ظہیر کاشمیری انتظار کا سر سے جب عذاب اترے گا

یاز

محفلین
انتظار کا سر سے جب عذاب اترے گا
زر نگار چہرے سے ہر نقاب اترے گا

زرد خشک موسم میں حوصلے جواں رکھنا
آسمان سے پانی بے حساب اترے گا

لازوال خوشبو سے دل کی بزم مہکے گی
آرزو کی ٹہنی سے جب گلاب اترے گا

برق و باد میں ہم نے اپنے گھر بسائے ہیں
ہم پہ اب خلاؤں سے کیا عذاب اترے گا

چاندنی بچھی ہو گی شب طراز گلیوں میں
بامِ ناز سے جس دم ماہتاب اترے گا

ہجر کی گریزاں شب خود ہی بیت جائے گی
وصل کے درختوں سے شہدِ ناب اترے گا

جسم و جاں میں کرنوں کی لہر دوڑ جائے گی
جب فرازِ مینا سے آفتاب اترے گا

دوریوں کے زخموں کا سب حساب کر لیں گے
چاہتوں کی منزل پر جب شباب اترے گا

اے ظہیر! پت جھڑ کی رت بدلنے والی ہے
سرمئی زمینوں پر سبز خواب اترے گا

(ظہیر کاشمیری)۔
 
Top