اکادمی ادبیات کی عالمی کانفرنس: امجد اسلام امجد

یوسف-2

محفلین
کئی برس کے وقفے کے بعد بالآخر اکادمی ادبیات پاکستان کو یاد آہی گیا کہ اس کے فرائض میں سے ایک ادب کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح کی کانفرنسوں کا انعقاد بھی ہے۔ اکادمی کے نئے چیئرمین عبدالحمید اور ڈی جی ظہیر صاحب نے چند ماہ قبل بتایا کہ اس کے لیے نومبر کا مہینہ طے پا چکا ہے بس وزیراعظم سیکریٹریٹ سے مجوزہ تاریخ کی تصدیق کا انتظار ہے پھر معلوم ہوا کہ تاریخ بھی طے ہوگئی ہے اور دعوت نامے جاری کیے جارہے ہیں لیکن ابھی محاورۃً دعوت نامے کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ پیغام ملا کہ وزیراعظم کی کسی ناگہانی قسم کی مصروفیت کی وجہ سے اسے تاحکم ثانی ملتوی کردیا گیا ہے۔ عرض کیا گیا کہ ادبی کانفرنس کا وزیراعظم صاحب سے کیا تعلق ہے۔ معلوم ہوا کہ کانفرنس کا موضوع ادب اور جمہوریت رکھا گیا ہے اور چونکہ وزیراعظم صاحب کو ان دونوں شعبوں کے بارے میں ایک جیسی معلومات ہیں اس لیے وہ کسی بھی دروازے سے داخل ہوسکتے ہیں۔ اب کہ قرعۂ فال دس جنوری کے نام نکلا مجھے 4 سے 9 جنوری تک ہانگ کانگ کے احباب کا مہمان ہونا تھا اور یہ پروگرام بہت دنوں سے طے تھا اس لیے میں نے اکادمی والوں سے معذرت کی کوشش کی مگر ان کے پرزور اور پرجوش اصرار کی وجہ سے میں نے واپسی کی سیٹ اسلام آباد کی بک کروا لی۔ نو جنوری کی دوپہر تک ہر چیز پروگرام کے مطابق تھی پھر اچانک پتہ چلا کہ افتتاحی اجلاس نیشنل لائبریری کے بجائے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ہوگا کیونکہ وزیراعظم صاحب کو سیکیورٹی والوں نے ’’احتیاط‘‘ کا مشورہ دیا ہے۔ عرض کیا کہ نیشنل لائبریری کے ہال اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کے درمیان زیادہ سے زیادہ تین سو گز کا فاصلہ ہے اور یوں بھی انھیں ادیبوں اور شاعروں کو اپنے حضور ہی بلوانے کے بجائے ان کی محفل میں جا کر ملنا چاہیے کہ یہ ایک مستحسن اور موزوں اقدام ہوگا اور یہ کہ اگر وہ یہ تکلیف اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھیں کاروبار حکومت نمٹانے دیجیے کہ قوم کی خدمت ادب کی خدمت سے زیادہ ضروری کام ہے مگر جواب میں حکم حاکم مرگ مفاجات قسم کا جملہ سننے کا موقع ملا ۔میں ظہیر بھائی کی ہدایت کے مطابق ٹھیک گیارہ بجے موقعہ واردات پر پہنچ گیا، اکادمی نے ملک کے طول و عرض سے تقریباً چار سو لکھاریوں کو اس تقریب کے لیے مدعو کر رکھا تھا، اسلام آباد کے سو ڈیڑھ سو لکھاری اس کے علاوہ تھے اب جو دیکھا تو سیکیورٹی کے پہلے گیٹ سے ہال کے داخلی دروازے تک قطار لگتی چلی جائے آبگینوں کا سا معاملہ تھا کہ ایسی طویل قطار اس سے پہلے میں نے صرف ایک بار مائوزے تنگ کے مزار کے باہر دیکھی تھی۔ پرانے دوستوں سے ملنے ملانے اور نوجوان ادیبوں کے ساتھ فرمائشی نوعیت کی تصویریں اتروانے میں آدھا گھنٹہ نکل گیا لیکن اس دوران میں گیٹ کے اس پار والی قطار اپنی جگہ سے بظاہر ایک انچ بھی نہیں سرکی، معلوم ہوا کہ ابھی داخلے کا اصلی دروازہ نہیں کھلا ،کوئی پونے بارہ بجے کافی فاصلے پر موجود ہجوم میں ہلچل سی دکھائی دی ہم لوگ اس خیال سے لائن میں لگے کھڑے رہے کہ اپنے ’’مہذب‘‘ اور تابعدار ہونے کا ثبوت دے سکیں، اتنے میں ایک صاحب آکر بغل گیر ہوگئے دیکھا تو ہمارے چینی دوست تھانگ تھے جو دورۂ چین کے دوران ہمارے مترجم تھے اور اب اردو میں ڈاکٹریٹ کے بعد بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہیں۔ میں نے ایک دو منتظم نما نوجوانوں سے کہا بھی کہ یہ ہمارے محترم مہمان ہیں کم از کم انھیں خصوصی پروٹوکول دے کر اندر ہال میں لے جائیے ابھی تھانگ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تکلف کرنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ معلوم ہوا کہ داخلے کے دروازے بند کردیے گئے ہیں کیونکہ اندر اب مزید لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں رہی اور سیکیورٹی والے کسی کی سننے کو تیار نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتی کہ یہ ڈیڑھ دو سو پسماندگان ادب مہذب معاشروں میں عزت کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔میں تو برادرم ڈاکٹر انور نسیم کے ساتھ ان کے دفتر چلا آیا ۔ لیکن بعد میں جان کر مزید افسوس ہوا کہ اکادمی کے افسران نے سیکیورٹی کے متعلقہ عملے کو بار بار یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کے تقریباً چار سو مہمان طویل فاصلے طے کرکے چاروں صوبوں سے نہ صرف آچکے ہیں بلکہ ایک سو سے زیادہ مقامی مہمانوں کی آمد بھی متوقع ہے جب کہ آپ کے ہال میں کل 350 نشستوں کی گنجائش ہے اور یہ کہ اگر وزیراعظم صاحب زحمت کرکے ساتھ والی عمارت یعنی نیشنل لائبریری میں تشریف لے آئیں تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے مگر ہر بار انھیں یہی جواب ملا کہ ہمارے تجربے کے مطابق چھ سو مہمان بلائے جائیں تو زیادہ سے زیادہ ڈھائی تین سو آتے ہیں۔ اگلے سیشن میں جو اپنے طے شدہ مقام یعنی نیشنل لائبریری کے ہال میں منعقد ہوا اکثر مہمان اس بدنظمی اور بدانتظامی کا مختلف انداز میں گلہ کرتے دکھائی اور سنائی دیے لیکن میری طرح بیشتر کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس کی 90% ذمے داری ان کے میزبانوں کے بجائے وزیراعظم صاحب کی Self Projection کی خواہش اور ان کے عملے More loyal to the king, than king himself والی ذہنیت کی پیدا کردی تھی اور دیکھا جائے تو کانفرنس کا موضوع بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی تھا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس کانفرنس کے کچھ اچھے اور مثبت پہلو بھی تھے جن میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں ادبی مراکز سے دور مضافات کے ادیبوں، شاعروں اور بالخصوص نوجوان لکھنے والوں کی بھر پور نمایندگی دیکھنے میں آئی اور اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام اہم زبانوں کے لکھاریوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے سیاسی مداخلت اور ہمارے معاشرے کی معروف قباحتوں کی وجہ سے یہ اکادمی اب تک ان مقاصد کو بہتر اور مثالی انداز میں پورا کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی جن کی وجہ سے اس کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن یہ زوال کا وہ منظر نامہ ہے جس کو اگر علامہ صاحب کے ایک مصرعے (’’سرکار‘‘ کے معانی کی جزوی اور ہنگامی تبدیلی کے ساتھ) سے بخوبی سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے کہ تری ’’سرکار‘‘ میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے البتہ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ادیبوں کے اس معتبر ادارے اکادمی ادبیات پاکستان میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا اور یہ دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے میں کسی قسم کی شرم یا لحاظ محسوس نہیںکرتے۔ سو سرکار کے پیدا کردہ ان تمام جھمیلوں کے باوجود میرے خیال میں اس کانفرنس کا انعقاد ایک مثبت، تعمیری اور ضروری عمل تھا اور اس کا تسلسل یقینا ان روشن امکانات کا حامل ہے جن کی سلور لائن مدھم سہی لیکن ہمارے معاشرے کے چاروں طرف اپنا ظہور کررہی ہے۔ دعا ہے کہ مولا کریم اس کی چمک دمک میں اضافہ فرمائیں۔ (بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس)
 
Top