انسانیت کہاں مر گئی ہے؟

زنیرہ عقیل

محفلین
آج میری نظر اخبار پڑھتے ہوئے ایسی خبر پر پڑی جو اب روز کا معمول بن چکا ہے نہ جانے انسانیت کہاں مر گئی ہے

جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے

تاریخ انسانی نے مختلف معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا جب وہ اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلیں ، جب وہ قانون قدرت کو توڑ کر اس کی نافرمان و گستاخ بنی اور خدا کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا ۔ بنی نوع انسان کو انفرادی بدعملی کی سزا دنیا میں نہیں ملتی اس کا حساب کتاب آخرت میں ہے مگر جب قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزاء دنیا ہی میں مل جایا کرتی ہے۔ جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں۔

ہمارے معاشرے میں بد فعلی زنا کاری کا رحجان بڑھ رہا ہے اور معصوم بچے زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں کیا کسی ظالم کو کبھی سزا بھی ہوگی جسے دیکھ کر معاشرے میں کچھ ڈر کچھ خوف پیدا ہو. یا سب اسی انتظار میں ہیں کہ ہمارے کسی پیارے کے ساتھ ایسا کچھ ہو تب ہم نکل کر اس معاملے بلکہ اس سنگین معاملے کی طرف حکومت کی توجہ مرکوز کروائیں گے

معاشرے میں اس سنگین برائی کو سدھارنے کے لیے ضروری ہے کہ پورا معاشرہ یک جان ہو کر سدھار کی کوشش کرے یہ مسائل اور برائیاں دیمک سے کم نہیں، ان کی وجہ سے معاشرے کا خوب صورت چہرہ داغ دار رہتا ہے

پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو میں محمود کوٹ پولیس اسٹیشن کی حدود میں اسامہ نامی ملزم نے
5 سالہ معصوم بچی کو جنسی درندگی کانشانہ بنا ڈالا۔
5 سالہ کومل گھر سے ٹافیاں خریدنے کے لیے نکلی تھی تاہم کافی دیر گزرنے کے بعد جب واپس نہ لوٹی تو گھر والوں نے بچی کی تلاش شروع کی۔ علاقے میں تلاش کے دوران ایک گھر سے انہیں کومل کی چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیں جس کے تعاقب میں وہ پہنچے تو دیکھا ملزم اسامہ ننھی بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنارہا تھا جو انہیں دیکھتے ہی فرار ہوگیا۔

چند روز قبل مظفر گڑھ میں 6 سالہ بچے کو بدفعلی کا نشانہ بنانے کا واقعہ پیش آیا تھا, مذکورہ بچہ بھی دکان سے کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلا تھا جسے کافی دیر گزرنے پر گھر والوں نے تلاش کی تو علم ہوا کہ اسے جنسی بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل اگست میں مظفر گڑھ میں 15 سالہ نابینا لڑکی کو پڑوسی کی جانب سے ریپ کا نشانہ بنانے کا واقعہ پیش آیا تھا جس کا ابتدا میں مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم جب متاثرہ لڑکی کی والدہ نے خود کو پولیس چوکی کے سامنے آگ لگانے کی دھمکی دی تو ڈی پی او کی ہدایت پر 10 روز بعد مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

قبل ازیں جھنگ میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدور کی کم عمر بیٹی کو مبینہ طور پر ریپ کر کے 80 فٹ گہرے کنویں میں پھینکنے کے الزام میں ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

چند روز قبل راولپنڈی میں ایک 18 سالہ چچا نے اپنی بھتیجی کو ریپ کا نشانہ بنا نے کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کردیا تھا جبکہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا تھا۔

رواں ماہ کے آغاز میں سکھر کی تحصیل پنوں عاقل میں پولیس نے 10 سالہ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کرنے کے الزام میں مسجد کے پیش امام کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کرم ایجنسی کے گاؤں پیوار میں اسکول جانے والی 5 سالہ بچی کی لاش تالاب سے ملی تھی، بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ بچی کو قتل سے قبل ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟ کب بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھولیں گی اس مردہ بے ضمیر امت کی آنکھیں؟ اگر کسی بہت گہری نیند سوئے آدمی کو ٹارچر کریں یا کوئی کیڑامکوڑا بھی ڈس لے تو وہ فوراً بیدار ہو کر ہوشیار ہو جاتا ہے ۔
مگر بد نصیب قوم ایسی مدہوش نیند سوئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ٹارچر پہنچنے پر بھی قوم میں ذرا جنبش نہیں آئی کہ وہ کروٹ ہی بدل لے۔ جیسے کسی مردہ کو جتنا مرضی ٹارچر کرتے رہو اس میں ذرا جنبش نہیں آتی بالکل یہی حال ہمارا ہے ۔ ہم غفلت میں پڑے اتنی گہری نیند سورہے ہیں کہ ہماری ملت کے جسم پر کتنے بڑے بڑے ٹارچر اور زخم آئے مگر ہم میں ذرا حرکت و جنبش نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم بیدار ہونے کیلئے اسرافیل علیہ السلام کے ثور پھونکنے کی آواز کے منتظر ہوں کہ ہمیں اگر ثور کی آواز سنائی دے گئی تو ہم اٹھیں گے اس سے پہلے ہم اٹھنے والے نہیں۔
 
Top