اچھے طالبان ہوں یا برے، آپریشن میں سب کو نشانہ بنایا جائیگا

اچھے طالبان ہوں یا برے، آپریشن میں سب کو نشانہ بنایا جائیگا

اسلام آباد (انصار عباسی) معلوم ہوا ہے کہ اچھے اور برے طالبان میں تفریق کیے بغیر اور فوجی حکام کے ساتھ معاہدے کرنے والے طالبان سمیت آپریشن ضربِ عضب میں تمام جنگجوئوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ باخبر ذرائع کے مطابق صرف ان ہی جنگجوئوں اور گروپس کو چھوڑا جائے گا جو ہتھیار ڈال دیں گے۔ اگرچہ نواز شریف کابینہ میں اکثر لوگوں کو فوجی آپریشن کی حدود اور مقاصد سے لاعلم ہیں لیکن کابینہ کے ایک باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر گروپس جیسے جنگجوئو گروہوں کو بھی شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے اس فوجی آپریشن میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کے متعلق پہلے ہی کہا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان منتقل ہوچکے ہیں۔ رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات پرویز رشید نے تفصیلات کے بغیر ہی بتایا کہ اچھے اور برے طالبان میں تفریق کیے بغیر صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ جو لوگ ہتھیار ڈال دیں گے صرف انہیں فوجی حکام چھوڑ دیں گے لیکن جو ہتھیار نہیں ڈالیں گے انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اسی دوران ایک وزارتی ذریعے نے آپریشن کی تفصیلات کے متعلق پوچھنے پر بتایا کہ گل بہادر گروپ، جس کے ساتھ فوجی حکام نے شمالی وزیرستان میں کچھ برس قبل معاہدہ کیا تھا، معاہدے کی تعظیم برقرار رکھنے اور علاقے میں امن کو یقینی بنانے میں ناکام رہا۔ گل بہادر گروپ کو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ علاقے میں جنگجوئوں کی کوئی بھی سرگرمی نہ ہوسکے لیکن شمالی وزیرستان میں ایسا نہیں ہوسکا اور یہ علاقہ ایسے جنگجوئوں کی آماجگاہ بن گیا جو ریاست کے خلاف لڑنے لگے۔ ذریعے کے مطابق اس صورتحال کی وجہ سے فوج اور گل بہادر گروپ کے درمیان معاہدہ اب ختم ہوچکا ہے۔ فوج اور مولوی نذیر گروپ، جس کا جنوبی وزیرستان میں اثر رسو خ ہے، کے درمیان معاہدے کے حوالے سے ذریعے کا کہنا تھا کہ مولوی نذیر کے مرنے کے بعد معاہدے میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ ذریعے نے حقانی نیٹ ورک کے متعلق دعویٰ کیا کہ گروپ کے جنگجو پہلے ہی افغانستان کے اس علاقے میں منتقل ہوچکے ہیں جہاں سے ان کا تعلق ہے۔ جب ان سے ایسے گروپس بشمول سجنا گروپ جس نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرکے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اب تمام جنگجو گروپوں کیلئے ایک ہی شرط ہے ’’ہتھیار ڈال دیں‘‘۔ حکومت کی جانب سے ایسے گروپس، جن میں فوج کے ساتھ معاہدے کرنے والے گروپس بھی شامل ہیں، کے خلاف کارروائی کرنے سے خطرہ ہے کہ اس کا شدید رد عمل ظاہر ہوگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ تمام جنگجو گروپ متحد ہوجائیں۔ ایسی صورتحال میں انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو غیر معمولی طور پر زیادہ چوکنا رہنا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کو روکا جا سکے کیونکہ اس پالیسی کے نتیجے میں دہشت گرد گروپس میں مایوسی پھیلے گی۔ اگرچہ آپریشن شروع کرنے کے بعد سے پاکستان بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کی جا چکی ہے لیکن ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے جب بھی اہم اسٹریٹجک مقامات اور محفوظ ترین مقامات بشمول ایئرپورٹس، فضائی اور بحریہ کے اڈوں، انٹیلی جنس دفاتر حتیٰ کہ فوجی ہیڈکوارٹرز کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے اور وہ آسانی سے ایسا کرلیتے ہیں۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=209026
 
Top