ساحر اپنے چہرے سے وہ پردہ جو اٹھا دیتے ہیں

اپنے چہرے سے وہ پردہ جو اٹھا دیتے ہیں
رنگ گلزار کے پھولوں کا اڑا دیتے ہیں
مہ کدے انکی نگاھوں میں بسے رہتے ہیں
وہ جسے دیکھ لیں مستانہ بنا دیتے ہیں
بے وفائی سے وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں
کیسے بے درد ہیں کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں
ایسے بیٹھے ہیں کہ جیسے ہمیں دیکھا ہی نہیں
یہی انداز تو دیوانہ بنا دیتے ہیں
لال و گوہر سے حسینوں کو سجا دیتے ہیں
قدر دان یوں ہیں محبت کا صلہ دیتے ہیں
عشق کیا ہے یہ شہنشاہ سے پوچھے کوئی
حسن کو تخت حکومت پہ بٹھا دیتے ہیں
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں
کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
ہم سے دیوانے کہیں ترک وفا کرتے ہیں
جان جائے کہ رہے بات نبھا دیتے ہیں
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
تخت کیا چیز ہے اور لعل و جواہر کیا ہیں
عشق والے تو خدائی بھی لٹا دیتے ہیں
ہم نے دل دے بھی دیا ، عہد وفا لے بھی لیا
آپ اب شوق سے دے لیں جو سزا دیتے ہیں
ساحر لدھیانوی
 
Top