اور سات سو سال پرانا خواب پورا ہوگیا۔۔۔

سید عمران

محفلین
اُس روز کیا عجب سماں تھا، بارگاہِ رسالت میں صحابہ حاضر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مستقبل کے ایک بہت بڑے واقعہ کی پیش گوئی ارشاد فرما رہے تھے لتفتحنّ القسطنطینیۃ فلنعم الأمیر أمیرھا و لنعم الجیش جیشھا تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی۔(مسند امام احمد بن حنبل، جلد ۶، صفحہ۲۲۵)

قسطنطنیہ، اِک شہرِ باکمال
سات سرسبز پہاڑیوں پر قائم قسطنطنیہ ایک قدیم شہر تھا۔ شہر کے شمال میں ’’گولڈن ہارن‘‘ (Golden Horn) یعنی شاخِ زرّیں نامی خلیج، مشرق میں بحرِ اسود (Black Sea) اور جنوب میں بُحیرۂ مَرمَرہ (Marmara Sea)اس کے قدرتی حصار تھے۔
اُس زمانہ میں یہ یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اسے Vasileousa Polis یعنی Queen of cities (شہروں کی ملکہ (کہا جاتا تھا۔ قسطنطنیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شہرکا ایک حصہ براعظم ایشیا اور دوسرا حصہ یورپ میں واقع ہے۔اس شہر کو سولہ سو سال تک دنیا کی دو سپر پاورز کا دارالحکومت رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ ہزار سال قبل جب پوری دنیا کی کل آبادی پچیس کروڑ تھی اُس وقت صرف قسطنطنیہ میں آٹھ لاکھ لوگ آباد تھے۔
اس شہر کی بنیاد ۶۵۸ قبل مسیح میں یونان کی توسیع کے دوران ڈالی گئی۔ اس وقت اس کے بانی ’’بائزاس‘‘ (Byzas) کے نام پر اس شہر کا نام بازنطین (Byzantine)پڑا۔۳۳۰ء میں بادشاہ قسطنطین نے اس کانام اپنے نام پر کانسٹنٹائنوپل(Constantinople) رکھا جو عربی میں قسطنطینیہ اور فارسی و اردو میں قسطنطنیہ بن گیا۔ اس طرح سو سال قبل مسیح کے لگ بھگ یہ شہر رومی سلطنت کا حصہ بنا اور تقریباً گیارہ سو سال تک رومی سلطنت کا دا ر الحکومت رہا۔ قسطنطنیہ کو عیسائی دنیا میں روحانی قلعہ کی حیثیت حاصل تھی۔ آرتھوڈوکس فرقہ کے عیسائی قسطنطنیہ کی طرف منہ کرکے دعائیں مانگا کرتے تھے۔

شہر کو فتح کرنے کی کوششیں
فتحِ قسطنطنیہ سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا مصداق بننے کے لیے صحابہ کرام کے دور سے لے کر سات سو سال تک مسلمان اسے فتح کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں جب اسلامی سلطنت کو بہت زیادہ وسعت ملی تو قسطنطنیہ فتح کرنا ہر مسلمان سپہ سالار کا خواب بن گیا ۔ قسطنطنیہ کی فتح کے لیے جانے والی مہمات میں کئی جلیل القدر صحابہ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل رہے۔ مسلمان عربوں نے اس شہر کے سات محاصرے کیے۔ پہلا محاصرہ ۶۷۴ء میں اُموی خلیفہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کیا ۔ اس محاصرہ کے دوران بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انھوں نے حملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ ان کے پاس ایک زبردست ہتھیار تھا جسے ’’آتشِ یونانی‘‘ یا گریک فائر (Greek Fire)کہا جاتا تھا۔ یہ ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔
مسلمان اس آفت کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا بحری بیڑہ آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہ ملی کیوں کہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر بھی جلتی رہتی تھی، اس وقت پورے بحیرۂ مرمرہ نے آگ پکڑ لی تھی۔مسلمانوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ واپسی پر ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے چند ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکیں۔
اسی دوران مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ جب میں مر جاؤں تو میرا جنازہ اٹھا کر دشمن کی سرزمین میں جہاں تک لے جا سکو لے جاؤ اور جب آگے بڑھنے کا امکان نہ رہے تو اسی جگہ مجھے دفن کر دینا۔‘‘ آپ کی وفات کے بعد آپ کو قسطنطنیہ شہر کی فصیل کے سامنے دفن کردیا گیا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی قبر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
ساتواں اور آخری محاصرہ ہارون رشید کے سپہ سالار عبد الملک نے ۷۹۸ء میں کیا ۔ عربوں کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان بایزید یلدرم اور سلطان مراد ثانی نے بھی قسطنطنیہ کے محاصرے کیے۔ لیکن سب ناکام لوٹ آئے۔
مسلمانوں کی پے در پے ناکامیوں سے قسطنطنیہ کو نئی زندگی مل گئی۔ عیسائی اسے اسلام کے خلاف عیسائیت کی فتح تصور کرنے لگے۔ دراصل عیسائیوں نے اس باکمال شہر کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ایسے حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے جنہیں شکست دینے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔

فاتح قسطنطنیہ
بالآخر قدرتِ الٰہی کو اس ناقابل تسخیر شہر کو تسخیر کروانے کا ارادہ ہوا اور حکمِ الٰہی سے ۳۰ مارچ ۱۴۳۲ء کو سلطنتِ عثمانیہ کے چھٹے بادشاہ سلطان مراد ثانی کی کنیز ہما خاتون نے ایک بچہ کو جنم دیا۔ سلطان مراد ثانی نے اس بچہ کا نام پیغمبرِ اسلام کے نام پر ’’محمد‘‘ رکها۔
سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان خان ایک خراسانی خانہ بدوش اُرطغرل کے بیٹے تھے۔ انہوں نے ایک سلطنت کی بنیاد ڈالی جو تین سو سال کے عرصہ میں دنیا کی طاقتور سلطنت بن گئی۔ خلافتِ عثمانیہ کے مشہور فرماں روا سلطان محمد ثانی ہیں۔ یہ سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں فرماں رواتھے۔ یہی وہ سلطان ہیں جن کے ہاتھوں آگے چل کر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کو پورا ہونا تھا یعنی قسطنطنیہ کو فتح ہونا تھا۔
سلطان مراد ثانی نے اپنے بیٹے محمد ثانی کو گیارہ برس کی عمر میں اماسیہ (Amasya) بھیج دیا جہاں انہوں نے حکومت سنبھالنے کی تربیت حاصل کی۔ سلطان محمد ثانی بچپن سے ہی علم حاصل کرنے کے شائق تهے۔ ان کے والد نے بہترین اساتذہ مقرر کیے جو زمانے کے بہترین عالم تهے۔ اس وقت کے مشہور عالم علامہ احمد بن اسماعیل کورانی نے سلطان محمد کے دینی و دنیاوی علوم پر خوب توجہ دی۔ سلطان محمد اپنے استاد سے بے متاثر تهے۔ شیخ آق شمس الدین ایک اور نام ہے جو سلطان کی تربیت میں عمل دخل رکهتے ہیں۔ آپ ہی نے قسطنطنیہ کے محاذ پر سلطان محمد کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
سلطان محمد تین زبانوں عربی، ترکی اور فارسی میں ماہر تهے۔ آپ شاعری بهی کرتے تهے جس میں اسلامی محبت جھلکتی ہے۔ کم عمری میں ہی آپ نے قرآن مجید، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرلی تھی،اس کے علاوہ ریاضی، فلکیات، تاریخ، نظریاتی اور عسکری تعلیم بهی حاصل کی۔
سلطان محمد ثانی ہمہ جہت اوصاف کے مالک تھے۔ انہوں نے ۹سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا، ۱۴ برس کی عمر میں تختِ سلطنت پہ بیٹھے، ۱۹ برس کی عمر میں دُنیا کی سات زبانوں پہ عبور حاصل کیا اور محض ۲۱ برس کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کر کے بشارتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مصداق بن گئے۔
سلطان محمد ثانی فوجی قیادت کے لحاظ سے بہترین سپہ سالار تهے۔ ان کی سپہ سالاری کی تعریف تو از روئے حدیث صدیوں پہلے ہوچکی تهی۔ وہ تمام جنگوں میں فوج کی قیادت بذاتِ خود کرتے تھے۔ سپہ سالار کی حیثیت سے وہ اپنے والد پر بهی فوقیت لے گئے۔ جنگ کے دوران ایسی ایسی ترکیبیں سوچتے جو کسی کے وہم و گمان میں بهی نہ آتی تھیں۔شجاعت و بہادری میں اپنا ہم پلہ نہیں رکهتے تهے۔ دشمن کی صفوں میں تنِ تنہا تلوار لے کر گھس جاتے تھے۔
سلطان جنگی چالیں چلنے میں بے حد محتاط تهے۔ ان کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہوتا تھا کہ اگلا محاذ کون سا ہوگا حتّٰی کہ ان کے وزیر اعظم خلیل پاشا بھی اس بات سے لاعلم رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ سلطانِ محترم اگلی جنگ کس سے لڑنے کا ارادہ رکهتے ہیں؟ سلطان کا جواب تها: ’’اگر میری ڈاڑهی کے کسی بال کو بهی یہ معلوم ہو جائے تو میں اسے بهی اُکهاڑ دوں اور جلا ڈالوں۔‘‘ سلطان جب کسی علاقے پر حملہ کرنے کا سوچ لیتے تو اس پر ڈٹ جاتے۔ بڑے سے بڑا طوفان بهی ان کا ارادہ بدل نہیں سکتا تها۔قسطنطنیہ پر حملہ سے پہلے کہا تها:’’یا تو میں قسطنطنیہ لے لوں گا یا قسطنطنیہ مجهے لے لے گا۔‘‘ وفات سے پہلے بھی سلطان کسی جنگ کی تیاری میں مصروف تهے لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں۔
آپ کے عدل و انصاف کے چرچے دنیا بهر میں تهے۔ آپ اسلامی شریعت کے مطابق اہل کتاب سے حسنِ سلوک کا برتاؤ کرتے تھے، کبهی کسی پر ظلم و زیادتی نہ کی۔ آپ کا قول تھا: ’’عدل و انصاف سلطنت کی بنیاد ہے۔‘‘

قسطنطنیہ پر حملے کی وجوہات
بازنطینی دار السلطنت قسطنطنیہ طویل عرصہ سے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا۔ جب بھی عثمانی سلطنت میں نیا سلطان تخت نشین ہوتا وہ عثمانی علاقوں پر سرحدی چھیڑ چھاڑ شروع کردیتا۔ مقصد اس کا نئے بادشاہ کو ڈرانا دھمکانا ہوتا۔ سلطان فاتح کے تخت نشین ہونے سے تین سال قبل قسطنطنیہ میں نیا بادشاہ قسطنطین یازدہم (Constantine XI) تخت نشین ہوا تھا۔ اس نے حسبِ سابق سلطان فاتح کی تخت نشینی کے موقع پر سرحدی علاقوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور عثمانی تخت کا ایک اوردعویدار کھڑا کرنے کا اعلان کردیا۔یہ دعوے دار سلطان بایزید اوّل کا پوتا ’’اورخان‘‘ تھا جو سلیمان کا بیٹا تھا، وہ سلطنتِ عثمانیہ سے بغاوت کرکے پانچ سو افراد کے ساتھ قسطنطنیہ چلا گیا تھا۔
اب تک عثمانی فوج عیسائیوں کی قدیم بازنطینی سلطنت کے تمام ممالک پر قابض ہو گئی تھی، اس کی حدود نے تمام اطراف سے قسطنطنیہ کو گھیر رکھا تھا۔ قسطنطنیہ کے مشرق میں ایشیا تھا اور مغرب میں یورپ۔ ان دونوں بر اعظموں کو ملانے والا واحد شہر قسطنطنیہ تھا۔ جب تک اس پر قبضہ نہ ہوجاتا سلطنتِ عثمانیہ کے دونوں حصے الگ رہتے۔ ان دونوں حصوں کے عین درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے قسطنطنیہ کی فتح کے بغیر سلطنتِ عثمانیہ ادھوری تھی۔
ان وجوہات اور سب سے بڑھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کی بنا پر قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کی نگاہوں کا ہدف تھا۔ ادھر شاہِ قسطنطین یہ سمجھ رہا تھا کہ سلطان محمد ابهی بهی ویسے ہی ناتجربہ کار ہیں جیسے چند سال قبل تهے۔ لیکن وہ نہیں جانتا تها کہ ان چند سالوں میں سلطان محمد کی قوتیں کس قدر بڑھ چکی ہیں اور سلطان محمد قسطنطنیہ فتح کرنے کا مصم ارادہ کرچکے ہیں۔
سلطان محمد نے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے سے قبل قسطنطین کو خط لکھا تھا کہ وہ قسطنطنیہ مسلمانوں کے حوالے کر دے تاکہ جنگ ہونے کی صورت میں مخلوقِ خدا کی خوں ریزی سے بچا جاسکے۔سلطان محمد فاتح کا شاہِ قسطنطنیہ کے نام خط کا متن:
’’اگر تم قسطنطنیہ میرے حوالے کر دو گے تو کسی کو کسی طرح کی تکلیف اور اذیت نہیں ہوگی۔جو شہر میں رہنا چاہیں گے انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہوگی اور جو شہر سے جانا چاہیں گے ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔‘‘
قسطنطین نے شہر سلطان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر سلطان نے پر عزم لہجہ میں کہا:’’عنقریب قسطنطنیہ میرا تخت ہوگا یا پھر اس میں میری قبر ہوگی۔‘‘
جب سلطان محمد فاتح کو یقین ہو گیا کہ بازنطینی بادشاہ قسطنطنیہ ان کے حوالے نہیں کرے گا تو انہوں نے قسطنطنیہ کے خلاف جنگ کی تیاریوں کا حکم دے دیا ۔

قسطنطنیہ، ناقابلِ تسخیر شہر

تکون نما قسطنطنیہ ایک ناقابلِ تسخیر شہر تھا، اس کے تین اطراف سمندر تھا، شمال میں ’’گولڈن ہارن‘‘ یعنی شاخِ زرّیں کی خلیج واقع ہے جو آبنائے باسفورس کے ساتھ بطور شاخ قسطنطنیہ کے ساتھ کئی میل اندر تک گئی ہے، اس خلیج کی شکل سینگ نما ہے، دھوپ میں اس کے پانی کا رنگ سنہرا ہوجاتا ہے اس لیے اسے ’’گولڈن ہارن‘‘ یعنی سنہرا سینگ یا شاخِ زرّیں کہا جاتا ہے۔
سمندری راستہ کے ذریعہ قسطنطنیہ کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے ’’گولڈن ہارن‘‘سے گزرنا پڑتا تھا۔ سلطان فاتح کی خواہش تھی کہ کسی طرح اس کے کچھ جہاز آبنائے باسفورس سے گولڈن ہارن میں داخل ہوجائیں تاکہ شہر پر بندرگاہ کے راستے سے بھی حملہ کیا جاسکے۔مگر ایسا ممکن نہ تھا۔اہل قسطنطنیہ نے ’’گولڈن ہارن‘‘ کے دہانے پر آہنی زنجیر باندھ رکھی تھی۔ یہ زنجیر بذاتِ خود انجینئر نگ کا شاہکار تھی اور حملہ آور بحری قوت کو روکنے کے لیے قسطنطنیہ میں خاص طور پر ڈھالی گئی تھی۔ یہ زنجیر آج بھی ماضی کی باقیات کے طور پر محفوظ ہے۔ اس زنجیر اور قسطنطنیہ کی حفاظت کے لیے بیس بڑے بحری جہاز اور توپیں موجود تھیں۔
قسطنطنیہ کے جنوب میں بحیرۂ مَرمَرہ ہے۔ یہاں سے حملہ کرنا بھی ناممکن تھا کیوں کہ اس سمندر میں ہمہ وقت تلاطم رہتا ہے جو بحری جہازوں سے حملہ آور ہونے کے لیے انتہائی نامناسب تھا۔ لے دے کے قسطنطنیہ پر برّی فوج کا حملہ صرف مشرق سے ممکن تھا کیوں کہ یہی حصہ خشکی کا تھا، زمینی افواج اسی طرف سے حملہ کر سکتی تھیں لیکن یہ حصہ حد سے زیادہ مضبوط تھا۔
شہر کے خشکی والے حصہ کی طرف چار میل لمبی اور ساٹھ فیٹ چوڑی مضبوط فصیل تھی ، جس پر ایک سو ستّر فیٹ طویل ۹۶ بُرج بنے ہوئے تھے۔بڑی فصیل کی اونچائی ساٹھ فیٹ تھی۔ بڑی فصیل کے باہر ایک اور فصیل بنی ہوئی تھی۔ اس فصیل پر ساٹھ فیٹ چوڑا ایک بڑا پلیٹ فارم تھا جس پر کھڑے ہوکر قسطنطنیہ کی فوج حملہ آوروں پر گریک فائر اور تیروں پتھروں کی بوچھاڑ کردیتی تھی جس کے باعث ناممکن تھا کہ حملہ آور افواج قلعہ پر چڑھنے کا سوچ بھی سکیں۔اس فصیل کے بعد ایک نسبتاً چھوٹی فصیل تھی جس کے آگے پچاس فیٹ چوڑی اور بیس فیٹ گہری خندق تھی۔ اس میں زیر زمین بچھے پائپوں کے ذریعہ ضرورت کے وقت پانی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اسے پار کرکے پہلی فصیل تک پہنچنا ہی ناممکن تھا چہ جائیکہ دوسری اور تیسری فصیل تک پہنچا جائے۔ ان دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر لاکھوں کی فوج ختم ہوجایا کرتی تھی۔ ان تین مضبوط اور چوڑی دیواروں اور پانی سے بھری خندق نے قسطنطنیہ کو ہزار برس سے ناقابلِ تسخیر بنا رکھا تھا۔

حملے کی تیاریاں

سلطان محمد نے تخت نشین ہوتے ہی قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے دو سال تک تیاریاں کی تهیں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے تمام دشمنوں کا خطرہ ختم کیا۔ امیرِ کرمانیہ سے صلح کر لی، چند بغاوتیں تهیں ان کو ختم کیا اور تین سال کے معاہدے پر ہونیاڈے سے بهی صلح کر لی۔ یوں سلطان محمد کو اطمینان ہوگیا کہ اب وہ سکون سے قسطنطنیہ پر توجہ دے سکیں گے ۔
اس کے بعد سلطان محمد نے قسطنطنیہ سے تقریباً پانچ میل دور آبنائے باسفورس کے ساحل پر ایک قلعہ تعمیر کروانا شروع کیا اور ۱۴۵۲ء کے موسمِ سرما سے پہلے ساڑھے چار ماہ کے انتہائی مختصر عرصہ میں یہ مضبوط قلعہ سر اٹھائے آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ سلطان نے قلعہ میں توپیں لگا کر چار سو سپاہی تعینات کردئیے۔تاریخ اس قلعے کو رومیلی حصارقلعہ (Rumeli Hisari fortress) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ قلعہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ آج بھی قائم ہے اور سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔
اس قلعہ کی تعمیر کے دوران قسطنطین سمجھ چکا تھا کہ یہ ساری تیاری قسطنطنیہ پر حملہ کے لیے ہورہی ہے اسی لیے اس نے قلعہ کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا اور عثمانی لشکر سے چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی کیں بالآخر خوف زدہ ہوکر قسطنطنیہ کے دروازے بند کرکے بیٹھ گیا۔
آبنائے باسفورس کے دوسرے کنارے پر رومیلی قلعہ کے عین سامنے ایک قلعہ اور موجود تھا۔ یہ قلعہ سلطان محمد کے پردادا بایزید اوّل نے تعمیر کرایا تھا۔اس قلعہ کا نام انادولو حصار (Anadolu Hisari)تھا۔ یہ قلعہ بھی آج تک موجود ہے۔ اس قلعہ میں بھی توپیں لگا کر سپاہی تعینات کردئیے گئے۔
آبنائے باسفورس اب عثمانیوں کے قبضہ میں تھا۔ان دونوں قلعوں کے درمیان موجود نصف میل چوڑے آبنائے باسفورس سے کوئی بحری جہاز سلطان محمد کی اجازت کے بغیر نہیں گزر سکتا تھا۔ اب بحرِ اسود (Black Sea) کے راستے سے یورپ کے عیسائی ممالک قسطنطنیہ کی مدد کو نہیں آسکتے تھے۔
اس طرف سے مطمئن ہوکر سلطان نے باقی تیاریوں پر توجہ دینی شروع کردی۔ قسطنطنیہ کی فصیل پر چڑھنے کے لیے سلطان نے لکڑی کے بلند و بالا مینار بنوائے۔ یہ مینار قسطنطنیہ کی فصیل کی اونچائی کے برابرتھے، ان کے نیچے چلنے کے لیے پہیے نصب تھے، اوپر سپاہیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ان میناروں کا مقصد قلعے کی فصیلیں سر کرنا اور خندق عبور کرنا تھا۔
سلطان محمد نے سلطنتِ عثمانیہ کے دار الحکومت ادرنہ (Edirne)میں ڈھائی لاکھ فوج اکٹهی کی۔ یہ اس دور کے لحاظ سے مختلف اقوام کے لشکروں کی نسبت ایک بہت بڑا لشکر تھا۔ انہوں نے اس لشکر کی تربیت کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت اٹھا نہ رکھا۔ انہیں طرح طرح کے سپاہیانہ فنون کی تعلیم دی گئی اور انواع و اقسام کے اسلحہ کا بندو بست کیا گیا جو انہیں آنے والی جہادی کاروائی کا اہل بناسکتا تھا۔لیکن صرف فوج کی تعداد ہی قسطنطنیہ کو فتح نہیں کر سکتی تهی اس کے لیے مزید انتظامات بهی ضروری تھے۔
قسطنطنیہ کی فصیل کی مضبوطی کا سلطان کو بخوبی علم تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ روایتی ہتھیاروں سے اس قلعے کی تسخیر ناممکن ہے۔ شہر کو فتح کے لیے ضروری تها کہ فصیل کی دیواروں پر تسلسل سے گولہ باری کی جائے۔ سلطان محمد نے پرانی توپوں کو ناکام قرار دے کر نئی توپیں بنوائیں۔ اربان (Urban) نامی ہنگری کے ایک انجینئر نے کم تنخواہ سے بد دل ہوکر سلطنتِ قسطنطنیہ کی ملازمت چهوڑی اور سلطان محمد کے پاس آ گیا۔ قسطنطنیہ چھوڑنے سے قبل اس نے شہر کا تفصیلی معائنہ کیا اور شہر کی تمام کمزوریاں نوٹ کرکے سلطنتِ عثمانیہ کے فرماں روا سلطان محمد کو پیش کردیں۔ سلطان کے لیے یہ ایک غیبی مدد تھی۔
سلطان کے ذہن میں نئی توپوں کا جو خاکہ تھا اربان نے اسے عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کرلیا چناں چہ سلطان نے منہ مانگی قیمت سے بھی چار گنا زیادہ معاوضہ پر اربان کو ملازم رکھ لیا۔ اربان نے ایک بہت شاندار توپ بنا کر دی جس کے گولے کا قطر ڈهائی فیٹ تها۔ اس کے علاوہ اس نے چهوٹی توپیں بهی بنا کر دیں جو تیزی سے گولے برسا سکتی تهیں۔
سلطان محمد فاتح نے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ مرکوز رکھی وہ تھی عثمانی بحریہ کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانا اور اس میں کشتیوں کا اضافہ کرنا تاکہ عثمانی بحریہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اہل بن سکے۔ قسطنطنیہ ایک ایسا سمندری شہر تھا جس کا محاصرہ طاقتور بحریہ کے بغیر نامکمل تھا ۔ اسی لیے انہوں نے ایک سو اسّی جہازوں کا ایک نیا بیڑہ بھی تیار کروایا جو پانی والے حصوں سے شہر پر حملہ آور ہوسکے۔ اس کے مقابلے میں قسطنطنیہ کی حکومت کے پاس بیس بڑے بحری جنگی جہاز تھے۔
ظاہری تیاری کے ساتھ ساتھ سلطان محمد نے سپاہیوں کی روحانی تربیت کا بھی خصوصی اہتمام کیا۔ان میں جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا کیا اور یہ بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسطنطنیہ کے فاتح لشکر کی تعریف فرمائی ہے۔ ہو سکتا ہے یہی لشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری کا مصداق بن جائے۔

محاصرہ ہوتا ہے
۲۳ مارچ ۱۴۵۳ء کو جمعہ کے دن سلطان محمد اس شان سے قسطنطنیہ کے لیے نکلے کہ ان کے دائیں بائیں سید زادے اور علماء و مشایخ تھے جو اللہ کے حضور دعا اور ذکر کرتے چل رہے تھے۔ اگلے ہفتہ جمعہ ہی کے دن عثمانیوں نے قسطنطنیہ پہنچ کر خشکی اور سمندر کی طرف سے شہر کا محاصرہ کرلیا۔ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے قسطنطنیہ کا یہ گیارہواں محاصرہ تھا۔اس محاصرہ میں عثمانیوں کے ڈیڑھ سو بحری جہاز شریک تھے جبکہ بری فوج کی تعداد ڈھائی لاکھ تھی۔ سلطان نے شہر کے ارد گرد توپخانہ لگا دیا جس کی توپیں ایک میل کے فاصلہ تک گولے پھینک سکتی تھیں۔ یہ توپخانہ ستّر توپوں پر مشتمل تھا۔ اس کے مقابل قسطنطنیہ کے پاس صرف پندرہ توپیں تھیں جن میں سے اکثر محض نمائشی تھیں کیوں کہ بعض جگہوں پر قلعہ کی دیوار اس قدر کمزور ہوچکی تھی کہ توپ کے جھٹکے برداشت کرنے کے قابل نہیں تھی ۔ ان جگہوں پر توپ استعمال نہیں کی جاسکتی تھی۔
دورانِ محاصرہ عثمانی افواج قسطنطنیہ کی فصیلوں سے ٹکراتی رہیں اور فصیل پر چڑھنے کی کوششیں کرتی رہیں جبکہ قلعہ کا دروازہ توڑنے کی کوششوں میں بھی بے شمار مسلمان فوجی شہید ہوئے۔ توپوں سے قلعے کی فصیل کو جو نقصان پہنچتا وہ اہل قسطنطنیہ راتوں رات مرمت کرکے پورا کردیتے۔ سلطانی سپاہ نے جو لکڑی کے مینار تیار کروائے تھے ان میں نصب سیڑھیوں کی مدد سے ترک فوجی فصیل کی دیوار سے منسلک گہری خندق پار کرنے کی کوشش کرتے ، مگر عیسائی گریک فائر برسا کر انہیں نذرِ آتش کردیتے۔
قلعہ کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مسلمان افواج بد دل ہونے لگیں اور ان کے حوصلے پست ہوگئے، لیکن سلطان نے اس شہر کو فتح کرنے کی قسم کھا رکھی تھی، انہوں نے افواج کا حوصلہ بڑھایا اور ان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

شاہِ قسطنطنیہ کا اطمینان

عیسائیوں کے روحانی مرکز قسطنطنیہ کی حالت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی دگرگوں ہوچکی تھی۔ سلطان محمد ثانی کے والد مراد ثانی نے ۳۱ برس قبل قسطنطنیہ فتح کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ البتہ ان کے برسائے گئے گولوں نے ایک جگہ سے فصیل کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ اس وقت بازنطینی حکومت کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہ تھا کہ وہ دیوار کے اس حصہ کی مرمت کرسکے۔ دراصل ۵۰ سالہ شاہِ قسطنطین اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اکیس سالہ لڑکے سلطان محمد کو کسی خاطر میں لانے کے لیے تیا رنہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قسطنطنیہ کے موسم کے باعث دنیا کی کوئی فوج تین ماہ سے زائد شہر کا محاصرہ نہیں کرسکتی تھی۔ یہ تین ماہ مارچ سے مئی تک تھے۔ اس کے بعد شدید گرمی پڑتی تھی جو بیرونی افواج کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی جبکہ سردیوں میں اتنی سردی پڑتی کہ شہر کا محاصرہ کرنے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے شاہِ قسطنطین کے پاس ایک ایسا ہتھیار تھا جو سلطان محمد کے پاس نہیں تھا، یعنی وقت۔یہ شاہ قسطنطین کے اطمینان کی سب سے بڑی وجہ تھی ۔ اسی لیے اس نے ایک بڑی فوج بنانے کا جھنجھنٹ نہیں پالا۔
سلطان محمد کے ڈھائی لاکھ کے لشکر کے مقابل اس کی فوج کی تعداد محض نو ہزار تھی۔ جس کی اکثریت خشکی والی فصیل پر تعینات تھی۔ قسطنطین کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ عثمانی افواج کو بآسانی تین ماہ تک روک سکتا ہے جس کے بعد وہ تھک ہار کر دوسروں کی طرح ناکام واپس لوٹ جائیں گی۔ لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس بار ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
اس کے باوجود اس نے یورپ کے عیسائی ممالک سے مدد مانگی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ اس کی وجہ عثمانیوں کے ہاتھوں اہلِ یورپ کی پے درپے جنگی شکستیں تھیں جن کی وجہ سے وہ عثمانیوں کا سامنا کرنے سے گریز کررہے تھے۔ صرف جنیوا سے بحری جنگی جہاز قسطنطنیہ کی مدد کے لیے آئے جن کا سپہ سالار جسٹنیانی (Giustinani)تھا۔ یہ ایسا زبردست لڑاکا اور دلیر جرنیل تھا جس کی بہادری کا اعتراف خود سلطان محمد نے کیا۔ جب تک جسٹنیانی لڑتا رہا ترکوں کو قلعہ کے قریب بھی نہ آنے دیا۔

محیر العقول کارنامہ

سلطان محمد نے عسکری تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کر رکھا تھا۔ ان کے علم میں تھا کہ ان سے محض ڈھائی سو برس قبل صلاح الدین ایوبی دریائے نیل سے خشکی پر کشتیاں چلا کر انہیں بحر احمر میں اتار چکے تھے۔ کچھ یورپی ممالک بھی ایسا کرچکے تھے۔سلطان فاتح نے اس صورت ِحال پر غور و فکر کے بعد منصوبہ بنایا کہ عثمانی بحریہ کی نسبتاًہلکی اور چھوٹی جنگی کشتیاں مطلوبہ جنگی سازو سامان کے ساتھ آبنائے باسفورس کے ساحل سے خشکی پر چلا کر خلیج گولڈن ہارن میں اتار دی جائیں تو قسطنطنیہ کے بڑے بڑے بحری جہازوں سے لڑے بغیر شہر پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ بظاہریہ منصوبہ نہایت مشکل اور ناقابل عمل نظر آتا تھا۔ اس وقت قسطنطنیہ یورپی پہاڑیوں تک محدود تھا جب کہ ایشیائی پہاڑیوں نے گہرے جنگلوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ قسطنطنیہ کی مشرقی جانب جہاں آبنائے باسفورس اور گولڈن ہارن آپس میں مل رہے ہیں اس ساحل سے خشکی کا راستہ طے کرکے گولڈن ہارن کے اندر تک اترنے کا راستہ تقریباًدس میل تھا اور اس راستے میں زمین بھی ناہموار اور پہاڑی نما تھی۔
بہر حال سلطانی انجینئروں نے اس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا ۔۲۲اپریل۱۴۵۳ ء کی رات کو اندھیرا پھیلتے ہی اس منصوبہ پر عمل درآمد شروع کیا گیا ۔سلطان کے فوجیوں نے ایشیائی ساحلوں پر واقع جنگل کاٹا،درختوں کے تنے کاٹ کر تختے بنائے ، پہلے یہ تختے پہاڑ کی چوٹی تک نصب کیے پھر پہاڑ کی دوسری طرف گولڈن ہارن تک لگائے ۔ اب سلطان نے تختوں پر جانوروں کی چربی لگوائی اور اس کے بعد حکم دیا کہ بحری جہازوں کو پہاڑ تک لایا جائے پھر انہیں رسوں سے باندھ کر کھینچا جائے، پہاڑ کی چوٹی تک لایا جائے اور بعد ازاں انھیں رسوں کے ساتھ باندھ کر پہاڑ کی دوسری سمت سمندر میں اتار دیا جائے اور یہ کام صرف ایک رات میں مکمل ہونا چاہیے۔
سلطان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ ہر کشتی میں دو ملا ح تھے۔ہوا کی مدد لینے کے لیے بادبان بھی کھول دیئے گئے۔ان جہاز نما کشتیوں کو رات کے اندھیرے میں بیل اور آدمی تختوں پر کھینچتے رہے۔ خشکی کی طرف سے عثمانی بحری جہاز مسلسل شہر کے قلعہ پر حملہ کرتا رہا تاکہ عیسائیوں کی توجہ اس طرف رہے ۔ دوسری طرف عثمانی سپاہی رات بھر تختوں پر جنگی کشتیوں کو کھسکاتے رہے اور اس طرح رات بھر میں ۷۰ عثمانی کشتیاں خلیج کے اندر فصیل کے ساتھ پہنچ گئیں۔ عیسائی رات بھر خشکی پر مشعلوں کی آگ جلتی دیکھتے رہے مگر کچھ سمجھ نہیں سکے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ صبح جب انہوں نے قلعے کی فصیل سے نیچے نگاہ ڈالی تو ان کے خوف اور حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ چھوٹی عثمانی کشتیاں خلیج کے وسط میں تیر رہی تھیں اور باز نطینی جہاز دور گہرے پانی میں کھڑے انہیں تک رہے تھے کیوں کہ پانی کی کم گہرائی کے سبب وہ ان کے قریب نہیں آسکتے تھے۔ ان کے جہازوں میں عملہ کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی کیوں کہ قسطنطنیہ کی حکومت کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ وہ فوج کا خرچہ اٹھاسکے۔ لہٰذا گولڈن ہارن کی جانب سے عثمانی افواج پر کوئی بڑا حملہ نہ ہوسکا۔
عثمانی افواج کی گولڈن ہارن آمد کی خبر سنتے ہی قلعہ کی فصیل پر موجود فوج کا بڑا حصہ اس جانب دوڑ پڑا کیوں کہ اس طرف کی فصیل نہایت کمزور تھی۔ اہل قسطنطنیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گولڈن ہارن پر آہنی زنجیر اور بڑے بڑے بحری جہاں کی موجودگی کے باعث کوئی اس طرف سے آنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ یوں قسطنطنیہ کی فوجی قوت منقسم ہوگئی۔ اسے بیک وقت دو محاذوں پر توجہ دینی پڑ رہی تھی۔ وہ فوج جسے شاہِ قسطنطین اپنے شہر کے دفاع کے لیے کافی سمجھ رہا تھا اب ناکافی ثابت ہونے لگی۔

شہر فتح ہوتا ہے

قسطنطنیہ برّی اور بحری دونوں جانب سے عثمانی فوجیوں کے حصار میں آچکا تھا۔ عثمانی افواج قلعہ پر روزانہ ایک سو بیس گولے برساتی جن کا وزن سو سے چھ سو کلو گرام تک ہوتا۔ چار ہفتوں کی مسلسل گولہ باری سے فصیل کی دیوار کے کچھ حصوں میں کافی شگاف پیدا ہوگئے تھے۔ ۲۴ مئی ۱۴۵۳ء کے دن سلطان محمد نے شاہ قسطنطین کو پھر خط لکھا کہ ابھی بھی موقع ہے کہ ہتھیار ڈال دو۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔۶ اپریل سے شروع ہونے والے محاصرہ کو اب ۵۳ دن ہوچکے تھے۔
مئی کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ موسم کے تیور بدلنا شروع ہوگئے۔ گرمی کی شدت بڑھ رہی تھی۔ سلطان کے پاس وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ جلد ہی کچھ نہ کیا گیا تو اتنی بڑی فوج کے راشن پانی کا بوجھ برداشت کرنا دشوار ہوجائے گا۔ اور پھر وہی ہوگا جو ہزار سال سے ہوتا چلا آرہا تھا یعنی قسطنطنیہ سے ناکام واپسی۔ لیکن اس بار سلطان کا شکست کھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جنیوا سے آیا ہوا جرنیل جسٹنیانی شدید زخمی ہوگیا اور مزید لڑنے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ بندرگاہ پر کھڑے جہازوں پر چلا گیا تاکہ موقع ملتے ہی واپس جاسکے۔
یہ محاصرہ کی آخری رات تھی۔ صبح ہار یا جیت کا فیصلہ ہونا تھا۔اگر یہ آخری حملہ بھی ناکام ہوجاتا تو سلطان کے پاس واپسی کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہ جاتا۔ وہ رات سلطان محمد اور اس کی فوج نے عبادت اور دعا میں گزاری اور فجر کی نماز کے بعد شہر پر بھرپور حملہ کردیا۔ حملہ سے قبل سلطان نے اپنی فوج کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے تسلی دی کہ ان شاء اللہ آج ظہر کی نماز ہم قسطنطنیہ میں پڑھیں گے۔ یہ سنتے ہی سپاہیوں کا جوش و ولولہ آسمانوں کو چھونے لگا اور انہوں نے نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ قسطنطنیہ پر بھرپور حملہ کردیا۔
سلطانی فوجوں کے توپوں کی گولہ باری سے شہر کی فصیل میں ایک جگہ بڑا شگاف پیدا ہوگیا، وہاں گھمسان کا رن پڑا۔سلطان کی قیادت میں لڑی جانے والی اس کی سب سے خاص سپاہ ’’ینی چری‘‘ (Janissaries) کا ۳۰ رکنی دستہ اس جگہ سے فصیل پر چڑھنے لگا۔ آج اسے یہ فائدہ حاصل تھا کہ جسٹنیانی جیسا بہادر جرنیل موجود نہ تھا ورنہ وہ انہیں فصیل کے قریب بھی نہ آنے دیتا۔ اگرچہ باقی ماندہ سپاہیوں نے قلعہ کی فصیل سے عثمانیوں پر گریک فائر، کھولتا ہوا تیل، تیر اور پتھر برسانے شروع کردئیے جس سے سینکڑوں مسلمان سپاہی شہید و زخمی ہوئے مگر انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی، مسلسل آگے بڑھتے رہے اور بالآخر قسطنطنیہ کی فصیل پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ آخری حملہ کامیاب ثابت ہوا۔ اب سلطان کو واپس پیچھے نہیں جانا تھا، آگے ہی آگے بڑھنا تھا۔
سلطان کی افواج قسطنطنیہ کی ناقابلِ تسخیر فصیل پر عثمانی پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ پرچم دور دور تک دیکھا جانے لگا۔ فصیل کے اندر سے شہری اور باہر سے سلطان اور ان کا لشکر لہراتا ہوا پرچم دیکھ رہے تھے۔ یہ لہراتا پرچم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہونے کا اعلان کررہا تھا: ’’تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ فتح کروگے۔ ‘‘
اور آج قسطنطنیہ فتح ہوگیا!!!

ینی چری فوجی دستے کا قائد آغا حسن نامی کمانڈر تھا۔اس نے جان تو دے دی مگر آخر وقت میں فصیل پر جھنڈا لہرا نے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ آغا حسن بہادری اور شجاعت کی زندہ مثال بن گیا۔ اس کا آخری حملہ اتنا کاری ثابت ہوا تھا کہ ینی چری دستہ شہر میں داخل ہو گیا۔ اس کے پیچھے عثمانی فوج داخل ہوتی گئی۔ یوں ۵۴ دن کے محاصرہ کے بعد بالآخر ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو سلطان محمد نے ۲۱ سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کر دکھایا۔
سلطان محمد ثانی قسطنطنیہ کا فاتح تھا۔ اس نے قسطنطنیہ جیسا ناقابلِ تسخیر شہر فتح کر کے تاریخ کو حیران کر دیا۔ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد ان کو فاتح کا لقب دیا گیا ۔ آج دنیا انہیں سلطان محمد ثانی نہیں، سلطان محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے۔

شہر میں داخلہ

شہر اب سلطان محمد فاتح کے قبضے میں تها۔ بلا شبہ یہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فتح تھی۔ ظہر کی نماز کے وقت سلطان محمد قسطنطنیہ شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ خدا نے ان کے قول کی لاج رکھ لی تھی۔ سلطان اور ان کی افواج نے ظہر کی نماز قسطنطنیہ شہر میں ادا کی۔
سلطان نے سختی سے حکم جاری کردیا تھا کہ لوگوں کی جائیدادوں کو نہ نقصان پہنچایا جائے، نہ ان کے اموال کو لوٹا جائے، حالاں کہ یہ رواج تها کہ مفتوح شہر کو اس قدر لوٹا جاتا تها کہ لوگوں کی عزت بهی محفوظ نہ رہتی۔ یورپ نے جہاں بهی قبضہ کیا، خوب لوٹ مار کی، لیکن ترکوں نے امن و عافیت کی تاریخ رقم کر دی۔

فتح کے بعد
سلطان محمد نے اس عظیم الشان فتح کے بعد تلوار نیام میں ڈالی اور قسطنطنیہ کے باسیوں کو سلامتی اور امن کا پیغام دے دیا۔ یہ ایک حیران کن بات تھی ۔اہلِ یورپ نے ایسا سلوک پہلے نہیں دیکھا تھا۔ یہی کچھ فتح مکہ کے دن ہوا تھا۔ اسی کی کچھ جھلک فتحِ قسطنطنیہ کے روز بھی دیکھنے کو ملی۔ رواداری کا یہی پیغام اسلام کی اصل روح ہے۔
البتہ سلطان کو اپنے چند دشمنوں کی تلاش تھی۔ ان میں پہلا دشمن شاہ قسطنطین تھا۔ شاہ ِ قسطنطین عام شہری کے لباس میں عثمانی فوجیوں سے لڑائی کے دوران مارا گیا۔ خدا کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ قسطنطنیہ کے بانی اور پہلے حکمران کا نام بھی قسطنطین تھا اور آخری حکمران کا نام بھی قسطنطین تھا۔ سلطان کا دوسرا دشمن سلطنت عثمانیہ کا باغی ’’اورخان‘‘ تھا۔ یہ جان بچانے کے لیے قلعہ کی فصیل پر بھاگ رہا تھا کہ عثمانیوں فوجیوں نے اسے پہچان لیا اور اس کا پیچھا کیا۔ ان سے بچنے کے لیے اورخان نے فصیل سے چھلانگ لگادی اور زمین پر گر کر مر گیا۔ تیسرا دشمن جسٹنیانی جو زخموں سے چور بحری جہاز میں موجود تھا وہیں مرگیا۔ بعد میں اس کی لاش یونان لے جا کر دفنا دی گئی۔ اس طرح سلطان کے سارے دشمنوں کا صفایا ہوگیا۔

شہر کی حالتِ زار
سلطان محمد فاتح کو ۲۹ مئی کی صبح جو شہر نظر آیا یہ وہ شہر نہیں تھا جس کی شان و شوکت کے افسانے اس نے بچپن سے سن رکھے تھے۔ طویل انحطاط کے بعد بازنطینی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی، ہزار سال قبل جس قسطنطنیہ کی آبادی آٹھ لاکھ تھی وہ اب کم ہو کر ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ شہر کے کئی حصے ویرانی کے سبب ایک دوسرے سے کٹ کر الگ الگ دیہات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ نوجوان سلطان نے شہر کی حالتِ زار دیکھ کر شیخ سعدی سے منسوب یہ شعر پڑھا ؎
پرده داری میکند در قصر قیصر عنکبوت
بوم نوبت می زند بر گنبدِ افراسیاب
قیصر کے محل پر مکڑی نے جالے بُن لیے ہیں۔ اُلّو افراسیاب کے میناروں پر نوبت بجاتا ہے ۔
۷۵۷ ہجری میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد نے صحابہ کرام کی قبروں کو دریافت کرنے کا عمل شروع کیا۔اس وقت کے روحانی بزرگ شیخ شمس الدین نے ایک جگہ کی نشاندہی کی۔تاریخی روایات میں ہے کہ آپ نے اس جگہ نور دیکھا۔ دو ہاتھ گہری زمین کھو دی گئی تو ایک پتھر بر آمد ہوا جس پر عبرانی خط میں حضرت ابو ایوب انصاری کا نام لکھا تھا۔یہ پتھر اب بھی حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر کے باہر ایک دیوار میں لگا ہوا ہے۔
آیا صوفیا (Hagia Sophia) شہر کے مرکز میں ایک اونچے ٹیلے پر آرتھوڈکس عیسائیوں کا مشہور چرچ تھا۔ اپنی بلندی کے سبب یہ چرچ قلعہ کی فصیل کے باہر سے بھی دور دور تک نظر آتا تھا۔ سلطان نے اس چرچ کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔ ۱۹۲۴ء تک یہ چرچ ایک مسجد ہی رہا یہاں تک کہ مصطفیٰ کمال اتا ترک نے اسے میوزیم بنا دیا۔ تقریباً چھیاسی برس بعد ۲۴ جولائی ۲۰۲۰ ء کو بالآخر آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت بحال کردی گئی۔
شہر پر قبضہ کے بعد سلطان نے اپنا دارالحکومت ادرنہ (ایڈرین) Edirne سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا۔ سلطان چاہتے تھے کہ قسطنطنیہ کو عروج دے کر اسے دوبارہ عالمی شہر بنادیں۔ انہوں نے قسطنطنیہ کا نام تبدیل کر کے ’’اسلام بول‘‘ رکھ دیا۔ لیکن یہ نام مقبول نہ ہوسکا۔ قدیم یونانی زبان میں اندرونِ شہر کو’’اِس تَن بولِن ‘‘ (eis tan bolin) کہا جاتا تھا ۔ اناطولیہ یعنی قدیم ترکی کے عیسائی قسطنطنیہ کو استنبول ہی کے نام سے پکارتے تھے۔
اس لیے یہ بات غلط طور پر مشہور ہے کہ اسلام بول کا نام بگڑ کر استنبول پڑا۔ دنیا کے کسی مسلمان کی جراءت نہیں کہ لفظ اسلام کا نام بگاڑے کیوں کہ لفظ اسلام دنیا کی ہر زبان والے مسلمان اسی طرح بولتے ہیں، مسلمانوں کے یہاں اسے بگاڑ کر بولنے کا کوئی تصور نہیں۔ بہرحال آنے والے عشروں میں اس شہر نے وہ عروج دیکھا جس نے ایک بار پھر ماضی کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں۔
استنبول ۴۷۰ سال تک سلطنتِ عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔ ۱۹۲۳ء کو کمال اتا ترک نے انقرہ کو ترکی کا دار الحکومت قرار دے کر استنبول سے صدیوں پرانا یہ اعزاز چھین لیا ۔

یورپ پر اثرات
قسطنطنیہ کی فتح کے ساتھ بازنطینی عیسائی سلطنت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ یورپ پر سقوطِ قسطنطنیہ کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ وہاں سقوطِ قسطنطنیہ کا کھلے عام سوگ منایا گیا، اس سلسلے میں کتابیں اور نظمیں لکھی گئیں، متعدد پینٹنگز بنائی گئیں اور یہ واقعہ ان کے اجتماعی شعور کا حصہ بن گیا۔ یورپ آج تک قسطنطنیہ کو نہ بھول سکا۔ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو جمعرات کا دن تھا۔

انتقال
سلطان محمد فاتح ۳ مئی ۱۴۸۱ء کو انتقال کر گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر ۴۹ سال تهی۔ چند تاریخ دان یہ بهی کہتے ہیں کہ انہیں زہر دیا گیا تها۔ ان کی قبر استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیے جانے والے ایک پل کو ان کے نام پر ’’سلطان محمد فاتح پل‘‘ (Sultan Mehmet Fatih bridge) کا نام دیا گیا ہے۔

(مختلف ویب سائٹس اور کتب سے ماخوذ و ملخص)
 

سیما علی

لائبریرین
قسطنطنیہ، ناقابلِ تسخیر شہر
تکون نما قسطنطنیہ ایک ناقابلِ تسخیر شہر تھا، اس کے تین اطراف سمندر تھا، شمال میں ’’گولڈن ہارن‘‘ یعنی شاخِ زرّیں کی خلیج واقع ہے جو آبنائے باسفورس کے ساتھ بطور شاخ قسطنطنیہ کے ساتھ کئی میل اندر تک گئی ہے، اس خلیج کی شکل سینگ نما ہے، دھوپ میں اس کے پانی کا رنگ سنہرا ہوجاتا ہے اس لیے اسے ’’گولڈن ہارن‘‘ یعنی سنہرا سینگ یا شاخِ زرّیں کہا جاتا ہے۔
سمندری راستہ کے ذریعہ قسطنطنیہ کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے ’’گولڈن ہارن‘‘سے گزرنا پڑتا تھا۔ س

خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدی امّت کی سطوت کا نشان پائیدار

صورت خاک حرم یہ سر زمین بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے

نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربت ایوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا

اے مسلمان! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خون کا حاصل ہے یہ شہر
’’علامہ اقبالؔ ‘‘
 
Top