امریکہ میں ایک بار پھر قرآن جلا دیئے گئے مردہ ضمیر مسلمان کب جاگیں گے…؟

28 اپریل کو امریکی ریاست فلوریڈا میں پادری ملعون پادری ٹیری جونز نے اپنے اعلان کے مطابق ایک بار پھر ’’قرآن جلائو دن‘‘ منایا اور اپنے چرچ کے صحن میں 20 دیگر دوستوں اور پادریوں کے ہمراہ قرآنی نسخوں کو آگ لگائی اور پھر ایک پتلہ بنا کر اسے (نعوذ باللہ) نبی آخر الزماں محمد کریمﷺ کی طرف منسوب کر کے آگ لگا کر اپنی بد نیتی، بدقماشی اور شیطانی ذہنیت کا بھرپور ثبوت دیا۔ اس نے یہ سب کچھ طے شدہ اور اعلان کردہ پروگرام کے مطابق کیا۔ اس نے اسے انٹرنیٹ پر دنیا بھر میں نشر بھی کیا اور پھر اسے انٹرنیٹ پر ساری دنیا کے دیکھنے کے لئے لوڈ بھی کر دیا۔
اس امریکی پادری نے تقریباً 2 سال پہلے 20 مئی 2010ء کو بھی اپنے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق قرآن جلایا تھا۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ جب اس کا اثر امریکی حکام تک پہنچا تو انہوں نے ملعون ٹیری جونز کا سدباب یا تدارک کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ٹیری جونز ذہنی اور دماغی مریض ہے۔ لہٰذا اسے کچھ نہیں کہا جا سکتا، پھر اس کی جرأت یہاں تک بڑھی کہ ملعون ٹیری جونز نے اس کے بعد امریکہ کی سب سے بڑی مسجد کے باہر بھی اسلام مخالف مظاہرہ کیا۔ یوں اس کے بعد اس کی یہ حرکتیں جاری رہیں لیکن امریکی حکومت نے کبھی اس پر کوئی پابندی لگائی نہ اسے ایسی کسی حرکت سے روکنے کی کوشش کی۔ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ ملعون ٹیری جونز واقعی ذہنی مریض ہے تو اسے ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروایا کیوں نہیں گیا تھا جہاں اس کا کرنٹ لگا کر علاج کیا جاتا…؟ ہمیں حیرانی ہے کہ امریکہ اس بات سے کیا واقف نہیں کہ ان حرکتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو کس قدر ٹھیس پہنچتی ہے اور اس کے نتائج پھر کس قدر خطرناک اور خوفناک نکلتے ہیں…؟ امریکی حکام یہ بات خود تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن جلانے سے افغانستان سمیت دنیا بھر میں امریکی فوجیوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ دیگر امریکی بھی حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں لیکن پھر بھی امریکہ کوئی ایسا قدم اٹھانے کے لئے تیار کیوں نہیں کہ جس سے دنیا کے امن کو خطرات لاحق نہ ہوں۔ امریکہ کی جانب سے یہ خاموشی بلکہ ٹیری جونز کو یوں تحفظ فراہم نہ کیا جاتا۔ لیکن اس کے بالکل الٹ امریکہ کا یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ امریکہ خود بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں پیش پیش ہے۔ابھی چند ہفتے پہلے امریکی افواج نے کھلے عام بگرام ایئر بیس پر 600 قرآنی نسخوں کو آگ لگائی۔ درجنوں افغان شہری اس اقدام کے بعد احتجاج کے دوران شہید ہو گئے لیکن کتنے ہفتے ہوئے امریکہ کی جانب سے اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ امریکہ نے قرآن جلانے والے فوجیوں کے خلاف کیا اقدام اٹھایا؟ اگرچہ امریکی صدر سمیت تمام اعلیٰ حکام نے اس واقعے پر معافی بھی مانگی تھی لیکن یہ معافی تو محض وقتی طور پر اپنی جانیں بچانے کے لئے تھی، اس کے بعد کیا اقدام ہوا…؟ دنیا بے خبر ہے۔ امریکی اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ ان کے اس اقدام سے قرآن تو ختم نہیں ہو سکتا لیکن وہ مسلمانوں کو ان کی بے بسی کا تماشہ دکھانا اور انہیں انتہائی مجبور و مقہور ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ وہ جب چاہیں اور جو چاہیں مسلمانوں سے سلوک کریں لیکن مسلمان اس قدر ان کے سامنے ذلیل و رسوا ہوں کہ ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ کر سکیں۔ لیکن ہم انہیں اور امت مسلمہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس سے بات نہیں بنے گی۔ امریکیوں نے مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے یہ جو سلسلہ جاری کیا ہوا ہے اس کا منطقی نتیجہ امریکہ کی تباہی ہو گا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آج کی دنیا کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت غیرت وحمیت سے عاری ہے۔ قرآن کریم جلائے جائیں یا توہین رسالت ہو۔ عام مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہی مسلمانوں کا وہ طرز عمل ہے کہ جس سے ان قوتوں کو جرأت ہوتی ہے اور وہ آگے بڑھ بڑھ کر مسلمانوں کے شعائر پر حملے کرتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی غیرت مند قوم افغان ہیں کہ جنہوں نے ان گستاخوں کو ٹھکانے لگایا تو آج یہی امریکہ ان کے قدموں میں گرا ہوا مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اگر مسلم دنیا کے اندر صرف ایک فیصد مسلمانوں میں موت سے بے خوفی، اللہ سے محبت، جنت کے حصول کی سچی طلب اور دین اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو دنیا کے کسی ایک کافر کو ایسی کسی حرکت کی کبھی جرأت نہیں ہو گی۔ ہم اس موقع پر ساری امت سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ شعائر اسلامی کا تحفظ کرنے کے لئے افغان قوم اور ملا محمد عمر کی طرح میدان جہاد کا رخ کریں۔ ہمیں تو عام مسلمانوں کی بے حمیتی پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ آپ روزانہ کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ کلرکوں، ڈاکٹروں، نرسوں،طلباء و اساتذہ سے لے کر مزدور و افسران ہر محکمہ اور طبقے کے لوگ روزانہ سڑکوں پر اس بات کے لئے مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں کہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق تنخواہ نہیں ملتی۔ ملازمت کے حقوق نہیں ملتے۔ دن رات سرکاری اداروں کو لوٹ لوٹ کر چوروں کی طرح کھانے والے ملازمین اس بات پر تو جانیں دینے کے لئے میدان میں آ جاتے ہیں کہ ان کے اداروں کو پرائیویٹ کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ ناجائز ہے کہ اس سے ان کی لوٹ مار میں کمی آ جائے گی لیکن ان سب میں سے شاید ہی کوئی ہو جو خود چل کر اس بات کے لئے میدان میں آئے کہ امریکہ نے ان کے قرآن کو آگ لگائی۔ ان کے نبی آخر الزماں محمد کریمﷺ کی توہین و گستاخی کی، مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ڈاکٹر عافیہ کو قید کیا۔ پاکستان پر ڈرون حملے کئے، دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔ لیکن دیکھ لیجئے کہ ایک عام مسلمان کب گھر، دفتر یا دکان چھوڑ کر میدان میں آیا ہے، دوسری طرف وزیراعظم کے کھلے جرائم پر سپریم کورٹ نے اسے سزا سنائی تو اس کے دیوانے اور دیوانیاں سڑک سڑک گلی گلی ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ان کے مخالفین بھی کسی سے کم نہیں لیکن دیکھ لیجئے! ان میں سے کبھی کوئی اسلام کے کسی معمولی دفاع یا شعائر کے تحفظ کی بات نہیں کرے گا۔ قرآن جلا… ایک بار نہیں بار بار جلا، ہمارے کتنے سیاستدان تھے کہ جنہوں نے امریکہ سے احتجاج کیا۔ مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اپنی ذات کے لئے یہ گولیاں بھی کھا لیں گے لیکن اسلام کے لئے ان کی زبان تو کیا آنکھ بھی حرکت نہیں کرے گی۔ ہمارے معاشرے میں پھیلے یہ تمام مسلمان ہی ایسے ہیں کہ جنہیں دیکھ دیکھ کر یہود وہنود سب شرما جاتے ہیں اور پھر یوں ان کی جانب سے دیدہ دلیری و دریدہ ذہنی سے اسلام پر حملے پر حملے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بسنے والے یہ سب لوگ جو زندگی کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہنے کو ان سب کے نام مسلمانوں والے ہوتے ہیں۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اپنا نکاح علماء سے پڑھواتے ہیں اور آخری وقت غسل و کفن کے ساتھ جنازہ بھی کرواتے ہیں لیکن ان سب کا اسلام کے ساتھ زندگی بھر کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی ہمارے لوگ آج اپنی اولادوں کو امریکی تہذیب اور یورپ کی زبان انگریزی اور ان کے فنون سکھانے کے لئے کتنے جتن کرتے ہیں، اولاد پر کس قدر توجہ دیتے ہیں لیکن قرآن سیکھنے کے لئے کیا کچھ کیا جاتا ہے۔ بچوں کو قرآن پڑھانے کے لئے کس قدر محنت یا توجہ دی جاتی ہے۔ سب کے سامنے ہے۔ کافر قرآن کی توہین اسی لئے تو کر رہے ہیں کہ ہم قرآن سے دور ہیں۔ اس قرآن کو پڑھ پڑھ کر ان کے اپنے یورپی معاشرے بدل رہے ہیں۔ ان کے لوگ دائرہ اسلام میں تیزی کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں، باعمل بن رہے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کا حال ہی الٹ ہے۔
آئیے! اس افسوس ناک سانحہ کے ساتھ یہ عہد کریں کہ ہم قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں گے۔ قرآن کا ہر حکم مانیں گے تاکہ ہمارا رب ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو کر دے اور دنیا میں عزت کے ساتھ رہنے کیلئے قرآن کا حکم جہاد افغانیوں کی طرح مانیں گے تاکہ عزت کے ساتھ زندہ رہ کر عزت سے مر سکیں۔


بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top