انٹرنیٹ ایک عالمی گاﺅں


آج دنیا جدید ٹیکنولوجی اور انٹرنیٹ کی بدولت (گلوبل ولیج) عالمی گاﺅں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ذرائع مواصلات (ٹیلی کمیونیکشنز وغیرہ) کی بے پناہ ترقی کی بدولت دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہو گئے ہیں کہ ان کے درمیان سیکڑوں، ہزاروں کلومیٹرزکے زمینی فاصلوں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔ اب ٹیکنولوجی کی بدولت دنیا کے کسی بھی دوردراز علاقے میں بیٹھے شخص سے ایسے رابطہ یا بات چیت ممکن ہے جیسے وہ آپ کے پاس بیٹھا ہو۔ ٹیکنولوجی نے واقعی دنیا کو ایک عالمی گاوں بنا دیا ہے، جہاں ہر شخص کو دوسرے تک بہ آسانی رسائی حاصل ہے۔​
انٹرنیٹ کی ایجاد امریکی لیونارڈ کلین راک نے 29 اکتوبر 1969ء میں کی تھی، انٹرنیٹ کی ایجاد اصل میں انٹیلی جنس مقاصد کیلئے کی گئی تھی لیکن بعد میں اسکا استعمال معلومات کے حصول، پیغامات کی ترسیل، ڈیٹا اور دیگر مقاصد کیلئے بھی ہونے لگا۔ آج کے دور میں انٹرنیٹ انسانی زندگی کی ترقی کیلئے ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ڈاک کے ذریعے خط و کتابت کی اہمیت پر اثر ڈالا وہیں نئی نسل کے مطالعے کی عادت کو بھی بدل دیا، پہلے جہاں کتابیں ذوق شوق سے پڑھی جاتی تھیں وہاں انکی جگہ انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات نے لے لی اور آج مصنفین اپنی کتابیں انٹرنیٹ پر بھی جاری پڑتے ہیں۔​
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد تین ارب سے زائدہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، جس کے تحت پاکستان ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کے حوالے سے آٹھویں نمبر پر آچکا ہے۔ اب تک پاکستان کے ایک ہزار آٹھ سو بارہ شہر انٹرنیٹ سے منسلک ہو چکے ہیں اور ان میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ کے حوالے سے چین، بھارت اور جاپان بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔​
عصر حاضر میں جن ٹیکنولوجیوں کو فروغ حاصل ہوا ہے ان میں اطلاعاتی ومواصلاتی ٹیکنولوجی کا بڑا حصہ ہے۔ اس نے زندگی کے اکثر شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ اس نے زندگی کے اکثر شعبوں کے دائروں کو وسیع کیا ہے تو بہت سی وسعتوں کو محدود کرکے بھی رکھ دیا ہے۔ مختصر وقت میں اطلاعات ومعلومات کا حصول آسان ترین ہوگیا ہے۔ ان تمام شعبوں میں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ مستفید ہوا ہے۔ برقی آموزش یعنی ای لرننگ کا نیا دروازہ بھی اسی کے ذریعہ کھلا ہے جس نے طالب علم کو روایتی استاد سے بے نیاز کردیا ہے۔ وہ تمام ترتعلیمی خصوصیتیں جو ایک استاد کے ذریعہ حاصل کی جانے والی تعلیم میں ہوتی ہیں اس برقی آموزش میں مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ باریک سے باریک نکات کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے چند خرابیاں بھی تعلیمی نظام میں پیدا ہوئی ہیں لیکن اس کی افادیت ان پر غالب ہے۔​
یوں تو چند سال قبل انٹرنیٹ کا استعمال نسبتاً مشکل سمجھا جاتا تھا، لیکن ای میل، ایف ٹی پی اور ٹیلی نیٹ کو یکساں معیار دینے کے بعد سے عام آدمی اور غیر تکنیکی افراد کےلئے انٹرنیٹ کو سیکھنا اور استعمال کرنا کہیں زیادہ آسان ہوگیا، اور اس کے نتیجے میں کمپیوٹر سائنس، فزکس اور انجینئرنگ سمیت متعدد شعبوں سے منسلک افراد کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے رفقائے کار کے ساتھ رابطہ رکھنے اور معلومات کے تبادلے کا آسان اور تیز ترین ذریعہ میسر آگیا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں انٹرنیٹ کے شعبے کا اگلا بڑا قدم یونیورسٹل وائرلیس ایکسیس ہوگا، جس کے استعمال سے سارا شہر ہی انٹرنیٹ ہوٹ اسپوٹ میں تبدیل کیا جاسکے گا، جبکہ میونسپل وائی فائی یا وائی میکس کی رینج بھی عمومی وائی فائی سے کہیں زیادہ ہے۔​
انٹرنیت صرف پیغامات بھیجنے یا وصول کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک معلومات کا خزانہ ہے ۔ ہم انٹرنیٹ کی ہی بدولت یہ جان پاتے ہیں کہ دنیا میںکیا ہو رہا ہے۔ کیسی ہی معلومات ہوں انٹرنیٹ پر صرف ایک بٹن دبا کر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہمارے معاشرے کو متعدد نئی چیزیں جیسے انفورمیشن ٹیکنولوجی، ای میل، ای کومرس اور سائبر چیٹنگ دی ہیں جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ نیا دیکھنے کو مل رہا ہے۔​
ایک دور تھا جب انجینئرنگ اور ڈاکٹر بننے کے لئے ہر کوئی راضی ہوتا تھا پھر دور بدلا اور طالب علموں نے (ماسٹر بزنس ایڈمنسٹریشن) ایم بی اے کا رخ کیا اور اب ہر کوئی آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یونیورسٹیز جو پہلے انجینئرنگ، میڈیکل اور ایم بی ایم کی تعلیم دیتی تھیں اب آئی ٹی کی تعلیم بھی فراہم کر رہی ہیں۔​
انٹرنیٹ کی بدولت بننے والے سوشل میڈیا نے گلوبل ویلج کے تصور کو اور بھی فروغ دیا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس، ڈگ اور دیگر کی بدولت لوگ تقریباً ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا ذخیرہ آپ تک خود بخود بذریعہ ای میل اور انٹرنیٹ بلوگ پوسٹس کے ذریعے پہنچ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا یعنی بلوگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل ایس ایم ایس اور دیگر کی بدولت خبریں، معلوماتی اور کاروبار کو با آسانی فروغ دیا جاسکتاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا تجارتی، پیشہ وارانہ اور ذاتی برینڈسازی کیلئے زبردست امکانات رکھتا ہے۔ اگر مواد کے معیار کو بہتر بنایا جائے اور سوشل میڈیا کی بہتر سمجھ کے ذریعہ ربط ضبط بڑھایا جائے تو انٹرنیٹ عوام کے لئے زیادہ حوصلہ بخش ماحولیاتی نظام بن سکتا ہے اور یہ مواصلات، تعلیم اور نظام حکمرانی کے وسیلے کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔​
انٹرنیٹ کے فوائد کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکومت اور اداروں نے بھی اس کے استعمال پر زور دیا ہے۔ کاروبار کی بہتری کے لئے ای کومرس پر زور دیا گیا ہے اور ملک کی تمام لسٹڈ کمپنیز کیلئے مارچ 2012ء سے ویب سائٹس کی لانچنگ لازمی کر دی ہے۔ ویب سائٹس کا اجراءکمپنیز اور ان کے شیئر ہولڈرز دونوں کیلئے سود مند ثابت ہو گا اور اس سے اخراجات میں بھی بچت ہو گی۔ اس کے علاوہ اون لائن تعلیم اور دیگر امور کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔​
تحریر :سید محمد عابد
 
Top