انسانی حقوق کی علمبردار ریاست کا اصل چہرہ

فخرنوید

محفلین
امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی یا سی آئی اے کے تفتیشی طریقوں پر ایجنسی کے انسپیکٹر جنرل کی حال میں ڈیکلاسیفائیڈ کی گئی رپورٹ سے یہ بات بالکل واضع ہوتی ہے کہ سی آئی اے نے قیدیوں پر جو تشدد کیا اس میں سے زیادہ تر واقعات کو حکومت اور ریاست کی سرپرستی حاصل تھی۔

کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ بش انتظامیہ کی جانب سے ان طریقوں کی اجازت دینا تشدد کے خلاف اس بین الاقوامی چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس پر امریکہ نے بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔

ایک واقعے میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے ایک قیدی کا گلا گھونٹا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس قیدی کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لایا جاتا اور پھر اس کا گلا گھونٹا جاتا یہ سلسلہ تین مرتبہ جاری رہا۔
سی آئی اے سرد جنگ کے زمانے سے دنیا بھر میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے خاصی بدنام ہے۔ لیکن ماضی میں سی آئی اے کے غیر قانونی کاموں کو وقت کی حکومت کھلم کھلا سرپرسی نہیں دیتی تھی۔ تاہم اس مرتبہ سابق صدر بش اور سابق نائب صدر ڈک چینی نے کہا ہے کہ انہوں نے جو طریقے اپنائے وہ ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری تھے۔ یہ رپورٹ خاصی حیرانی کا باعث ہے کہ کس طرح، بظاہر ایک مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں تشدد کو سرکاری پالیسی کے طور پر اپنایا گیا اور اس کو نام دیا گیا ’ایڈوانس انٹیروگیشن ٹیکنیکس‘ یا اے آئی ٹیز کا۔

سابق صدر بش اور اس کی انتظامیہ نے بڑی محنت کے بعد دس ایسی اے آئی ٹیز دریافت کیں جو امریکہ کے محکمہ انصاف کے بقول بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتیں۔ بش انتظامیہ نے تشدد کے جن طریقوں کی منظوری دی وہ یہ ہیں۔

حواس باختہ کرنا: اس طریقے میں قیدی کے دونوں کاندھوں پر گردن کے پاس پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے سخت دباؤ ڈالتے ہوئے تفتیش کار کی جانب دھکیل کر لایا جائے گا۔

دیوار سے ٹکرانا: اس میں قیدی کو تفتیش کے دوران اچانک زور سے آگے کھینچا جائے گا اور پھر زور سے اس کو پیچھے دھکیل کر ایک مضبوط گدے کی دیوار کے ساتھ ٹکرایا جائے گا جس سے اس کے کاندھے (شولڈر بلیڈ) ٹکرائیں گے۔ خیال رکھا جائے گا کہ قیدی کے سر کو سہارا دیکر محفوظ رکھا جائے۔


سی آئی اے نے قیدیوں پر جو تشدد کیا اس میں سے زیادہ تر واقعات کو حکومت اور ریاست کی سرپرستی حاصل تھی۔

چہرا ساکت رکھنا: قیدی کا چہرا تفتش کار اپنے ہاتھوں کی کھلی ہتھیلیوں سے مظبوطی سے پکڑ کر رکھے گا تاکہ ملزم اپنا چہرا نہ ہلا سکے۔

بے عزتی کے لیے چہرے پر تھپڑ: قیدی کو بےعزت کرنے کے لیے یہ ’تکنیک’ استعمال کی جائے گی جس میں قیدی کے گال پر کھلے ہاتھ سے تھپڑ مارا جائے گا لیکن خیال رہے کہ انگلیاں کھلی ہوں۔

تنگ جگہ میں میں قیدتنہائی: اس طریقے میں قیدی کو چھوٹے یا بڑے، اندھیرے بکسوں میں بند کیا جاتا ہے تا کہ اس کی ہمت ٹوٹ جائے۔ چھوٹے بکسے میں قید تنہائی دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور بڑے بکسے میں قیدی کو زیادہ سے زیادہ اٹھارہ گھنٹے تک بند رکھا جا سکتا ہے۔

تنگ جگہ میں قیدی کے ساتھ کیڑے: قیدی کے اندھیرے بکسے میں غیر نقصان دہ کیڑے ڈالے جاسکتے ہیں۔

جوڑوں پر دباؤ: قیدی کو ایک دیوار سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پر کھڑا کرکے اسے دیوار کی جانب اس طرح جھکایا جائے گا کہ اس کے بازو سامنے کی جانب سیدھے ہوں اور اس کا پورا وزن اس کے ہاتھوں کی انگلیوں پر توازن قائم کرلے۔ قیدی کو اس پوزیشن میں ہاتھ یا پاؤں کی حرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔

مسلسل دباؤ: قیدی کو فرش پر بٹھا کر اس کی ٹانگوں کو سامنے کی جانب سیدھا پھیلا کر رکھا جائے گا، اس کے ہاتھ سر سے اوپر اٹھے ہوں گے یا پھر زمین پر رکھے رہیں گے جبکہ قیدی کو پیچھے کی جانب پینتالیس ڈگری پر جھکا کر بٹھایا جائے گا۔

نیند نہ کرنے دینا: کسی بھی ایک وقت میں قیدی کو گیارہ دن تک جگایا جاسکتا ہے۔

ڈبونے کا احساس دلانا: اس طریقے کو واٹر بورڈنگ کا نام دیا گیا اور اس میں قیدی کو ایک بنچ سے باندھ کر بنچ کو ایک طرف سے اس طرح بلند کیا جاتا ہے کہ قیدی کا سر نیچے جبکے ٹانگیں اٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔ قیدی کا سر ایک جگہ ساکت کیے جانے کے بعد ایک تفتیش کار اس کے منھ اور ناک پر کپڑا ڈالتا ہے جبکہ دوسرا اس کپڑے پر آہستہ آہستہ پانی انڈیلتا ہے۔ قیدی کی سانس کی نالی بند ہوجاتی ہے اس کے جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے اور قیدی کو ڈوبنے کا احساس ہوتا ہے۔

سی آئی اے انسپیکٹر جنرل کے مطابق حکومت کے منظور شدہ تشدد کے طریقوں کو ریکارڈ کیا جانا ہوتا ہے اور اس طرح کی ترانوے ٹیپس ہیں جن میں مختلف قیدیوں کو سینکڑوں مرتبہ واٹر بورڈنگ سے گزارا جا رہا ہے لیکن بہت سارے ٹیپ ایسے ہیں جو خالی ہیں یا غائب ہیں یا پھر ٹوٹے ہوئے ہیں۔ افسر کے اندازے کے مطابق ان پر تقریباً اکیس گھنٹے کی ریکارڈنگ ہوگی جس کا کچھ اتا پتا نہیں۔


قیدی کو بھاری ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں مسلسل دن بھر ایک سیل سے دوسرے منتقل کیا جاتا۔

اس کے علاوہ کئی اے آئی ٹیز کو مزید سخت بنانے کے لیے ایجنٹوں نے اپنے طور پر تبدیلیاں کیں۔

بعض ایسے ہتک آمیز اور پر تشدد طریقے بھی اپنائے گئے جن کی بش انتظامیہ تک نے بھی منظوری نہیں دی تھی۔ ایسے الزامات سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو دھمکیاں دی گئیں، ان کے چہرے پر سگار کا دھواں چھوڑا گیا، مخصوص جوڑوں پر دباؤ ڈالا گیا، قیدیوں کے جسم پر سخت برش استعمال کیا گیا، قیدیوں کی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں پر کھڑے ہوکر ان کو جسمانی اذیت پہنچائی گئی وغیرہ شامل ہیں۔

رپورٹ میں خصوصی طور پر النشیری اور ابو زبیدہ پر کی جانے والی تفتیش کا ذکر کیا گیا ہے۔ الزام کے مطابق ایک اہلکار النشیری کی تفتیش کے دوران ایک خالی بندوق حوالات کے کمرے میں لایا اور اسے النشیری کے سر پر رکھ کر اس کو ڈرانے کی کوشش کی۔ اسی دن ایک ڈرل مشین کے ساتھ بھی النشیری کو ڈرایا دھمکایا گیا۔

النشیری کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر اس نے زبان نہیں کھولی تو اس کی ماں کو اور باقی خاندان کو بھی یہاں لاکر جنسی طور پر بے عزت کیا جائے گا۔

سی آئی اے کے کم ازکم دو افسران نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے النشیری کے چہرے پر سگار کا دھواں پھینکا۔ لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایسا کمرے میں موجود بدبو کو کم کرنے کے لیے کیا۔

النشیری کے مختلف جوڑوں کو اس قدر دباؤ میں رکھا گیا کہ ایک مرحلے پر ایک اہلکار کو شبہ ہوا ہے اس کا بازو کاندھے سے نکل گیا ہے۔

النشیری کی تفتیش کے دوران برابر والے کمرے میں ایک اور قیدی کی تفتیش اور چیخ و پکار کے بعد گولی چلنے کی آواز کے ساتھ یہ تاثر دیا گیا کہ مشتبہ شخص کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

خالد شیغ محمد کی تفتیش میں ایک اہلکار نے ان سے کہا کہ اگر امریکہ میں مزید حملے ہوئے تو ان بچوں کو قتل کردیا جائے گے۔

ایک واقعہ افغانستان کے اسد آباد فوجی اڈے پر ہوا جہاں سی آئی اے کے منظور شدہ ایک ٹھیکیدار نے چار دن کے تفتیش کے دوران ایک افغان مشتبہ شخص پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہوگیا
رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد پر واٹر بورڈ کا طریقہ انتہائی زیادہ مرتبہ استعمال کیا گیا اور اس طرح کے استعمال کی اجازت نہیں تھی۔ خالد شیخ محمد کو ایک سو تراسی مرتبہ واٹر بورڈنگ سے گزارا گیا۔

جب کہ ابو زبیدہ پر تراسی مرتبہ واٹر بورڈ تشدد کا طریقہ استعمال کیا گیا۔

ایک واقعے میں سی آئی اے کے ایجنٹوں نے ایک قیدی کا گلا گھونٹا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس قیدی کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لایا جاتا اور پھر اس کا گلا گھونٹا جاتا یہ سلسلہ تین مرتبہ جاری رہا۔

جو قیدی اپنا منھ نہیں کھولتے تھے ان کو ٹھنڈے پانی سے نہلایا جاتا تھا۔ ایک قیدی کو تفتیش کے دوران ننگا کرکے کئی دن تک سرد کمرے میں رکھا گیا۔

رپورٹ میں افغانستان میں ہونے والے دو مزید واقعات کا بھی تذکرہ ہے جن پر اب تک تحقیقات نہیں ہوئیں۔ ایک واقعہ افغانستان کے اسد آباد فوجی اڈے پر ہوا جہاں سی آئی اے کے منظور شدہ ایک ٹھیکیدار نے چار دن کے تفتیش کے دوران ایک افغان مشتبہ شخص پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہوگیا۔

دوسرے واقعے میں سی آئی اے کا ایک افسر ایک مدرسے کے مولوی سے کچھ معلومات حاصل کر رہا تھا جس پر مولوی ہنس پڑے تو افسر نے ان کے دو سو طالب علموں کے سامنے ان کو رائفل کے بٹ اور لاتوں سے پیٹا۔

واضع رہے سی آئی اے میں کئی اہلکار عربی زبان بولنے والے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اہم قیدیوں سے پوچھ گچھ عرب یا عربی زبان بولنے والے افسران کرتے ہیں۔

گیارہ ستمبر سن دوہزار ایک کے امریکہ پر ہونے والے حملوں کے بعد سے اصل میں قیدیوں پر کتنے مظالم ڈھائے جاچکے ہیں ان کا اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکے گا
رپورٹ میں بیان کیے گئے یہ کچھ واقعات ہیں لیکن گیارہ ستمبر سن دوہزار ایک کے امریکہ پر ہونے والے حملوں کے بعد سے اصل میں قیدیوں پر کتنے مظالم ڈھائے جاچکے ہیں ان کا اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکے گا۔

امریکی انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل مطالبات کرتی رہیں ہیں کہ تمام زیادتیوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر سی آئی اے کی ان زیادیوں کی تحقیات کرا رہے ہیں جن کی انہیں حکومت نے اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن یہاں قانونی حلقوں کا خیال ہے کہ ان تحقیقات کے نتیجے میں کسی اہلکار پر مقدمہ قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔


وائس آف پاکستان
 

وقاص قائم

محفلین
ایسی بے پناہ رپورٹس اور بھی دیگر اخبارات اور جرائد میں شائع ہوچکی ہیں لیکن یہ ہماری کمبختی ہے کہ انہیں پڑھ کر صرف سر ہلاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے
 
Top