امام حسین خدا کی بارگاہ میں

Wajih Bukhari

محفلین
--۰ ۰--۰ ۰ --۰ ۰- -

27 اگست 2022


ہر سانس پکارے مرے اللّہ مرے اللّہ
اے دل کے سہارے مرے اللّہ مرے اللّہ
مارے گئے پیارے مرے اللّہ مرے اللّہ
سب بجھ گئے تارے مرے اللّہ مرے اللّہ

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

آتا ہے بہت یاد وہ فرزندِ جواں سال
گم ہو گیا صحرا میں مرا بیش بہا لعل
وہ ماہِ فلک تھا جو ہوا خاک میں پامال
کیسے مرے زانو پہ تھا دم اس کا نکلتا

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

تالو سے چپکتی تھی زباں پیاس کے مارے
بچوں سے نہ ہوتی تھی فغاں پیاس کے مارے
شانوں کو تھا سر بارِ گراں پیاس کے مارے
پیاسے تھے سدھارے وہ بہتر لبِ دریا

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

ننھا سا وہ معصوم تھا سہما ہوا خاموش
اُس شورِ خموشی سے پریشاں تھے مرے گوش
دم رک سا گیا اس کو لیا جب درِ آغوش
تکتا تھا مجھے یاس سے چھ ماہ کا بچہ

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

بانہیں گلے میں ڈال کے روتی تھی وہ کمسن
کہتی تھی نہ جاؤ میں نہ رہ پاؤں گی تم بن
سوچا نہ کبھی تھا یوں بچھڑ جاؤ گے اک دن
دل کاٹ رہا تھا مری بچی کا بلکنا

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

لیتا تھا اجازت کہ وہ اب جاں سے گزر جائے
بچے ہیں پیاسے تو وہ گھر کیسے ٹھہر جائے
لشکر جو نہیں اب تو علمدار بھی مر جائے
کچھ دیر میں وہ بازو بریدہ تھا تڑپتا

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

جب اس سے کہا کوئی نہیں اب مرا دلگیر
گردن پہ ذرا دیر میں چلنے کو ہے شمشیر
گھر تیرے حوالے کیا اب اے مری ہمشیر
اس وقت مرے غم میں عجب حال تھا اس کا

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

بیٹا میں ہوں اب موت کی منزل کا مسافر
اے نورِ نظر ہوش میں آؤ مری خاطر
کرنی ہے وصیت مجھے بیمار کو آخر
میں اس کی جبیں چوم کے اک آہ تھا بھرتا

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

گرچہ ہیں لگے زخم بہت آج بدن میں
تنہا کھڑا لشکر کے نشانے پہ ہوں رن میں
اک آگ سلگتی ہے مرے خشک دہن میں
راضی برضا ہوں مرے اللّہ مرے اللّہ

اے نورِ صفا، ربِ کفیٰ، مولا و ملجا

نذرانہ من جانب وجیہ الحسن

اپنی طرف سے مخمس کی ہیئت میں لکھنے کی کوشش کی ہے
 
Top