افسانہ دہشت ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ

دہشت

از:۔ایم مبین



” ہےبھگوان ! میں اپنےگھر والوں کےلئےرزق کی تلاش میں گھر سےباہر جارہا ہوں ۔ مجھےشام بحفاظت گھر واپس لانا ۔ میری حفاظت کرنا میری غیر موجودگی میں میرےگھر اورگھر کےافراد کی حفاظت کرنا ۔“
دروازےکےقریب پہنچتےہی یہ دعا اس کےہونٹوں پر آگئی اور وہ دل ہی دل میں اس دعا کو دہرانےلگا ۔ جیسےہی اس نےدعا کےآخری الفاظ ادا کئےاس کا پورا جسم کانپ اٹھا اور پورےجسم میں ایک برقی لہر سی دوڑ گئی ‘ آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا ۔
اس نےگھبرا کر پیچھےپلٹ کر دیکھا ۔
اس کی بیوی بچےکو لےکر معمول کےمطابق اسےچھوڑنےدروازےتک آئی تھی ۔
” بیٹےپاپا کو ٹاٹا کرو “ ۔اس نےبچےسےکہا تو بچہ اسےدیکھ کر مسکرایا اور اپنےننھےننھےہاتھ ہلانےلگا ۔
” شام کو جلدی گھر آجانا کہیں رکنا نہیں ‘ ذرا سی دیر ہوجاتی ہےتو میرا دل گھبرانےلگتا ہے“ ۔ بیوی نےکہا تو اس کی بات سن کر ایک بار پھر اس کا دل کانپ اٹھا ‘ پیر جیسےدروازےمیں جم گئےلیکن پھر اس نےاپنا سر جھٹک کر قوت ارادی کو مضبوط کرتےہوئےدروازےکےباہر قدم نکالے۔
گھر سےباہر نکل کر اس نےایک بار پھر مڑ کر اپنےگھر کو دیکھا بیوی بچےکو گود میں لئےدروازےمیں کھڑی تھی ۔
پتہ نہیں کیوں ایک بار پھر اس کےدماغ میں اس خیال کےناگ نےاپنا پھن اٹھایا ۔ اسےایسا محسوس ہوا جیسےوہ آخری بار اپنےگھر سےباہر نکل رہا ہےاپنےگھر اور بیوی بچےکا آخری دیدار کر رہا ہے۔ اب وہ کبھی واپس لوٹ کر اس گھر میں نہیں آئےگا نہ بیوی بچےکو دوبارہ دیکھ پائےگا ۔
گھبرا کر اس نےاپنےسر کو جھٹکا اور تیزی سےآگےبڑھ گیا ۔
اسےخوف محسوس ہورہا تھا اگر اس کی بیوی نےاس کےان خیالات کو پڑھ لیا تو وہ ابھی رو اٹھےگی اور رو رو کر خود کو بےحال کرلےگی اور اسےڈیوٹی پر جانےنہیں دےگی ۔ مجبوراً اسےچھٹی لینی پڑےگی ۔
وہ کیا کرے؟ اس کےذہن میں ان خیالوں کا جو ناگ کنڈلی مار کر بیٹھا ہےاس ناگ کو اپنےذہن سےکس طرح نکالے۔
ہر بار وہ اپنےذہن میں بیٹھےاس ناگ کو مار بھگانےکی کوشش کرتا ہےاور کبھی کبھی تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر دوبارہ وہ ناگ اس کےذہن میں آکر بیٹھ جاتا ہےاور اس کی ساری کوشش رائیگاں جاتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔
چار پانچ دنوں سےوہ خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔ وہ اس ناگ کو مار بھگانےمیں کامیاب رہا تھا ۔ وہ اطمینان سےذہن میں بنا کوئی بوجھ لئےآفس جاتا تھا اور اسی اطمینان سےواپس گھر آتا تھا ۔
نہ تو گھر میں کوئی تناو¿ تھا اور نہ ہی ذہن میں کوئی تناو¿ تھا ۔ پھر ایک حادثہ ہوا اور وہ ناگ دوبارہ اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ۔
اس دن آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملند آفس نہیں آیا ۔
” کیا بات ہے‘ آج ملند آفس کیوں نہیں آیا ہے؟ “ اس نےپوچھا ۔
” ارےتم کو معلوم نہیں ؟ “ اس کی بات سن کر گائیکر حیرت سےاسےدیکھنےلگا
” کل اس کا قتل ہوگیا ۔ “
” قتل ہوگیا ؟ “ یہ سنتےہی اس کےذہن کو ایک جھٹکا لگا ۔ قتل اور ملند کا ؟ مگر کیوں ؟ اس نےکسی کا کیا بگاڑا تھا ؟ وہ شریف آدمی کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھا ؟ اس بےچارےکا تو مشکل سےکوئی دوست تھا تو بھلا دشمن کیسےہوسکتا ہے؟
” نہ وہ دوستوں کےہاتھوں مرا اور نہ دشمنوں کے! وہ تو بےموت مارا گیا ۔ “ گائیکر بتانےلگا ۔ آفس سےوہ گھر جارہا تھا ۔ لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس اچانک دو گینگ والوں میں ٹکراو¿ ہوا ۔ دونوں طرف سےگولیاں چلنےلگیں ۔ ان گولیوں سےپتہ نہیں ان گینگ کےافراد مارےگئےیا زخمی ہوئےلیکن ایک گولی اس جگہ سےگذرتےملند کی کھوپڑی توڑتی ضرور گزر گئی ۔ “
” اوہ ........ نو ! “ یہ سن کر وہ اپنا سر پکڑ کر کرسی سےٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
بےچارہ ملند !
کل کتنی پیاری پیاری باتیں کررہا تھا ۔
” اننت بھائی ! اپنےکمرےکا انتظام ہوگیا ہےاب کمرہ کہاں لیا کتنےمیں لیا یہ مت پوچھو ‘ بس لےلیا ۔ یہ سمجھو گھر والےبہت خوش ہیں کہ میں نےکوئی کمرہ لےلیا ہے۔ سالا اتنےچھوٹےسےگھر میں سارےخاندان والوں کو رہنا پڑتا تھا ۔ میرےکمرہ لینےسےسب سےزیادہ خوش نینا ہے۔ میں نےجیسےہی اسےیہ خوش خبری سنائی گارڈن میں سب لوگوں کےسامنےاس نےمیرا منھ چوم لیا ایک بار نہیں پورےتین بار اور بولی اب جلدی سےگھر آکر میرےباپو سےہماری شادی کی بات کرلوویسےوہ تیار ہیں ۔ ان کی ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ کہ تم رہنےکےلئےکوئی کمرہ لےلو ۔
” بےچارہ ملند ! “ وہ سوچنےلگا ۔ کل جب وہ آفس سےنکلا ہوگا تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ گھر کی طرف نہیں موت کی طرف جارہا ہے۔ کیا سویرےگھر سےنکلتےوقت اس نےسوچا ہوگا کہ وہ آخری بار آفس جارہا ہے؟ اس کےبعد اسےکبھی گھر سےآفس کےلئےنکلنےکی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ یا اب کبھی وہ لوٹ کر گھر نہیں آئےگا ۔ کیا وہ جس موت کا شکار ہوا ہےیہ اس کی فطرتی موت ہے؟ نہیں نہیں .... ! نہ یہ اس کی فطرتی موت تھی اور نہ اس کی قسمت میں اس طرح کی موت لکھی تھی ۔ وہ تو بےموت مارا گیا ۔
دو گینگ والےآپس میں ٹکرائے۔ ایک دوسرےکو ختم کرنےکےلئےگولیاں چلیں اور ختم ہوگیا بےچارہ ملند ۔
جس طرح ملند کی کہانی ختم ہوگئی ممکن تھا اگر وہ بھی اس جگہ سےگزرتا تو اس کی زندگی کا بھی خاتمہ ہوجاتا ۔ مانا وہ اس کا راستہ نہیں تھا لیکن یہ ضروری نہیں ہےکہ گینگ وار صرف لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس ہی ہوتی ہیں ۔
وہ دادر میں بھی ہوسکتی ہے‘ کرلا میں بھی ‘ ملنڈ میں بھی اور تھانےاسٹیشن کےباہر بھی ۔ یہ تو اس کا رستہ ہے۔ جس گولی نےملند کی جان لی تھی اس طرح کی کوئی گولی اس کی بھی جان لےسکتی ہے۔
ناگ دوبارہ آکر اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا ۔ اور اب چاہ کر بھی وہ اس ناگ کو اپنےذہن سےنہیں نکال سکتا تھا ۔
گذشتہ ایک سال سےوہ اس ناگ کی دہشت سےخوف زدہ تھا ۔ گذشتہ ایک سال سےروزانہ اسےاس ناگ کا لہراتا ہوا پھن دکھائی دیتا تھا ۔ روزانہ وہ جس راستےسےبھی گزرتا تھا وہاں سےموت اسی کی تاک میں بیٹھی محسوس ہوتی تھی ۔
اسےصرف اس دن ناگ سےنجات ملتی تھی جس دن وہ آفس نہیں جاتا تھا اور گھر میں ہی رہتا تھا ۔
گھر میں وہ اپنےبیوی بچوں کےدرمیان خود کو بےحد محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےپورا اطمینان ہوتا تھا کہ جب تک وہ اپنےگھر میں ہےاپنےخاندان کےافراد کےدرمیان ہےمحفوظ ہے۔
ہاں جس لمحےاس نےگھر سےباہر قدم رکھا اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔صرف وہ اکیلا ہی اس دہشت سےخوفزدہ نہیں تھا جب وہ غور کرتا تو اسےاپنےساتھ سفر کرتا ہر آدمی اسےدہشت زدہ محسوس ہوتا تھا ۔ کسی کو بھی اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ۔
جب وہ اس موضوع پر لوگوں سےگفتگو کرتا تو اسےمحسوس ہوتا وہ جس خوف کےسائےمیں جی رہا ہےلوگ بھی اسی خوف کےسائےتلےجی رہےہیں ۔ سارےشہر پر وہ کالا سایہ چھایا ہوا ہے۔
ایک سال قبل تک سب کچھ کتنا اچھا تھا ۔
روزانہ وہ بلا خوف و خطر آفس جاتا اور آفس سےواپس گھر آتا تھا ۔ کسی وجہ سےاگر وہ آدھی رات تک گھر نہیں پہنچ پاتا تھا تو بھی گھر والےاس کی کوئی فکر نہیں کرتےتھے۔ وہ یہ اندازہ لگالیتےتھےکہ ضرور آفس میں کوئی کام ہوگا اس لئےگھر آنےمیں دیر ہوگئی ہوگی یا ٹرین سروس میں کوئی خلا پیدا ہوگیا ہوگا اس لئےوہ ابھی تک گھر نہیں آپایا ہے۔ وہ خود جب آفس سےنکلتا تو اسےبھی گھر پہونچنےکی کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بڑےآرام سےضروری اشیا ءخرید کر گھر جاتا تھا ۔
لیکن اب تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آدھا گھنٹہ بھی لیٹ ہوجاتا تھا تو اس کی بیوی کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں ۔ وہ بےچینی سےکمرےمیں ٹہلتی ‘ پتہ نہیں کیا کیا سوچنےلگتی تھی ۔
اگر وہ گھر آنےمیں دو تین گھنٹہ لیٹ ہو جاتا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگتی تھی ۔ وہ ابھی تک گھر کیوں نہیں پہونچا ؟ کیا اس کےساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے؟
اب وہ آفس سےنکلتا تھا تو سیدھا پہلی لوکل پکڑ کر گھر جانےکی سوچتا تھا وہ آفس سےباہر خود کو بڑا غیر محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےاگر کوئی ضروری چیز بھی خریدنی ہوتی تھی تو وہ ٹال دیتا تھا ۔
ایک دہشت ذہن میں سمائی رہتی تھی ۔ پتہ نہیں کب کہیں کوئی بم پھٹےاور اس کےجسم کےپرخچےاڑجائیں ۔
پتہ نہیں کب کہیں سےکوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاقو ، چاپڑ لئےمذہبی نعرےلگاتا ہوا آئےاور آکر اس کےجسم کےٹکڑےٹکڑےکرڈالے۔
پتہ نہیں کب کہیں سےپولس کی گولی آئےاور اس زمین کو اس کےوجود سےپاک کردےپتہ نہیں کہیں دو گینگوں کی وار میں چلی کوئی گولی اچٹ کر آئےاور ملند کی طرح اس کا بھی خاتمہ کردے۔ اور نہیں تو یہ بھی ممکن ہےوہ جس لوکل ٹرین سےسفر کررہا ہو اس کےڈبےمیں بم پھٹ پڑے۔
گذشتہ ایک سال میں اس نےاپنی آنکھوں سےاپنی موت کو اپنےبہت قریب سےدیکھا تھا ۔ اپنےکئی شناساو¿ں اور عزیزوں کو موت کا نوالا بنتےہوئےدیکھا تھا اور ایک دوبار تو خود موت اس کےقریب سےگزری کہ آج بھی جب وہ ان لمحات کو یاد کرتا تھا تو اس کےجسم میں کپکپی چھوٹ جاتی تھی ۔
وہ دسمبر کا ایک منحوس دن تھا ۔ بیوی اسےروک رہی تھی ۔
” آج آپ ڈیوٹی پر مت جائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہےضرور آج کچھ نہ کچھ ہوگا ۔ “
” تمہارا دل تو روز ہی گھبراتا رہتا ہےاس کا مطلب تو یہ ہوا میں روز آفس نہ جاو¿ں ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا تم سوچ رہی ہو ۔ اس طرح کےواقعات تو روزانہ ہوتےرہتےہیں ۔ میرا آج آفس جانا بہت ضروری ہےکہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے‘ میں جلد ہی واپس آجاو¿ں گا ۔ “
بیوی روکتی رہی مگر وہ نہ مانا اور ڈیوٹی پر چلا آیا ۔
اس دن آفس میں حاضری آدھےسےبھی کم تھی ۔ آنےوالےآتو گئےتھےلیکن اس لمحےکو کوس رہےتھی

جب انہوں نےآفس جانےکا فیصلہ کیا تھا ۔ سب کا یہی خیال تھا کہ اگر وہ نہ آتےتو بہتر تھا ۔ کیونکہ جو خبریں آفس پہنچ رہی تھیں اسےمحسوس ہورہا تھا آدھا شہر جل رہا ہے۔
آسمان میں دھوئیں کےبادل چھائےصاف دکھائی دےرہےتھے۔ سارےشہر پر ایک دہشت چھائی ہوئی تھی ۔ کھلی دکانیں دھڑا دھڑ بند ہورہی تھیں سڑکوں سےسواریاں اور لوگ غائب ہورہےتھے۔
یہ طےکیا گیا کہ آفس بند کرکےسب لوگ فوراً اپنےگھروں کو چلےجائیں ۔ ریلوےاسٹیشن تک آتےآتےانہوں نےکئی ایسےمناظر دیکھےتھےجس کو دیکھ کر ان کےہوش اڑ گئےتھے۔
جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی تھیں ۔ دوکانیں جل رہی تھیں ۔ لٹی ہوئی دوکانیں کھلی پڑی تھیں ۔ سڑک پر ایک دو لاشیں پڑی تھیں ۔ ایک دو زخمی کراہ رہےتھے۔ پتھروں اور سوڈا واٹر کی پھوٹی ہوئی بوتلوں کےڈھیر پڑےہوئےتھے۔
اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ پیر رکھنےکی بھی جگہ نہیں تھی ۔ جو بھی لوکل آتی تھی لوگ اس پر ٹوٹ پڑتےتھےاور جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں کھڑےہوکر ، بیٹھ کر ، لٹک کر جلد سےجلد وہاں سےنکل جانےکی کوشش کرتے۔
اسےایک لوکل میں جگہ ملی تو صورت حال یہ تھی کہ وہ دروازہ میں آدھےسےزیادہ لٹکتا سفر کر رہا تھا اور راستےمیں سارےمناظر دیکھ رہا تھا ۔
لوگوں کےگروہ ایک دوسرےسےالجھےہوئےتھے۔ ایک دوسرےپر پتھراو¿ کررہےتھے۔ سوڈاواٹر کی بوتلیں پھینک رہےتھے۔ ۔ دوکانیں لوٹ رہےتھےچلّا رہےتھے۔
کہیں پولس اور لوگوں میںٹکراو¿ چل رہا تھا ۔ پولس اندھا دھند گولیاں چلا رہی تھی لاشیں سڑکوں پر گر رہی تھیں ۔
گولیوں کی ایک بوچھار اس جگہ سےگزرتی لوکل ٹرین سےبھی ٹکرائی ۔ اس کےساتھ جو آدمی لٹکا ہوا تھا گولی پتہ نہیں اس آدمی کےجسم کےکس حصےسےٹکرائی ‘ اس کےمنھ سےایک دردناک چیخ نکلی ۔ اس کا ہاتھ چھوٹا وہ ڈبہ سےگرا اور اس کےبعد ابھرنےوالی اس کی دوسری چیخ اتنی بھیانک تھی کہ جس کےبھی کانوں تک وہ چیخ پہنچی وہ کانپ گیا ۔
وہ گاڑی کےنیچےآگیا تھا ۔
ایک گولی سامنےکھڑےآدمی کو لگی اور وہ بےآواز ڈھیر ہوگیا ۔
اس کےجسم سےخون کا ایک فواّرہ اڑا اور آس پاس کھڑےلوگوں کےجسم اور کپڑوں کو شرابور کرگیا ۔
اس کےکپڑوں پر بھی تازہ خون کی ایک لکیر ابھر آئی ۔کسی طرح وہ گھر پہنچنےمیں کامیاب ہوا ۔ اس کےبعد اس نےطےکیا کہ چاہےکچھ بھی ہوجائےوہ اب آٹھ دس دنوں تک یا جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہوجائےآفس نہیں جائےگا ۔
اور وہ آٹھ دنوں تک آفس نہیں گیا ۔ گھر میں بیٹھا شہر کےجلنےکی اور لوگوں کےمرنےبرباد ہونےکی خبریں سنتا پڑھتا رہا ۔ کبھی چوبیس گھنٹےکرفیو رہتا ۔ کبھی کچھ دیر کےلئےکرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آٹھ دنوں میں صورت حال معمول پر آگئی ۔
مجبوریوں کےمارےلوگ اپنےگھروں سےباہر نکلے۔ مجبوری کےتحت آفس جاتے۔ راستےبھر سفر کےجلد خاتمےکی دل ہی دل میں دعا ئیں کرتے۔
آفس پہنچ کر آفس میں کام کرتےہوئےوہ یہی دعا کرتا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ پیش آئے۔ اور آفس سےجلدی چھٹی لےکر جلد گھر جانےکی کوشش کرتا ۔
آدھی رات تک جاگنےاور کبھی کبھی تو رات بھر جاگنےوالا شہر پانچ بجےہی ویران ہوجاتا تھا ۔ حالات کچھ کچھ معمول پر آئےبھی نہ تھےکہ ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا ۔ اس بار تشدد کا زور کچھ زیادہ تھا ۔
ایک دن دہشت زدہ سا آفس سےدوپہر میں ہی گھر آرہا تھا کہ اچانک ایک مذہبی نعرہ لگاتا گروہ لوکل ٹرین پر ٹوٹ پڑا ۔ گروہ کےہاتھوں میں تلواریں ، چاقو اور چاپڑ تھے۔ مذہبی نعرےلگاتےوہ اندھا دھند لوگوں پر وار کررہےتھے۔ لوگ چیخ رہےتھے، بلبلا رہےتھےلیکن گروہ کو کسی پر رحم نہیں آرہا تھا ۔ تلوار کا ایک وار اس کی پشت پر ہوا اور کےبعد کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں ۔
ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک اسپتال میں پایا ۔
لوکل کسی محفوظ مقام پر رکی تھی ۔ وہاں پر زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ تین دنوں تک وہ بےہوش تھا ۔ ہوش میں آنےکےبعد گھبرا کر اس نےسب سےپہلےاپنےگھر خبر کرنےکی درخواست کی تھی ۔
اسپتال میں اسےپتہ چلا کہ اس کی بیوی خود دو دنوں سےاسپتال میں ہے۔ وہ گھر نہیں آیا تھا اس لئےرات بھر روتی پیٹتی رہی تھی ۔ جیسےجیسےدل کو دہلا دینےوالی خبریں وہ سنتی تھی اس کاکلیجہ منھ کو آتا ۔ آخر جب برداشت نہیں کرسکی تو بےہوش ہوگئی اور اسےپڑوسیوں نےاسپتال پہنچا دیا ۔
اسپتال میں جب اس کےمحفوظ ہونےکی خبر ملی تو اس کےاندر جیسےایک نئی جان سرایت کرگئی اور وہ اس کےپاس اسپتال چلی آئی ۔
وہ دس دنوں تک اسپتا ل میں رہا اس کےبعد گھر آگیا ۔ گھر آکر اس نےگھر میں کچھ دنوں تک آرام کیا پھر مجبوراً آفس جانےلگا ۔ وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ ہر لمحہ اسےمحسوس ہوتا تھا ابھی کوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاپڑ یا چاقو لئےمذہبی نعرےلگاتا آئےگا اور اس پر ٹوٹ پڑےگا ۔ گذشتہ بار تو وہ ان کےوار سےبچ گیا لیکن اس بار بچ نہیں سکےگا وہ لوگ اس کےجسم کےٹکرےٹکڑےکرڈالیں گے۔
اس کی آنکھوں کےسامنےڈبےّسےدوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالوں کو پھینکنےکےواقعات پیش آئےتھے۔ وہ ان واقعات سےبھی خوف زدہ رہتا تھا ۔ اگر کسی دن غلطی سےوہ کسی ایسےڈبےمیں چڑھ گیا جس میں دوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالےمسافر زیادہ ہوئےتو وہ لوگ بھی اس کےساتھ یہی سلوک کرسکتےہیں ۔ نہیں نہیں ایسا سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھتا تھا ۔
اور پھر ایک دن ایک اور قیامت کا دن آیا ۔ اس کےآفس کےسامنےوالی عمارت میں ایک زبردست دھماکہ ہوا تھا ۔ اتنا زبردست کہ اس آفس کی کھڑکیوں کےسارےشیشےٹوٹ گئےتھےاوراسےاپنےکانوں کےپردےپھٹتےمحسوس ہوئےتھے۔ باہر صرف دھواں ہی دھواں تھا ۔ دھواں ہٹا تو وہاں صرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دےرہا تھا ۔ اور چیتھڑوں کی شکل میں خون میں ڈوبےمرےلوگ ‘ ان کی لاشیں ۔ اس طرح کےدھماکےشہر میں کئی مقامات پر ہوئےتھے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوئےتھےسینکڑوں مارےگئےتھےکروڑوں کا نقصان ہوا تھا ۔ موت ایک بار پھر اس کی آنکھوں کےسامنےاپنا جلوہ دکھا کر رقص کرتی چلی گئی تھی ۔ اگر وہ بم تھوڑا سا اور زیادہ طاقت ور ہوتا تو اس کا آفس بھی اس کی زد میں آجاتا اور وہ بھی نہیں بچ پاتا ۔
یہیں خاتمہ نہیں تھا ۔ آئےدن لوکل ٹرینوں میں ، پلیٹ فارموں پر چھوٹےبڑےدھماکےہورہےتھے۔ مجرموں کی تلاش کےنام پر کسی پر ذرا بھی شک ہونےپر پولس اسےاٹھالےجاتی اور اسےجانوروں کی طرح پیٹ کر حوالات میں ڈال دیتی ۔ اس کا چھوٹنا مشکل ہوجاتا ۔ ہاتھوں کی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھا جاتا تھا ۔ کوئی چیز کہیں سےلانا یا لےجانا بھی جرم ہوگیا تھا ۔
گینگ وار میں سڑکوں پر گولیاں چلتیں۔ لاشیں گرتیں ۔ مجرموں غنڈوں جرائم پیشہ لوگوں کی بھی اور معصوم لوگوں کی بھی ۔ایسی حالت میں گھر سےنکلتےہوئےکون اعتماد سےکہہ سکتا ہےکہ اس کےساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ جس طرح گھر سےنکل رہا ہےاسی طرح محفوظ بہ حفاظت شام کو واپس گھر آجائےگا ۔ گھر سےجب وہ دعا کرکےنکلتا تو اس کا ذہن خدشات اور وسوسوں میں ڈوبا ہوتا تھا لیکن جب وہ شام گھر پہنچ کر دعا کرتا تھا تو اسےایک قلبی سکون ملتا تھا ۔
” ہےبھگوان ! تیرا بہت بہت شکریہ تو نےمجھےصحیح سلامت اپنےگھر پہنچا دیا۔“





پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)


M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09372436628) )

mmubin123@yahoo.com
 
Top