مجاز اندھیری رات کا مسافر

حسان خان

لائبریرین
جوانی کی اندھیری رات ہے ظلمت کا طوفاں ہے
مری راہوں سے نورِ ماہ و انجم تک گریزاں ہے
خدا سویا ہوا ہے، اہرمن محشر بداماں ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
غم و حرماں کی یورش ہے مصائب کی گھٹائیں ہیں
جنوں کی فتنہ خیزی حُسن کی خونیں ادائیں ہیں
بڑی پرزور آندھی ہے، بڑی کافر بلائیں ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
فضا میں موت کے تاریک سائے تھرتھراتے ہیں
ہوا کے سرد جھونکے قلب پر خنجر چلاتے ہیں
گذشتہ عشرتوں کے خواب آئینہ دکھاتے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
زمیں چیں بر جبیں ہے آسماں تخریب پر مائل
رفیقانِ سفر میں کوئی بسمل ہے، کوئی گھائل
تعاقب میں لٹیرے ہیں چٹانیں راہ میں حائل
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
افق پر زندگی کے لشکرِ عظمت کا ڈیرا ہے
حوادث کے قیامت خیز طوفانوں نے گھیرا ہے
جہاں تک دیکھ سکتا ہوں اندھیرا ہی اندھیرا ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
چراغِ دیر، فانوسِ حرم، قندیلِ رہبانی
یہ سب ہیں مدتوں سے بے نیازِ نورِ عرفانی
نہ ناقوسِ برہمن ہے، نہ آہنگِ ہُدی خوانی
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
تلاطم خیز دریا، آگ کے میدان حائل ہیں
گرجتی آندھیاں، بھپرے ہوئے طوفان حائل ہیں
تباہی کے فرشتے، جبر کے شیطان حائل ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
فضا میں شعلہ افشاں دیوِ استبداد کا خنجر
سیاست کی سنانیں، اہلِ زر کے خونچکاں تیور
فریبِ بے خودی دیتے ہوئے بلور کے ساغر
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
بدی پر بارشِ لطف و کرم، نیکی پہ تعزیریں
جوانی کے حسیں خوابوں کی ہیبت ناک تعبیریں
نُکیلی تیز سنگینیں ہیں، خوں آشام شمشیریں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
حکومت کے مظاہر جنگ کے پرہول نقشے ہیں
کُدالوں کے مقابل توپ، بندوقیں ہیں، نیزے ہیں
سلاسل، تازیانے، بیڑیاں، پھانسی کے تختے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
اُفق پر جنگ کا خونیں ستارہ جگمگاتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا، موت کا پیغام لاتا ہے
گھٹا کی گھن گرج سے قلبِ گیتی کانپ جاتا ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
فنا کے آہنی وحشت اثر قدموں کی آہٹ ہے
دھوئیں کی بدلیاں ہیں، گولیوں کی سنسناہٹ ہے
اجل کے قہقہے ہیں، زلزلوں کی گڑگڑاہٹ ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں
(اسرار الحق مجاز)
 
Top