اوجڑی کیمپ

ضیاء حیدری

محفلین
دس اپریل 1988 کو اتوار کی صبح قیامت کی وہ گھڑی تھی جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر فیض آباد میں اوجڑی کیمپ کے اندر اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ کے باعث بم پھٹ رہے تھے۔ میزائل اور راکٹ اُڑ اُڑ کر تباہی پھیلا رہے تھے۔ سڑکوں پر موجود لوگ پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے تھے۔ سڑک پر چلتی گاڑیاں نشانہ بن رہی تھیں۔ اسی میں شاہد خاقان عباسی کے والد اور بھائی نشانہ بنے تھے۔ اس آتشزدگی کی وجہ معلوم کرنے کے لیے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں انکوائری کا مقصد معاملے کے حقائق کو چھپانا اور اصل مجرموں پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ بہر حال رپورٹ سامنے نہ آئی ہاں کچھ باتیں پبلک ہوتی رہی تھیں۔ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کے مطابق جن دنوں افغان جنگ سمٹ رہی تھی انھی دنوں میں اسلحے کی کچھ پیٹیاں مصر سے پاکستان پہنچی تھیں۔ جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ انھی پیٹیوں میں وہ آتشگیر مادہ تھا، جس نے ’سپارک‘ کیا ور اوجڑی کیمپ کے حادثے کا باعث بن گیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اسلحے میں بڑے پیمانے پر خورد برد کی جاتی تھی۔اس چوری کو چھپانے کے لیے کچھ لوگوں نے اس حادثے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
 
Top