اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

سحر کائنات

محفلین
تحریر : سحر شعیل

جب کوئی شخص قلم کار کہلانےلگتا ہے تو اس کے کندھوں پر ایک ذمہ داری آن پڑتی ہےیعنی معاشرے کے کسی بھی پہلو میں موجود کمی یا نا ہمواری کو اجاگر کرنا ۔وہ عام لوگوں کی طرح برائی دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔اگر وہ ایسا کرے گا تو اپنے فن،افکار اور اپنے قلم سے انصاف نہیں کر پائے گا۔یہاں ایک نکتہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ قلم کار یا ادیب نہ صرف معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کی نشان دہی کرتا ہے بلکہ ان کی اصلاح کے لئے حل بھی بتاتا ہے۔یہ حل تب تک کار آمد نہیں ہو سکتے جب تک قلم کار کی تحریروں کو پڑھنے والے اپنے اپنے حصے کا فرض ادا نہیں کرتے۔

ماہِ اگست آتا ہے تو ہر سمت سبز ہلالی پرچم لہرانے لگتےہیں۔سبز جھنڈیاں اور اس قسم کی بہت سی اشیاء سے بازار سج جاتے ہیں ۔ہر سمت وطنِ عزیز کے پرچم اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ملی نغموں سے ملک کی فضائیں گونج اٹھتی ہیں۔غرض ہر طرف سبز ہلالی پرچم شان سے جلوہ نما نظر آتے ہیں۔اگر ہم آج سے بیس سال پیچھے چلے جائیں تو یہ رونقیں تب بھی تھیں۔فرق یہ ہے تب ہم بچپن کے زمانے میں تھے یا نوجوانی میں اور ہمیں وطن کے لئے دی گئی قربانیاں ازبر تھیں۔ہمارے گھروں میں ہمارے دادا دادی تحریکِ آزادی یا ہجرتِ آزادی کے چشم دید تھے اور ہم ان کی کہانیاں سن سن کر جوان ہوئے تھے۔ دورِ حاضر کی صورتِ حال مختلف ہے۔
جا بجا ملکی ترانوں پر نوجوان رقصاں ملتے ہیں ،آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہونے والے اجتماعات بھی رقص و سرود سے خالی نہیں ہوتے،اپنی اپنی گاڑیوں پر جھنڈوں کی بھرمار ہو تی ہے اور خوب شور رابا نظر آتا ہے۔ہر کوئی وطن سے محبت کے اظہار کے لئے جھنڈے کے ہم رنگ لباس پہنتا ہےاور زیبائش کی بہت سی دوسری اشیاء سبز ہلالی پرچم کے رنگ میں رنگی نظر آتی ہیں۔سوشل میڈیا پر ویڈیو ،آڈیو اور تصویری پیغامات کا گویا سیلاب امڈ آتا ہے۔نوجوانوں کی ٹولیاں سڑکوں پر شور شرابا کرتی اور بے مقصد وقت ضائع کرتی پائی جاتی ہیں۔
اس صورتِ حال میں ہم والدین کی ذمہ داری دوگنا ہو جاتی ہے۔ہمیں اپنے نو نہالوں کے معصوم ذہنوں کی آبیاری کرنی ہے۔ہمیں ان کی اصلاح کرنی ہے کہ وطن سے محبت نعرے بازیوں سے ظاہر نہیں ہوتی۔یا وطن سی عقیدت صرف 14 اگست کے دن نہیں ہے۔سبز لباس زیبِ تن کیے بغیر بھی وطن سے محبت ظاہر کی جا سکتی ہے۔یہ کام کسی ایک دن کے سمجھانے یا ایک بار کی نصیحت سے نہیں ہو گا۔ہر دن،ہر لمحہ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ وطن سے محبت کیا چیز ہے اور ہم وطنوں سے محبت کسے کہتے ہیں۔اگر ہم جذبہ حب الوطنی کی شمع ان کے دلوں میں جگانے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لیجیے ہم سر خرو ہو گئے اور ہم نے اپنے حصے کا فرض ادا کر دیا۔بقول شاعر

اگر چہ تیرا آج لہو رنگ ہے مگر
میں تیرا کل تو سنوار سکتا ہوں
اک عمر کیا میں ہزار عمریں آصف
تیرے سبز ہلالی پہ وار سکتا ہوں

ہمیں اپنے بچوں کے دلوں میں احساس کا دیا روشن کرنا ہے۔وطن کے نام کا احساس،وطن کی آبرو بچانے کا احساس ،وطن میں بسنے والے ہر ذی روح کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا احساس ۔ہمیں ان کو بتانا ہو گا کہ وطن سے محبت کے کیا تقاضے ہیں۔انھیں تخریبی سوچوں سے نکال کر مثبت اور تعمیری افکار دینے ہوں گے۔انھیں یہ سوچ دینی ہو گی کہ انھیں ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا۔ان کے ذہنوں میں یہ تصور پختہ کرنا ہو گا کہ وہ اس قوم کا سرمایہ ہیں اور قوم کی ترقی کی عمارت انہی کے اعمال پر کھڑی ہو گی۔ ان کے معصوم ذہنوں کو یہ سوچ عطا کرنی ہو گی کہ تحریک آزادی کے رہنماؤں کا کردار کیسا تھا اور وہ ہمارے قومی ہیروز ہیں ۔یہ ذمہ داری کسی ایک فرد یا طبقے کی نہیں بلکہ ہر شخص کی ہے کہ وہ نوجوانوں میں نظریہ پاکستان کے بنیادی عناصر کو زندہ رکھے۔ان میں یہ یقین پیدا کرے کہ وہ اس آزاد مملکت کے وارث ہیں۔ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا کہ یہ وطن محض ایک خطۂ زمین نہیں یہ اسلام کا مضبوط قلعہ ہے۔لا الہ پر رکھی گئی اس کی بنیاد صرف لفظی نعرہ نہیں تھی۔ہمیں بتانا ہو گا کہ یہ مٹی ہماری پہچان ہے۔ہم سندھی ،بلوچی،پٹھان ہوتے ہوئے بھی اول و آخر پاکستانی ہیں۔ہمیں اپنے نوجوانوں میں یہ جذبہ بیدار کرنا ہو گا کہ کچھ بھی ہو جائے وطن کے نام پر آنچ نہ آنے پائے۔انھیں سکھانا ہو گا کہ وہ ملک کے قوانین کی پاسداری کر کے بھی وطن سے محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔وطن کی مصنوعات کو باہر کی بنی ہوئی اشیاء پر فوقیت دے کر بھی وطن کی خدمت کر سکتے ہیں۔اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے گلی،محلے،سڑکوں کو صاف رکھ کر بھی وطن کی خدمت کر سکتے ہیں۔ان کے ذہنوں میں یہ تخیل ابھارنا ہو گا کہ مغرب کی تقلید میں ان کا فخر نہیں ہے ان کا غرور وطن کی مٹی ہے۔
بقول شاعر

میری مٹی نے دیا تھا مجھ کو میرا رنگ روپ
ڈھالتی جاتی ہے دنیا اپنی صورت پر مجھے
میں کہ خاک کی لو سے ہوا میرا ظہور
کاش ڈھونڈے کوئی میری خاک کے اندر مجھے

اس وطن کی خاک سے ہم ہیں اور اسی میں ہماری پہچان ہے۔آئیں آج سے،ابھی سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کریں گے۔تاکہ سرخرو ہو سکیں ۔ہم جس جگہ پر ہیں یعنی والدین یا استاد اپنے حصے کی شمع جلائیں گے تو اجالا ضرور پھوٹے گا۔اندھیرا بڑھ رہا ہے اور تاریکی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اندھیرا جتنا گہرا ہو گا،روشنی کی ذرا سی کرن بھی پھر بہت نمایاں ہوگی۔ہم ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ وطن نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ہمیں اس سوچ کو مدنظر نظر رکھنا ہے کہ ہم نے اس وطن کو کیا دیا اور کیا دے سکتے ہیں۔وطن کے مثبت پہلو کا پرچار کیجیے اور نوجوانوں کو مثبت سوچ دیجیے ۔ بقول احمد فراز

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
 
Top