التجا

مجھے خود سے یہ شکوہ ھے
تمہارے پاس رہ کر بھی
میں تم سے دور رہتا ھوں
تمہارے وصل کی بارش نے جل تھل کر دیا مجھکو
مگر میں تو
خود اپنے ہجر کے زخموں سے اب بھی چور رہتا ھوں
میری جان میں تمہارا ھوں!
تو پھر یہ کیا قیامت ھے
یہ ھم میں فاصلے کیسے ھیں
یہ کیسی محبت ھے
اے میرے دوست
اپنے حق کو ایسے چھوڑتے کیوں ھو
دلوں کو توڑتے کیوں ھو
اے میرے چارہ گر!
تم سے بس اتنی گزارش ھے
مجھے مجھ سے چھڑا لو تم
میں اپنے آپکو
شائد کسی دن مار ڈالوں گا
مجھے مجھ سے بچا لو تم
مجھے خود میں چھپا لو تم
احمد فرید
 
Top