تبصرہ کتب انتظار حسین اور رضا علی عابدی کی یاداشتیں

Rashid Ashraf

محفلین
کتابوں کی آمد ہے کہ بازار کانپ رہا ہے
انتظار حسین اور رضا علی عابدی کی یاداشتیں-حصہ اول

ٹرین لاہور سے کتابوں کے بنڈل لے کر روانہ ہوئی اور دو دن کا سفر طے کرکے پندرہ نومبر 2011 کی صبح کراچی پہنچی۔ اردو بازار کراچی کے سب سے بڑے کتب فروش نے کتابوں کے کچھ ُپلندوں کو دیگر کتب فروشوں کو بھجوا دیا ،خبر پھیلی اور طلبگار جوق در جوق بازار کا رخ کرنے لگے۔ صبح دس بجے کتب فروش کے یہاں ملازمت کرنے والے ہمارے ’ہرکارے’ نے اطلاع دی کہ جناب رضا علی عابدی اور جناب انتظار حسین کی خودنوشت سوانح حیات آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ انتظار حسین کی سوانح حیات کی اطلاع ایک چونکا دینے والی خبر تھی، اس لیے کہ انتظار حسین 1999 میں اپنی خودنوشت ’چراغوں کا دھواں‘ کے عنوان سے تحریر کرچکے ہیں جو خاصے کی چیز ہے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہے ؟ خیال آیا کہ ہری پور ہزارہ میں مقیم ہمارے دوست زاہد کاظمی ، انتظار حسین سے رابطے میں رہتے ہیں اور جب بھی لاہور جاتے ہیں ان سے ضرور ملاقات کرتے ہیں، سو ان سے دریافت کیا جائے۔ زاہد کاظمی سے معلوم ہوا کہ انتظار حسین نے رواں برس ستمبر میں انہیں اپنی سوانح حیات کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ اس پر کام کررہے ہیں اور جلد ہی یہ کتاب شائع ہوجائے گی۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چراغوں کا دھواں کی اشاعت کے بعد انتظار حسین کے دوستوں اور قدردانوں نے انہیں تقسیم ہند سے قبل پیش آنے والے واقعات اور یاداشتوں کو سپر د قلم کرنے کی درخواست کی تھی۔ بلند شہر کا قصبہ ڈبائی انتظار حسین کا آبائی گھر تھا۔ دوستوں کے اصرار پر انتظار حسین نے یادوں کی راکھ کریدی اور اسی مناسبت سے کتاب کا عنوان ’ جستجو کیا ہے‘ تجویز ہوا۔

پریم چند فیلو شپ کے سلسلے میں انتظار حسین ہندوستان گئے اور اپنی بستی کو ڈھونڈ نکالا لیکن بقول ان کے ’’ اس بستی میں وہ کون سی گلی تھی اور وہ کون سا گھر جہاں اس خانہ خراب کی نال گڑی ہے‘‘ ۔۔۔۔بالاآخر انہوں نے وہ گھر تلاش کرہی لیا ۔ اپنی اس کتاب کے آخر میں انتظار حسین نے چند بہت ہی نادر تصاویر شامل کی ہیں، ان میں کہیں وہ اور ناصر کاظمی 1950 میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں تو کہیں 1959 میں محمد حسن عسکری کے ساتھ ایک پلیا سے کمر ٹکائے دیکھے جاسکتے ہیں،کہیں وہ دیگر مشاہیر ادب کے ہمراہ 1957 میں کافی ہاؤس میں فراق گورکھپوری کے ساتھ موجود ہیں تو کہیں ریوتی سرن شرما ، عبدالمجید بھٹی، راجندر سنگھ بیدی، مولانا صلاح الدین احمد ، آل احمد سرور اور ڈاکٹر مالک رام محفل آرا ہیں۔ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے ساتھ انداز بے تکلفانہ میں ایک تصویر شامل ہے تو کہیں مظفر علی سید اور احمد مشتاق ایک انداز محبوبانہ لیے براجماں ہیں۔
تین صد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت اس کے ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے 900 مقرر کی ہے۔

دوسری کتاب جناب رضا علی عابدی کی ’’اخبار کی راتیں‘ ہے، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، صفحات 190 اور قیمت 400۔

قارئین کو عابدی صاحب کی اس کتاب کا انتظار دو ماہ سے تھا ، وہ اس کتاب کا عندیہ یاداشتوں پر مبنی کتاب ’ریڈیو کے دن ‘ میں دے چکے تھے۔ کتاب کے پس ورق پر 9 نومبر 1959 کی ایک تصویر دی گئی ہے ، اس رات کراچی سے اخبار والوں کا قافلہ راولپنڈی پہنچا تھا اور ریلوے اسٹیشن پر ا ستقبال کرنے والوں میں شوکت تھانوی بھی موجود تھے۔
رضا علی عابدی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ کچھ نامور لوگوں نے اپنی زندگی کے حالات لکھے، کچھ غیر معمولی واقفیت رکھنے والوں نے درون خانہ معاملات پر پڑے ہوئے پردے اٹھائے لیکن عام لوگوں نے اپنے ماحول اور اطراف کو قلم بند نہیں کیا۔‘‘

’اخبار کی راتیں ‘ دوران ملازمت اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات کا مرقہ ہے ، اس میں ان عام لوگوں کا بیان بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خاص کہلائے، اپنی تخلیقات کے زور پر لوگوں کے دلوں تک پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں اخبار سے وابستہ ان ساتھیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے۔ ایسے رفیقوں کی تعداد پچاس تھی اور پورے پچاس برس بعد رضا علی عابدی انہیں تلاش کرنے نکلے ، پتہ چلا کہ ان میں سے بمشکل دس زندہ ہیں اور وہ بھی بہت ضعیف ہوچکے ہیں ۔

رضا علی عابدی زیر موضوع کتاب کو سوانح حیات سے زیادہ ایک مخصوص دور کے ماحول کی عکاسی مانتے ہیں۔ ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں اس دور سے وابستہ یادیں اور اپنے رفقائے کار گویا چلتی پھرتی حالت میں محفوظ ہیں ، ان کیفیات کو انہوں نے بقول ان کے ایک گراں قدر سرمایہ اور گزرے وقت کی سوغات سمجھا ، انہیں سمیٹا ، یکجا کیا اور کاغذ پر اتار دیا۔

رضا علی عابدی نے نوجوانی میں صحافت میں قدم رکھا تھا ۔یہ سن پچاس کی دہائی کا اواخر تھا ۔ روزنامہ جنگ میں دیدہ ریزی پر مامور ہوئے جس کی تفصیل انہوں نے پہلی باب ’ ہاں، میں پروف ریڈر تھا‘ میں درج کی ہے۔ دوران ملازمت کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی مقیم رہے، اخبار جنگ کو خیر باد کہا تو اخبار حریت میں براجے۔ مشرقی پاکستان میں شورش اپنے عروج پر تھی، ایک رات جب عابدی صاحب اخبار کی شہ سرخی جما چکے تھے کہ ڈھاکہ سے نامہ نگار کا فون آیا، کہنے لگا، لیجیے عابدی صاحب خبر لکھیے، میں اس وقت مسجد بیت المکرم کے سامنے موجود ہوں اور یہاں مجمع مجیب بھٹو بھائی بھائی کے نعرے لگا رہا ہے۔عابدی صاحب جھٹ دوڑے اور شہ سرخی تبدیل کردی ، نئی سرخی تھی ’ مجیب بھٹو بھائی بھائی‘ ۔ اگلی شام کو عابدی صاحب سینہ تانے اپنی جمائی شہ سرخی کی اچھوتی اصطلاح پر نازاں دفتر پہنچے تو ایڈیٹر کو بجھا بجھا پایا، انہوں نے عابدی صاحب سے کہا کہ انہیں صبح صبح مالکان نے طلب کیا اور سرخی کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ اخبار ہم نے اس لیے تو نہیں نکالا تھا۔

اور رضا علی عابدی نے بی بی سی لندن میں ملازمت کی درخواست ڈال دی۔

رضا علی عابدی کو راولپنڈی میں دوران ملازمت اپنے دیگر فرائض کے علاوہ دو مرتبہ رپورٹنگ بھی کرنی پڑی ۔ ایک تب جب حویلیاں جانے والی ٹرین پل سے اتر کر برساتی نالے میں گر پڑی تھی، وہ اسپتال کے مردہ خانے پہنچے اور وہاں کا منظر دیکھ کر لپک کر باہر آئے اور ایک کان کو ہاتھ لگایا۔دوسر ی مرتبہ عدالت پہنچے جہاں ایک شریف گھرانے کی لڑکی اور اسی گھر کے ملازم کا معاملہ پیش کیا گیا ، ملازم پر الزام تھا کہ وہ لڑکی کو ورغلا رہا ہے لہذا لڑکی کو بچایا جائے، مجسٹریٹ نے لڑکی سے کہا کہ تم اس لڑکے سے بچ کر رہو، یہ تمہاری عزت خاک میں ملا دے گا۔لڑکی نے مجسٹریٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’ جناب! وہ سب تو ہوچکا ہے، آپ ہمارا نکاح پڑھوا دیجیے۔‘‘
عابدی صاحب لپک کر باہر آگئے اور دوسرے کان کو ہاتھ لگایا!

روزنامہ حریت کی ملازمت کادورانیہ مختصر ہی رہا، گرچہ اخبار فخر ماتری کی ادارت میں بڑے طمطراق سے نکلا تھا لیکن بقول عابدی صاحب ’زیادہ عرصے جیا نہیں۔

پی آئی اے کی پرواز پہلی مرتبہ قاہرہ جانے کو تھی، عابدی صاحب کو دنیا دیکھنے کا شوق تھا، وہ فخر ماتری کے سامنے مصر ہوئے کہ انہیں بھی اس پرواز کے ذریعے قاہرہ کے سفر پر بھیجا جائے، فخر ماتری خاموش رہے کہ جعفر منصور کو بھیجنے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے، جعفر منصور حریت میں قطعہ لکھتے تھے۔ 20 مئی 1965 کے روز قاہرہ جانے والی اس پرواز کے مسافر ، چار پانچ کے سوا، تمام کے تمام اگلے جہان کو سدھارے تھے!

دوران ملازمت ، رضا علی عابدی حریت کی جانب سے دولت مشترکہ کے ایک تربیتی کورس میں لندن گئے۔یہ بات ہے جنوری 1968 کی۔

لندن میں ایک روز وہ بس میں کہیں جارہے تھے۔ لکھتے ہیں : ’’ میرے برابر والی نشست خالی تھی، اتنے میں ایک لڑکی آکر اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کے بدن کی گرمی مجھے محسوس ہورہی تھی، وہ بھی اس شان بے نیازی سے بیٹھی تھی کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں اور میرا یہ حال کہ سارے شرعی احکام ایک ایک کرکے یاد آنے لگے اور میں اپنے کونے میں سکڑ گیا۔
نہ ہوئے مستنصر حسین تارڑ۔‘‘
(ص: 134)

یہاں ہمیں برسوں پہلے کا پڑھا ایک واقعہ یاد آگیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ لاہور کے یعقوب ناسک دل کے آپریشن کی غرض سے لندن گئے، ایک روز ٹیوب میں سفر کررہے تھے کہ ایک لڑکی ان کے برابر آ کر بیٹھ گئی، سفر طویل تھا، لڑکی کی آنکھ لگ گئی اور اس کا سر دھیرے دھیرے یعقوب صاحب کے کاندھے سے آلگا۔ یعقوب صاحب نے کچھ دیر برداشت کیا اور پھر اسے جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا: ’’ اٹھو بی بی ! میں یعقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں!
 

Rashid Ashraf

محفلین
کتابوں کی آمد ہے کہ بازار کانپ رہا ہے
انتظار حسین اور رضا علی عابدی کی یاداشتیں-حصہ دوم

لندن میں تربیتی کورس کے سلسلے میں قیام کے دوران ان کا ایک ہندوستانی ساتھی اوم کمار جوشی تھا ، جوشی کمال کا صحافی تھا، اسے ان گنت لطیفے یاد تھے۔ رضا علی عابدی کے سوڈانی دوست محمود نے ہندوستانی گالیاں سیکھ لیں، شام کو جب یہ ٹولہ گھومنے نکلتا اور کسی گوشے میں "آپس میں بے تکلف" ہوتے لڑکے لڑکیاں ملتے تو محمود انہیں ہندوستانی گالیاں دیتا تھا۔ اوم کمار جوشی کو ایک ہی غم کھائے جاتا تھا کہ یہ لڑکے لڑکیاں آخر آپس میں اتنی جلدی اور آسانی سے کیسے دوستی کرلیتے ہیں ۔کچھ دن بعد سب نے یہ محسوس کیا کہ جوشی غائب رہنے لگا ہے۔، نہ ان کے ساتھ گھومنے جاتا ہے اور نہ ہی آپس میں مصروف جوڑوں کو گالیاں دیتا ہے۔ ایک دن جوشی کہنے لگا کہ کوئی اردو گالی بتاؤ۔ رضا علی عابدی لکھتے ہیں:

’’وہ گالی ہم نے اسے بتائی،معلوم ہوا کہ جوشی لڑکیوں کو یہ کہہ بیٹھے کہ میں مشرق سے آیا ہوا ہندو پنڈت ہوں اور تمہیں قسمت کا حال بتا سکتا ہوں، بس پھر غضب ہوگیا، انٹرنیشنل ہاؤس میں جوشی کے کمرے کے باہر لڑکیوں کی قطار لگ گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جوشی کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہ رہی۔
ایک روز ہم چھ سات کی ٹولی آرام گاہ میں بیٹھی تھی کہ جوشی دو لڑکیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا
میں نے اور مرزا نے کہا: جوشی ، اردو گالی سنو گے ؟
بولا: سناؤ
ہم نے بیک آواز کہا: حرامزادے
(ص: 137)
حریت میں ملازمت کے بیان میں عابدی صاحب نے اپنے ساتھی عنایت اللہ کا ذکر کیا ہے جو اخبار کو پریس میں بھیجنے سے قبل ہمیشہ کہا کرتے تھے ۔: ’’ اس میںشک ڈالو‘‘۔۔مطلب یہ کہ اچھی طرح دیکھ لو کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں۔
بقول رضا علی عابدی ، ’ وہ کم بخت ہمیشہ نکلتی تھی۔‘
اسی ضمن میں لکھتے ہیں

’’ ایک بار میں اخبار پر آخری نظر ڈال رہا تھا ، دیکھا کہ ایک چھوٹی سی خبر پر سرخی لگی ہے جس میں لکھا ہے ’علامہ رشید شرابی علیل ہیں ، ‘رشید ترابی کے نام کا یہ حشر پہلے تو کاتب نے کیا، پھر پروف ریڈر نے کیا۔
ایک مرتبہ ایک اور سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا ، رات پوری طرح ڈھل چکی تھی ، آنکھیں منتظر تھیں کہ کام ختم ہو او ر گھر جائیں، آخری دو صفحات پر کڑی نظر ڈالی جارہی تھی ، سرخی لگی تھی:
صدر ایوب غلیل ہوگئے ۔
اگر یہ خبر یونہی چھپ جاتی تو تو میں اپنی زندگی کا آخری مصرعہ کہتا:
ایک ُغلہ میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
(ص: 145)
رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مرجاتے۔ عدالت میں حریت کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں۔‘
’اخبار کی راتیں ‘کی فہرست ابواب ملاحظہ کیجیے:
ہاں، میں پروف ریڈر تھا، ہندو اخبار میرے دوست ٹھہرے ، سمندر کدھر ہے ؟، پہلی کتاب، پہلی ملازمت،مشقت شروع ہوتی ہے،میری پیٹھ پر پہلی تھپکی،دفتر اور تکیہ،جنگ کی جنگ
،کیا کیا آشنا،اردو صحافت کا تاج محل،کیسی اڑان ، گردن پر موت کی گرم گرم سانسیں ، آگے سمندر ہے، صحافیوں کی پوری فصل، تیسرا قدم، دوسری ہی دنیا، راہ میں پھول پڑے، جب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، بڑی سرخی بڑی تصویر، زبان کا فن، زبان کو برتنے کا ہنر، ترجمے کے رموز، یہ مسائل تلفظ۔

آخر الذکر باب میں مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے اردو زبان کے چند الفاظ اور ان کے تلفظ درج کیے ہیں اور قاری کو ترجمے کے رموز اور اس زبان کو برتنے کا ہنر سکھایا ہے جس کے مٹنے کا غم سینے سے لگائے وہ دنیا بھر میں اکثر سفر کرتے ہیں ۔
 

تلمیذ

لائبریرین
کتابوں کی آمد ہے کہ بازار کانپ رہا ہے
انتظار حسین اور رضا علی عابدی کی یاداشتیں-حصہ دوم

لندن میں تربیتی کورس کے سلسلے میں قیام کے دوران ان کا ایک ہندوستانی ساتھی اوم کمار جوشی تھا ، جوشی کمال کا صحافی تھا، اسے ان گنت لطیفے یاد تھے۔ رضا علی عابدی کے سوڈانی دوست محمود نے ہندوستانی گالیاں سیکھ لیں، شام کو جب یہ ٹولہ گھومنے نکلتا اور کسی گوشے میں "آپس میں بے تکلف" ہوتے لڑکے لڑکیاں ملتے تو محمود انہیں ہندوستانی گالیاں دیتا تھا۔ اوم کمار جوشی کو ایک ہی غم کھائے جاتا تھا کہ یہ لڑکے لڑکیاں آخر آپس میں اتنی جلدی اور آسانی سے کیسے دوستی کرلیتے ہیں ۔کچھ دن بعد سب نے یہ محسوس کیا کہ جوشی غائب رہنے لگا ہے۔، نہ ان کے ساتھ گھومنے جاتا ہے اور نہ ہی آپس میں مصروف جوڑوں کو گالیاں دیتا ہے۔ ایک دن جوشی کہنے لگا کہ کوئی اردو گالی بتاؤ۔ رضا علی عابدی لکھتے ہیں:

’’وہ گالی ہم نے اسے بتائی،معلوم ہوا کہ جوشی لڑکیوں کو یہ کہہ بیٹھے کہ میں مشرق سے آیا ہوا ہندو پنڈت ہوں اور تمہیں قسمت کا حال بتا سکتا ہوں، بس پھر غضب ہوگیا، انٹرنیشنل ہاؤس میں جوشی کے کمرے کے باہر لڑکیوں کی قطار لگ گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جوشی کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہ رہی۔
ایک روز ہم چھ سات کی ٹولی آرام گاہ میں بیٹھی تھی کہ جوشی دو لڑکیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا
میں نے اور مرزا نے کہا: جوشی ، اردو گالی سنو گے ؟
بولا: سناؤ
ہم نے بیک آواز کہا: حرامزادے
(ص: 137)
حریت میں ملازمت کے بیان میں عابدی صاحب نے اپنے ساتھی عنایت اللہ کا ذکر کیا ہے جو اخبار کو پریس میں بھیجنے سے قبل ہمیشہ کہا کرتے تھے ۔: ’’ اس میںشک ڈالو‘‘۔۔مطلب یہ کہ اچھی طرح دیکھ لو کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں۔
بقول رضا علی عابدی ، ’ وہ کم بخت ہمیشہ نکلتی تھی۔‘
اسی ضمن میں لکھتے ہیں

’’ ایک بار میں اخبار پر آخری نظر ڈال رہا تھا ، دیکھا کہ ایک چھوٹی سی خبر پر سرخی لگی ہے جس میں لکھا ہے ’علامہ رشید شرابی علیل ہیں ، ‘رشید ترابی کے نام کا یہ حشر پہلے تو کاتب نے کیا، پھر پروف ریڈر نے کیا۔
ایک مرتبہ ایک اور سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا ، رات پوری طرح ڈھل چکی تھی ، آنکھیں منتظر تھیں کہ کام ختم ہو او ر گھر جائیں، آخری دو صفحات پر کڑی نظر ڈالی جارہی تھی ، سرخی لگی تھی:
صدر ایوب غلیل ہوگئے ۔
اگر یہ خبر یونہی چھپ جاتی تو تو میں اپنی زندگی کا آخری مصرعہ کہتا:
ایک ُغلہ میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
(ص: 145)
رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مرجاتے۔ عدالت میں حریت کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہوسکتے ہیں۔‘
’اخبار کی راتیں ‘کی فہرست ابواب ملاحظہ کیجیے:
ہاں، میں پروف ریڈر تھا، ہندو اخبار میرے دوست ٹھہرے ، سمندر کدھر ہے ؟، پہلی کتاب، پہلی ملازمت،مشقت شروع ہوتی ہے،میری پیٹھ پر پہلی تھپکی،دفتر اور تکیہ،جنگ کی جنگ
،کیا کیا آشنا،اردو صحافت کا تاج محل،کیسی اڑان ، گردن پر موت کی گرم گرم سانسیں ، آگے سمندر ہے، صحافیوں کی پوری فصل، تیسرا قدم، دوسری ہی دنیا، راہ میں پھول پڑے، جب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، بڑی سرخی بڑی تصویر، زبان کا فن، زبان کو برتنے کا ہنر، ترجمے کے رموز، یہ مسائل تلفظ۔

آخر الذکر باب میں مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے اردو زبان کے چند الفاظ اور ان کے تلفظ درج کیے ہیں اور قاری کو ترجمے کے رموز اور اس زبان کو برتنے کا ہنر سکھایا ہے جس کے مٹنے کا غم سینے سے لگائے وہ دنیا بھر میں اکثر سفر کرتے ہیں ۔

ارے صاحب، کتابوں کے بارے میں +پ کا طرز تحریر اتنا 'اشتہا انگیز' ہوتا ہے کہ جب تک اس خرید کر پڑھ نہ لیا جایے، چین نہیں +تا۔۔۔۔۔۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
تلمیذ
طرز تحریر کے بارے میں لفظ اشتہا انگیز کا استعمال خوب ہے
یہ دو کتابیں تو آپ فی الفور خرید لیجیے، انشاء اللہ مایوس نہیں ہوں گے، اخبار کی راتیں کے ساتھ عابدی صاحب کی " ریڈیو کے دن" بھی ضرور شامل کیجیے گا
 

Rashid Ashraf

محفلین
بھائیو! یہ تو بتاؤ کہ گھوڑے کی نال ہوتی ہے یا نعل
اخبار کی راتیں میں درج اس لفظ کی تصدیق کرنا چاہ رہا ہوں۔ گھوڑوں سے لگاؤ رکھنے والے اٹھتے جارہے ہیں، کوئی داد رسی کرے
 

محمد وارث

لائبریرین
جی، گھوڑوں کی نعل ہوتی ہے اور انسانوں کی نال جسے کبھی گاڑتے تھے اب تو شاید کچرے میں پھنیک دیا جاتا ہے اسے، لیکن کچھ انسانوں کی نعل بندی ضروری ہونی چاہیے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
تلمیذ
طرز تحریر کے بارے میں لفظ اشتہا انگیز کا استعمال خوب ہے
یہ دو کتابیں تو آپ فی الفور خرید لیجیے، انشاء اللہ مایوس نہیں ہوں گے، اخبار کی راتیں کے ساتھ عابدی صاحب کی " ریڈیو کے دن" بھی ضرور شامل کیجیے گا

سنگِ میل والوں نے جسطرح کی کتابیں شائع کی ہیں اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور دوسری طرف وہ جتنی قیمت رکھتے ہیں اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، مستزاد یہ کہ انکی شائع کردہ کتب پر رعایت (ڈس کاؤنٹ) بھی انتہائی کم ہوتی ہے، دوسرے پبلشرز کی کتب پر جہاں چالیس، پینتیس یا تیس فیصد رعایت مل جاتی ہے ان کی کتاب پر کوئی کتب فروش بیس فیصد سے زیادہ رعایت نہیں دیتا۔ مرے کو مارے شاہ مدار یہ کہ اگر انکی ویب سائٹ سے ان کو آرڈر بھیجیں تو بالکل ہی کوئی رعایت نہیں دیتے، میرے ساتھ تو کم از کم انہوں نے دونوں دفعہ ایسا ہی کیا، اس پر بھی بس نہیں بلکہ یہ کہ رقم بھی ایڈوانس میں مانگتے ہیں لیکن اس کے باوجود کتب کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، ہم انکی کتابیں دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں، اللہ کبھی تو ان کو ہدایت دے گا :)
 

Rashid Ashraf

محفلین
بقول شخصے یہ وہ ناشر ہیں جن میں 'نا' اور 'شر' دونوں عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی مبارکباد کے مستحق ہیں
 

Rashid Ashraf

محفلین
وارث بھائی، بہت شکریہ
عابدی صاحب نے اخبار کی راتیں ایک جگہ گھوڑے کی نعل کو نال لکھا ہے۔ پیش لفظ میں انہوں نے قارئین سے درخواست کی ہے کہ اگر کتاب مذکورہ میں کوئی غلطی پائیں تو اس کی نشان دہی ضرور کریں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
سنگِ میل والوں نے جسطرح کی کتابیں شائع کی ہیں اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور دوسری طرف وہ جتنی قیمت رکھتے ہیں اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، مستزاد یہ کہ انکی شائع کردہ کتب پر رعایت (ڈس کاؤنٹ) بھی انتہائی کم ہوتی ہے، دوسرے پبلشرز کی کتب پر جہاں چالیس، پینتیس یا تیس فیصد رعایت مل جاتی ہے ان کی کتاب پر کوئی کتب فروش بیس فیصد سے زیادہ رعایت نہیں دیتا۔ مرے کو مارے شاہ مدار یہ کہ اگر انکی ویب سائٹ سے ان کو آرڈر بھیجیں تو بالکل ہی کوئی رعایت نہیں دیتے، میرے ساتھ تو کم از کم انہوں نے دونوں دفعہ ایسا ہی کیا، اس پر بھی بس نہیں بلکہ یہ کہ رقم بھی ایڈوانس میں مانگتے ہیں لیکن اس کے باوجود کتب کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، ہم انکی کتابیں دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں، اللہ کبھی تو ان کو ہدایت دے گا :)

سنگ میل کی شائع کردہ کتابوں سے متعلق آپ کے ارشادات کے ساتھ میں کلی طور پر متفق ہوں، مزید یہ کہ بعض اوقات ان کی کسی کسی کتاب میں پروف ریڈنگ کی اغلاط بہت گراں گذرتی ہیں۔ میں نے ان کے شائع کردہ 'زاویہ' کے پہلے ایڈیشن میں کئی جگہ یہ بات نوٹ کی تھی۔ شاید کوئی دیگر احباب بھی اس بات سے اتفاق کریں۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
انتظار حسین کی خودنوشت "جستجو کیا ہے" سے ایک ٹکڑا

ڈبائی بلند شہر کے گھرانے کے ایک بزرگ کہ اب کراچی میں رہتے ہیں، میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ تشریف آوری کا مقصد یہ کھلا کہ خاندان کا شجرہ نسب کی تکمیل کے سلسلے میں انہیں میرے والد مرحوم منظر علی کے خاندان کی تفصیلات مطلوب ہیں۔
میں نے بتایا کہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی۔ یہ کل خاندان ہے۔ چار بہنیں کہ مجھ سے بڑی تھیں، اللہ کو پیاری ہوئیں۔ ایک بہن کہ مجھ سے چھوٹی ہے اور ابھی تک بقید حیات ہے۔

باتوں باتوں میں کہا کہ ہم لوگ سید ہیں۔ اصل میں ہمارا خاندان چتکبرا ہے۔ چتکبرا بھی ایسا کہ ایک
رنگ کچھ زیادہ گہرا ہوگیا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ شیعہ تو بس آٹے میں نمک کی نسبت سے بلکہ تنک اس سے بھی کم۔ باقی سب اہل سنت۔ یہ میں والد کی طرف سے جو ہمارا خاندان ہے، اس کا ذکر کررہا ہوں۔ والدہ کی طرف سے سب یک رنگ تھے یعنی خالص مولائی۔

ان بزرگ کی بات پر میں چونکا۔ عرض کیا کہ میرے والد نے اپنے نام کے ساتھ کبھی سید نہیں لکھا۔ میں بھی نہیں لکھتا۔ بولے کہ اس وقت ہمارا شجرہ نسب ہماری دسترس میں نہیں تھا۔ اب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم سید ہیں، میں اس وقت چپ رہا لیکن جب انہوں نے کچھ عرصے بعد خاندان کے سلسلہ میں مزید وضاحت کی غرض سے خاندان کے دو نوجوانوں کو بھیجا اور انہوں نے سادات ہونے کا دعوی کیا تو میں نے جھرجھری لی اور لینی ہی تھی۔ اگر میرے والد نے سید ہونے کے دعوے سے احتزاز کیا تو میرے لیے یہ دعوی کرنے کی گنجائش پیدا ہوگئی کہ میں اسی برصغیر کی مٹی سے ہوں یعنی کہ ہند آریائی ہوں۔ ارے جب ہم سادات نہیں ہیں تو کسی دوسرے عرب قبیلے سے بھی رشتہ کیوں جوڑیں۔ میں نے پوچھا، اچھا یہ بات ہے تو یہ بتائیے کہ شجرہ نسب ہمیں کس امام کی اولاد بتایا ہے۔ بولے " ہم سیدنا حضرت امام حسین کی اولاد ہیں۔
تب میں ٹھٹھکا۔ ارے یہ تو خاک مدینہ و نجف میں کربلا کی خال بھی آن ملی۔ اب میں کیسے انکار کروں اور یہ میرے سنی عزیز حسینی ہونے پر مصر ہیں تو میں کس خوشی میں پہلو بچا رہا ہوں۔

سو اے دوستو! میں نے عالی نسبی کا کوئی دعوی نہیں کیا مگر میرے اہل خاندان شجرہ لیے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کربلا کی خاک سے بہنے والے خون سے جو چھینٹے اڑے، انہیں میں سے ایک چھینٹا ہم بھی ہیں۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
انتظار حسین کی خودنوشت "جستجو کیا ہے" سے ایک انتخاب
ڈبائی میں ہمارے نانا کی ایک بہن تھیں۔ سوکھی چمرخ، سفید سر، کمر جھکی ہوئی۔ ہم انہیں سب "ایا اماں" کہتے تھے۔ ایا اماں کے کمرے میں ایک چھوٹی سی بخاری تھی، پاس دلان میں ایک کوٹھری تھی، اس میں تو دن کے وقت بھی اندھیرا ہی رہتا تھا۔ زمین والا جو اس گھر کا پرانا باسی تھا، اسی کوٹھری میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی کوٹھری کی طرف سے سرسراہٹ یا پھنکار سنائی دیتی تو ہماری اماں کہتیں:
"" ارے یہ زمین والا کیا چاہتا ہے " ?
ایا اماں جواب دیتیں:
"" کٹوری میں نمک ملا دودھ بھر کے رکھ دو، اسے چین آجائے گا۔""
دودھ میں نمک کیوں ? ایا اماں کی منطق تھی کہ زمین والا نمک کا بہت پاس کرتا ہے، بہت پرانا ہے، گھر میں سبھی کو پہچانتا ہے، کبھی اس نے کسی کو پریشان نہیں کیا۔
""
پرجا پتی کی بیٹی کدرو نے جو ایک ہزار سنپولیے جنے تھے، ان میں شرافت کے پتلے تو یہی دو بھائی تھے، شیش ناگ اور باسک ناگ، یہ ضرور انہی میں سے کسی کی اولاد ہوگا۔

ہاں اس اندھی کوٹھری سے کبھی کبھی ایک چھناکے کی آواز بھی تو سنائی دیتی تھی اورکسی نے سنی ہو یا نہ سنی ہو، ایا اماں نے تو سنی تھی: "" بی بی کیا پوچُھو ہو! بس ایسی جیسے اشرفیوں کی دیگ چھن چھن کررہی ہو اور ساتھ میں ایک آواز کہ بیٹا دے دے مایا لے لے۔ میں نے کہا کہ تیرے منہ میں خاک بھوبھل، کیوں بیٹا دے دوں۔ بس وہ زمین کے اندر ہی چھن چھن کرتی دور چلی گئی۔

ایا اماں نے گھر میں موجود شیاطین کے بارے مین سب کو خبردار کردیا تھا۔ والد صاحب ان کے بیانات سن کر اس نتیجے پر پہنچے کہ کہ اس گھر میں شیاطین کا غلبہ ہوگیا ہے مگر اس کا توڑ ان کے پاس تھا۔ ایسے موقع پر وہ کلام پاک سے رجوع کرتے تھے۔ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنا قلمدان نکالا، ایک سفید کاغذ پر آیت نقل کی، اور اسے کوٹھری کے دروازے پر چپکا دیا اور واقعی اس کے بعد ایا اماں کو کوئی نہ کوئی سایہ دکھائی دیا اور نہ ہی کوئی پریشان کن خواب آیا۔ گھر سے سب شیاطین دفع ہوچکے تھے۔

مگر ایک شیطان جسے بندر کہتے ہیں، وہ تو پھر بھی اس گھر کی منڈیروں پر منڈلاتا رہا۔ بیچاری اصغری خالہ دوپہر کا کھانا کبھی چین سے نہ کھا سکیں۔ اصغری خالہ کا ایا اماں سے کیا رشتہ تھا، یہ کبھی واضح نہ ہوسکا۔ وہ بیچاری صحن کے ایک کونے میں اپنے پلنگ پر بیٹھی اپنے آپ سے باتیں کیے جاتیں۔ آنکھوں سے کم نظر آتا تھا۔ ایا اماں کس محبت سے ان کے سامنے کھانا رکھ دیا کرتی تھیں۔ " اصغری کھانا کھا لے۔
وہ تو یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی جاتی تھیں۔ ادھر منڈیر پر بیٹھا بندر آہستگی کے ساتھ اتر کر آتا اور سامنے رکھی روٹیاں لے کر یہ جا وہ جا۔ پھر دہائی دینے سے کیا ہوتا تھا۔

ہماری منڈیر پر منڈلاتے بندر کو اس گھر کی تین چیزوں سے دلچسپی تھی۔ اصغری خالہ کے سامنے رکھی روٹیوں سے، الگنی پر پڑے دوپٹے سے، گھرونچی پہ رکھے گھڑے پر ڈھکے ہوئے کٹورے سے۔ ان میں سے جس چیز پر بھی اس کا داؤ چل جاتا، وہ سمجھتا کہ معرکہ مارلیا۔ پھر منڈیر پر بیٹھ کر وہ اطمینان سے اپنے اچکے ہوئے مال سے انصاف کرتا۔ مثلا کس شوق سے وہ دوپٹے کی الٹتا پلٹتا، اسے سر پر اوڑھتا اورپھر لیر لیر کردیتا.

ہماری ایا اماں کہا کرتی تھیں: " ارے اپنا مارے گا تو لاش کو چھاؤں میں تو ڈالے گا۔
غلط ایا اماں، غلط۔ ذرا آپ یہاں آکر کر تو دیکھیں۔ اپنے لوگ اپنوں کو کیسے مار رہے ہیں،۔ اور قتل گاہوں میں یہاں سے وہاں تک کہیں چھاؤں نہیں ہے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
جستجو کیا ہے - انتظار حسین
یہ اس برس کی بات ہے جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تھی۔ شہر شہر ہنگامے
ہورہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح کالج کے کسی گوشے میں یہ نعرہ بلند ہوا۔ سمجھو کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فورا ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کر نکلے۔ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کے کسی دریچے کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور قابو نہ آیا تو پولیس طلب کرلی گئی۔

مگر پولیس کے آنے سے پہلے میرٹھ کے جانے مانے لیگی رہنما ڈاکٹر اشرف کالج آن پہنچے۔ مسلمان طلباء میں جو لیڈر قسم کی مخلوق تھا، اسے ہدایات دیں اور چلے گئے۔ میں نے اردگرد نظر ڈالی تو دیکھا کہ مسلمان طلباء بھاگنے کے بجائے لپک جھپک پرنسپل چٹر جی کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ میں بھی ان میں جا شامل ہوا۔ آگے آگے جو گھڑ سوار تھا، اس نے اپنے دستہ کو ہدایت دی کہ کرلو انہیں گرفتار۔ مگر چٹر جی بیچ میں آگئے
"" نہیں انہیں نہیں۔ یہ میرے بچے ہیں""

سو رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

کالج بند ہوگیا مگر پروفیسر مکرجی کلاس سے اپنی بے تعلقی کو زیادہ دن برداشت نہ کرسکے، جلد ہی اس جمود کو توڑا اور کلاس لینا شروع کردی۔ آج یوں ہوا کہ کہ انگریزی شاعری کے نئے رجحانات پر بات کرتے کرتے کہیں ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ آگیا۔ لیجیے پھر ایزرا پاؤنڈ پر ہی رواں ہوگئے۔ یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں۔ ذرا وقفہ آیا تو ایک طالب علم ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے بولا:

سر ایزرا پاؤنڈ ہمارے کورس میں نہیں ہے

بس مکر جی کے تن بدن میں آگ لگ گئی

کورس ? میں کورس نہیں پڑھاتا، تمہیں انگریزی ادب پڑھاتا ہوں
یہ کہا، سامنے رکھی کتاب کہنے والے طالب علم کی طرف پھینک کر ماری اور بھنا کر باہر نکل گئے۔
کلاس ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔

اگلے دن کلاس میں طلباء سب موجود، مکر جی غائب۔ بہت انتظار کیا مگر بے سود۔ تب طلباء کو احساس ہوا کہ مکر جی کچھ زیادہ ہی خفا ہوگئے ہیں۔ اگلے دن طلباء کی ایک ٹولی ان کے گھر پہنچی۔ منت سماجت کی، روٹھے ہوئے کو منایا اور کلاس میں لے کر آئے
یہ تھے ہمارے پروفیسر مکر جی

جستجو کیا ہے - انتظار حسین
 

جاسمن

لائبریرین
زبردست تبصرے۔ آپ کے تبصروں کی وجہ سے میری کتابوں کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ جزاک اللہ!
 
Top