قیصرانی
لائبریرین
ایک دراز قد آدمی کچھ اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا جیسے بہت زیادہ پی گیا ہو۔ وہ زینے پر لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا ضرور لیتا تھا۔ اس کے جسم پر سیاہ رنگ کا اوور کوٹ تھا جس کے کالر سرے تک اٹھے ہوئے تھے اور پھر فلٹ ہیٹ کا گوشہ اس طرح پیشانی پر جھکا ہوا تھا کہ اس کی صورت نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔
حالانکہ پیراماؤنٹ بلڈنگ میں لفٹ بھی موجود تھی لیکن نہ جانے کیوں اس نے زینوں کو لفٹ پر ترجیح دی تھی۔ کیا نشے کی وجہ سے اس کے قدم خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے؟ کیا شراب نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا؟
اگر یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ کا واقعہ نہ ہوتا تو لوگ اسے حیرت سے دیکھتے۔۔۔ یہاں کسے اتنی فرصت تھی کہ اس کی اس عجیب و غریب حرکت پر غور کرتا یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ تھی۔۔۔ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز!
اس ہفت منزلہ عمارت میں سینکڑوں تجارتی دفاتر تھے۔ یہاں دن بھر آدمیوں کی ریل پیل رہتی تھی۔ اس کے باوجود بھی یہاں عجیب باتوں پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
طویل قامت آدمی اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا۔ رات کے آٹھ بجے تھے لیکن اس وقت بھی عمارت کی کھڑکیوں میں روشنی نظر آ رہی تھی یہاں بہتیرے دفاتر ایسے تھے جو دن رات کھلے رہتے تھے۔
طویل قامت آدمی تیسری منزل کی ایک راہداری میں مڑ گیا۔ لیکن اب وہ رک گیا تھا اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر چلنے لگا۔ لیکن اب اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ کی بجائے لنگڑاہٹ تھی۔ زینوں پر یہ لڑکھڑاہٹ معلوم ہوتی تھی۔ ایک فلیٹ کے دروازے پر وہ رکا۔ جس پر لگے ہوئے بورڈ پر تحریر تھا۔
"التھرے اینڈ کو فارورڈنگ اینڈ کلئیرنگ ایجنٹس!"
دراز قد آدمی نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اور ہلکی سی کراہ کے ساتھ دیوار سے لگ گیا۔ اندر سے دروازہ کھلتے ہی وہ پھر سیدھا کھڑآ ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ دروازہ کھولنے والا ایک 18 سالہ لڑکا تھا جس کے جسم پر چپڑاسیوں کی وردی تھی۔
دراز قد آدمی نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر دروازے سے باہر کھینچ لیا۔ اور بھرائی ہوئی آؤاز میں بولا۔ "بھاگ جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ یہ لو۔ سیکنڈ شو دیکھنا!" اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا نوٹ نکال کر لڑکے کی مٹھی میں بند کر دیا۔
"سلام صاحب!" لڑکے نے فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلام کیا۔
"سلام! بھاگ جاؤ۔" دراز قد آدمی بھرائی ہوئی آواز میں ہنسا۔
لڑکا تیزی سے چلتا ہوا زینوں پر مڑ گیا۔ دراز قد آدمی فلیٹ میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرکے اس نے اپنا اوور کوٹ اتارا۔ فلٹ ہیٹ اتار کر سٹینڈ پر پھینکی۔ اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ یہ ایک سفید فام غیر ملکی تھا دوسرے کمرے میں داخل ہو کر اس نے ٹائپ رائٹر پر جھکی ہوئی لڑکی کو جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ اونگھ رہی تھی۔
"کیا تم یہاں سونے کے لئے آئی ہو۔" لمبے آدمی نے غرا کر کہا۔
"نہیں! مسٹر التھرے۔۔۔ مجھے افسوس ہے۔" لڑکی خوفزدہ نظر آنے لگی تھی۔ دراز قد آدمی نے ایک بھدا سا قہقہہ لگایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر دس کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا۔ "جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ سیکنڈ شو دیکھنا۔"
لڑکی متحیر رہ گئی۔ یہ ایک چھوٹے قد کی معصوم صورت یوریشین لڑکی تھی۔
"میں سمجھی نہیں جناب!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"تم چھٹی نہیں سمجھتیں۔۔۔ جاؤ۔۔۔ آج اوور ٹائم نہیں ہوگا۔" اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شکریہ مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔" لڑکی نوٹ لے کر اپنا وینٹی بیگ سنبھالنے لگی۔ دفعتاً اس کی نظر فرش پر پڑی جہاں التھرے کھڑا تھا۔ اور وہ ہونٹ سکوڑ کر کھڑی ہو گئی۔
"خون۔۔۔ مسٹر التھرے"۔۔۔ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔ "آپ زخمی ہیں۔۔۔ مسٹر التھرے۔۔۔ آپ کا پیر۔"
پھر اس کی نظر التھرے کی ران پر جم گئی جہاں پتلون میں سوراخ تھا۔ اور اس کے گرد خون کا ایک بڑا سا دھبہ۔۔۔
"اوہ۔۔۔ یہ کچھ نہیں۔" التھرے مسکرایا۔ "میں زخمی ہو گیا ہوں۔" اس کی گھنی مونچھیں ہونٹوں کو ڈھکے ہوئی تھیں۔ گالوں کے پھیلاؤ سے لڑکی کو اس کی مسکراہٹ کا احساس ہوا تھا۔
"کیا میں کچھ خدمت کر سکتی ہوں۔" لڑکی نے کہا۔ وہ بہت زیادہ متائثر نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ رو دے گی۔
گھنی مونچھوں سے التھرے کے سفید دانتوں کی قطار جھانکنے لگی وہ ہنس رہا تھا۔ "تم بہت کمزور دل کی معلوم ہوتی ہو۔ میری مدد نہیں کر سکو گی۔ میری ران میں ریوالور کی گولی موجود ہے اسے میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔ تم جاؤ!"
"میں ڈاکٹر کو فون کروں۔"
"نہیں۔۔۔ بےبی۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔ میں خود بھی کسی ڈاکٹر سے مدد لے سکتا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔"
"جھگڑا ہوا تھا۔"
"نہیں!" التھرے نے خشک لہجے میں کہا۔ غالباً وہ لڑکی کے سوالات سے اکتا گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اب وہ چلی ہی جائے وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ "یہ ایک اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں یہاں آنے کی بجائے پولیس اسٹیشن جاتا۔۔۔ ہم نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے۔ مگر تم اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔"
"اوہ نہیں مسٹر التھرے۔۔۔ مگر آپ تنہا ہیں۔۔۔ اکیلے آپ کیا کر سکیں گے کس طرح گولی نکالیں گے۔"
"اچھا تم کیا کرسکو گی۔"
"میں ایک تربیت یافتہ نرس ہوں۔۔۔ مسٹر التھرے!"
"تعجب ہے۔" التھرے کی آنکھوں سے شبہ جھانکنے لگا۔ "تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا۔ تم تو ایک اسٹینو گرافر ہو۔"
"جی ہاں! شارٹ ہینڈ میں نے اس پیشے کو ترک کرنے کے بعد سیکھا تھا۔"
"اچ۔۔۔ چھا۔۔۔ آؤ۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ تم میری کیا مدد کر سکتی ہو"
تیسرے کمرے کی الماری کھول کر التھرے نے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ اسی کے ساتھ جراحی کے کچھ آلات بھی برآمد ہوئے جنہیں لڑکی نے ایک برتن میں ڈال کر ہیٹر پر رکھ دیا۔
"مگر مسٹر التھرے!۔۔۔ گولی کون نکالے گا!"
"میں نکالوں گا۔" التھرے مسکرایا۔
"مجھے حیرت ہے۔۔۔ آپ ہم لوگوں کی طرح عام آدمی معلوم نہیں ہوتے!"
"اوہ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔" التھرے ہنسنے لگا۔
وہ زخم کھول چکا تھا جس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا۔ لڑکی نے اسے حیرت سے دیکھا اور التھرے کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی لیکن وہ پرسکون نظر آ رہا تھا۔ لڑکی کی حیرت اور بڑھ گئی۔
"سوزی! تم متحیر ہو؟" التھرے نے پھر قہقہہ لگایا۔ "میرا سارا جسم زخموں سے داغدار ہے۔ پچھلی جنگ میں میرے جسم کا قیمہ بن گیا تھا۔ پھر بھی میں نے ڈاکٹروں کو متحیر کرکے چھوڑا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے جسم میں کوئی خبیث روح موجود ہے۔ اگر شریف روح ہوتی تو کبھی کی پرواز کر چکی ہوتی۔"
سوزی متحیرانہ انداز میں صرف سنتی رہی کچھ بولی نہیں۔ التھرے کے برتن سے ایک چمٹی نکالی اور سوزی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ آدمی پتھر کا ہے یا فولاد کا۔۔۔ وہ اتنے ہی انہماک کے ساتھ زخم سے گولی نکالنے میں مشغول تھا جیسے ہتھیلی میں چبھی ہوئی کسی پھانس کو سوئی سے کرید رہا ہو۔ گولی کے نکلنے میں دیر نہیں لگی۔ التھرے آواز سے ہنس رہا تھا سوزی کو یہ ہنسی کچھ ہذیانی قسم کی معلوم ہوئی۔ بالکل ایسی ہی جیسے شدت درد سے کراہیں نہ نکلی ہوں قہقہے پھوٹ پڑے ہوں۔
"اب تم اپنا کام شروع کر دو!"
"مگر جناب! آپ کے فرسٹ ایڈ باکس میں مرکری کروم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔"
"وہی چلنے دو۔ پروا مت کرو۔ میں اس وقت کہیں بھی نہیں جا سکتا اور نہ ڈاکٹر کو طلب کر سکتا ہوں۔" سوزی زخم کی ڈریسنگ کرنے لگی۔ مگر اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے نہ جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ مچ کسی خبیث روح کے چکر میں پڑ گئی ہو۔
ڈریسنگ ہو جانے کے بعد التھرے نے سوزی سے کہا۔۔۔ "لڑکی میں تم سے بہت خوش ہوں۔ اسے ابھی سے نوٹ کرو کہ میں یورپ کے دورے پر جاتے وقت تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اس سے تمہارے تجربات میں اضافہ ہوگا۔"
"میں شکریہ ادا کرتی ہوں! مسٹر التھرے!" سوزی نے خادمانہ انداز میں کہا۔
"مگر دیکھو۔۔۔ تم میرے زخمی ہو جانے کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔۔۔ اس سے خدشہ ہے کہ میرا وہ دوست مصیبت میں نہ پھنس جائے۔۔۔۔ جس کی گولی سے میں زخمی ہوا تھا۔"
"میں کسی سے بھی تذکرہ نہیں کروں گی جناب!"
"شکریہ!۔۔۔ اب تم جا سکتی ہو۔"
سوزی مزید کچھ کہے بغیر فلیٹ سے نکل آئی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کے ذہن پر ایک انجانہ سا خوف مسلط ہوتا جا رہا تھا۔
---
عمران کے فون کی گھنٹی بجی، جس کے نمبر ٹیلیفون ڈائرکٹری میں درج نہیں تھے۔ اس نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے بولنے والی جولیانا فٹز واٹر تھی۔
"تنویر بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہے جناب!"
"کیسے۔۔۔ کس طرح؟"
"سراج گنج کی ایک تاریک گلی میں اسے چند نامعلوم آدمیوں نے گھیر لیا۔ غالباً وہ اسے پکڑ لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن تنویر نے فائرنگ شروع کر دی جواب میں ان لوگوں نے بھی گولیاں چلائیں تنویر کے دونوں بازو زخمی ہو گئے ہیں اور وہ اس وقت سول ہسپتال میں ہے۔ غالباً اب پولیس اس کا بیان لینے کے لئے پہنچ گئی ہوگی۔"
"کیا تنویر حملہ آوروں میں سے کسی کو پہچان سکا تھا؟"
"نہیں جناب! گلی تاریک تھی۔ یہ اس کا خیال ہے کہ اس نے ان میں سے ایک آدمی کو ضرور زخمی کیا ہے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس نے کراہنے اور سسکنے کی آوازیں سنی تھیں!"
"اس کے زخموں کی حالت مخدوش تو نہیں ہے۔"
"نہیں جناب! وہ ہوش میں ہے۔"
"تم کہاں سے بول رہی ہو؟"
"سول ہسپتال سے!"
"اچھا تو اسے سمجھا دو کہ اس کا بیان غیر واضح اور مبہم ہو جائے۔۔۔ بلکہ اگر وہ بڑی رقم لٹ جانے کی کہانی سنائے تو اور اچھا ہے۔"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔ بیان ہو جانے کے بعد میں پھر فون کروں گی۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عمران نے ریسیور رکھ کر ایک طویل انگڑائی لی اور اس طرح منہ چلاتا ہوا دوسرے کمرے مٰں چلا گیا جیسے دھوکے سے کوئی کڑوی یا کسیلی چیز کھا گیا ہو۔ اس نے اپنے نوکر سلیمان کو آواز دی چونکہ وہ تقریباً دو گھنٹے تک خاموش بیٹھا رہا تھا اس لئے اب اس کی زبان میں کلبلاہٹ شروع ہو گئی تھی۔
سلیمان آ گیا۔
"ابے وہ تو نے اپنے دادا کا نام کیا بتایا تھا۔ میں بھول گیا۔" عمران اس طرح بولا جیسے یاداشت پر زور دے رہا ہو۔
"کیا کیجئے گا یاد کر کے۔۔۔!" سلیمان نے بیزاری سے کہا۔
"صبر کروں گا یاد کر کے۔۔۔ توب تاتا ہے کہ یا ہم سے بحث کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نالائق!"
"گلزار نام تھا!"
"کیا داڑھی گلاب کے پھول کی شکل کی تھی؟"
"نہیں تو۔۔۔ ویسی ہی تھی۔۔۔ جیسی سب کی ہوتی ہے۔"
"ابے تو پھر گلزار کیوں نام تھا؟" عمران غصیلی آواز میں دھاڑا
"میں نہیں جانتا۔۔۔ آپ میرے دادا کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں!"
"اچھا۔۔۔ چل چھوڑ دیا۔۔۔ پردادا کا کیا نام ہے؟"
"مجھے نہیں معلوم۔"
"ابے تجھے اپنے پردادا کا نام نہیں معلوم۔"
"میرا پردادا تھا ہی نہیں۔" سلیمان نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
"تب پھر تجھ سے زیادہ بدنصیب آدمی روئے زمین پر نہیں ملے گا۔"
"صاحب ہانڈی جل رہی ہے۔۔۔ مجھے جانے دیجئے!"
"اچھا بے ہمیں الو بناتا ہے کیا کاغذ کی ہانڈی ہے کہ جل جائے گی۔!"
"صاحب!" سلیمان اسے گھورتا ہوا بولا۔
"کیا کہتا ہے؟"
"میرا حساب کر دیجئے۔۔۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔"
"حساب۔۔۔" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ "حساب! اچھا کاغذ پنسل لے کر ادھر بیٹھ۔"
"مجھے لکھنا نہیں آتا!"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جب لکھنا آ جائے تو مجھے بتانا۔۔۔ میں حساب کر دوں گا۔"
پرائیویٹ فون کی گھنٹی بجی اور یہ سلسلہ یہیں ختم ہو گیا۔
عمران نے کمرے میں جا کر کال ریسیو کی۔ فون جولیا ہی کا تھا۔
"اٹ از جولیا سر!"
"کیا خبر ہے؟"
"تنویر کا بیان ہو چکا ہے اس نے یہی لکھوایا ہے کہ اس کے پرس میں ڈیڑھ ہزار روپے تھے جو چھین لئے گئے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن سنو! تم سبھوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔"
"ہم ہر وقت محتاط رہتے ہیں جناب! اگر محتاط نہ ہوتے تو تنویر کی رپورٹ غالباً آسمان سے اترتی۔ احتیاط اور حاضر دماغی ہی کی وجہ سے وہ بچ گیا ہے۔"
"خیر۔۔۔ ہاں دیکھو۔۔۔ تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ تھریسیا اور الفانسے اب شہر میں نہیں ہیں۔۔۔ یہ لوگ دھن کے پکے ہیں۔ یا تو کاغذات حاصل کریں یا اپنی جانیں دے دیں گے۔"
"تو کیا تنویر پر کیا جانے والا حملہ انہیں سے منسوب کیا جائے گا؟"
"ممکن ہے کہ یہ حملہ انہی کی طرف سے ہوا ہو۔"
"پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے؟"
"فی الحال اس بے تکے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔" عمران نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
---
سوزی حسب معمول دوسری صبح آفس پہنچی۔ لیکن التھرے اپنی میز پر موجود نہیں تھا۔ سوزی نے سوچا کہ اب اس کے پیر کی تکلیف بڑھ جائے گی لہٰذا وہ اپنی مسہری سے ہلنے کی بھی ہمت نہ کر سکے گا۔ مگر پھر آفس کس نے کھولا؟ یہاں ملازم صرف تین تھے۔ ایک سوزی خود۔۔۔ دوسرا ایک کلرک اور تیسرا چپڑاسی! التھرے کا رہائشی کمرہ بھی اسی فلیٹ میں تھا اور وہ وہاں تنہا رہتا تھا۔ لہٰذا آفس وہی کھولتا تھا۔ یہ تینوں ملازم باہر سے آتے تھے۔
فلیٹ میں چار کمرے تھے دو کمرے التھرے نجی طور پر استعمال کرتا دو آفس کے لئے تھے۔ سوزی اپنے کمرے میں بیٹھ گئی کلرک ابھی نہیں آیا تھا اس نے چپڑاسی سے پوچھا "صاحب کہاں ہیں؟"
"اپنے کمرے میں ہوں گے۔"
"آفس کس نے کھولا تھا؟"
"صاحب نے!"
چونکہ اسے پچھلی رات کھسکا دیا گیا اس لئے وہ سوزی کو شبے کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اور سوزی خوامخواہ دل ہی دل میں شرما رہی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اسے آج چپڑاسی اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا۔
کچھ دیر بعد کلرک بھی آ گیا لیکن التھرے کی میز خالی ہی رہی۔ کلرک نے اسے ٹائپ کرنے کے لئے کچھ کاغذات دیئے اور سوزی کام میں مشغول ہو گئی!
کلرک ایک نوجوان دیسی عیسائی تھا۔ وہ اچھی صحت رکھتا تھا اور قبول صورت بھی تھا۔ اکثر وہ سوزی کے ساتھ ہی شامیں گذارتا تھا۔
لنچ کے وقفے میں شاید چپڑاسی نے کلرک کو پچھلی رات کا واقعہ بتایا تھا۔ سوزی نے یہی محسوس کیا۔ کیونکہ لنچ کے بعد سے اس کا موڈ خراب وہ گیا تھا۔
التھرے اندر ہی تھا اور اس نے چپڑاسی سے کہلوا دیا تھا کہ آج اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے آفس کو ایک گھنٹہ پہلے ہی بند کر دیا جائے۔ ساتھ ہی چپڑاسی نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ التھرے کی ہدایت کے بموجب سوزی کو وہیں رکنا ہوگا۔ کلرک نے پھر سوزی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔
"کل بھی تم رکی تھیں؟" اس نے کہا۔
"ہاں کل بھی رکی تھی۔"
"کیوں؟"
جرح کا یہ انداز شاید سوزی کو پسند نہیں آیا تھا۔ اس لئے برا سا منہ بنا کر کہا "کیا میں تمہیں اس کا جواب دینے پر مجبور ہوں۔"
"اوہ! نہیں تو!" کلرک سپٹپٹا گیا اسے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سوزی کی آنکھیں بلیوں سے مشابہ ہوں۔ حالانکہ اسے اس کی آنکھیں بہت اچھی لگتی تھیں اور ان کے تصور کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں لاتعداد کنول کھل اٹھتے تھے۔ کنول جو حسن اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
سوزی اب بھی اسے جواب طلب نظروں سے گھور رہی تھی کلرک اپنے کام میں مشغول ہو
حالانکہ پیراماؤنٹ بلڈنگ میں لفٹ بھی موجود تھی لیکن نہ جانے کیوں اس نے زینوں کو لفٹ پر ترجیح دی تھی۔ کیا نشے کی وجہ سے اس کے قدم خودکشی کی طرف بڑھ رہے تھے؟ کیا شراب نے اس کا دماغ ماؤف کر دیا تھا؟
اگر یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ کا واقعہ نہ ہوتا تو لوگ اسے حیرت سے دیکھتے۔۔۔ یہاں کسے اتنی فرصت تھی کہ اس کی اس عجیب و غریب حرکت پر غور کرتا یہ پیراماؤنٹ بلڈنگ تھی۔۔۔ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز!
اس ہفت منزلہ عمارت میں سینکڑوں تجارتی دفاتر تھے۔ یہاں دن بھر آدمیوں کی ریل پیل رہتی تھی۔ اس کے باوجود بھی یہاں عجیب باتوں پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔
طویل قامت آدمی اس انداز میں زینے طے کر رہا تھا۔ رات کے آٹھ بجے تھے لیکن اس وقت بھی عمارت کی کھڑکیوں میں روشنی نظر آ رہی تھی یہاں بہتیرے دفاتر ایسے تھے جو دن رات کھلے رہتے تھے۔
طویل قامت آدمی تیسری منزل کی ایک راہداری میں مڑ گیا۔ لیکن اب وہ رک گیا تھا اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر چلنے لگا۔ لیکن اب اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ کی بجائے لنگڑاہٹ تھی۔ زینوں پر یہ لڑکھڑاہٹ معلوم ہوتی تھی۔ ایک فلیٹ کے دروازے پر وہ رکا۔ جس پر لگے ہوئے بورڈ پر تحریر تھا۔
"التھرے اینڈ کو فارورڈنگ اینڈ کلئیرنگ ایجنٹس!"
دراز قد آدمی نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اور ہلکی سی کراہ کے ساتھ دیوار سے لگ گیا۔ اندر سے دروازہ کھلتے ہی وہ پھر سیدھا کھڑآ ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ دروازہ کھولنے والا ایک 18 سالہ لڑکا تھا جس کے جسم پر چپڑاسیوں کی وردی تھی۔
دراز قد آدمی نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر دروازے سے باہر کھینچ لیا۔ اور بھرائی ہوئی آؤاز میں بولا۔ "بھاگ جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ یہ لو۔ سیکنڈ شو دیکھنا!" اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا نوٹ نکال کر لڑکے کی مٹھی میں بند کر دیا۔
"سلام صاحب!" لڑکے نے فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلام کیا۔
"سلام! بھاگ جاؤ۔" دراز قد آدمی بھرائی ہوئی آواز میں ہنسا۔
لڑکا تیزی سے چلتا ہوا زینوں پر مڑ گیا۔ دراز قد آدمی فلیٹ میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرکے اس نے اپنا اوور کوٹ اتارا۔ فلٹ ہیٹ اتار کر سٹینڈ پر پھینکی۔ اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ یہ ایک سفید فام غیر ملکی تھا دوسرے کمرے میں داخل ہو کر اس نے ٹائپ رائٹر پر جھکی ہوئی لڑکی کو جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ اونگھ رہی تھی۔
"کیا تم یہاں سونے کے لئے آئی ہو۔" لمبے آدمی نے غرا کر کہا۔
"نہیں! مسٹر التھرے۔۔۔ مجھے افسوس ہے۔" لڑکی خوفزدہ نظر آنے لگی تھی۔ دراز قد آدمی نے ایک بھدا سا قہقہہ لگایا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر دس کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا۔ "جاؤ۔۔۔ چھٹی۔۔۔ سیکنڈ شو دیکھنا۔"
لڑکی متحیر رہ گئی۔ یہ ایک چھوٹے قد کی معصوم صورت یوریشین لڑکی تھی۔
"میں سمجھی نہیں جناب!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"تم چھٹی نہیں سمجھتیں۔۔۔ جاؤ۔۔۔ آج اوور ٹائم نہیں ہوگا۔" اس نے نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شکریہ مسٹر التھرے۔۔۔ پلیز۔" لڑکی نوٹ لے کر اپنا وینٹی بیگ سنبھالنے لگی۔ دفعتاً اس کی نظر فرش پر پڑی جہاں التھرے کھڑا تھا۔ اور وہ ہونٹ سکوڑ کر کھڑی ہو گئی۔
"خون۔۔۔ مسٹر التھرے"۔۔۔ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔ "آپ زخمی ہیں۔۔۔ مسٹر التھرے۔۔۔ آپ کا پیر۔"
پھر اس کی نظر التھرے کی ران پر جم گئی جہاں پتلون میں سوراخ تھا۔ اور اس کے گرد خون کا ایک بڑا سا دھبہ۔۔۔
"اوہ۔۔۔ یہ کچھ نہیں۔" التھرے مسکرایا۔ "میں زخمی ہو گیا ہوں۔" اس کی گھنی مونچھیں ہونٹوں کو ڈھکے ہوئی تھیں۔ گالوں کے پھیلاؤ سے لڑکی کو اس کی مسکراہٹ کا احساس ہوا تھا۔
"کیا میں کچھ خدمت کر سکتی ہوں۔" لڑکی نے کہا۔ وہ بہت زیادہ متائثر نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ رو دے گی۔
گھنی مونچھوں سے التھرے کے سفید دانتوں کی قطار جھانکنے لگی وہ ہنس رہا تھا۔ "تم بہت کمزور دل کی معلوم ہوتی ہو۔ میری مدد نہیں کر سکو گی۔ میری ران میں ریوالور کی گولی موجود ہے اسے میں خود ہی نکال لوں گا۔۔۔ تم جاؤ!"
"میں ڈاکٹر کو فون کروں۔"
"نہیں۔۔۔ بےبی۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔ میں خود بھی کسی ڈاکٹر سے مدد لے سکتا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔"
"جھگڑا ہوا تھا۔"
"نہیں!" التھرے نے خشک لہجے میں کہا۔ غالباً وہ لڑکی کے سوالات سے اکتا گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اب وہ چلی ہی جائے وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ "یہ ایک اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں یہاں آنے کی بجائے پولیس اسٹیشن جاتا۔۔۔ ہم نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے۔ مگر تم اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔"
"اوہ نہیں مسٹر التھرے۔۔۔ مگر آپ تنہا ہیں۔۔۔ اکیلے آپ کیا کر سکیں گے کس طرح گولی نکالیں گے۔"
"اچھا تم کیا کرسکو گی۔"
"میں ایک تربیت یافتہ نرس ہوں۔۔۔ مسٹر التھرے!"
"تعجب ہے۔" التھرے کی آنکھوں سے شبہ جھانکنے لگا۔ "تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا۔ تم تو ایک اسٹینو گرافر ہو۔"
"جی ہاں! شارٹ ہینڈ میں نے اس پیشے کو ترک کرنے کے بعد سیکھا تھا۔"
"اچ۔۔۔ چھا۔۔۔ آؤ۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ تم میری کیا مدد کر سکتی ہو"
تیسرے کمرے کی الماری کھول کر التھرے نے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا۔ اسی کے ساتھ جراحی کے کچھ آلات بھی برآمد ہوئے جنہیں لڑکی نے ایک برتن میں ڈال کر ہیٹر پر رکھ دیا۔
"مگر مسٹر التھرے!۔۔۔ گولی کون نکالے گا!"
"میں نکالوں گا۔" التھرے مسکرایا۔
"مجھے حیرت ہے۔۔۔ آپ ہم لوگوں کی طرح عام آدمی معلوم نہیں ہوتے!"
"اوہ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔" التھرے ہنسنے لگا۔
وہ زخم کھول چکا تھا جس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا۔ لڑکی نے اسے حیرت سے دیکھا اور التھرے کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی لیکن وہ پرسکون نظر آ رہا تھا۔ لڑکی کی حیرت اور بڑھ گئی۔
"سوزی! تم متحیر ہو؟" التھرے نے پھر قہقہہ لگایا۔ "میرا سارا جسم زخموں سے داغدار ہے۔ پچھلی جنگ میں میرے جسم کا قیمہ بن گیا تھا۔ پھر بھی میں نے ڈاکٹروں کو متحیر کرکے چھوڑا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے جسم میں کوئی خبیث روح موجود ہے۔ اگر شریف روح ہوتی تو کبھی کی پرواز کر چکی ہوتی۔"
سوزی متحیرانہ انداز میں صرف سنتی رہی کچھ بولی نہیں۔ التھرے کے برتن سے ایک چمٹی نکالی اور سوزی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی وہ سوچ رہی تھی کہ یہ آدمی پتھر کا ہے یا فولاد کا۔۔۔ وہ اتنے ہی انہماک کے ساتھ زخم سے گولی نکالنے میں مشغول تھا جیسے ہتھیلی میں چبھی ہوئی کسی پھانس کو سوئی سے کرید رہا ہو۔ گولی کے نکلنے میں دیر نہیں لگی۔ التھرے آواز سے ہنس رہا تھا سوزی کو یہ ہنسی کچھ ہذیانی قسم کی معلوم ہوئی۔ بالکل ایسی ہی جیسے شدت درد سے کراہیں نہ نکلی ہوں قہقہے پھوٹ پڑے ہوں۔
"اب تم اپنا کام شروع کر دو!"
"مگر جناب! آپ کے فرسٹ ایڈ باکس میں مرکری کروم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔"
"وہی چلنے دو۔ پروا مت کرو۔ میں اس وقت کہیں بھی نہیں جا سکتا اور نہ ڈاکٹر کو طلب کر سکتا ہوں۔" سوزی زخم کی ڈریسنگ کرنے لگی۔ مگر اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے نہ جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ مچ کسی خبیث روح کے چکر میں پڑ گئی ہو۔
ڈریسنگ ہو جانے کے بعد التھرے نے سوزی سے کہا۔۔۔ "لڑکی میں تم سے بہت خوش ہوں۔ اسے ابھی سے نوٹ کرو کہ میں یورپ کے دورے پر جاتے وقت تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اس سے تمہارے تجربات میں اضافہ ہوگا۔"
"میں شکریہ ادا کرتی ہوں! مسٹر التھرے!" سوزی نے خادمانہ انداز میں کہا۔
"مگر دیکھو۔۔۔ تم میرے زخمی ہو جانے کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گی۔۔۔ اس سے خدشہ ہے کہ میرا وہ دوست مصیبت میں نہ پھنس جائے۔۔۔۔ جس کی گولی سے میں زخمی ہوا تھا۔"
"میں کسی سے بھی تذکرہ نہیں کروں گی جناب!"
"شکریہ!۔۔۔ اب تم جا سکتی ہو۔"
سوزی مزید کچھ کہے بغیر فلیٹ سے نکل آئی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کے ذہن پر ایک انجانہ سا خوف مسلط ہوتا جا رہا تھا۔
---
عمران کے فون کی گھنٹی بجی، جس کے نمبر ٹیلیفون ڈائرکٹری میں درج نہیں تھے۔ اس نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف سے بولنے والی جولیانا فٹز واٹر تھی۔
"تنویر بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہے جناب!"
"کیسے۔۔۔ کس طرح؟"
"سراج گنج کی ایک تاریک گلی میں اسے چند نامعلوم آدمیوں نے گھیر لیا۔ غالباً وہ اسے پکڑ لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن تنویر نے فائرنگ شروع کر دی جواب میں ان لوگوں نے بھی گولیاں چلائیں تنویر کے دونوں بازو زخمی ہو گئے ہیں اور وہ اس وقت سول ہسپتال میں ہے۔ غالباً اب پولیس اس کا بیان لینے کے لئے پہنچ گئی ہوگی۔"
"کیا تنویر حملہ آوروں میں سے کسی کو پہچان سکا تھا؟"
"نہیں جناب! گلی تاریک تھی۔ یہ اس کا خیال ہے کہ اس نے ان میں سے ایک آدمی کو ضرور زخمی کیا ہے۔"
"اس خیال کی وجہ؟"
"وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس نے کراہنے اور سسکنے کی آوازیں سنی تھیں!"
"اس کے زخموں کی حالت مخدوش تو نہیں ہے۔"
"نہیں جناب! وہ ہوش میں ہے۔"
"تم کہاں سے بول رہی ہو؟"
"سول ہسپتال سے!"
"اچھا تو اسے سمجھا دو کہ اس کا بیان غیر واضح اور مبہم ہو جائے۔۔۔ بلکہ اگر وہ بڑی رقم لٹ جانے کی کہانی سنائے تو اور اچھا ہے۔"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔ بیان ہو جانے کے بعد میں پھر فون کروں گی۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔ عمران نے ریسیور رکھ کر ایک طویل انگڑائی لی اور اس طرح منہ چلاتا ہوا دوسرے کمرے مٰں چلا گیا جیسے دھوکے سے کوئی کڑوی یا کسیلی چیز کھا گیا ہو۔ اس نے اپنے نوکر سلیمان کو آواز دی چونکہ وہ تقریباً دو گھنٹے تک خاموش بیٹھا رہا تھا اس لئے اب اس کی زبان میں کلبلاہٹ شروع ہو گئی تھی۔
سلیمان آ گیا۔
"ابے وہ تو نے اپنے دادا کا نام کیا بتایا تھا۔ میں بھول گیا۔" عمران اس طرح بولا جیسے یاداشت پر زور دے رہا ہو۔
"کیا کیجئے گا یاد کر کے۔۔۔!" سلیمان نے بیزاری سے کہا۔
"صبر کروں گا یاد کر کے۔۔۔ توب تاتا ہے کہ یا ہم سے بحث کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نالائق!"
"گلزار نام تھا!"
"کیا داڑھی گلاب کے پھول کی شکل کی تھی؟"
"نہیں تو۔۔۔ ویسی ہی تھی۔۔۔ جیسی سب کی ہوتی ہے۔"
"ابے تو پھر گلزار کیوں نام تھا؟" عمران غصیلی آواز میں دھاڑا
"میں نہیں جانتا۔۔۔ آپ میرے دادا کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں!"
"اچھا۔۔۔ چل چھوڑ دیا۔۔۔ پردادا کا کیا نام ہے؟"
"مجھے نہیں معلوم۔"
"ابے تجھے اپنے پردادا کا نام نہیں معلوم۔"
"میرا پردادا تھا ہی نہیں۔" سلیمان نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
"تب پھر تجھ سے زیادہ بدنصیب آدمی روئے زمین پر نہیں ملے گا۔"
"صاحب ہانڈی جل رہی ہے۔۔۔ مجھے جانے دیجئے!"
"اچھا بے ہمیں الو بناتا ہے کیا کاغذ کی ہانڈی ہے کہ جل جائے گی۔!"
"صاحب!" سلیمان اسے گھورتا ہوا بولا۔
"کیا کہتا ہے؟"
"میرا حساب کر دیجئے۔۔۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔"
"حساب۔۔۔" عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ "حساب! اچھا کاغذ پنسل لے کر ادھر بیٹھ۔"
"مجھے لکھنا نہیں آتا!"
"اچھی بات ہے۔۔۔ جب لکھنا آ جائے تو مجھے بتانا۔۔۔ میں حساب کر دوں گا۔"
پرائیویٹ فون کی گھنٹی بجی اور یہ سلسلہ یہیں ختم ہو گیا۔
عمران نے کمرے میں جا کر کال ریسیو کی۔ فون جولیا ہی کا تھا۔
"اٹ از جولیا سر!"
"کیا خبر ہے؟"
"تنویر کا بیان ہو چکا ہے اس نے یہی لکھوایا ہے کہ اس کے پرس میں ڈیڑھ ہزار روپے تھے جو چھین لئے گئے۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن سنو! تم سبھوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔"
"ہم ہر وقت محتاط رہتے ہیں جناب! اگر محتاط نہ ہوتے تو تنویر کی رپورٹ غالباً آسمان سے اترتی۔ احتیاط اور حاضر دماغی ہی کی وجہ سے وہ بچ گیا ہے۔"
"خیر۔۔۔ ہاں دیکھو۔۔۔ تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ تھریسیا اور الفانسے اب شہر میں نہیں ہیں۔۔۔ یہ لوگ دھن کے پکے ہیں۔ یا تو کاغذات حاصل کریں یا اپنی جانیں دے دیں گے۔"
"تو کیا تنویر پر کیا جانے والا حملہ انہیں سے منسوب کیا جائے گا؟"
"ممکن ہے کہ یہ حملہ انہی کی طرف سے ہوا ہو۔"
"پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے؟"
"فی الحال اس بے تکے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔" عمران نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
---
سوزی حسب معمول دوسری صبح آفس پہنچی۔ لیکن التھرے اپنی میز پر موجود نہیں تھا۔ سوزی نے سوچا کہ اب اس کے پیر کی تکلیف بڑھ جائے گی لہٰذا وہ اپنی مسہری سے ہلنے کی بھی ہمت نہ کر سکے گا۔ مگر پھر آفس کس نے کھولا؟ یہاں ملازم صرف تین تھے۔ ایک سوزی خود۔۔۔ دوسرا ایک کلرک اور تیسرا چپڑاسی! التھرے کا رہائشی کمرہ بھی اسی فلیٹ میں تھا اور وہ وہاں تنہا رہتا تھا۔ لہٰذا آفس وہی کھولتا تھا۔ یہ تینوں ملازم باہر سے آتے تھے۔
فلیٹ میں چار کمرے تھے دو کمرے التھرے نجی طور پر استعمال کرتا دو آفس کے لئے تھے۔ سوزی اپنے کمرے میں بیٹھ گئی کلرک ابھی نہیں آیا تھا اس نے چپڑاسی سے پوچھا "صاحب کہاں ہیں؟"
"اپنے کمرے میں ہوں گے۔"
"آفس کس نے کھولا تھا؟"
"صاحب نے!"
چونکہ اسے پچھلی رات کھسکا دیا گیا اس لئے وہ سوزی کو شبے کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اور سوزی خوامخواہ دل ہی دل میں شرما رہی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اسے آج چپڑاسی اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہا۔
کچھ دیر بعد کلرک بھی آ گیا لیکن التھرے کی میز خالی ہی رہی۔ کلرک نے اسے ٹائپ کرنے کے لئے کچھ کاغذات دیئے اور سوزی کام میں مشغول ہو گئی!
کلرک ایک نوجوان دیسی عیسائی تھا۔ وہ اچھی صحت رکھتا تھا اور قبول صورت بھی تھا۔ اکثر وہ سوزی کے ساتھ ہی شامیں گذارتا تھا۔
لنچ کے وقفے میں شاید چپڑاسی نے کلرک کو پچھلی رات کا واقعہ بتایا تھا۔ سوزی نے یہی محسوس کیا۔ کیونکہ لنچ کے بعد سے اس کا موڈ خراب وہ گیا تھا۔
التھرے اندر ہی تھا اور اس نے چپڑاسی سے کہلوا دیا تھا کہ آج اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے آفس کو ایک گھنٹہ پہلے ہی بند کر دیا جائے۔ ساتھ ہی چپڑاسی نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ التھرے کی ہدایت کے بموجب سوزی کو وہیں رکنا ہوگا۔ کلرک نے پھر سوزی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھا۔
"کل بھی تم رکی تھیں؟" اس نے کہا۔
"ہاں کل بھی رکی تھی۔"
"کیوں؟"
جرح کا یہ انداز شاید سوزی کو پسند نہیں آیا تھا۔ اس لئے برا سا منہ بنا کر کہا "کیا میں تمہیں اس کا جواب دینے پر مجبور ہوں۔"
"اوہ! نہیں تو!" کلرک سپٹپٹا گیا اسے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سوزی کی آنکھیں بلیوں سے مشابہ ہوں۔ حالانکہ اسے اس کی آنکھیں بہت اچھی لگتی تھیں اور ان کے تصور کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں لاتعداد کنول کھل اٹھتے تھے۔ کنول جو حسن اور پاکیزگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
سوزی اب بھی اسے جواب طلب نظروں سے گھور رہی تھی کلرک اپنے کام میں مشغول ہو