اپنے ایک عالی قدر بزرگ کے وصال پر طویل نظم

علی معاھد

محفلین
سرعت سے پھڑکی نبض ِ جہاں کون ڈس گیا؟
چھائیں گھٹائیں رنج کی توخوں برس گیا

برسا غضب کا خون کہ ہر دل سمٹ گیا
شاید غموں کا سینہ غموں ہی سے پھٹ گیا

ذراتِ گلستان بھی خوں رنگ ہوگئے
گویا چمن کے پھول سبھی سنگ ہوگئے

کلیاں بجھی بجھی تھیں ، گئی رونق چمن
گردن بہ خم تھے لالہ و ریحان و نسترن

تکتے ہی تکتے زمزمہ پرداز اُڑگئے
آباد تھے دیار جو اک دم اجڑ گئے

آزردگی چمن میں عیاں گاہ گاہ تھی
ہر آنکھ خوں چکاں تھی ، ہر اک لب پہ آہ تھی

لیکن تھا ایک نغمہ سبھی سے جدا تھا وہ
بادِ نسیمِ صبحِ کو کرتا تھا زار جو

دیکھا جو سوئے شاخ کوئی غم نصیب تھی
حالِ چمن پہ نوحہ کنا ں عندلیب تھی

مرثیہ خواں تھی حال پہِ، بے باک تھی بہت
اس کی ہر ایک آہ الم ناک تھی بہت

کرکے بدن سے ساری جمع قوت نوا
ٹوٹا غلِ نوائے الم تو اسے کہا

نکلی صدا زباں سے کہ اے بلبلِ چمن
کس چیز نے کیا ہے تجھے ایسے نوحہ زن

کس نے تری نواؤں کو بے باک کردیا
نالوں کو دلخراش الم ناک کردیا

گردن اٹھائی سن کے مری جرأتِ زباں
کرکے نگاہ میری نگاہوں کے درمیاں

بولی بتاؤں شاعرِ بے سوز کیا تجھے
میں وہ نہیں ہو سمجھ تو بیٹھا ہے جو مجھے

دکھلاؤں خاک تجھ کو چمن کے اِدھر اُدھر
ہے تو گلوں کو دیکھ کے مرعوب کس قدر؟

غم یہ نہیں کہ قبضہِ خاراں چمن میں ہے
غم ہے کہ مثلِ فصلِ بہاراں چمن میں ہے

دِکھتے ہیں وہ جو پھول، حقیقت میں ہیں وہ خار
گل ہے کوئی تو منتظرِ موسمِ بہار

کیونکر نہ ہو، چمن کا نگہباں چلا گیا
ہائے کہ آج جانِ گلستاں چلاگیا

تھی جس سے ہر سو رونقِ گلشن چلا گیا
روتے اس کی یاد میں خرمن ، چلاگیا

منبع علم و حکمت و عرفاں چلاگیا
ولیِ زمانہ، عاشقِ یزداں چلاگیا

راہِ وفا کا ھادی و رھبر چلاگیا
غمناک دل ہیں ، عشق کا پیکر چلا گیا

ساقی کے جامِ مے کا جسے تھا جنوں گیا
صد حیف یہ کہ صاحب سوز دروں گیا

دستِ اجل نے گل نہں، گلشن مسل دیا
وہ باغبانِ مشفق و محسن بھی چل دیا

ھائے کہ عشق تابع و محدو ہوگیا
میرا بھی بوجھ ارض پہ بے سود ہوگیا

یہ کہہ کے اس نے چیخ جو ماری کہ مر گئی
شاید کہ سیلِ ہائے الم سے تھی ہر گئی

بیٹھی وہ شاخ پر تھی وہیں سر ڈھلک گیا
نیچے گری تو جام لہو کا چھلک گیا

ساکت کھڑا تھا گویا زمیں میں، میں گڑ گیا
فولاد کوئی میرے قویٰ کو جکڑ گیا

پتھرائیں آنکھیں اور ہوئی گنگ یوں زباں
کہ شور بھی چار سو لیکن نہ تھی فغاں

بولی زباں:زباں کی سکت سلب ہوگئی
مغموم روح مغموم روح خلش پئے قلب ہوگئی

اک آہ تھی جو قلب و نظر چیرتی گئی
ہو قیس کو جو تیغِ ھجر چیرتی گئی

ڈوبی نسِ دماغ ، اندھیرا سا چھا گیا
نالہءِ دل خراش تھا مجھ کو گرا گیا

ایسے لگا کلیجہ ابھی منہ کو آگیا
خورشیدِ چشم ، بادلِ ظلمت بجھا گیا

دھڑکن نے توڑا ایک جو باقی تھا آسرا
آگے خبر نہیں کہ مرا کہ نہیں مرا

مدت ہوئی تو دھڑکی رگِ جاں اٹی کٹی
آنکھیں کھلیں تو ذھن سے کچھ تیرگی چھٹی

ساکت پڑا تھا ، محوِ تحیر تھا کیا ہوا؟
گویا کہ میری فہم سے بالا ہو فیصلہ

نغماتِ گلستان تھے سب بین ہوگئے
کوئی دیا بجھا تھا کہ دن رین ہو گئے

روتا ہےگلستان : چراغاں کرے کوئی
آئے علی کے درد کا درماں کرے کوئی
 
Top