حسرت موہانی اضطراب عاشقی پھر

حسنیٰ خان

محفلین
اِضطرابِ عاشقی پھر کار فرما ہوگیا
صبر میرا، ناشکیبائی سراپا ہوگیا

سادگی ہائے تمنّا کے مزے جاتے رہے
ہو گئے مُشتاق ہم، اور وہ خود آرا ہوگیا

وائے ناکامی نہ سمجھا کون ہے پیشِ نظر
میں کہ حُسنِ یار کا مَحوِ تماشا ہو گیا

بعد مُدّت کے ملے تو شرم مجھ سے کِس لئے؟
تم نئے کچھ ہو گئے ، یا میں نِرالا ہو گیا

نو جوانی تھی کوئی شیدا نہ تھا میرے سِوا
ایک حُسنِ کار کا وہ بھی زمانا ہوگیا

شورشیں جاتی رہیں وہ آرزوئے وصل کی
رنجِ دُوری مرہَمِ زخمِ تمنّا ہو گیا

سِحر وہ کیا تھا نگاہِ آشنائے یار میں
جو دِلِ بیمار کے حق میں مسیحا ہو گیا

ضبط سے رازِ محبّت کا چُھپانا تھا محال
شوق گر پنہاں ہُوا ، غم آشکارا ہو گیا

ہے زبانِ لکھنؤ میں رنگِ دہلی کا نمُود
تجھ سے حسؔرت! نام روشن شاعری کا ہوگیا

مولانا حسؔرت موہانی
 
Top