افسانہ: نجات از سحرش سحر

سحرش سحر

محفلین
افسانہ: نجات از: سحرش سحر
میں نے مزید اس زندگی کو نہیں جینا ۔ بالکل نہیں جینا ۔ آخر کیو ں جیوں....کسی کی زبردستی ہے کیا ؟؟؟؟؟ہر پل
مجبوری ....لاچاری ....بےبسی ....مایوسی ....پابندی....استحصال....غربت....تنگدستی....جبر ....ظلم...ستم....روک ٹوک...
کیا زندگی اسے کہتے ہیں...؟؟؟اگر اسے کہتے ہیں تو نہیں جینا میں نے ....میرا سلام ہے ایسی زندگی کو ۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ سب میری ہی زندگی کے نام منسوب کردہ اثاثے
ہیں؟؟؟؟؟
نہیں....( ہاہاہا) وہ دیکھو وہ............. سامنے فٹ پاتھ پر.....خوابوں سے خالی اور مایوسی ٹپکتی انکھوں والی معصوم زندگی کو..... جو برش اور کچھ پالش کی ڈبیا سجائے بیٹھی ہے۔اور یہ دیکھو
تھکن سے چور 'مایوس' ضعیف زندگی کو جو اپنے سے بھاری بوجھ اٹھائے گرنے ہی کو ہے...ہاہاہا...بے چاری زندگی..!
وہ دیکھو سامنےایک لاغر غربت زدہ زندگی کو کسی چھابڑی میں کچھ دو نمبر سستا مال ڈالے ...اسے بیچنے کےلے خوار ہو رہی ہے...
اوہو...وہ ذرا دیکھو! سڑک کے دوسرے کنارے دو فیتوں والی چپل پہنےہانپتی کانپتی میلی اور تارتار چادر میں ملبوس زندگی کو جو ہاتھ میں دوا کی دو بوتلیں تھامے آہستہ آہستہ چلتی جا رہی ہے.... اورچلتی جا رہی ہے ۔
ارے یہ کیا ہاہاہاہاہاہا...... چیتھڑوں میں ملبوس...بکھرے بال ...جوتوں سے محروم پاون پھیلائے یہ معصوم سی زندگی اس درخت کی اوٹھ میں کیسے گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے اور اوپر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں...کچھ اس کی ناک اور منہ میں گھسی جا رہی ہیں...بے چاری زندگی!
اورذرااُدھرتودیکھین..اُدھر.......جی ..جی..........کچھ نظر آیا؟؟؟؟ توبہ توبہ...اس غربت زدہ ' آفت زدہ زندگی کو تو دیکھو...کیسے پولیس والے کے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپنی بخشش کی بھیک مانگ رہی ہے..اور وہ ہ ہ ہ دیکھو.... دور سڑک سے پرے...........................وہ ہ ہ ہ.........
بند کریں ... بند کریں آنکھیں! اور مت دیکھیں....کہیں اس زندگی کا سایہ آپ پر ہی نہ پڑ جائے ۔
بستر پر پڑے پڑے میں اکثر اس افسوسناک...الم ناک...شاید خوفناک و وحشت ناک قسم کی زندگی کی حقیقت کے بارے میں بہت سوچتاہوں ۔ شاید اتنا سوچنا نہیں چاہیے مگر پھر بھی میں سوچتا.ہوں..... آج بھی کافی سوچتا رہا ۔ پھر کیا تھا صاحب......!آٹھ دس یا بارہ آنسو ہر آنکھ سے بہنے پرسولہ 'بیس یا چوبیس کی تعداد تک پہنچ گئے ۔ کیا یہ ایسے ہی ضائع گئے؟ کسی زندگی زدہ نے سچ ہی کہا ہے ۔ کہ رو لینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے واقعی یہ کل ملا کر چوبیس انسو بہانے کے بعد زندگی کے احساس کا بوجھ ہلکا نہیں تو پھلکا ضرور ہو گیا ۔ اب میں خیالات کے ریورس گئیر کے ذریعے واپس اسی فٹ پاتھ' چوک' سڑک کے کنارے غربت زدہ زندگی کو دیکھنے والی ایک آنکھ بند کر تا ہوں ۔ اپ بھی ایک آنکھ بند کر لیں ...بند کریں ...کر لی..؟ اور دوسری انکھ پُر رونق روڈ پر لگا لیں ....واہ واہ جی... آپ کو کچھ نظر آیا ۔؟؟؟؟؟
چمکتی دمکتی فراٹے بھرتی نئی نئی گاڑیوں میں یہ خوش باش' صحت مند اور قیمتی لباس میں ملبوس' دھوپ کی عینک لگائے زندگی کو تو میں نے دیکھا ہی نہیں تھا ...مگر یہ تو زندگی نہیں....ہنہ ... اب سمجھ گیا ...یہ تو لائف ہے یا لائف جیسی کوئی شے ہے بلکہ زندگی سے آگے کی کوئی چیز ہے ۔
سنا ہے کہ دنیا کےسارے مزے' عیش' عیاشی 'خوشحالی' آزادی' بے پرواہی ' سکون 'فراوانی صحت اور' خوش بختی سب اسی لائف کے دم قدم سے ہے ۔
ہاہاہا میں نے بھی کئی بار لائف کے سپنے دیکھے تھے سوچا تھا کہ گرجویشن کے بعد کسی اچھی جگہ...اچھی جگہ لائف کا کوئی تانا بانا کوئی سرا ہاتھ لگ جائے گا ...مگر......................................................
کسی کام کے میں قابل نہیں تھااور کوئی کام میرے قابل نہیں تھا ۔ روزانہ گھر کے دروازہ سے داخل ہوتا توامی اور تینوں بہنیں' مجری ناکامی کےاندیشے لیے' منہ پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے میرا منہ تکتی کہ شاید کوئی نئ خبر انھیں سننے کو مل جائے ۔مگر میرے مایوس ' کورے اور اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر وہ سمجھ جاتی تھیں کہ میں اج بھی مفت کی روٹی توڑنے گھر پہنچ چکا ہوں ۔
میرے گھر والے یقین کریں نہ کریں مگر آپ یقین جانیں
کہ اج بھی ابا کی کمائی کا نوالہ بڑی مشکل سے صرف اماں کی آنکھوں سے بہتے اشکوں کی بناء پر حلق سے اتر جاتا ہے ۔
اف ف ف ف میں کتنا بے بس اور مجبور ہوں ۔ اپنے والدین کا مجبور مجرم بیٹا ! اپنی بہنوں کا مجبور مجرم بھائی!
بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں نے لائف ہی گزارنی ہے ...زندگی نہیں...
مگر مین لائف کیسے گزاروں گا؟ مجھ سے تو بستر سے اٹھا بھی نہیں جاتا ۔ میرے پاؤں مین پڑی زنجیر کوٰئی اتارے گا تو لائف کی طرف جاؤن گا نا!
میں تو زندگی زدگان میں سے ایک ہوں...میں لائف کی طرف کیسے چل کر جا سکتا ہوں ۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوں ...ڈپریشن.......؟کیسی ڈپریشن ...؟
میں نے تو دو سے تین بار خود کو زخمی کرنے کی کوشش لائف کی طرف جانے ہی کے لیے کی تھی ۔ جسے ڈاکٹرز اور میرے پاگل گھر والے خود کشی کی کوشش گردانتے ہیں...پاگل نہ ہو تو...........ارے میں ایک تعلیم یافتہ گریجویٹ بھلا ایسی حرکت کر سکتا ہوں ۔ وہ جو تین مہینے پہلے اکتیس تاریخ کو ...ہاں ہاں اکتیس ہی تاریخ تھی..... میں نے ریوالور میں گولیاں پوری ڈالی تھیں اور نشانہ بھی لیا تھا اماں کا ...پر ابا کہاں سے مجھے دبوچنے کے لیے ٹپک پڑے ... میرا مقصد تو یکم تاریخ سے پہلے پہلے سب گھر والوں کو اس زندگی سے نجات دلانا تھا...مگرافسوس! وہ یوم نجات ...میرے لیےیوم غذاب بن گیا ۔ زنجیریں پہنا دی بے وقوفوں نے مجھے ۔
آج پورے تین مہینے بعد میں بہت خوش ہوں ۔ کیوں خوش ہوں؟ ابھی بتاتا ہوں ..پر گھر والوں کو پتہ نہ چلے .....
یہ دیکھیں.... یہ تکیہ کے نیچے......کچھ نظر آیا...ہاں جی ..! آج مجھے ماچس کی ڈبیہ ملی ہے...زندگی سے نجات کا ذریعہ .....! اج رات میں اس زندگی سے چھٹکارا پا لوں گا ہمیشہ کے لیے چھٹکارا !
اب اپ بتائیں کہ اس زندگی سے نجات کے بعد مجھے لائف تو مل جائےگی نا؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
آخری تدوین:

سحرش سحر

محفلین
بھائی ...یہ ڈپریشن کے مریض کی سوچ کی ترجمانی کی کوشش کی ہے ...جس کا اج کل ہر کوئی شکار ہے ۔ اسلیے اداسی اور مایوسی زیادہ ہے ۔
کہانی پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ ۔
 
Top