قتیل شفائی اندھیری شب میں اُسی کے اشاروں جیسے ہیں

اندھیری شب میں اُسی کے اشاروں جیسے ہیں
وہ اُسکے نین چمکتے ستاروں جیسے ہیں
بچھڑ کے ہم سے بظاہر وہ مطمئن ہے بہت
پیام اُس کے مگر بے قراروں جیسے ہیں
چلو کہ پار لگیں ڈوب کر محبت میں
کہ اس ندی کے بھنور بھی کناروں جیسے ہیں
لبوں پہ لفظ رُکے ہیں جو ضبط کے ہاتھوں
نہ روکیے تو یہی آبشاروں جیسے ہیں
کبھی جو صرف دم گفتگو کئے اُس نے
تمام حروف وہ ٹھنڈی پھواروں جیسے ہیں
قتیلؔ آج بھی اُس کا بدن ہے سونے کا
وہ جس کے بال بھی چاندی کے تاروں جیسے ہیں
ہم آن بیٹھے ہیں ایک ایسی انجمن میں قتیلؔ
کہ اجنبی بھی جہاں اپنے پیاروں جیسے ہیں
 
Top