اقبال کی نظم شکوہ

شکوہ فنی فکری تجزیہ

یہ وہ شہر آفاق نظم ہے جو اپریل 1911ءکے جلسہ انجمن حمایتِ اسلام میں پڑھی گئی۔ لندن سے واپسی پر اقبال نے ریواز ہوسٹل کے صحن میں یہ نظم پڑھی ۔ اقبال نے یہ نظم خلاف معمول تحت اللفظ میں پڑھی۔ مگر انداز بڑا دلا ویز تھا ۔ اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے اس کے لئے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں اور نواب ذوالفقار علی خان نے ایک سوروپے کی پیشکش کی اور رقم ادا کرکے اصل انجمنِ پنجاب کو دے دی۔ ”شکوہ“ اقبال کے دل کی آواز ہے اس کا موثر ہونا یقینی تھا۔ اس سے اہل دل مسلمان تڑپ اُٹھے اور انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے حوصلہ شکن زوال کے اسباب کیا ہیں۔ آخر اللہ کے وہ بندے جن کی ضرب شمشیر اور نعرہ تکبیر سے بڑے بڑے قہار و جبار سلاطین کے دل لرز جاتے تھے کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے؟ ۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں کے بے عملی ، مذہب سے غفلت اور بیزاری پر طنز ہے۔بانگ درا میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی۔ جبکہ بانگ درا میں اشاعت سے پہلے نظم مختلف رسالوں مثلاً مخزن، تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔

فکری جائزہ:۔
جرات آموز میری تاب ِ سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
اے خدا شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے

اس نظم کا نام ”شکوہ“ اس لئے رکھا گیا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے شکوہ بارگاہ الہٰی میں علامہ اقبال یا دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار ہیں ۔ حالانکہ ہم تیرے رسول کے نام لیو ا ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ تیرے انعامات اور نوازشات کے مستحق غیر مسلم ہیں ۔ گویا علامہ اقبال نے شکوہ میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ بقول سلیم احمد،
” ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوب کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لئے خدا کی ساری نعمتوں کے سزاوار اور دوسری طرف یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکرائو سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ”شکوہ “ کا موضوع ہے۔“
علامہ اقبال کےاپنے الفاظ میں
” وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی ظاہر کر دی گئی“
سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں،

اظہار شکوہ کی توجیہ:۔

یہ حصہ نہایت مختصر اور صرف دو بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ دو بند جن میں شکوہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ اور یہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اور پستی پر اقبال کے ردعمل کا اظہار ہے۔ اقبال کے خیال میں مسلمان اب زوال و انحطاط کی اس منزل کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاںپر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد سے بھی غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قصہ درد سنانا اگرچہ خلاف ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز گستاخانہ ہے مگر ہم ایسا کہنے پر مجبور ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ ای خدائے بزرگ و برتر ” اربابِ وفا“ کا شکوہ بھی سن لے ۔کسی لمبے چوڑے پس منظر یا غیر ضروری طویل تمہید کے بغیر اللہ تعالی سے ہم کلام ہونا اسلامی تصورات کے عین مطابق ہے۔ اسلام کو تمام مذاہب کے مقابلے میں یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں بندہ خداسے بلا واسطہ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں میں ایسا نہیں۔ ان کے انداز تخاطب میں شوخی اور بے ادبی نہ تھی ہاں ایک طرح کی بے تکلفی ضرور تھی جو بعض لوگوں کو کھٹکتی ہے۔
لیکن اقبال نے دانستہ طور پر یہ طرز تخاطب اختیار کیا تھا۔ دراصل اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ گویا شکوہ کے اندازِ کلام کے لئے پڑھنے والوں کو مصنوعی طور پر تیار کر رہا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے شکوہ کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا ہے کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے۔

امت مسلمہ کا کارنامہ:۔

شکوے کا دوسرا حصہ گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہار خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس حصے کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے۔
” تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات کریم
٣١ ویں بند تک علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے عظیم کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کر دیاہے۔ سب سے پہلے دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یوں تو خدا کی ذات ازل سے اپنی سچائیوں سمیت موجود تھی۔ اور بڑی بڑی قومیں مثلاً سلجوق، تورانی، ساسانی ، یونانی ، یہودی ، نصرانی آباد تھیں لیکن توحید کا وہ تصور جو تمام اقوام کے لئے نیا تھا اور جو اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ تھا اس کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں جو کام امت مسلمہ نے کر کے دکھایا ہے وہ کام کسی سے بھی ممکن نہ تھا۔ یہاں اقبال مسلمان قوم کا ترجمان بن کر دعوی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے بیمار اور جاہل امتوں اور مریض قوموں کے سامنے وہ علاج پیش کیا جو نکتہ توحید میں مضمر ہے۔

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی
اس معمورے میں آبادتھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے؟

اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں مسلمانو ں کوہی صرف یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز علاقوں یا کونوں تک پہنچا یا۔ روم اور ایران جیسے ملکوں کو فتح کرنا کسی حیرت انگیز کارنامے سے کم نہیں ہے۔ اُنہی کی بدولت دنیا میں حق حق کی صدا گونجی نظم کی اس حصے میں علامہ اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار اور واقعات کو مثال بنایا ہے اس کی مختصر اً وضاحت یوں ہے۔ ”دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں “ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کی اس دور کی طرف ہے جب مسلمانوں کی سلطنت یونان ، بلغاریہ، البانیہ ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آ ج کلیسائوں میں ناقوس بجتے ہیں کبھی مسلمانوں کی وہاں پر اذانیں گونجتی تھیں۔اس طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کا علاقہ مصر، لیبیا ، تیونس ، مراکش اور الجزائر وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھے۔
”شان آنکھوں میں نہ ججتی تھی جہانداروں کی“ کی عملی تفسیر اس واقعے سے ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لئے اس کے دربار میں گئے تو اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے بے پروائی سے تخت کے قریب پہنچے ۔

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آرائوں میں ! خشکییوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریائوں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائو ں میں
شان آنکھوں میں نہ ججتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھائوں میں تلواروں کی

ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح اس حوالے سے ہے جب محمود غزنوی نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بتوں کو پاش پاش کردیا تھا۔ بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس ہے۔ ”بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے“ میں اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر گھوڑا بحر اوقیانوس میں ڈال دیاتھا۔
دشت تو دشت ہےں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے! بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے!

مسلمانوں کی حالتِ زبوں:۔

نظم کے اس حصے میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے نظم کا رخ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف موڑ دیا ہے۔ اقبال نے دوسری اقوام سے مسلمانوں کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ زبوں حالی کو نمایاں کر دیا ہے۔ اقبال شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں جگہ جگہ غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر، ذلیل اور رسوا ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا کی دوسری اقوام ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح معنوں میں گلے شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیوائوں سے پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں ؟ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو دنیا تو حید کے نام لیوائوں سے خالی ہو جائے گی۔ اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے عُشاقانِ توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔

امتیں اور بھی ہیں ، اُن میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں ، مستِ مئی پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر

حالت زبوں کی وجہ کیاہے؟
بند۲۰ آغاز میں اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں ۔ مسلمان آج بھی خدا کے نام لیو ا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں ۔ آج بھی اُن کے دلوں میں اسلام کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور کیفیت عشق موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود عنایاتِ خدواندی سے محروم ہیں۔
آگے چل کر اقبال کا لہجہ ذرا تلخ ہو جاتا ہے اور محبوب حقیقی کے سامنے فریاد کی زبان کھولی ہے کیونکہ اس نے اپنے سچے عاشقوں کو فراموش کر دیا ہے اور غیروں سے راہ رسم آشنائی پیدا کر لی ہے۔
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے
نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں ۔ لیلیٰ ، قیس ، دشت وجبل، شور سلاسل اور دیوانہ نظار ہ محمل کی تراکیب و تلمیحات وغیرہ۔

وادی نجد میں وہ شور ِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا

” سرفاراں پر کیا دین کو کامل تو نے“ سے مراد یہ ہے ای خدا تو نے دین اسلام کو فاران کی چوٹی پر مکمل کر دیا ۔ جو قرآنی آیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔

سر فاراں پر کیا دین کو کامل کیا تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لئے دل تو نے

کیفیت یا س و بیم:۔

اس حصے میں اقبال کا روئے سخن خاص طور پر ہندی مسلمانوں کی طرف ہے اور یہی بات اِسے دوسرے حصوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں تو مسلمان دنیا کے ہرگوشے میں بدحالی مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہیں مگر برصغیر پاک و ہند میں تو اس کا انتشار گویا نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے چونکہ اقبال ہندوستان میں رہتے ہیں اس لئے یہیں کے مسائل سے انہیں پہلے واسطہ پڑتا ہے۔

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کردے
یہ بہت بلیغ شعر ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں سال رہنے کے بعد ہند کے مسلمان بھی اسی طرح ہندی ثقافت اور فلسفے میں رنگے گئے ہیں۔ ان میں بت پرستوں ( ہندوئوں) کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے ان ہی کی سی خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ اس لئے ان کو ”دیر نشین “ کہنا کوئی غلط بات نہیں۔ علامہ اقبال نے ہمیشہ اپنی گفتگو میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ ساری دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔

نغمے بےتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لئے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لئے

دعائیہ اختتام:۔

علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان ہو جائیں تووہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔۔ نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ اور دعا کے یہ سلسلہ نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لئے اقبا ل دعا گو ہیں ”امت مرحوم“ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک زندہ قوم کے ختم ہو کر مرد ہ ہو چکے ہیں اب ان کی حیثیت سلیمان کے مقابلے میں ”مور بے مایہ“ کی سی ہے۔ لیکن اقبال کی خواہش ہے کہ دور حاضر کے مسلمان پھر سے جو ش و جذبہ سے لبریز ہو جائیں اور کوہ طور پر پہلے کی طرح تجلیات نازل ہوں

مشکلیں امت ِمرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ھمدوش ِ سلیماں کردے

اقبال نے نظم کے آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آئند ہو اور ہو نا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ”ہوگا“ ۔کیونکہ وہ ایک ایسا پر آشوب دور تھا کہ مستقبل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ایک طرف تقسیم بنگال اور پھر اٹلی کا طرابلس پر حملہ جس نے اقبال پر بڑا اثر کیا اور اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے شکوہ کرنا پڑا۔ شکوہ دراصل اسے حصے میں ختم ہو جاتا ہے۔ اور باقی تین بند قوم کی پستی پر شاعر کی اپنی طبیعت کا الجھائو، جذبات ، قوم کی ناراضگی ، نفرت اور بے اعتنائی کا آئینہ ہے۔ شاعر مایوس ہے اور مضطرب ہو کر پکار اُٹھا۔

لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزاجینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں

مایوسی کا ایک اور انداز کچھ یوں ہے کہ،

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

آگے چل کر اقبال مایوسی کے عالم میں کہتے ہیں کہ مجھ سے دین کی جو خدمت ہو سکتی ہے اس کے بجالانے کے لئے کوشاں ہوں اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا۔ کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
اس حصے میں اقبال نے صراحت سے یہ بات بیان کر دی ہے کہ میں اگرچہ عجمی طریقے پر شعر کہتا ہوں ایرانی شاعری کی روایات کا پابند ہوں ہندی الاصل ہوں لیکن ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کی روح سے واقف ہوں اور اگر مسلمان مرے کلام کابغور مطالعہ کریں تو انہیں عجمی روایات کے پردے سے اسلام کے مطالب دقیق جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ حصہ اور ”شکوہ “ اس بلیغ اور معنی افروز شعر پر ختم ہو جاتا ہے۔
عجمی خم ہے تو کیا، مے ہے حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری

فنی جائزہ:۔
شکوہ ۳۱ بندوں پر مشتمل ہے یہ نظم مسدس کی ہیت میں لکھی گئی ہے۔ بحر کا نام ”بحر رمل مثمن مخبون مقطوع ‘ ‘ ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں۔
فَاعِلَا تُن فَاعِلَا تُن فَاعِلَا تُن فِعلن
اقبال کی طویل نظم میں ”شکوہ “ فنی لحاظ سے ایک منفردمقام کی حامل ہے۔ یہی پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے اسلام کی زندہ اور فعالی قوتوں ، ماضی کے مسلمانوں کی عظمت اوج کے بعد ان کی موجودہ زبوں حالی کی داستان کو ایک ساتھ نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ اردو شاعری میں ایسا اندازِ بیاں کہیں نہیں ملتا۔
بقول ماہر القادری

اک نئی طر نئے باب کا آغاز کیا
شکوہ اللہ کا اللہ سے بصد ناز کیا

نظم کا آغاز بہت systimaticہے اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے شکوہ کرنے کی توجیہ دو بندوں میں بیان کردی ہے تاکہ نیا اور اچھوتا موضوع اچانک سامنے آنے پر قار ی کو کوئی جھٹکا محسوس نہ ہو۔

لہجے کا تنوع:۔

کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکو ہ کرنے والا اپنی مفروضات پیش کرتے ہوئے حسب ِ ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے شکو ے کا لہجہ بھی متنوع ہے اور اقبال کا شکوہ اللہ جیسی بڑی ہستی سے ہے جو تمام دنیا کا مالک ہے۔ اسی لئے اقبال کے لہجے میں کہیں عجز و نیاز مندی ہے کہیں غیرت و انا کا احساس ہے کہیں تندی و تلخی ہے اور جوش ہے کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں گریہ و زاری و دعا کا انداز اختیار کیا ہے۔

نفسیاتی حربے:۔

اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نظم مےں بعض مقامات پر نفسےاتی حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ ۱۰ویں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے۔ جہاں پر شاعر خدا سے بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں،

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کیا ترے نام پہ مرنے کے عوص خواری ہے۔

اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجوڑ کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ یہ میرا مسئلہ نہیں تمہارا مسئلہ ہے۔ ایک اور جگہ نفسیاتی حربے کو استعما ل کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور اسلام سے روگردانی کا اعتراف کیا ہے ۔ مگر وہ اعتراف کا اعلانیہ اظہار نہیں کرتے۔ کیونکہ علانیہ اعتراف کرنے سے ان کا اپنا موقف کمزور ہوگا۔ لہٰذا وہ اپنی کمزوری سے توجہ دوسری طرف لی جانے کے لئے فوراً نفسیاتی حربے سے کام لیتا ہے۔ اور طعنہ دیتا ہے کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہرجائی ہو۔

تغزل:۔

یوں تو اقبال کی پوری شاعری میں رنگ تغزل چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکےمانہ نکتے بےان کرنے کے باوجود ان کی شاعری مےں ساحری کا عنصر ملتا ہے۔ لےکن اس رنگ تغزل کا واضح استعمال سب سے پہلے اقبال نے ”شکوہ میں کیاہے۔ اگرچہ اقبال ہمارے دور کے سب سے بڑا انقلاب پسند شاعر ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی بات کہنے کے لئے نہ صرف نئے پیمانے اور نئے سانچے استعما ل کئے بلکہ روایت کا پورا احترام ملحوظ رکھا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ پرانے اسلوب اورپرانے سانچے فرسودہ نہیں ہو گئے ۔ بلکہ انہیں نئے رنگ اور آہنگ اور نئے مفاہیم کے ساتھ برتا جا سکتا ہے۔
تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخ ِ زیبا لے کر

ایجاز و بلاغت:۔

”شکوہ“ کے بعض حصے ، اشعار اور مصرعے ایجاز و بلاغت کے شہکار ہیں۔ تاریخ کے طویل ادوار ، اہم واقعات اور روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑے بلیغ انداز میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں

چند محسنات شعر:۔
”شکوہ “ حسن زبان و بیاں کا شا ہکارہے۔ انتخاب الفاظ، صنعت گری ، بندش تراکیب ، حسن تشبیہ و استعارہ ، مناسب بحر ، موزوں قوافی، وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم بہت ہی دلکش اور موثر ہے۔ اقبال نے نظم شکوہ میں صنعتوں کا استعمال بہت بہترین انداز میں کیا ہے۔

صنعت مراعاة النظیر:۔

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

صنعت ترافق:۔
نقش تو حید کا ہر دل میں بٹھایا ہم نے
خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

صنعت تلمیح:۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و آیاز
نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز

صنعت طباق ایجابی:۔

آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

تصویر کاری ،تشبیہ ، استعارہ:۔

”شکوہ “کی ایک اور بڑی فنی خوبی اس کی تصویر کاری ہے شاعر نے خوبصورت الفاظ کی مدد سے اس نظم کو بہت خوبصورت تصویریں عطا کیں ہیں۔

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

کلام اقبال کی سب سے نمایاں خوبی تشبیہ ہے۔ شکوہ میں علامہ اقبال نے کئی خوبصورت تشبیہات استعمال کی ہیں ان خوبصورت اور بلیغ تشبیہات نے اشعار کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ مثلاً اقبال نے ایک شعر میں امت مسلمہ کو ”مور بے مایہ“ سے تشبیہ دی ہے۔ جو بہت ہی بلیغ ہے۔

مشکلیں امت ِ مرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ھمدوش سلیماں کر دے

اقبال کی شاعری میں استعاروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ”شکوہ“ کے یہ اشعار شعری اسلوب کا نادر نمونہ ہونے کے ساتھ استعاروں پر شاعر کی زبردست جمالیاتی گرفت کا بھی ثبوت ہے۔
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے تشنہ مضراب ہے ساز

اقبال نے ”شکوہ “ میں تشبیہ اور استعاروں کے علاوہ علامتوں کا بھی بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ جو کہ اقبال کی گہری فلسفیانہ اور حکیمانہ فکر کی غماز ہیں،

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں

جبکہ اقبال نے کلام میں استفہامیہ لہجے کوبھی اپنایا ہے۔ جس سے جوش میں اضافہ ہوا ہے۔

کس نے ٹھنڈا کےا آتش کدہ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو

ترنم اور نغمہ:۔
اقبال نے مشرق و مغرب کے خزانہ علمی سے فائدہ اٹھایا اور صنائع لفظی کی غایت سے غرض رکھی ہے۔ یعنی ترنم اور نغمہ کی تخلیق اس سلسلے میں اس نے مغرب کے انتقادی اصول کی زیادہ پیروی کی ہے۔ ترنم اور نغمہ پیدا کرنے کے لئے اقبال نے تجنیس، ترصیح وغیرہ کی بجائے حروف کی تکرار اور سلسلہ ہائے حروف کی تکرار سے بہت کام لیا ہے۔ شکوے کے پہلے بند میں ترنم بھی ہے اور نغمہ بھی اس میں مختلف حروف ِ علت کی تکرار اور ان کے تبادلے کو بڑا دخل حاصل ہے۔

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں ؟
فکر فردا نہ کروں محوِ غم دوش رہوں ؟

مجموعی جائزہ:۔
علامہ اقبال نے ”شکوہ میں ایسا انداز اختیار کیا ہے جس میں مسلمانوں کے عظیم الشان ، حوصلہ افزا اور زندہ جاوید کارنامے پیش کئے گئے۔ لہٰذا اس نظم کے پڑھنے سے حوصلہ بلند ہوتا ہے قوت عمل میں تازگی آتی ہے۔ جو ش و ہمت کو تقویت پہنچتی ہے۔ عظیم الشان کارنامے اس حسن ترتیب سے جمع کر دئیے گئے ہیں کہ موجودہ پست حالی کے بجائے صرف عظمت و برتری ہی سامنے رہتی ہے۔ گویا یہ شکوہ بھی ہے اور ساتھ ہی بہترین دعوت عمل بھی۔ اس لحاظ سے اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کی بالکل یگانہ نظم ہے۔بقول تاثیر”شکوہ لکھا گیا تو اس انداز پر سینکڑوں نظمیں لکھی گئیں ملائوں نے تکفیر کے فتوے لگائے اور شاعروں نے شکوہ کے جواب لکھے لیکن شکوہ کا درست جواب خود اقبال ہی نے دیا۔“
 
Top