ان دی نیم آف آنر

پاکستانی

محفلین
مختار مائی کی کتاب پر حسن مجتبیٰ کا تبصرہ

دکھ کی ویسے تو کوئي زبان نہیں ہوتی، یہ کسی بھی زبان میں بولا جا سکتا ہے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ سرائیکی زبان میں خواجہ غلام فرید کی اس سطر "درداں دی ماری دلڑی علیل اے" کا کسی بھی دوسری زبان میں کیا ترجمہ ہوسکتا ہے ! شاید ہی ہو سکتا ہو!
اور جب زبان سرائيکی ہو اور اس میں دکھ، غصہ، خواب اور خوشی بیان کرنیوالی مختار مائی ہو اور اسکی کتھا کا چاہے پہلا ترجمہ فرانسیسی زبان ( جو کہ میں نہیں جانتا) میں ہی کیوں نہ ہوا ہو تو انتہائي انسانی کمینگی (جسکی ایک شکل فاشزم اور دوسری ریپ اور فیوڈل یا قبائلی طاقت بھی ہوسکتی ہے) کيخلاف گواہی اور ان کے خلاف بے جگری سے نبرد آزمائی کی داستان ان کی کتاب ’ان دی نیم آف آنر‘ بن جاتی ہے۔
’ان دی نیم آف آنر‘ نے امریکہ کے کتاب گھروں میں وہ جگہ پائی ہے جہاں برسوں سے این فرینک کی ڈائری دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ مختار مائی کتاب میں ایک جگہ کہتی ہیں ’جاگيرداری اپنا ظلم زمین پر قبضے سے شروع کرتی ہے اور انتہا زنا باالجبر پر‘۔
یہ کہانی پاکستان میں زیادتی کی شکار ہر اس عورت اور ہر اس علاقے کی ہے جہاں مرد، قبیلہ، طاقت، گھمنڈ اور بقول شخصے’غیرت کے ایسے بےغیرت تصور‘ کے پنجے گڑے ہوئے ہیں۔
بچپن میں گڑیوں اور گڈوں کی شادیوں والے کھیل، قریبی گاؤں میں رشتے داروں کی شادی میں سائیکل پر بیٹھ کر جانا، کراچي میں رہنے والے رشتے کے ایک چچا کی گاؤں واپسی پر سمندر، لوگوں کے ہجوم اور بڑی بڑی عمارتوں کی باتوں پر حیرانگی اور پھر چچا کے ہی پہلی بار گاؤ ں میں لائے ہوئے ٹیلیویژن کو دیکھ کر مختار بی بی کا بہت عرصے تک حیران رہنا کہ اسکے اندر بولنے والا آدمی تب بھی بول رہا ہوتا ہے جب کمرے میں کوئی بھی نہیں ہوتا۔
مختار مائی کی شادی کی بات پکی ہونا، مایوں، مہندی، نکاح اور شادی کی رسمیں جس میں دولہے کا انکی بھینچی ہوئی مُٹھی کو کھولنے کے لیے زور لگانا، رخصتی اور پھر بارات کے ساتھ ٹریکٹر ٹرالی پر سسرال جانا اور گھر دامادی کا ارادہ کیے ہوئے شوہر کی کاہلی اور اس سے طلاق حاصل کرنا۔ طلاق کے بعد مختار مائی کا گاؤں کی بچیوں کو قرآن پڑھانا اور فارغ وقت میں کشیدہ کاری کرنا۔

مزید
 

قیصرانی

لائبریرین
پاکستانی نے کہا:
مختار مائی کی کتاب پر حسن مجتبیٰ کا تبصرہ

دکھ کی ویسے تو کوئي زبان نہیں ہوتی، یہ کسی بھی زبان میں بولا جا سکتا ہے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ سرائیکی زبان میں خواجہ غلام فرید کی اس سطر "درداں دی ماری دلڑی علیل اے" کا کسی بھی دوسری زبان میں کیا ترجمہ ہوسکتا ہے ! شاید ہی ہو سکتا ہو!
اور جب زبان سرائيکی ہو اور اس میں دکھ، غصہ، خواب اور خوشی بیان کرنیوالی مختار مائی ہو اور اسکی کتھا کا چاہے پہلا ترجمہ فرانسیسی زبان ( جو کہ میں نہیں جانتا) میں ہی کیوں نہ ہوا ہو تو انتہائي انسانی کمینگی (جسکی ایک شکل فاشزم اور دوسری ریپ اور فیوڈل یا قبائلی طاقت بھی ہوسکتی ہے) کيخلاف گواہی اور ان کے خلاف بے جگری سے نبرد آزمائی کی داستان ان کی کتاب ’ان دی نیم آف آنر‘ بن جاتی ہے۔
’ان دی نیم آف آنر‘ نے امریکہ کے کتاب گھروں میں وہ جگہ پائی ہے جہاں برسوں سے این فرینک کی ڈائری دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ مختار مائی کتاب میں ایک جگہ کہتی ہیں ’جاگيرداری اپنا ظلم زمین پر قبضے سے شروع کرتی ہے اور انتہا زنا باالجبر پر‘۔
یہ کہانی پاکستان میں زیادتی کی شکار ہر اس عورت اور ہر اس علاقے کی ہے جہاں مرد، قبیلہ، طاقت، گھمنڈ اور بقول شخصے’غیرت کے ایسے بےغیرت تصور‘ کے پنجے گڑے ہوئے ہیں۔
بچپن میں گڑیوں اور گڈوں کی شادیوں والے کھیل، قریبی گاؤں میں رشتے داروں کی شادی میں سائیکل پر بیٹھ کر جانا، کراچي میں رہنے والے رشتے کے ایک چچا کی گاؤں واپسی پر سمندر، لوگوں کے ہجوم اور بڑی بڑی عمارتوں کی باتوں پر حیرانگی اور پھر چچا کے ہی پہلی بار گاؤ ں میں لائے ہوئے ٹیلیویژن کو دیکھ کر مختار بی بی کا بہت عرصے تک حیران رہنا کہ اسکے اندر بولنے والا آدمی تب بھی بول رہا ہوتا ہے جب کمرے میں کوئی بھی نہیں ہوتا۔
مختار مائی کی شادی کی بات پکی ہونا، مایوں، مہندی، نکاح اور شادی کی رسمیں جس میں دولہے کا انکی بھینچی ہوئی مُٹھی کو کھولنے کے لیے زور لگانا، رخصتی اور پھر بارات کے ساتھ ٹریکٹر ٹرالی پر سسرال جانا اور گھر دامادی کا ارادہ کیے ہوئے شوہر کی کاہلی اور اس سے طلاق حاصل کرنا۔ طلاق کے بعد مختار مائی کا گاؤں کی بچیوں کو قرآن پڑھانا اور فارغ وقت میں کشیدہ کاری کرنا۔

مزید
جاگیرداری معاشرے کا یہی تو المیہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے چپ رہنا ہے :cry:
 

جاسمن

لائبریرین
ادارے کے لئے کتابوں کی لسٹ کے لئے یہاں موجود ہوں۔ اس کتاب کا نام بھی لکھ لیا ہے۔
 
Top