ اور یہ گفتگو اچھی خاصی ہوتی چلی جا رہی تھی کہ اتنے میں اُس نے باہر کوئی آواز سنی اور بولنا چھوڑ کر اس پر کان دھرے ۔
" خالہ رضیہ ۔ خالہ رضیہ ۔" آواز آئی ۔ "بس اسی لمحے میرے دستانے لادو فٹاٍ فٹ !" پھر زینے میں پاؤں کی تھپ تھپ سنائی دی ۔ ایلی جان گئی کہ خرگوش اس کی تلاش میں آ رہا ہے اور وہ کانپنے لگی ۔ اور اتنا کانپی کہ گھر ہلنے لگا ۔یہ تو وہ بھول ہی گئی تھی کہ وہ اب خرگوش سے ہزار گنا بڑی تھی ۔ اور اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہ تھی ۔
آخر خرگوش دروازے پر آ پہنچا اور اُسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا ۔ دروازہ اندر کی طرف جو کھلا تو آگے ایلی کی کہنی زور سے اس کے ساتھ دبی تھی اس لئے خرگوش کی کوشش نتیجہ خیز نہ ہوئی ۔ ایلی نے اسے خود سے یہ کہتے سنا " چلو ۔ میں مکان کا چکر کاٹ کر دریچے میں سے اندر پھلانگتا ہوں"۔
" یہ تو تم سے ہوگا نہیں ۔ میاں خرگوش !" ایلی نے سوچا ۔ اُس نے کچھ انتظار کیا اور جب اُسے دریچے کے نیچے خرگوش کی آواز آئی اُس نے اچانک ہاتھ کی انگلیوں کو پھیلایا ، ہوا میں جھپٹا سا مارا ۔ ہاتھ میں تو کوئی چیز نہ آئی البتہ اس نے ایک ہلکی سی چیخ اور گرنے کی آواز سنی ۔ اس کے ساتھ ہی شیشے ٹوٹنے پھوٹنے کی چھنک بھی ۔ جس سے ایلی نے یہ نتیجہ نکالا کہ غالباً خرگوش کھیروں کے شیشے کے صندوق یا کسی ایسی ہی چیز پر جا اترا ہے ۔
اس کے بعد ایک غصیلی آواز آئی ، بلا شبہ خرگوش کی ۔
" پیٹ ! پیٹ ۔ تم کہاں مر گئے ہو "۔
اور پھر جواب میں ایک اور آواز آئی جو ایلی نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی ۔
" میں یہاں رہا حضور ۔ سیب کے لئے زمین کھود رہا ہوں ۔"
" سیب کے لئے زمین کھودنے کے بچے ۔" خرگوش نے غصے ہو کر کہا ۔ " چلو ۔ اِدھر آؤ ۔ اور مجھے اس میں سے نکالو ۔" ( شیشے کی مزید کرچ کرچ !)
" اب پیٹ ۔ مجھے یہ بتاؤ کہ کھڑکی میں یہ کیا لٹکا ہے "۔
" حضورِ والا ۔ یہ مجھ کو تو بازو دِکھتا ہے ۔ ( اس نے اسے با آآزو کہا )
" ابے ۔ الو کی دُم ۔ ۔۔ باآآزو ۔۔ بازو کبھی اتنا بڑا بھی ہوا ہے ۔ اس نے تو ساری کھڑکی کو بھر رکھا ہے ۔"
" حضورِ والا ۔ بھر تو رکھا ہے ۔ آپ کا کہنا سر آنکھوں پر ۔لیکن حضورِ والا ۔گستاخی معاف ۔ یہ ہے کسی کا بازو ہی "۔
" ہوں ! خیر اس کا یہاں کوئی کام نہیں ۔ چلو جاؤ اور اسے اُتار پھینکو "۔
اس کے بعد کافی دیر تک خموشی رہی ۔ ایلی کے کانوں میں کبھی کبھار سرگوشیوں کی بھنک آ پڑتی ۔ مثلاً اس قسم کی ۔ " جی۔ حضورِ والا ۔ مجھے یہ کام کوئی جچ نہیں رہا " ۔ " ابے کدو کہیں کے ۔ میں تم سے جو کہتا ہوں وہ کرو "۔ آخر ایلی نے پھر ہاتھ پھیلا کر ہوا میں جھپٹا مارا ۔ اس پر دو ننھی سی چیخیں آیئں اور ساتھ ہی شیشے کے چٹخنے کی جھنکار ۔
ایلی نے سوچا " یہ کھیرے کے شیشے کے صندوق تو بہت سے لگتے ہیں ۔۔۔۔ سوچوں تو ! یہ بھلا اب کیا کرتے ہیں ۔ جہاں تک مجھے کھڑکی میں سے باہر کھینچ کھانچ کر نکالنے کی بات ہے ، میں چاہتی ہوں کہ وہ یہ کسی طرح کر سکتے ۔۔۔ میں تو تقیناً اب یہاں ایک لمحہ اور نہیں ٹکنا چاہتی "۔
اُس نے کچھ عرصہ اور انتظار کیا اور اس دوران میں خرگوش یا پیٹ کسی کی بھی آواز سنائی نہ دی ۔ آخر چھوٹے چھکڑے کے پہیوں کی چیں ۔ چیں چراک ، اور بہت سے لوگوں کی ایک ساتھ باتیں کرنے کی آوازیں اس کے کانوں میں آیئں ۔ اس کی سمجھ میں یہ الفاظ آئے " دوسری سیڑھی کہاں گئی ۔۔ بھئی میرے ذمے تو ایک ہی سیڑھی لانا تھا ۔ ۔۔ دوسری بل کے پاس ہے ۔۔۔ ابے بل ۔۔ بیٹے اسے اِدھر لے آؤ ۔۔ چلو ۔ اس کو اس گوشے کے ساتھ جما دو ۔۔۔ نہیں نہیں پہلے ان دونوں کو اکٹھا باندھ کر کسو تو ۔۔۔ اب بھی یہ آدھی اونچائی تک نہیں پہنچ رہیں ! ۔۔ نہیں بھئی ۔۔کام بن جائے گا ۔ یہ لو بل ۔۔اس رسے کو تھام لو ۔۔کیوں بھئی ۔ چھت تو نیچے نہیں آ رہے گی ؟۔۔ارے وہ سلیٹ کا چوکا ڈھیلا تو نہیں ۔ اس کا خیال رکھنا ۔۔۔ اوہ۔۔ یہ نیچے پھسلتا آتا ہے ۔ ہوت ! سر نیچے کر لو ۔ جوانو ! ( ایک زبردست تھپ اور گڑ گڑ گڑر ) ۔۔" اب یہ کس نے کیا ہے ؟ ۔۔ میرا خیال ہے بل کی کارگزاری ہے ۔"
" دیکھو چمنی میں سے کون نیچے جائے گا ۔۔ نہیں میں تو جاؤں گا نہیں ۔ کسی اور کو پوچھو ۔ توبہ توبہ ! چلو تم جاؤ ۔۔ میرے ناک میں چوٹ آ گئی ہے ۔ ورنہ میں چلا جاتا ۔ بل کو ہی جانا پڑے گا ۔۔ سنو بِل بیٹے ۔ حضورِ والا کہتے ہیں کہ چمنی میں سے نیچے تم ہی اترو گے "۔
" اوہ ۔ تو بےچارے بِل کو چمنی میں سے نیچے اترنا پڑے گا ۔" ایلی نے خود سے کہا ۔ " ہر بات میں بل کی شامت آتی ہے ۔ جو کام ہو وہ بِل کرے ۔ میں تو بل کی جگہ پر ہونا کبھی نہیں پسند کروں گی ۔ یہ آتش دان ہے تو تنگ ۔ پھر بھی میرا خیال ہے ۔میں تھوڑی بہت پاؤں کی کِک ( ٹھوکر ) مار سکتی ہوں "۔
اُس نے اپنے پاؤں کو چمنی میں سے اتنا نیچے کرلیا جتنا وہ کر سکتی تھی۔ اور بل کے نیچے آنے کی منتظر رہی ۔ جب اس نے ایک چھوٹے سے جانور کو اپنے پاؤں سے اوپر چمنی میں سرکتے ، کھرچتے اور پٹختے ہوئے سنا اُس نے اپنے آپ سے یہ کہہ کر کہ یہ ضرور بِل ہے ، ایک زور کی کِک لگائی ۔ کِک لگا کر وہ انتظار کرنے لگی کہ دیکھیں تو اب کیا ہوگا ۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )

پہلی چیز جو اُس نے سنی آوازوں کا مِلا جُلا شور تھا ۔ ۔ " وہ رہا بِل ۔۔ " پھر اکیلے خرگوش کی آواز سنائی دی ۔ " ابے ۔ تم جو جھاڑی کے پاس کھڑے ہو ۔ سنتے ہو ۔ اسے دبوچ لو "۔ پھر خاموشی اور آوازوں کی ہاؤہو ۔۔۔ " اس کا سر اوپر کو تھامے رکھو " ۔۔ " لے آئے شہد "۔ " چمچے سے ٹپکاؤ۔ اس طرح اس کو اُچھو لگ جائے گا ۔۔ سانس تو بےچارے کا بند نہ کرو ۔۔ کیوں بھئی بِل ۔ بڑے میاں ۔ کیا صورت تھی اوپر ۔ تم پر وہاں کیا بیتی ۔ اطمینان سے ساری بات بتاؤ "۔
آخر میں ایک ننھی سی نحیف ، چیں چیں کرتی آواز آئی ۔ ( ایلی نے سوچا ، یہ بِل ہی ہوگا )۔
" ہاں ۔ مجھ کو کچھ ۔ کچھ پتہ نہیں ۔ بڑی بڑی مہربانی ۔ میں اب قدرے بہتر ہوں ۔ مگر میرے حواس ابھی پوری طرح کہاں درست ہوئے ہیں جو تفصیل سے عرض کر سکوں ۔ اتنا ہی معلوم ہوا کہ ۔۔کوئی چیز میری طرف جیک اِن دی ہاکس کی مانند آئی ہے ۔ اور میں اوپر ہوائی چرخی کی طرح اُڑا چلا جاتا ہوں ۔ شہد ہوگا تھوڑا سا اور ۔ "
"ہوائی چرخی ۔ بڑے میاں ۔ واقعی ہوائی چرخی بنے تھے تم "۔ دوسروں نے کہا ۔ شہد کی بات کسی نے نہ سُنی ۔
" ہمیں اس گھر کو آک لگا کر جلانا پڑے گا "۔ خرگوش کی آواز آئی ۔ جِس پر ایلی زور سے پُکاری ۔ " آگ لگا کر تو دیکھو ۔ میں ڈینا کو تم پر چھوڑ دوں گی "۔
فوراً ایک چُپ طاری ہو گئی ۔ ایلی اپنے آپ میں سوچنے لگی " دیکھیں ۔ اب یہ کیا کرتے ہیں ۔ ان کی کھوپڑی میں عقل ہو تو اوپر سے چھت اُٹھالیں "۔
ایک دو منٹ کے بعد وہ پھر اِدھر اُدھر ہلنے جُلنے لگے اور ایلی نے خرگوش کو یہ کہتے سنا " شروع میں ایک ریڑھی کافی ہوگی "۔
" کس چیز کی ریڑھی ؟" ایلی نے سوچا ۔ لیکن وہ زیادہ دیر اس بارے میں شک و شبہ میں نہ رہی ۔ کیونکہ دوسرے لمحے ہی ننھی کنکریوں کی ایک پھوار چھن چھناتی کھڑکی پر پڑی اور چند ایک کنکریاں اُس کے منہ پر آ لگیں ۔
" میں اس کو بند کرادوں گی " اس نے خود سے کہا ۔ پھر کھڑکی کی طرف منہ کرکے چِلائی ۔ " دیکھو دوبارہ یہ حرکت نہ کرنا۔ ورنہ۔۔۔۔"
پھر گہری چُپ۔
ایلی نے کچھ حیرت سے دیکھا کہ کنکریاں ساری فرش پر پڑی ننھے مُنے کیک بنتی جاتی ہیں اور ایک چمکیلا خیال اُس کے ذہن میں آیا ۔ " اگر میں ان کیکوں مٰیں سے ایک کھالوں تو اس سے یقیناً میرے سائز میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئے گی ۔ اب اس سے بڑی تو میں ہونے سے رہی جتنی میں اب ہوں ۔ لا محالہ چھوٹی ہی ہوں گی "۔
سو وہ ایک کیک نگل گئی اور یہ دیکھ کر بڑی خوش ہوئی کہ اس کے کھاتے ہی وہ سُکڑنے لگی ۔ جونہی وہ اتنی چھوٹی ہو گئی کہ وہ دروازے میں سے نکل سکے وہ گھر سے باہر بےتحاشا دوڑی۔ اس نے باہر چھوٹے جانوروں اور پرندوں کے اچھے خاصے ہجوم کو کھڑے پایا ۔ غریب چھوٹا چھپکلا " بِل " درمیان میں تھا ۔ دو سفید چوہوں نے اسے تھاما ہوا تھا ۔ اور ایک بوتل میں سے اسے کچھ پلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جیسے ہی ایلی نمودار ہوئی وہ سب اس پر چڑھ دوڑے ۔ ایلی اس ہلے کے لئے تیار تھی ۔ وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگی ( " حالانکہ " ایلی نے کہا ۔" میرا پاؤں پاؤں کی جگہ پر ہے اور سر سر کی جگہ ) اور جلد ہی وہ صحیح سلامت ایک گھنیرے جنگل میں تھی ۔
" پہلا کام جو اب مجھے کرنا ہوگا " ایلی نے جنگل میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے اپنے آپ سے کہا " یہ ہے کہ اپنے صحیح اصلی قد پر آ جاؤں ۔ آدمی کا سائز وہی ہونا چاہیئے جو ہے ۔ اور دوسری بات اس خوبصورت باغیچے میں جانے کا راستہ دریافت کرنا ہے ۔ میرے خیال میں سب سے اچھی تکریب ( وہ ترکیب کو ہمیشہ تکریب یا تبریک کہا کرتی ) یہی ہے "۔
ترکیب تو واقعی بڑی عمدہ معلوم ہوتی تھی ۔ اور اس قدر سہل اور آسان بھی۔ صرف ایک مشکل یہ تھی کہ ایلی کو یہ ذرہ بھر بھی پتہ نہ تھا کہ ترکیب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اُسے کیا کرنا ہے ۔ جب وہ درختوں میں مُضطرب نگاہوں سے تاک جھانک رہی تھی تو اُسے اپنے سر کے اوپر ایک چھوٹی، تیز " بخ بخ " کی آواز آئی ۔ ایلی اُچھل پڑی اور جلدی سے اوپر کو دیکھا ۔
ایک عالیشان کتورا اپنی بڑی بڑی گول آنکھوں سے اِس طرف نیچے تک رہا تھا ۔ کتورے نے اُسے چھونے کی کوشش میں ایک پنجے کو بھی بڑی نقاہت سے آگے بڑھا رکھا تھا ۔ " بےچارہ چھوٹا سا کتورا " ایلی نے لاڈ پیار کے لہجے میں کہا اور اُس نے اُسے سیٹی بجا کر پرچانے اور اپنے سے ہلانے کی پوری کوشش کی ۔ لیکن سارا وقت وہ اس خیال سے بہت ڈری ہوئی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ اس کتورے کو بھوک لگی ہوئی ہو ۔ ایسی صورت میں وہ یقیناًاُس کے سارے پچکارنے کے باوجود اُسے ہڑپ کرجانے میں دیر نہیں کرے گا ۔
یہ جانے بغیر کہ وہ کیا کر رہی ہے اُس نے ایک چھوٹی سی شاخ زمین پر سے چن کر کتورے کو پیش کی ۔ اِس پر کتورے نے فوراً چاروں پاؤں اُٹھا ، خوشی کی ایک " ٹاؤں " کے ساتھ ہوا میں چھلانگ لگائی اور شاخ پر منہ مارا اور اس سے کھیلنے کا اظہار کرنے لگا ۔ پھر ایلی نے ایک بڑے گوکھرو کے جھاڑ میں پناہ لی تاکہ کتورے کے پاؤں تلے کُچلے جانے سے بچ سکے ۔جب وہ جھاڑ کے دوسری طرف آئی ، کتورے نے جو شاخ پر پھر چھلانگ لگائی تو اُس کو منہ میں لینے کی عجلت میں ایسی پٹخنی کھائی کہ سر کے بل آن گرا ۔ پھر ایلی نے یہ سوچتے ہوئے کہ یہ تو ایک چھکڑے کے گھوڑے سے کھیل کھیلنے والی بات ہے اور کسی وقت وہ اُس کے پاؤں تلے لتھیڑی جا سکتی ہے ، دوبارہ گوکھرو کے جھاڑ کی آڑ میں دوڑ گئی ۔ اب کتورے نے شاخ پر مُتواتر چھوٹے چھوٹے ہلے بولے ۔ وہ یوں کہ ہر بار بہت تھوڑا فاصلہ آگے بڑھتا اور دُور تک واپس جاتا ۔ ساتھ ہی بھوں بھوں جاری رہی ۔ مگر گلا بیٹھ گیا تھا اور آواز بھاری ہو گئی تھی ۔ سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی ۔ آخر کار کتورے صاحب دور ہو کر بیٹھ گئے ۔ حالت یہ کہ دَم چڑھا ہوا ، زبان منہ سے گز بھر نکلی ہوئی اور دیدے آدھے کُھلے آدھے بند ۔
ایلی کو بچ بھاگنے کا یہ اچھا موقع ملا ۔ اس لئے اُس نے چلنے کی کی ۔ وہ اُس وقت تک دوڑتی رہی جب تک کہ بالکل تھک کر چُور نہ ہو گئی اور اُس کا سانس نہیں پُھولا اور جب تک کتورے کی بھوں بھوں کی آواز فاصلے سے بڑی مدھم نہیں ہوئی، ۔ " اور پھر بھی کتنا چھوٹا سا ، پیارا سا کتورا تھا ۔" ایلی نے کہا ۔ یہ کہتے وقت وہ سستانے کے لئے ایک سورج مکھی کے پھول کے ساتھ ٹیک لگائے تھی اور خود کو اس کے ایک پتے سے پنکھا جھل رہی تھی ۔
" جی تو بہت کرتا تھا کہ میں اُسے کچھ کھیل کرتب سکھاتی " اُس نے بات جاری رکھی ۔ " مگر اس کے لئے میرا اصلی قد کا ہونا ضروری ہے "۔
" ارے میں تو بھول ہی گئی کہ مجھے پھر بڑے ہونے کی فکر کرنی ہے ۔ دیکھوں تو یہ ہوگا کیونکر۔ میرا خیال ہے مجھے ایک نہ ایک چیز کھانی یا پینی چاہیئے ۔ مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ؟ "
بڑا سوال یقیناً یہ تھا کہ " کیا "؟ ایلی نے اپنے اِرد گرد پھولوں اور گھاس کی پتیوں پر نگاہ ڈالی لیکن اُسے اِن میں کوئی ایسی چیز دکھائی نہ دی جو ان حالات کے تحت کھانے یا پینے کے لئے موزوں ہو ۔ اس کے قریب ہی ایک بڑی سانپ چھتری اُگی تھی۔ تقریباً اتنی ہی اونچی جتنی وہ خود اِس وقت تھی ۔ اور جب وہ اُس کے نیچے اور اس کے دونوں طرف اور اس کے پیچھے چھان بین کر چکی تو اُس کو سُوجھاکہ اُس کی چوٹی ( پُھننگ ) پر بھی ایک نظر مار لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اُس نے ایڑیاں اُٹھا کر خود کو اونچا کھینچا ۔ اور سانپ چھتری کے سرے کے اوپر سے تاکا ۔ اُس کی نگاہیں فوراً ایک بڑے سے نیلے رنگ کے لاروے کی نظروں سے دوچار ہوئیں جو اوپر بیٹھا ہوا تھا ۔ بازو سینے پر بستہ اور منہ میں ایک لمبے حُقے کی نے ۔ یہ لاروا بڑے سکون سے حُقہ پی رہا تھا ۔ اور اُس کی وضع قطع سے بےنیازی جھلکتی تھی جیسے اُسے کسی کی پرواہ نہ ہو ۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )

لاروا اور ایلی کچھ دیر ایک دوسرے کو تکتے رہے پھر بلآخر لاروے نے بڑی سنجیدہ آواز میں پوچھا ۔ " کون ہو تم ؟"
گفتگو کا یہ آغاز کچھ حوصلہ افزا نہ تھا ۔ ایلی نے قدرے جھجکتے ہوے کہا ۔
" پتہ نہیں جناب ۔ اس وقت تو کم از کم مجھے صرف اس قدر معلوم ہے کہ صبح جب میں سو کر اُٹھی تھی تو کون تھی ۔ اُس وقت سے اب تک میں نہ جانے کتنی مرتبہ تبدیل ہو چکی ہوں ۔"
" کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے ۔" لاروے نے سخت لہجے میں کہا ۔ " ذرا وضاحت تو کرو ۔"
" وضاحت تو میں کر نہیں سکتی ۔" ایلی بولی ۔ " کیونکہ میں اب میں تو رہی نہیں ۔دیکھا آپ نے ۔"
" میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔" لاروا بولا ۔
" اس سے زیادہ صاف صاف اور کیا عرض کروں ۔" ایلی نے بڑے اخلاق سے کہا ۔ "میرے تو کچھ پلے ہی نہیں پڑ رہا ۔ تھوڑے سے عرصے میں اس طرح بار بار نئے سائز میں تبدیل ہونا تو بڑی بوکھلا دینے والی بات ہے ۔"
" بالکل بھی نہیں ۔" لاروا بولا ۔
" جناب اگر آپ پر ایسی بپتا پڑے اور آپ تھوڑی ہی دیر میں پیوپا اور پھر تتلی بن جائیں تب آپ کو پتہ چلے ۔ پھر آپ کو بھی یہ بات یقیناً عجیب ہی لگے گی ۔" ایلی نے کہا ۔
" ذرا بھی نہیں ۔ " لاروا بضد تھا ۔
" پھر تو آپ کے احساسات واقعی بالکل مختلف ہیں ۔" ایلی بولی ۔ " مجھے تو یہ سب عجیب ہی لگتا ہے ۔"
" تم ہو کون ۔"
بات گھوم پھر کے وہیں آ گئی جہاں سے چلی تھی ۔ ایلی جھنجلا گئی ۔
" پہلے آپ تو اپنا تعارف کرائیں حضور ۔" اس نے کہا ۔
" کیوں بھلا ؟ لاروا بھی ٹیڑھی کھیرتھا ۔
ایلی کی سمجھ میں کوئی وجہ نہ آئی تو وہ جھنجلا کر ایک طرف کو چل دی ۔
" کہاں چلیں ؟ واپس آؤ " لاروا پُکارا ۔ " ایک اہم بات تو سن لو ۔"
کچھ امید بندھی تو ایلی لوٹ آئی ۔
" اپنے غصے پر قابو رکھا کرو ۔"
" بس یہی بات تھی ؟" ایلی نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کیا ۔
لاروا کچھ دیر حقہ گڑگڑاتا رہا پھر جیسے اپنے آپ سے بولا ۔ " ہوں ۔۔۔۔۔۔ تو تم تبدیل ہو گئی ہو ۔" ایلی چپ چاپ اُسے دیکھتی رہی ۔
لاروے نے دو تین جماہیاں لیں، پھر ایک جُھرجُھری لے کر بولا ۔ " ایک طرف کا حصہ تمہیں لمبا کردے گا اور دوسری طرف کا حصہ تمہیں چھوٹا کردے گا ۔" یہ کہہ کر وہ ایک طرف کو چل دیا ۔
" کس چیز کا حصہ ۔۔۔ " ایلی نے سوچا ۔
لاروے نے جیسے اُس کی بات سن لی ۔ " سانپ چھتری کا ۔" اُس نے کہا اور پتوں میں غائب ہو گیا ۔
مگر کون سا حصہ لمبا گرے گا اور کون سا چھوٹا ۔یہ معلوم نہ تھا ۔
" بڑی مصیبت ہے بھئی ۔ " ایلی نے اپنے آپ سے کہا ۔
آزمائے بغیر کیا کہا جا سکتا تھا ۔ ایلی نے سانپ چھتری کے دونوں حصوں سے ٹکڑے توڑ لئے ۔ ایک حصے سے تھوڑا سا ٹکڑا دانت سے کاٹا اور چبانے لگی ۔ ارے یہ کیا ۔ وہ بڑی تیزی سے لمبی ہونے لگی ۔ ایلی نے گھبرا کر جلدی سے دوسرے حصے سے ایک ٹکڑا توڑا اور جیسے ہی اُسے چبانا شروع کیا وہ ایک دم سے چھوٹی ہونے لگی ۔ بس پھر کیا تھا ۔ دونوں حصوں کا استعمال سمجھ میں آ گیا تو اس نے دونوں کو باری باری اس طرح استعمال کیا کہ وہ جھٹ سے اپنے اصلی سائز پر آگئی۔ اب تو ایلی بےحد خوش ہوئی مگر اتنے عرصے بعد اپنے اصلی قد پر آ کر بڑا عجیب سا بھی محسوس ہوا ۔
" بھئی اب تو سب سے پہلے اُس باغیچے میں چلنا چاہیئے ۔"
بچاری ایلی ذرا آگے بڑھی تو جنگل ختم ہو گیا ۔ پھر سامنے کُھلے میدان میں آگے ایک مکان نظر آیا ۔
" بھلا یہاں کون رہتا ہوگا ۔ " ایلی نے سوچا ۔
ابھی وہ اپنی سوچوں ہی میں تھی کہ جنگل کی طرف سے کوئی آتا نظر آیا ۔ یہ شخص قاصد کی وردی میں تھا ۔ اُس نے سامنے کے مکان کے پاس جا کر دروازے پر دستک دی ۔ دروازہ کھلا تو اُس نے ایک لفافہ اندر بڑھا دیا ۔اور باآوازِ بلند بولا ۔
" ملکہ کی طرف سے نوابزادی کو ' کروکے ' کے کھیل کی دعوت "
مکان کے اندر سے بھی کسی نے ایک لفافہ اُس کی طرف بڑھایا اور اُسی کی طرح باآوازِ بلند کہا ۔ " نوابزادی کی طرف سے ملکہ کو ' کروکے " کے کھیل کی دعوت ۔"
دعوت ناموں کا تبادلہ ہو چکا تو مکان کا دروازہ پھر بند ہوگیا ۔ اور قاصد بھی بڑی تیزی سے جنگل میں غائب ہو گیا ۔ یوں ایلی کو معلوم ہوا
کہ یہ نوابزادی کا مکان ہے ۔
ایلی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کرے تو کیا کرے ۔ وہ ذرا آگے بڑھی تو اُسے ایک درخت کی شاخ پر خُراسانی بلی بیٹھی نظر آئی ۔
" خراسانی بلی ۔۔۔ ذرا بتاؤ تو میں کس طرف جاؤں ؟"
" جس طرف تمہارا دل چاہے ۔ " خراسانی بلی نے کہا ۔
" ان اطراف میں رہتا کون ہے ؟" ایلی نے پوچھا ۔
" اُس سمت میں ۔۔ " خراسانی بلی نے اپنے سیدھے پنجے سے ایک طرف اشارہ کیا ۔ " ٹوپ والا رہتا ہے ۔" اور پھر دوسری سمت اشارہ کرکے کہا ۔ " اس طرف جھلا خرگوش رہتا ہے ۔ اور ہیں دونوں پگلے ۔"
" چلو اُنہی کو دیکھ لوں " ایلی نے اپنے آپ سے کہا ۔
ایلی ذرا سا آگے بڑھی تو اُسے جھلے خرگوش کا گھر نظر آیا ۔ جس کی چمنیاں خرگوش کے کانوں کی شکل کی تھیں ۔ مگر یہ ایلی کے لحاظ سے کافی بڑا تھا ۔
" پہلے میں اپنا قد کچھ بڑا کر لوں تو اچھا ہے ۔" ایلی نے سوچا ۔ اُس نے سانپ چھتری کا وہ حصہ تھوڑا سا کتر کر چبایا جس سے قد بڑھتا تھا اور اپنے آپ کو دو فٹ لمبا بنا کر وہ جھلے خرگوش کے گھرکی طرف بڑھی ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

پانچواں باب
پگلوں کی چائے پارٹی
گھر کے سامنے ایک درخت تلے ایک میز لگی تھی اور جھلا خرگوش اور ٹوپ والا اس پر چائے پی رہے تھے ۔ ایک باگھڑ چوہا اُن کےبیچ میں بیٹھا تھا ۔ نیند میں مدہوش ، اور دوسرے دو حضرات اُس پر اپنی اپنی کہنی ٹیکے اور اُس کے سر کے اوپر سے تبادلہء خیالات کرتے ، اُسے گویا ایک گدے کے طور پر استعمال کر رہے تھے ۔
" باگھڑ چوہے بےچارے کے لئے یہ اچھی خاصی بےآرامی ہے " ایلی سوچنے لگی ۔ " شاید گھوگھو سویا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ کوئی احتجاج نہیں کر رہا "۔
میز اچھی خاصی چوڑی تھی مگر تینوں اُس کے ایک گوشے میں ایک دوسرے سے گندھے بیٹھے تھے ۔
" کوئی جگہ نہیں ۔ کوئی جگہ نہیں ۔" ایلی کو آتے دیکھ کر وہ واویلا کرنے لگے ۔
" جگہ تو بہت ساری ہے ۔" ایلی نے جھلا کر کہا اور میز کے آخیر پر ایک بڑی آرام کرسی میں دراز ہو گئی ۔
" انگور کا شربت وربت پیو گی ؟ " جھلے خرگوش نے حوصلہ افزا لہجے میں کہا ۔
ایلی نے میز پر ہر جانب نظر دوڑائی لیکن اُس پر سوائے چائے کے اور کوئی شے نہ تھی ۔
" مجھے تو شربت دکھائی نہیں دیتا ۔" اُس نے کہا ۔
" ہے ہی نہیں ۔" جھلے خرگوش نے کہا ۔
" جب شربت نہیں ہے "۔ ایلی بولی " تو مجھے اس کی دعوت دینا کہاں کی شرافت ہے ۔"؟
" تم کو بیٹھنے کو کس نے کہا ۔ " جھلے خرگوش نے کہا ۔ " بن بلائے یوں آ بیٹھنا کہاں کی شرافت ہے "؟
" مجھے کیا پتہ کہ یہ تمہاری میز ہے "۔ ایلی نے کہا ۔ " یہ تو تین سے بہت زیادہ آدمیوں کے لئے لگائی گئی ہے "۔
" تمہارے بالوں کو ترشوانے کی ضرورت ہے ۔" ٹوپ والا بولا ۔ وہ ایلی کو دیر سے تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور یہ اُس کی پہلی تقریر تھی ۔
" تم لوگوں کو کسی کی ذات کے بارے میں باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہیئے ۔" ایلی نے کچھ سختی سے کہا ۔ " یہ نہایت بدتمیزی ہے "۔
ٹوپ والے نے یہ سنا تو اپنے دیدے چوڑے کھول کر اُسے دیکھا ۔ مگر اُس نے صرف یہ کہا ۔ " بھلا ڈھوڈل کوا ایک لکھنے کی میز کی مانند کیوں ہوتا ہے '؟
" چلو " ایلی نے سوچا ۔ " اب کچھ مزا آئے گا ۔ میں خوش ہوں کہ انہوں نے پہیلیاں بوجھنی شروع کر دی ہیں ۔ " میرا خیال ہے یہ پہیلی تو میں بُوجھ ہی لوں گی ۔" اُس نے اونچی آواز سے کہا ۔
" تمہارا مطلب ہے کہ تم سمجھتی ہو ۔ تم اس کا جواب بتا سکتی ہو ؟ جھلے خرگوش نے کہا ۔
" ہاں بالکل یہی "! ایلی نے کہا ۔
" پھر جو تم کھانا چاہتی ہو ۔ " جھلا خرگوش گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولا ۔
" میں کرتی ہوں ۔" ایلی نے کہا ۔ " کم از کم ۔۔۔۔ کم از کم ۔۔ میں جو کہنا چاہتی ہوں ۔۔ تم جانو ! یہ ایک ہی چیز ہے "۔
" ذرہ برابر بھی ایک چیز نہیں ۔" ٹوپ والے نے کہا ۔ " یوں تو تم یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ " میں جو کھاتی ہوں اُسے دیکھتی ہوں " وہی چیز ہے جیسے " میں جو دیکھتی ہوں اُسے کھاتی ہوں ۔"
" اس طرح تو تم یہ بھی کہہ سکتی ہو "۔ جھلے خرگوش نے اضافہ کیا ۔ " کہ جو کچھ مجھے ملتا ہے میں اسے پسند کرتی ہوں ، وہی چیز ہے جیسے جو کچھ میں پسند کرتی ہوں مجھ کو مل جاتا ہے "۔
" اس طرح تو تم یہ بھی کہہ سکتی ہو " باگھڑ چوہے نے کہا ۔ وہ سوتے میں بولتا ہوا معلوم ہوتا تھا ۔ " کہ جب میں سوتی ہوں تو سانس لیتی ہوں وہی چیز ہے جو " میں سانس لیتی ہوں تو سوتی ہوں "۔
" تمہارے ساتھ تو وہی چیز ہے " ٹوپ والے نے کہا ۔ اور یہاں گفتگو تھم سی گئی اور سب دو منٹ تک خاموش بیٹھے رہے ۔ اس دوران میں ایلی ڈھوڈل کووں اور لکھنے کی میزوں کے متعلق جتنی باتیں یاد کر سکتی تھی ان کو سوچنے لگی ۔
ٹوپ والے نے سب سے پہلے خاموشی کو توڑا۔ " آج مہینے کا کون سا دن ہے ؟" اُس نے ایلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ اُس نے گھڑی اپنی جیب میں سے نکال لی تھی اور اُسے بےسکونی سے گھور رہا تھا ۔ گھورتے ہوئے وہ اُسے وقتاً فوقتاً زور سے کھڑکاتا اور اپنے کان سے لگا کر اس کی ٹِک ٹِک سننے کی کوشش کرتا ۔
ایلی نے تھوڑے غور کے بعد کہا ۔" چوتھا "
" دو دن غلط " ٹوپ والے نے آہ بھری ۔ " میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ مکھن پُرزوں کے لئے ٹھیک نہیں رہے گا ۔" اُس نے سخت غصے سے جھلے خرگوش کی طرف دیکھا ۔
" یہ بہترین مکھن تھا " جھلے خرگوش نے نہایت عاجزی سے جواب دیا ۔
" دُرست ! مگر کچھ تو اس کے ٹکڑے بھی پُرزوں میں چلے گئے ہوں گے "۔ ٹوپ والا بڑبڑایا ۔ " تمہیں مکھن کو روٹی والی چھری سے گھڑی میں نہیں ڈالنا چاہیئے تھا "۔
جھلے خرگوش نے گھڑی لے لی اور اُسے بڑی نااُمیدی سے دیکھنے لگا ۔ پھر اُس نے اُسے اپنی چائے کی پیالی میں ڈُبکی دی اور دوبارہ اُس کو دیکھا ۔ لیکن اُس نے پہلے جو کچھ کہا تھا اس سے زیادہ معقول وجہ اس کو نہ سوجھ سکی ۔ اُس نے وہی پہلا فقرہ دُہرایا ۔ " تم جانو ۔ یہ بہترین مکھن تھا "۔
ایلی اُس کے کندھے کے اوپر سے اچھنبے سے دیکھتی رہی تھی ۔
" کیسی عجوبہ گھڑی ہے "۔ وہ بول اُٹھی ۔ " یہ مہینے کا دن تو بتاتی ہے ۔ یہ نہیں بتاتی کہ کتنے بجے ہیں ۔"
" کیوں بتلائے " ٹوپ والا بڑبڑایا ۔ " کیا تمہاری گھڑی تمہیں بتاتی ہے کہ سال کون سا جا رہا ہے ۔"
" ہاں نہیں بتاتی " ایلی نے فوراً جواب دیا ۔ " پر اس کی وجہ تو یہ ہے کہ اتنا لمبا عرصہ ایک ہی سال رہتا ہے ۔"
" میری گھڑی کے ساتھ بھی یہی صورت ہے "۔ ٹوپ والے نے کہا ۔
ایلی بےحد چکرائی ۔ ٹوپ والے نے جو کہا تھا اُس میں اُسے کوئی معنی نظر نہ ٖٖآئے تاہم زبان بالکل صاف تھی ۔
" میں تمہیں پوری طرح نہیں سمجھ پائی ۔ " اُس نے اتنی شائستگی سے کہا جتنی موقع کے لحاظ سے موزوں تھی ۔
" باگھڑ چوہا پھر سو گیا ہے " ٹوپ والے نے کہا اور اُس نے تھوڑی سی گرم چائے اُس کی ناک پر اُنڈیلی ۔
باگھڑ چوہے نے اپنا سر جھلاہٹ میں اِدھر اُدھر کیا اور اپنی آنکھیں کھولے بغیر کہا " بالکل ! بالکل ! میں بھی یہی بات کہنے والا تھا "۔
" کیا تم نے پہیلی بوجھ لی ہے "۔ ٹوپ والا پھر ایلی کی طرف متوجہ ہوا ۔
" نہیں ۔ میں نے ہار مان لی ہے "۔ ایلی نے جواب دیا ۔ " تم جواب بتا دو "۔
" مجھے کیا معلوم " ! ٹوپ والا بولا " مجھ کو تو بالکل نہیں آتا "۔
" مجھ کو بھی نہیں "۔ جھلے خرگوش نے کہا ۔
ایلی نے تھکاوٹ سے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔"
" میں سمجھتی ہوں کہ تم کو وقت گزارنے کا کوئی بہتر طریقہ سوچنا چاہیئے ۔ بجائے اس کے کہ ایسی پہیلیاں بوجھنے میں وقت ضائع کرو جن کا کوئی جواب ہے ہی نہیں ۔"
" اگر تم وقت کو اتنی اچھی طرح جانتیں جتنا میں " ٹوپ والے نے کہا ۔ " تو تم اس کو ضائع کرنے کی بات نہ کرتیں ۔ دیکھو وہ رہا وقت "۔
" میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو "۔ ٖ ( جاری ہے )
 
(گزشتہ سے پیوستہ )

" سمجھ کیوں آنے لگا ۔" ٹوپ والے نے حقارت سے اپنا سر اُچھالا ۔ " میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ تم کو کبھی وقت سے بات کرنے کا اتفاق نہیں ہوا "۔
" شاید نہیں " ایلی نے محتاط انداز میں کہا ۔ "مگر میں یہ جانتی ہوں کہ وقت آن پہنچتا ہے اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا "۔
" ہو ! ہو ! " ٹوپ والا ہنسا ۔ " اب پتہ چل گیا ۔ یہی ساری وجہ ہے ۔ وقت یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُسے انتظار کرایا جائے ۔ اب اگر تم اُس سے مروت و لحاظ برتتیں تو گھڑی یا گھڑیال کے ساتھ جو تم چاہتیں وقت تمہیں کرنے دیتا ۔ مثال کے طور پر فرض کرو صبح کے نو بجے ہیں ۔ بیٹھنے کا وقت ہے ۔ تم صرف چپکے سے وقت کے کان میں دِل کی بات کہہ دو ، اور پلک جھپکتے میں گھڑی کی سوئی گھوم کر ڈیڑھ بجے پر آ جائے گی ! ڈیڑھ بجے ! کھانے کا وقت "۔
" کاش اب ڈیڑھ بجے ہوتے "۔ جھلے خرگوش نے اپنے آپ سے سرگوشی میں کہا ۔
" یہ تو واقعی خوب شاندار بات ہوگی " ایلی بولی ۔ " لیکن پھر تم جانو ! مجھ کو بھوک تو نہیں ہوگی "۔
" فوراً تو شاید نہیں " ٹوپ والے نے کہا ۔ " لیکن تم جب تک چاہو اسے ڈیڑھ بجے تک رکھ تو سکتی ہو "۔
" کیا تم نے بھی یہی طریقہ اختیار کر رکھا ہے ؟"۔ ایلی نے پوچھا ۔
ٹوپ والے نے ماتمی انداز میں سر دائیں بائیں ہلایا ۔ " میں نے کہا لاحول و لاقوۃ " اُس نے جواب دیا ۔ " یہ مارچ جو گزرا ہے اس میں ہم کسی بات پر لڑ پڑے ۔ میں اور جھلا خرگوش ۔ یہ جھلے خرگوش کے پاگل ہونے سے ایک دو دن پہلے کی بات ہے ۔۔۔ ( چائے کی چمچی سے جھلے خرگوش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہ موقعہ تھا جب حُکم کی بیگم نے ایک عالی شان ناچ رچایا جس پر مجھے یہ گیت گانا تھا ۔
تم آسمان کی طرف نہ دیکھو
یہ شِکرے ، چیلیں اور پرندے
یوں ہی اُڑتے رہیں گے سارے
تم آسمان کی طرف نہ دیکھو
شاید تم کو یہ گیت آتا ہوگا ۔"
"میں نے اس قسم کا گیت سنا تو ہے " ایلی نے کہا ۔
" آگے یہ گیت " ٹوپ والے نے مزید کہا ۔ " اس طور پر ہے ۔"
اُڑو چیلو ، اُڑو پرندو
اُڑو چرندو ، اُڑو درندو
تم آسمان کی طرف نہ دیکھو
یہاں باگھڑ چوہے نے جُھرجُھری لی اور اپنی نیند ہی میں گانے لگا ۔ " چرندو ۔ پرندو ۔ درندو ۔ فرندو ۔ گرندو ۔" اور اتنی دیر تک جاری رہا کہ اُنہیں اُسے چُپ کرانے کے لئے اس کی گردن دبوچنا پڑی ۔
" ہاں تو میں کہہ رہا تھا " ٹوپ والے نے کہا ۔" میں نے بمشکل گیت کا پہلا مصرع ہی ختم کیا تھا کہ ملکہ نے واویلا کر دیا ۔ یہ وقت کا خون کر رہا ہے ۔ اس کی گردن اُڑا دو !"۔
" کیا وحشی پن ہے ۔ اُف توبہ ! " ایلی نے زور سے کہا ۔
" ۔۔۔۔۔ اور اُس وقت سے " ٹوپ والا اُسی ماتمی لہجے میں بولتا چلا گیا ۔ " یہ ( اس نے جھلے خرگوش کی طرف دیکھا ) میری بات کی پرواہ نہیں کرتا ۔ جو میں اِسے کہتا ہوں یہ ہمیشہ اُس کے اُلٹ کرتا ہے ۔ اسی لئے یہاں اب ہمیشہ چھ بجے کا وقت رہتا ہے "۔
ایلی کے ذہن میں ایک شاندار خیال آیا ۔ " کیا اسی وجہ سے اتنی ساری چائے کی چیزیں میز پر لگی ہوئی ہیں ؟"۔
" ہاں یہی وجہ ہے " ٹوپ والے نے آہ بھرتے ہوئے کہا ۔ " یہاں ہمیشہ چائے کا وقت رہتا ہے اور ہمیں درمیان میں پرچ پیالیوں کو دھونے کا وقت بھی نہیں ملتا "۔
" پھر میرا خیال ہے تم میز کے گرد چکر لگاتے رہتے ہو گے "۔ ایلی نے کہا ۔
" بالکل ! بالکل ! " ٹوپ والے نے کہا ۔ " جوں جوں پرچ پیالیاں استعمال ہوتی جاتی ہیں ہم میز کے گرد تین کُرسیاں آگے بڑھتے جاتے ہیں "۔
" لیکن پھر جب تم اُسی جگہ پر آجاتے ہو جہاں سے شروع ہوئے تھے " ایلی نے دریافت کرنے کی ہمت کی ۔ " تو پھر کیا ہوتا ہے ؟"۔
" کیا خیال ہے صاحبان ۔ موضوع کو بدل نہ دیا جائے ؟" جھلے خرگوش نے جماہی لیتے ہوئے دخل در معقولات کیا ۔ " میں اِس سے اُکتا سا گیا ہوں ۔ میں تجوہز پیش کرتا ہوں کہ ہم اِس چھوٹی لڑکی سے کوئی کہانی سنیں !"۔
" مجھے ڈر ہے کہ مجھے تو کوئی کہانی نہیں آتی " ایلی جھلے خرگوش کی تجویز پر گھبرا کر بولی ۔
" پھر باگھڑ چوہا سنائے گا " وہ دونوں چلائے ۔ اُٹھ بے باگھڑ چوہے ۔ کافی سو لیا "۔ اور اُنہوں نے دونوں طرف سے اُس کی چُٹکی لی ۔
باگھڑ چوہے نے آہستگی سے اپنی آنکھیں کھولیں ۔ " میں سویا ہوا کہاں تھا " اُس نے ایک بھاری مگر کمزور آواز میں کہا ۔ " تم لوگوں میں جو باتیں ہو رہی تھیں میں نے اُس کا ایک ایک لفظ سُنا ہے "۔
" ہمیں کہانی سُناؤ " جھلے خرگوش نے کہا ۔
" ہاں بھئی سناؤ تو " ایلی نے بھی باگھڑ چوہے کی منت خوشامد کی ۔
" اور ذرا جلدی سُنانے کی کرو " ٹوپ والے نے اضافہ کیا ۔ " ورنہ اس کے ختم ہونے سے پہلے تم پھر سو جاؤ گے "۔
" ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین چھوٹی بہنیں تھیں " باگھڑ چوہے نے بڑی جلدی جلدی اپنی کہانی شروع کردی ۔ " اور اُن کے نام ایلی ، لیس اور ٹلی تھے ۔ اور وہ ایک کنویں کی تہہ میں رہتی تھیں "۔
" وہ کھاتی پیتی کیا تھیں ؟" ایلی نے پوچھا ۔ " چونکہ اُسے کھانے پینے کی باتوں سے بڑی دلچسپی تھی ۔
" وہ گڑ کا شیرہ کھاتی تھیں " باگھڑ چوہے نے ایک دو لمحے سوچ کر کہا ۔
" تم جانو ، بھلا وہ ایسا کیونکر کر سکتی تھیں " ایلی نرمی سے بولی " گڑ کا شیرہ کھا کھا کر تو وہ بیمار پڑ جاتیں "۔
" بیمار تو پڑ گئیں ۔ یہی تو میں بتانے والا تھا " باگھڑ چوہے نے کہا ۔ " بڑی سخت بیمار ۔۔۔ بلکہ علیل کہو !"۔
ایلی نے یہ تصور باندھنے کی تھوڑی سی کوشش کی کہ اس قسم کے جینے کا غیر معمولی ڈھنگ کیا ہوتا ہوگا ۔ لیکن اُس کا سر اس سوچ سے چکرانے لگا ۔ اس لئے وہ آگے بولی ۔ " مگر باگھڑ چوہے ! یہ بتاؤ وہ کنویں کی تہہ میں کیوں رہتی تھیں ؟"۔
" کچھ اور چائے لو " ٹوپ والے نے بڑی سنجیدگی سے ایلی سے کہا ۔
" ابھی تک میں نے چائے پی ہی نہیں " ایلی نے رنجیدہ لہجے میں جواب دیا ۔ " اس لئے کچھ اور میں کیسے پی سکتی ہوں "۔
" تمہارا مطلب ہے کہ تم کچھ کم چائے نہیں پی سکتیں" ٹوپ والے نے کہا ۔ " کچھ نہیں ، کچھ اور پینا بڑا آسان ہے "۔
" کسی نے تمہاری رائے نہیں پوچھی " ایلی نے کہا ۔
" ہو ! ہو ! اب ذاتی باتیں کون کر رہا ہے ۔" ٹوپ والے نے فاتحانہ انداز میں پوچھا ۔
ایلی کو کچھ نہ سوجھا کہ اس کا کیا جواب دے ۔ اس لئےاس نے چائے اور مکھن توس کو کچھ توجہ دی ۔ پھر باگھڑ چوہے کی طرف پلٹ کر اپنے سوال کو دہرایا " وہ کنوٰیں کی تہہ میں کیوں رہتی تھیں "۔
باگھڑ چوہے نے اس بارے میں ایک دو لمحے سوچا اور بولا " یہ گڑ کےشیرے کا کنواں تھا "۔
" ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی " ایلی بڑے غصے سے کہنے لگی ۔ مگر ٹوپ والے اور جھلے خرگوش نے " ش ۔ ش " کرتے ہوئے اُسے روک دیا ۔ اور باگھڑ چوہے نے روٹھے لہجے میں کہا " اگر تم شائستہ نہیں ہو سکتیں تو بہتر ہوگا کہانی کو خود ختم کر لو "۔
" نہیں ۔ پلیز ۔ سناتے چلو " ایلی نے بڑی مسکین بن کر کہا ۔ " میں پھر تم کو نہیں ٹوکوں گی ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔شیرے کا کنواں ضرور ہوتا ہوگا "!
" ہوتا ہوگا "! باگھڑ چوہے نے شدید خفگی سے کہا ۔ پر وہ کہانی جاری رکھنے پر رضامند ہو گیا ۔
" اور پھر یہ تین چھوٹی بہنیں ۔۔۔ تم جانو ! ۔۔۔۔ وہ کھینچنا سیکھ رہی تھیں "۔
" وہ کیا کھینچتی تھیں ؟" ایلی اپنا وعدہ بھول کر پوچھ بیٹھی ۔
"گڑکا شیرہ " باگھڑ چوہے نے اس بار غور کرنے کے بغیر جواب دیا ۔
" مجھے ایک صاف پیالی درکار ہے " ٹوپ والے نے کہا ۔ " آخر ایک ایک کُرسی آگے سرک جائیں ۔ " یہ کہہ کر وہ ساتھ کی خالی کرسی پر ہو بیٹھا اور باگھڑ چوہا بھی لین ڈوری میں اس کے پیچھے کو ہو لیا ۔ جھلا خرگوش باگھڑ چوہے کی جگہ میں آ گیا اور ایلی نے کچھ ناراضگی سے جھلے خرگوش کی جگہ لے لی ۔ اس تبدیلی سے صرف ٹوپ والے کو ہی فائدہ ہوا ۔ اور ایلی تو پہلے سے بڑی بری حالت میں تھی ۔ کیونکہ جھلے خرگوش نے جاتے ہوئے دودھ دان کو اپنی پرچ میں گرادیا تھا ۔
ایلی دوبارہ باگھڑ چوہے کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اس لئے اس نے بڑے محتاط انداز میں بات شروع کی " وہ اپنا گڑ کا شیرہ آخر کھینچتی کہاں سے تھیں "!
" تم پانی کے کنویں سے پانی کھینچ سکتی ہو کہ نہیں ۔" ٹوپ والے نے ذرا جھڑکنے کے انداز میں کہا ۔ " اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ گڑ کے شیرے کے کنویں سے گڑ کا شیرہ بھی کھینچا جا سکتا ہے ۔ کم عقل !
" لیکن وہ تو کنویں کی تہہ میں رہتی تھیں ۔
( جاری ہے)
 
( گزشتہ سے پیوستہ )

" لیکن وہ تو کنویں کی تہہ میں رہتی تھیں "۔ ایلی نے ٹوپ والے کے آخری لفظ کو کوئی توجہ نہ دیتے ہوئے باگھڑ چوہے سے کہا ۔
" ہاں ! میں نے کب کہا ہے کہ وہ نہیں رہتی تھیں ۔" باگھڑ چوہا بولا ۔ " وہ بالکل کنویں کے اندر تھیں "۔
اس جواب سے غریب ایلی اتنی سٹپٹائی کہ اُس نے تھوڑی دیر باگھڑ چوہے کو اپنی کہانی جاری رکھنے دی اور بیچ میں کچھ نہ بولی ۔
" وہ کھینچنا سیکھ رہی تھیں ' باگھڑ چوہا کہتا گیا ۔ اُسے اب جماہیاں آنے لگی تھیں اور وہ اپنی آنکھوں کو مل رہا تھا کیونکہ اُسے بڑی اونکھ آ رہی تھی ۔
" اور وہ ہر قسم کی چیزیں کھینچا کرتی تھیں ۔وہ ہر چیز جو ' م ' سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ "
" م والی کیوں " ایلی نے کہا ۔
" کیوں نہیں ۔" جھلے خرگوش نے کہا ۔ ایلی چپ ہو گئی ۔
باگھڑ چوہے نے اس وقت تک اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور نیند کی جھپکی میں ڈوبتا جا رہا تھا مگر ٹوپ والے نے اسے چٹکی بھری تو وہ ایک چھوٹی سی " چیں " کے ساتھ پھر جاگ گیا اور بولتا گیا ۔ " ۔۔۔ جو ' م' سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔ مچھلیاں ، مینڈھے ، میزیں ، مکوڑے ، مرتبان ، مرغا اور منع کرنا ۔۔ تم جانو ہم کہتے ہیں نا ۔ منع نہ کرو ۔ وہ منع کرتا ہے ۔ وہ منع کرتی ہے ۔ اُس نے منع کیا ۔۔۔۔ کیا تم نے کبھی " منع کرنا " کھینچنے کا سُنا ہے ؟"۔
" سچ مچ ! اب جو تم نے مجھ سے یہ سوال کیا ہے " ایلی نے قطعی چکرا کر کہا ۔ " میں نہیں سمجھتی کہ ۔۔۔۔۔"
" پھر تمہیں خواہ مخواہ بولنا نہیں چاہیئے " ٹوپ والا بولا ۔
ٹوپ والے کی یہ بدتمیزی ایلی کی برداشت سے باہر تھی ۔ وہ بڑی برہمی میں ناک بھوں چڑھا کر اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ دور چل دی ۔ باگھڑ چوہا تو فوراً سو گیا ۔ اور دوسروں نے اُس کے جانے کو ذرہ بھر بھی توجہ نہ دی ۔ ایلی نے ایک دو بار پیچھے مڑ کر دیکھا بھی کچھ کچھ اس امید سے کہ وہ اس کو پلٹ آنے کے لیے کہیں گے ۔ آخری بار جب اُس نے اُنہیں دیکھا تو وہ باگھڑ چوہے کو چائے دانی میں داخل کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
" خیر ۔ جو بھی ہو ۔ میں اب یہاں کبھی نہیں آؤں گی " ایلی نے جنگل میں سے اپنا راستہ ڈھونڈتے ہوئے کہا ۔ " اتنی سخت بےہودہ چائے پارٹی تو میں نے ساری زندگی نہیں دیکھی "۔
وہ یہ کہہ رہی تھی کہ اسے ایک درخت نظر آیا ۔ جس کے تنے میں ایک دروازہ جڑا ہوا تھا ۔
" یہ تو بڑی اچھنبے کی بات ہے " وہ سوچنے لگی ۔ " لیکن آج کونسی چیز ہے جو اچھنبے کی نہیں ۔ اب سوچنا کیا ۔ کیوں نہ اندر چلی جاؤں "! اور وہ دروازے میں سے اندر داخل ہو گئی ۔ ایک دفعہ پھر اس نے خود کو اس لمبے ہال کمرے میں پایا ۔ اور بالکل چھوٹی شیشے کی میز کے پاس !
" اب اس دفعہ میں پہلے سے زیادہ عقل برتوں گی " اُس نے اپنے آپ سے کہا ۔ اُس نے اپنے منصوبے پر عمل کی ابتدا ننھی سنہری چابی اُٹھا کر اس دروازے کو کھولنے سے کی جس میں سے راستہ باغیچے میں جاتا تھا ۔ پھر وہ سانپ چھتری کو کترنے لگی ( اُس نے اس کا ایک ٹکڑا اپنی جیب میں رکھ لیا تھا )۔ اس کے کترنے سے جب وہ ایک فٹ قد کی ہو گئی تو وہ چھوٹے راستے پر چل پڑی ۔ اور پھر اس نے آخر کار خود کو خوبصورت باغیچے میں پایا ۔ ہر طرف چمک دار پھولوں کے تختے تھے اور ٹھنڈے فوارے ! ( جاری ہے )



 
آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

چھٹا باب
ملکہء عالیہ کا " کروکے " گراؤنڈ
جہاں سے باغیچہ شروع ہوتا تھا اس کے پاس بڑی گلاب کی جھاڑی تھی ۔ اس پر اُگے ہوئے پھول سفید تھے ۔ لیکن تین باغبان بڑے انہماک سے برش لگا کر ان پر سرخ رنگ پھیرنے میں لگے تھے ۔ ایلی کو یہ بڑی اچھنبے کی بات معلوم ہوئی اور وہ اُنہیں اچھی طرح دیکھنے کے لئے اور قریب چلی گئی ۔ جیسے یہ اُن کے پاس پہنچی اُس نے اُن میں سے ایک کو یوں کہتے سنا " دیکھو ! دیکھو ! مسٹر پانچ ، ارے ! تو سارا رنگ مجھ پر تھوپتا چلا جا رہا ہے ۔ تیرے دیدے تو نہیں پھوٹے ہوئے ۔ میرے کپڑوں کا ستیاناس کر دیا "۔
" میں کیا کرتا " پانچ نے ایک جلے لہجے میں کہا ۔ " سات نے میری کُہنی کو جھٹکا دیا تھا "۔
اس پر سات نے اوپر نظر کی اور بولا " پانچ ! یہ خوب ہے ! تم ہمیشہ اپنا قصور دوسروں کے سر تھوپتے ہو "۔
" تم نہ ہی بولو تو اچھا ہے " پانچ نے کہا ۔ " کل ہی تو میں نے ملکہء عالیہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ تم سر قلم کئے جانے کے لائق ہو "۔
" آخر کس لئے " اُس نے جو پہلے بولا تھا ، پوچھا ۔
" ابے دو ۔ تم اپنے کام سے کام رکھو "۔ سات بولا ۔
" ہاں ، یہ اس کا کام ہے " پانچ نے کہا ۔ " اور میں اس کو بتاتا ہوں ۔ یہ سر قلم کئے جانے کا سزاوار اس لیے ہے کہ اس نے باورچن کو پیازوں کی جگہ گلاب کے پھولوں کی جھاڑی کی جڑیں لا کر دے دیں "۔
سات نے پاؤں پٹخ کر اپنا برش زمین پر دے پھینکا ۔ اور ابھی یہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ " دیکھو تو یہ کتنی نا انصافی ہے ۔۔۔۔۔۔ " کہ اُس کی نظر اتفاق سے ایلی پر آن پڑی جو اُن کو کھڑی دیکھتی تھی ۔ سات بولتے بولتے فوراً رُک گیا ۔ دوسروں نے بھی مڑ کر دیکھا ۔ سب کے سب تعظیماً جھکے ۔
" کیا آپ لوگ مجھے بتایئں گے " ایلی نے ذرا لجاجت سے پوچھا " آپ ان پھولوں پر رنگ کیوں کر رہے ہیں"؟۔
پانچ اور سات کچھ نہ بولے مگر دو کے منہ کو دیکھنے لگے ۔ دو نے فوراً دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا ۔ " بات یہ ہے مِس ! تم جانو کہ یہاں ایک سرخ گلابوں کی جھاڑی ہونی چاہیئے تھی ۔ ہم سے بھول جو ہوئی تو ہم نے سفید لگا دی ، اور تم جانو ۔ ملکہء عالیہ کو اگر اس چیز کا پتہ چل جائے تو ہمارے سروں کی خیر نہیں ! ۔۔۔ اس لیے مِس ! تم دیکھتی ہو کہ ان کی آمد سے پہلے پہلے ہم سے جو بن پڑتا ہے ۔۔۔۔ "
اس لحظے پانچ جو بڑی بےچینی سے باغیچے کے پار دیکھ رہا تھا ، پکار اُٹھا ۔ " ملکہء عالیہ ! ملکہء عالیہ " اور تینوں باغبانوں نے فوراً خود کو زمین پر گرادینے کی کی ۔ بہت سے قدموں کی دھمک سنائی دی اور ایلی بےحد اشتیاق سے ملکہ کو دیکھنے کو پلٹی ۔
پہلے دس پیادے سپاہی تاش کی بازی کے ڈنڈے اُٹھائے آئے ۔ وہ سب تینوں باغبانوں کی شکل و شباہت میں ڈھلے تھے ۔ چوکور اور چپٹے ۔ ہاتھ اور پاؤں ان کے کونوں پر تھے ۔۔۔ پھر دس گولے ۔ وہ ہیرے الماس میں ڈوبے ہوئے تھے اور پیادے سپاہیوں کی مانند دو دو کی قطار میں چل رہے تھے ۔ اُن کے بعد شاہی بچے آئے ۔ وہ بھی دس تھے ۔ اور یہ چھوٹے گڈے سے دو دو کی قطار میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مزے سے اُچھلتے کودتے آ رہے تھے ۔ وہ سب تاش کے پان سے سجے بسے تھے ۔ ۔۔۔ اب مہمان آنے لگے ۔ زیادہ تر بادشاہ اور بادشاہ بیگمیں اور ان کے درمیان میں ایلی نے سفید خرگوش کو بھی پہچانا ۔ وہ ایک بہکتے ہوئے ، مضطرب انداز میں باتیں کرتا جاتا تھا ۔ مہمان بادشاہ اور بیگموں کی ہر بات پر خوشامد سے مسکراتا ہوا وہ اُس کی طرف دھیان دیے بغیر گزر گیا ۔ پھر آیا پان کا غلام ۔ بادشاہ کے تاج کو قرمزی رنگت کے مخملی تکیے پر اُٹھائے اور اس پُر شوکت جلوس کے سب سے آخر میں پان کے بادشاہ اور بادشاہ بیگم تشریف لائے ۔
ایلی تذبذب میں تھی کہ آیا اُس کو بھی تین باغبانوں کی طرح منہ کے بل چت لیٹ جانا چاہیئے تھا یا نہیں ۔ لیکن اُس نے جلوسوں کے لیے اس قسم کا قاعدہ قانون نہیں سنا تھا کہ اُن کے گزرنے پر اوندھے ہو گرو ۔ " اور پھر جلوس کا فائدہ ہی کیا ہے " وہ سوچنے لگی " اگر لوگوں کو منہ کے بل چت لیٹنا پڑے وہ اُسے دیکھیں گے کیونکر "! اس لیے وہ جہاں تھی وہیں کھڑی رہی اور انتظار کرنے لگی ۔
جب جلوس ایلی کے سامنے آیا وہ سب رُک گئے اور اُسے تکنے لگے اور بادشاہ بیگم ( اب ہم اُنہیں ملکہء عالیہ کی بجائے بادشاہ بیگم یا بیگم ہی کہیں گے کیونکہ تاش کی بازی میں اُنہیں بیگم ہی کہا جاتا ہے ) سختی سے بولیں " یہ کون ہے ؟"۔
یہ فقرہ اُنہوں نے پان کے غلام کو کہا ۔ جو مودبانہ جُھکا اور جواب میں صرف مسکرا دیا ۔
" احمق " بیگم نے بےصبری سے سر کو اُچھالتے ہوئے کہا اور ایلی کی طرف پلٹ کر کہنے لگیں " بچی ۔ کیا نام ہے تمہارا ؟ ۔
" حضور ملکہء عالیہ " ایلی نے بڑی مودبانہ ہو کر جواب دیا " اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ( اُس نے کہانیوں میں پڑھا تھا کہ بادشاہوں وغیرہ سے ہمیشہ اسی طرح بات کرنا مناسب ہے ) کہ میرا نام ایلی ہے "!۔
( لیکن ایلی نے دل میں کہا ۔ کیوں ! یہ ہیں تو تاش کی گڈی کے پتے ہی ۔ مجھے ان سے ڈرنے کی ضرورت کیا ہے "۔ )
" اور یہ کون ہیں " بیگم نے تین باغبانوں کی طرف جو گلاب کی جھاڑی کے گرد پڑے ہوئے تھے ، اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔ تم جانو ! وہ تینوں منہ کے بل اوندھے لیٹے تھے اور ان کی پیٹھوں پر وہی نمونے چھپے تھے جیسے گڈی کے دوسرے پتوں پر ۔ اس لیے وہ کیسے جان سکتی تھیں کہ وہ باغبان ہیں یا پیادے سپاہی یا گولے یا اُس کے اپنے تین بچے !۔
بادشاہ بیگم غیظ و غضب سے لال بھبھوکا ہو گئی اور ایلی کو ایک لحظہ خونخوار جانور کی طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھا ۔ پھر وہ چیخ اُٹھی " اُڑا دو اس کا سر ۔۔۔۔ اُڑا دو ۔۔۔۔۔ "
" ہونہہ۔۔۔۔ لففو "۔ ایلی نے اونچی پُر عزم آواز سے کہا اور بادشاہ بیگم چپ ہو گئی ۔
بادشاہ نے اپنا ہاتھ بیگم کے بازو پر رکھا اور ذرا ڈرتے ڈرتے کہا " میری جان ! پھر غور کرلیں ۔ چھوٹی سی بچی تو ہے "۔
بادشاہ بیگم بپھری ہوئی اُس کی طرف سے پلٹیں اور گولے کو حکم دیا " ان کو سیدھا کرو "۔ گولے نے یہ کام بڑی احتیاط اور اہتمام سے اپنے پاؤں سے سرانجام دیا ۔
" اُٹھ کر کھڑے ہو جاؤ " بیگم ایک تیز اونچی آواز میں چلائی اور تینوں باغبان فوراً اُچھل کر کھڑے ہو گئے اور بادشاہ بیگم ، شاہی بچوں اور دوسرے سب لوگوں کو جو موجود تھے ، جھک جھک کر سلام کرنے لگے ۔
" بس ! بس ! ختم کرو یہ سلامی ۔" بیگم چیخی " تم نے تو میرا سر چکرا دیا ہے " اور پھر وہ گلاب کی جھاڑی کی طرف متوجہ ہوئی اور پوچھنے لگی " اس کو تم کیا کرتے رہے ہو "۔
" خدا حضور کے اقبال کو سلامت رکھے " دو نے ایک گھٹنے پر ہو کر بڑے عاجزانہ لہجے میں عرض کی ۔ " ہم کوشش کر رہے تھے ۔۔۔"
" ہونہہ تو یہ قصہ ہے " بیگم نے جو اس اثنا میں پھولوں کا معائنہ کر رہی تھی ، کہا " اُڑا دو ان کا سر " اور جلوس آگے بڑھ گیا ۔ تین پیادے سپاہی بدقسمت باغبانوں کا سر اُڑانے کے لیے پیچھے رہ گئے اور وہ غریب جان بچانے کی خاطر ایلی کی طرف دوڑے گئے ۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )

" تمہارا سر قلم نہیں ہوگا " ایلی نے کہا اور اُس نے اُنہیں اُٹھا کر پاس ہی ایک بڑے پھولوں کے گملے میں چھپا دیا ۔ تینوں سپاہی ایک دو منٹ اُن کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے رہے اور پھر دوسروں کے پیچھے چل دیے ۔
" اُڑا دیے اُن کے سر "! بیگم نے چلا کر پوچھا ۔
سپاہیوں نے جواب میں چلا کر کہا " خدا حضور کے اقبال کو سلامت رکھے اُن کے سر اب نہیں ہیں "۔
" چلو ٹھیک ہوا ۔ شاباش " بادشاہ بیگم چلائی ۔ " کیا تم " کراکے " کھیل سکتی ہو ؟"۔
سپاہی خاموش رہے ۔ اُنہوں نے کنکھیوں سے ایلی کی طرف دیکھا ۔ کیونکہ ظاہراً یہ سوال اُس سے کیا گیا تھا ۔
" ہاں " ایلی چلائی۔
" آؤ پھر " بیگم گرجی ۔ اور ایلی جلوس میں شامل ہو گئی یہ سوچتی ہوئی کہ دیکھوں اب کیا تماشہ ہوتا ہے ۔
"یہ ۔۔۔۔۔ یہ بڑا عمدہ دن ہے " اُس کے پہلو سے ایک دبی، جھجکی آواز نے کہا ۔ وہ سفید خرگوش کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔ خرگوش اُس کے منہ کو بڑی بےچینی سے تک رہا تھا ۔
" بڑا ۔۔۔۔ " ایلی بولی ۔ " نوابزادی کدھر ہیں "۔
" ہُش ! ہُش " خرگوش نے ایک سہمی ہوئی مگر دھیمی آواز میں کہا ۔ بولتے ہوئے اُس نے منہ پھیر کر اپنے کندھے کے اوپر سے ایک بےچین نظر دوڑائی کہ کسی نے سُنا تو نہیں ۔ پھر اُس نے خود کو پنجوں کے بل اونچا کیا ۔ اپنے منہ کو ایلی کے کان کے پاس لے گیا اور سرگوشی میں کہا ۔ " اُسے سزائے موت کا حکم ہوا ہے "۔
" کس قصور پر " ایلی نے پوچھا ۔
" کیا کہا تم نے ؟ ۔۔۔ غالباً بڑا افسوس ہے ، یا اس قسم کی بات " خرگوش نے پوچھا ۔
" نہیں ۔ میں نے بڑا افسوس ہے ، نہیں کہا " ایلی نے جواب دیا ۔ نوابزادی کے معاملے میں اس افسوس کی کونسی بات ہے ۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ کس قصور پر "۔
" اُس نے ملکہء عالیہ کے کانوں پر چپت ماری تھی " ۔۔۔۔۔ خرگوش بتانے لگا ۔ ایلی نے ایک قہقہہ لگایا ۔
" اوہ ہُش ! ہُش " خرگوش نے ایک سہمے ہوئے لہجے میں سرگوشی کی " ملکہء عالیہ تمہیں سُن پایئں گی ۔ اُن کے کان بڑے تیز ہیں ۔ خرگوش سے بھی زیادہ ۔۔۔ تم جانو ۔ نوابزادی کچھ دیر سے پہنچی تھی اور ملکہء عالیہ نے اس سے فرمایا ۔۔۔"
" سب اپنی اپنی جگہ پر چلے جاؤ " بادشاہ بیگم گرج کی آواز میں پکاری اور لوگ سب طرفوں میں دوڑنے لگے ۔ ایک دوسرے سے ٹکر کھاتے ، گرتے پڑتے ۔ ایسی بھگدڑ مچی کہ الامان ! خیر ایک دو منٹ میں وہ اپنی اپنی جگہ پر جا جمے اور کھیل شروع ہو گیا ۔
ایلی سوچنے لگی ۔ ایسا عجیب و غریب " کروکے " کا گراؤنڈ عمر بھر نہیں دیکھا نہ سُنا ۔ وہ سارے کا سارا نالیوں اور مٹی کی اُبھری لکیروں سے پٹا تھا ۔ اونچا ، نیچا اور غیر ہموار ۔ " کروکے " کے کھیلنے کی گیند بےچارے زندہ سپاہی ( ماہی پشت ) تھے اور بلے غریب زندہ لم ڈھینگ ۔ چونکہ اس کھیل میں ڈاٹیں بھی گراؤنڈ میں کھڑی کی جاتی ہیں ، اُن کے لیے پیادے سپاہیوں کی سختی آئی ۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر دوہرے ہو کر گراؤنڈ میں ڈاٹیں جا بنے ۔
ایلی کو جو پہلے پہل بڑی مشکل پیش آئی وہ تھی اپنے لم ڈھینگ کے قدکو ڈھنگ سے سنبھالنا اور اس سے خاطر خواہ کام لینا ۔ وہ اُس کے جسم کو اپنی بغل میں بڑے آرام سے اُڑسنے میں تو کامیاب ہو گئی ، ( لم ڈھینگ کی ٹانگیں تو ظاہر ہے نیچے لٹکی رہتی تھیں )۔ مگر اکثر ہوتا یوں تھا کہ جب وہ اُس کی گردن کو نشانے کے لیے ٹھیک سیدھا کر لیتی اور سپاہی کو اُس کے سر سے ٹھوکر لگانے کو ہوتی ، اس کا بلا لم ڈھینگ خود کو توڑ مروڑ کر اُلٹا ہو جاتا اور اُس کے منہ کو ایسے حیران کُن دیدوں سے تکنے لگتا کہ وہ ہنسی کے مارے بےحال ہو ہو جاتی۔۔۔ وہ دوبارہ لم ڈھینگ کے سر کو نیچے دباتی اور بلا مارنے کی تیاری کرتی تو اب کے سپاہی صاحب اپنے جوڑ بند کھول کر کسی رُخ پر کھسکنے کے عمل میں ہوتے ۔ غرض بلے اور گیند پر کسی کا بھروسہ نہ تھا ۔ اس کے علاوہ بلا مار کر جس سمت سپاہی کو بھیجنا چاہتی تھی اُدھر بالعموم کوئی نہ کوئی نالی یا مٹی کو کنارہ ضرور ہوتا تھا ۔ اور پھر ڈاٹوں کی مصیبت بھی تو تھی ۔ دوہرے ہوئے پیادے سپاہی جو ڈاٹوں کا نقشہ اختیار کیے ہوتے تھے جب دل چاہتا اُٹھ کھڑے ہوتے اور گراؤنڈ کے دوسرے حصوں کو چل دیتے ۔ اس طرح ڈاٹوں کا بھی اعتبار نہ تھا ۔ ایک لحظہ ایک جگہ گیند یا سپاہی گزارنے کے لیے ڈاٹ ہے اور دوسرے لمحے وہ ڈاٹ غائب ۔ ایلی جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ یہ بہت مشکل کھیل ہے ۔
کھلاڑی اپنی اپنی باریوں کا انتظار کیے بغیر ایک ہی ساتھ کھیلنے لگتے ۔ ایک دوسرے سے تُو تُو میں میں اور سپاہیوں پر تکرار مسلسل ہوتی رہتی ۔۔۔ ان حالات میں تھوڑی دیر کے بعد ہی بادشاہ بیگم کا پارہ چڑھ گیا ۔ اور وہ پاؤں زمین پر پٹخ پٹخ کر ایک منٹ میں کم از کم ایک بار چلانے لگی ۔ " اُڑا دو اس مردود کا سر ۔ یا ، اُڑا دو اس چھوکری کا سر "۔
ایلی نے بڑی بےچینی کا احساس کیا ۔ مان لیا کہ اب تک اس کی بادشاہ بیگم سے کسی چخ چخ کی نوبت نہیں آئی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ یہ بات کسی بھی وقت ہو سکتی ہے ۔
" اور پھر " وہ سوچنے لگی " میرا بنے گا کیا ۔ یہاں تو لوگوں کے سر اُڑا دینا معمولی بات لگتا ہے ۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ کون زندہ بچ رہا ہے "۔
وہ بھاگ نکلنے کی راہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہی ۔ وہ سوچنے لگی یہاں سے نظر بچا کر کیونکر بھاگا جا سکتا ہے ۔ اتنے میں اُس نے ہوا میں ایک عجیب سی شکل معلق دیکھی ، پہلے پہل تو وہ بڑی چکرائی کہ یہ ہے کیا مگر اس کو ایک دو منٹ بغور تکنے کے بعد وہ پہچاننے لگی کہ یہ تو چیری ہوئی باچھیں ہیں اور اس نے خود سے کہا ۔
" یہ تو خُراسانی بلی ہے ۔ چلو اب کوئی بات کرنے کو تو ہوگا "!
ایلی نے باچھوں کے پیچھے آنکھوں کے نمودار ہونے کا انتظار کیا اور پھر اپنے سر کو جنبش دی ۔۔۔ بلی کو بتانے کے لیے کہ اچھا ہے تم آ گئیں ۔
" جب تک اس کے کان یا کم از کم ایک کان نہیں آ جااتا " وہ سوچنے لگی " اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا "۔
اگلے ہی لمحے سارا سر نمودار ہو گیا اور پھر ایلی نے لم ڈھینگ کو دوہرا کیا زمین پر اور لگی اُس کو کھیل کا حال سُنانے ۔ اُسے اِس کی بڑی خوشی تھی کہ کوئی تو اُس کی بات سننے والا ہے ۔ بلی یہ سمجھتی معلوم ہوتی تھی کہ اب میرا کافی حصہ نظر آنے لگا ہے ۔ اس لیے مزید بلی ظاہر نہ ہوئی ۔
" میں نہیں سمجھتی کہ یہ کھیل اُصول سے کھیل رہے ہیں "۔ ایلی نے قدرے شکایت آمیز لہجے میں بات شروع کی ۔ " اور پھر یہ آپس میں اس بری طرح لڑتے جھگڑتے ہیں کہ آدمی کو خود اپنی آواز سُنائی نہیں دیتی ۔۔۔۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اس کھیل کے کوئی بندھے ٹکے قاعدے بھی نہیں بنا رکھے ۔ ہوں گے بھی تو کوئی اُن کو دھیان دیتا ۔۔۔۔ اور تم سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کھیل کے سب سامان کے زندہ ہونے کے سبب کیسی ہڑبونگ مچی ہوگی ۔ مثال کے طور پر اس ڈاٹ کو دیکھو جس میں مجھے گراؤنڈ کے پرلے سرے پر سے چلتے ہوئے گزرنا تھا ۔ جو میں یہ کر لیتی تو بادشاہ بیگم کے سپاہی کو بلا مار کر " کروکے " کر دیتی ۔ لیکن ڈاٹ نے جو میری ہِٹ کو آتے دیکھا جھٹ سیدھی ہو کر بھاگ کھڑی ہوئی"۔
" بادشاہ بیگم آپ کو کیسی لگی ؟"۔ بلی نے نیچی آواز میں پوچھا ۔
" بالکل اچھی نہیں لگی " ایلی بولی ۔ وہ بےحد ۔۔ بےحد۔۔۔۔ " اس وقت اُس کی نظر بادشاہ بیگم پر پڑی جو اس کے پیچھے ہی کان لگائے کھڑی تھیں ۔ اس لیے اُس نے بات بدل کر کہا " ۔۔بےحد۔۔۔۔اس حد تک تقریباً کھیل جیت چکی ہیں کہ کھیل کو ختم ہونے تک کھیلنا مفت کی بھاگ دوڑ ہوگی "۔
بادشاہ بیگم مسکرائیں اور گزر گئیں ۔
" تم کس سے باتیں کر رہی ہو ؟" بادشاہ نے ایلی کے پاس آ کر بلی کے سر کو بڑے اچھنبے سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
" یہ میری سہیلی ہے ، خراسانی بلی " ایلی نے کہا ۔ " کہیے تو میں حضور سے اس کا تعارف کرادوں "۔
" مجھے اِس کی شکل و شباہت قطعاً پسند نہیں آرہی " بادشاہ بولا ۔ " خیر اس کی مرضی ہو تو میرا ہاتھ چوم سکتی ہے "۔
" میری مرضی نہیں " بلی بولی ۔
" تم گُستاخ ہو رہی ہو " بادشاہ نے کہا ۔ " اور مجھے اِس طرح گھورنے کی ضرورت نہیں "۔ یہ کہتے ہوئے بادشاہ ایلی کے پیچھے جا دبکا ۔
" ایک بلی بادشاہ کو نظر ملا کر دیکھ سکتی ہے " ایلی نے کہا ۔ " میں نے اِسے کسی کتاب میں پڑھا ہے مگر یاد نہیں آتا کہاں پر "۔
" خیر ۔ اس کو یہاں سے فوری ہٹا دینا چاہیے " بادشاہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔ اُس نے بادشاہ بیگم کو آواز دی جو اس لحظے وہاں سے گزر رہی تھیں ۔ " میری جان ! میں چاہتا ہوں تم اس بلی کو یہاں سے ہٹوادو "۔
بادشاہ بیگم کے پاس تو سب چھوٹی بڑی مشکلات کے نمٹانے کا ایک ہی حل تھا ۔ " اُڑا دو اِس کا سر " اُس نے مڑ کر دیکھے بغیر کہا ۔
"میں خود جلاد کو لے کر آتا ہوں " بادشاہ نے بےتابی سے کہا اور جلدی سے روانہ ہو گیا ۔
ایلی نے سوچا کہ چلو واپس چلتے ہیں ۔ دیکھو تو کھیل کا رنگ کیسے جما ہے ۔ اُس وقت اُس نے فاصلے پر بادشاہ بیگم کو کسی بات پر غصے کے مارے چیختے ہوئے سُنا ۔ وہ اب تک تین کھلاڑیوں کو سزائے موت کا حکم دیتے ہوئے سن چکی تھی۔ قصور اِن غریبوں کا فقط یہ تھا کہ وہ اپنی باریوں سے چُوک گئے تھے۔ ایلی کو کھیل کے حالات اچھے نہ لگے۔ کیونکہ ہر طرف ایسی گڑ بڑ پھیلی تھی کہ اُسے پتہ نہ چل سکا کہ اُس کی باری آئی ہے یا نہیں ۔ سو وہ اپنے سپاہی کو ڈھونڈنے چل پڑی ۔
یہ سپاہی ایک اور سپاہی سے زور آزمائی میں مشغول تھا ۔ ایلی نے سوچا ۔ موقعہ اچھا ہے کہ ایک سپاہی کو دوسرے سپاہی سے " کروکے " کر دیا جائے ۔ مشکل یہ آن پڑی کہ لم ڈھینگ چہل قدمی کرتا باغیچے کے دوسری طرف پہنچا ہوا تھا ۔ جہاں ایلی اُسے بےچارگی سے ایک درخت پر اُڑ بیٹھنے کی کوشش کرتے دیکھ سکتی تھی ۔
لم ڈھینگ کو پکڑ کر واپس آئی ( اس میں اچھا خاصا وقت لگ گیا تھا ) تو سپاہیوں کا دنگل ختم ہو چکا تھا اور وہ دونوں کہیں دکھائی نہ دیتے تھے ۔
" چلو کوئی بات نہیں " ایلی نے سوچا ۔ " ویسے بھی گراؤنڈ کی اس طرف سے سب ڈاٹیں چل رہی ہیں "۔
سو اُس نے لم ڈھینگ بغل میں مارا تاکہ یہ پھر نہ بھاگ کھڑا ہو اور اپنی دوست خراسانی بلی سے مزید تبادلہء خیالات کرنے کے لیے لوٹ آئی ۔
جب وہ خراسانی بلی کےپاس پہنچی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اُس کے گرد بہت سارے لوگ جمع ہیں ۔ بادشاہ ، بادشاہ بیگم اور جلاد میں کسی بات پر تکرار ہو رہی تھی اور یہ تینوں ایک ساتھ اپنی اپنی چلا رہے تھے ۔باقی سب لوگ منہ لٹکائے خاموش کھڑے تھے ۔
جونہی ایلی وہاں وارد ہوئی تینوں اُس کے پیچھے پڑ گئے کہ وہ اس معاملے کو طے کرے۔ اور تینوں نے اُس کے رُو برو اپنے اپنے دلائل دُہرائے ۔ چونکہ وہ ایک ساتھ ہی بولتے چلے گئے، ایلی مشکل سے ہی سمجھ پائی کہ وہ کیا کہہ رہے تھے ۔
جلاد کی دلیل یہ تھی کہ تم ایک سر کو نہیں اُڑا سکتے جب تک کہ اُس کے نیچے ایک جسم نہ لگا ہو جس پر سے سر کو قلم کیا جا سکے ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اُسے اس سے پہلے ایسا کام کرنے کو کبھی نہیں کہا گیا اور عمر کے اس دور میں وہ اس کی داغ بیل نہیں ڈالے گا ۔
بادشاہ کی دلیل تھی کہ ہر وہ چیز جو سر رکھتی ہے اس کا سر کاٹا جا سکتا ہے ۔ اور جلاد خواہ مخواہ بک بک کر رہا ہے ۔
بادشاہ بیگم کی دلیل یہ تھی کہ فوراً سے پیشتر اس معاملے میں کچھ نہ کیا گیا تو وہ ارد گرد کھڑے ہوئے سب لوگوں کے سر قلم کرادیں گی ۔
( بادشاہ بیگم کی اس رائے نے ساری ٹولی کو بےتحاشہ سنجیدہ اور بدحواس کر رکھا تھا )۔
ایلی کو کہنے کو سوائے اس کے کچھ اور نہ سُوجھا " یہ نوابزادی کی مانو بلی ہے ۔ پہلے اس بارے میں اُن سے تو پوچھ لیں "،
" وہ قید میں ہے " بادشاہ بیگم جلاد سے بولیں " جاؤ اُسے یہاں لا کر پیش کرو "۔ اور جلاد تیر ہو گیا ۔
اُس کے جاتے ہی بلی کا سر مٹنے لگا اور جب وہ نوابزادی کو لے کر واپس آیا تو وہ بالکل غائب ہو چکا تھا ۔ سو بادشاہ اور جلاد اُس کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر سرپٹ بھاگنے دوڑنے لگے اور باقی ٹولی کھیل کو جاری رکھنے کو متوجہ ہو گئی ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
( گزشتہ سے پیوستہ )

ساتواں باب
نقلی کچھوے کی کہانی

" تم کیا جانو ۔ تمہیں دوبارہ ملنے سے کس قدر خوشی ہوئی ہے ۔ میری پیاری گڈو " نوابزادی اپنے بازو کو بڑی محبت سے ایلی کے بازو میں ڈالتے ہوئے بولی اور وہ دونو ں اکٹھی چل پڑیں ۔
ایلی اُسے اپنی طرح خوش مزاج پا کر بڑی خوش ہوئی اور سوچنے لگی کہ شاید یہ قصور مرچ کا تھا جس نے اسے باورچی خانے میں پہلی ملاقات کے وقت اتنا غصیلا اور تیز کر رکھا تھا ۔
" جب میں نوابزادی ہوں گی " ایلی نے خود سے کہا (اگرچہ زیادہ پرامید لہجے میں نہیں) تو میں اپنے باورچی خانے میں مرچیں نام کو نہ آنے دوں گی ۔ شوربہ مرچ مصالحہ کے بغیر اچھا بھلا ہی تو ہوتا ہے ۔۔۔۔ شاید لوگ جو تیز مزاج ہو جاتے ہیں اور جلی کٹی سنانے لگتے ہیں، مرچ زیادہ کھاتے ہیں ۔ " وہ بولتی گئی ایک نئے قاعدے کو دریافت کرنے پر بےحد خوش ۔ " اور سرکہ لوگوں کو کھٹا اور تیکھا کر دیتا ہے ۔۔۔ اور مونگ ان کو تلخ ۔۔۔ اور جو کی مٹھائی اور اس قسم کی چیزیں کھا کھا کر بچے اتنے اچھے مزاج کے ہو جاتے ہیں ۔۔۔ کاش لوگوںکو اس بات کا علم ہوتا ۔ پھر وہ بچوں کو مٹھائی کھانے سے منع نہ کرتے اور اس بارے میں اتنی کنجوسی نہ برتتے"۔
وہ اس وقت تک نوابزادی کو بالکل بھول بھلا چکی تھی اور جب اس نے اس کی آواز اپنے کان سے بالکل قریب سنی تو کچھ چونک گئی " اری میری گڈو ۔ تم تو سوچوں میں گم ہو گئیں اور اس سبب سے تمہیں باتیں کرنے کا خیال نہیں آیا ۔ میں اس وقت تو تمہیں نہیں بتا سکتی کہ اس سے کیا اخلاقی نتیجہ حاصل ہوتا ہے مگر ابھی یاد آجائے گا ۔ "
" شاید اس کا کوئی اخلاقی نتیجہ ہو ہی نہ " ایلی نے کہنے کی جراءت کی ۔
" تت۔ تت ۔ بچی " ہر ایک چیز کا اخلاقی نتیجہ کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا ہے ۔ بس یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔" اور یہ کہہ کر وہ خود کو ایلی کے ساتھ اور چمٹانے لگی۔
ایلی کو اس کا اس طرح گتھنا کچھ زیادہ نہ بھایا ۔ ایک تو نوابزادی بہت بدصورت تھی اور دوسرے یہ کہ اس کا قد بس اتنا ہی اونچا تھا کہ وہ ایلی کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی مزے سے ٹیک رہی تھی اور یہ بڑی غیر آرام دہ ، چبھتی ، تیز ٹھوڑی تھی۔ خیر ایلی بدتمیز نہیں بننا چاہتی تھی، اس لیے اسے چاروناچار نوابزادی کی ٹھوڑی کو برداشت کرنا ہی پڑا ۔
" کروکے " کا کھیل اب پہلے سے کچھ بہتر جا رہا ہے ۔" اس نے بات چیت جاری رکھنے کے لیے کہا ۔
" ہاں ۔ درست ہے ۔ درست ۔ " نوابزادی نے کہا ۔ اور تم جانتی ہو اس سے کیا اخلاقی نتیجہ یا سبق نکلتا ہے ۔ اس کا سبق یہ ہے ۔۔ محبت --- صرف محبت ۔ جس سے دنیا جلتی ہے "۔
" کسی نے یہ بھی تو کہا ہے ۔" ایلی نے سرگوشی کی ۔ " کہ اگر ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھے تو دنیا جلتی ہے "۔
" ہونہہ ۔ اچھا تو ۔ بات ایک ہی ہے ۔ یوں کہہ لو یا ووں کہہ لو " نوابزادی نے اپنی تیز چھوٹی ٹھوڑی ایلی کے کندھے میں گاڑتے ہوئے کہا ۔ پھر اس نے ااضافہ کیا ۔ " اور اس کا سبق یہ ہے آج کا کام کل پر نہ چھوڑو ۔"
" یہ نوابزادی ہر بات میں اخلاقی نتیجہ نکالنے کی کتنی شوقین ہے ۔ " ایلی سوچنے لگی ۔
" میں کہوں تم سوچ رہی ہو میں اپنی بانہہ تمہاری کمر کے گرد کیوں نہیں حمائل کر لیتی ۔" نوابزادی نے کچھ توقف کے بعد کہا " اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے لم ڈھینگ کے مزاج کا مجھے یقین نہیں۔ کر کے دیکھوں"!
" جو اس نے کاٹ لیا تو "! ایلی نے احتیاط سے جواب دیا ۔ وہ اپنی کمر کو نوابزادی کے بازو میں بھینچ دیے جانے کے لیے ہرگز بےتاب نہیں تھی ۔
" نہایت سچ ۔ یعنی درست ۔" نوابزادی نے کہا ۔ " لم ڈھینگ اور رائی دونوں کاٹ لیتے ہیں ۔اور اس کا سبق یہ ہے۔ ایک پروبال کے پرندے ہوویں ایک جا اکٹھے ۔"
" صرف یہ بات ہے " ایلی نے رائے دی ۔ " کہ رائی پرندہ نہیں ۔"
" درست ۔ حسبِ معمول ۔ درست ۔" نوابزادی نے کہا ۔ واہ ! ہر بات کو کیا صفائی اور خوبصورتی سے ادا کرتی ہو ۔"
" رائی معدنیات میں سے ہے ۔ میرا خیا ل ہے ۔" ایلی نے کہا ۔
" بےشک و شبہ معدنیات میں سے ہے تو ۔" نوابزادی نے کہا جو ایلی کی ہر بات سے اتفاق کرنے پر تیار معلوم ہوتی تھی ۔" یہا ں پاس ہی ایک بڑی رائی کی کان ہے ۔ اور اس کا سبق یہ ہے ۔ " رائی کا پہاڑ مت بناؤ "
" اوہ ! یہ تو میں جانتی ہوں ۔" ایلی چلا اُٹھی " یہ ایک سبزی ہے ۔ لگتی تو نہیں سبزی جیسی مگر ہے تو '!
" مجھے تم سے کُلی اتفاق ہے ۔" نوابزادی نے کہا ۔ " اور اس سے یہ سبق نکلتا ہے کہ بنو وہی جیسے کہ تم نظر آتے ہو ۔یا اگر تم اسے آسان زبان میں کہنا چاہو تو یہ کہ "اپنی ذات کو اس سے مختلف مت خیال کرو جیسی یہ دوسروں کو نظر آتی ہے ۔اور جس حال میں بھی جو کچھ بھی تم تھے اور تمہارے ہونے کا امکان تھا اس سے بالکل مختلف نہیں تھا جیسے تم تھے ان کو اس سے بالکل مختلف نظر آتا۔ چنانچہ ۔۔۔۔"
" میرا خیال ہے اگر میں نے یہ لکھنا ہوتا تو اس کو بہتر سمجھ سکتی " ایلی بڑی شائستگی سے بولی ۔ " جیسے تم نے اسے کہا ہے میرے پلے کچھ پوری طرح نہیں پڑا"۔
" یہ تو اس کے مقابلے میں کوئی چیز ہی نہیں جو میں چاہتی تو کہہ سکتی تھی۔" نوابزادی نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا ۔
" بس پلیز ۔ اب اسے اور زیادہ لمبا کھینچ کر کہنے کی تکلیف نہ کرو ۔" ایلی نے کہا ۔
" واہ ! تکلیف کی بات نہ کرو ۔ " نوابزادی نے کہا ۔ " جو کچھ بھی میں نے اب تک کہا ہے میں تمہیں تحفہ کے طور پر پیش کرتی ہوں"۔
" کیا سستا سا نسخہ ہے ۔نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری ۔" ایلی نے سوچا ۔ " شکر ہے کہ لوگ اس قسم کے تحفے تمہاری سالگرہ پر نہیں دیتے ۔" لیکن اس کو یہ ہمت نہ بن پڑی کہ یہ بات اونچی کہہ دیتی ۔
" اری پھر سوچ میں غرق ہوئی ہو ۔" نوابزادی نے اپنی چھوٹی نوکیلی ٹھوڑی کو پھر ایلی کے کندھے میں چبھوتے ہوئے کہا ۔
" سوچوں کیوں نہ ۔ مجھے سوچنے کا پورا پورا حق ہے " ایلی تیزی سے بولی کیونکہ اب وہ کچھ پریشان ہو چلی تھی۔
" حق ! ہاں تقریباؐ اتنا ہی حق " نوابزادی نے کہا ۔ " جتنا میمنوں کو اُڑنے کے ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔یہا ں ایلی کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نوابزادی کی آواز بات کے بیچ میں ہی گم ہو گئی اور وہ اس کی بانہہ جو اس کی بانہہ میں پڑی تھی کپکپانے لگی ۔ ایلی نے اوپر جو نظر کی تو سامنے بادشاہ بیگم کھڑی تھیں ۔ بازو سینے پر باندھے اور ماتھے پر گرج چمک کے طوفان کی تیوری چڑھی ہوئی تھی۔
" حضور ملکہء معظمہ ۔ سلامت باد ۔ کورنش بجا لاتی ہوں ۔" نوابزادی آہستہ سے مگر کمزور آواز میں کہنے لگی ۔
" اب میں تمہیں صاف صاف کہہ رہی ہوں۔ کان کھول کر سن لو نوابزادی ۔ " بادشاہ بیگم غصے میں زمین پر پاؤں پٹختے ہوئے بولیں ۔ " یا تو تم خود یا تمہارا سر اُڑ جائے ایک دم ، یعنی فوراؐ سے تقریباؐ نصف وقت میں ۔۔۔ جو سزا منظور ہو ۔ پسند کرلو ۔ " نوابزادی نے اپنی سزا پسند کرلی اور ایک لحظے میں یہ جا اور وہ جا ۔
" چلو آؤ ۔ کھیل کو پھر سے شروع کریں ۔" بادشاہ بیگم نے ایلی کو کہا اور ایلی غریب اتنی سہمی ہوئی تھی کہ اس کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا اور وہ آہستہ آہستہ اس کے پیچھے " کروکے " گراؤنڈ کی طرف چل پڑی ۔ ( جاری ہے )
 
آخری تدوین:
Top