اشغال و مراقبہ کی حقیقت!

arifkarim

معطل
یہ دھاگہ روحانی بابا کیلئے کھولا جا رہا ہے جسمیں آپ دماغی عضو “استخوان الابیض“ یعنی Pineal Gland کا روحانیات سے تعلق، صوفیاء کرام کے مشاہدات اور تصنیفات کی روشنی میں پیش کریں گے۔
Pineal Gland کا مقام اس تصویر سے واضح ہے:
Illu_pituitary_pineal_glands.jpg

اس عضو کو مراقبہ سے جگانے سے متعلق مشق وغیرہ کیلئے روحانی بابا کا انتظار کریں۔
نوٹ: سائنسی افراد کا اس دھاگہ میں داخلہ ممنوع ہے :)
 
روحانی بابا حاضر ہیں جناب بس ذرا مواد کو یونی کوڈ ہونے دیں انشاء اللہ پہلی فرصت میں پیش کرتا ہوں اور انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اس تھریڈ کو محفل آپ کی تحریریں والے زمرہ میں چسپاں کردیں شکریہ
 
تصوف کیا ہے عام بندہ ولی اللہ کیسے بنتا ہے۔۔۔ از روحانی بابا

اشغال و مراقبات کی حقیقت
صوفیہِ کرام نے سلوک کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی ہے ۔اول صحبت جو کہ علم و جذبہ وعمل سے تعلق رکھتی ہے شیخ کامل کی صحبت جذبہ بیدار کرتی ہے اور شیخ کے عمل کا اثر مرید کے قلب پر ہوتا ہے اور صحبت ِ شیخ ہی علم کا باعث بنتی ہے پھر شیخ جذبات لطیفہ کے بیدار کرنے کے لیئے طالب کو اذکار جہر اور خفی تعلیم کرتا ہے اور بمطابق علم اس کو عمل پیدا ہونے کے لیئے بھی ارشاد فرماتا ہے ۔کثرت ذکر جہر و خفی کے بعد اشغال متعددہ اور مراقبات و توجہات کثیرہ بتاتا ہے۔
ان سب معاملات کے پس پردہ کیا حقائق کارفرما ہوتے یہ شیخ کامل کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے جب سالک ان پر عمل پیرا ہوتا ہے تو (تو بسبب عمل کرنے کہ یا عامل ہونے کہ)جان جاتا ہے پھر وہ بھی شیخ کامل بن جاتا ہے گویا یہ ایک عملی (راہِ) سلوک ہے جس کو وہی جان پاتا ہے جس نے عمل کیا ہو۔مثلاً ایک شخص صرف پہلوانی کا علم(بذیعہ کتاب اور آج کل بذریعہ C.D. Tutorial) اورTechniques جان کر پہلوان نہیں بن جاتا بلکہ وہ پہلوان اس وقت کہلوائے گاجب تک وہ Exercise نہ کرے اور اکھاڑے میں اُتر کر پہلوانی کے داو پیچ ظاہر نہ کرلے اور آزما نہ لے۔
صوفیانہ علوم بھی ایسے ہی ہیں یہ محض علم کی بات نہیں ہے بلکہ ریاضت سے حاصل ہونے والی صلاحیت ہے مگر اس میں عطاءومو ھبتِ الٰہی و جذبہِ حق کا شامل حال ہونا اشد ضروری ہے
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشند خدائے نہ بخشندہ

ہمارے سامنے ایک انسان ہے جس میں جذبہ ہونا شرط ہے یہ انسان عشق رکھتا ہے عشقِ اعلیٰ علین یا عشقِ اسفل السافلین۔انسان یا تو اشیائے متعددہ دنیا ،مال وزر،زن و فرزندعیش وعشرت ،طعام وشرب ،عزت ومنزلت ،جاہ و حشمت وغیرہ سے عشق کرتا ہے یا ان سے قطع نظر کرکے علائقِ دنیوی سے صرفِ نظر کرکے نور وحضور اور ذاتِ حق یا دوستانِ حق کو اپنی نظر کا مرکز بناتا ہے ۔حسب جذبہ انسان کی قدر متعین ہوتی ہے دراصل قلب میں ایک مقام ” ھم“ ہے جو یا فوق (اوپر)کی طرف ہوتا ہے یا اسفل(نیچے )کی طرف یہی مقام ” ھم“ صوفیاءکرام انسان میں بلند کرکے فوق کی طرف کرتے ہیں ۔تفصیل ” الانسان کامل “ میں دیکھیں۔
جب بقول جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ” معالی الھم “ ہمت کی بلندی پیدا ہوتی ہے تو انسان کو قلبی تحریک من الحق الیٰ الحق حاصل ہوتی ہے جس کی تربیت کے لیئے صوفیاءکرام اس کے عشق کے لیئے زاویہِ تحقیق کرتے ہیں ۔عشق ایک نسبت ہے ۔تحقیق کے لیئے ھمعات(جو کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی معرکتہ الآراء تصنیف لطیف ہے)میں نسبت عشق و وجد کا عنوان دیکھیں۔
پھر شہود ایک نسبت ہے تحقیق کے لیئے اویسیہ سکینیت اور یاداشت کی نسبت کا عنوان دیکھیںپھر وجود ایک نسبت ہے جس کے لیئے توحید کا عنون دیکھیں۔
تین اقسام کی صلاحتیں ہر سالک میں ان تین قسم کے جذبوں میں سے ایک یا دو یا تینوں شاملِ وجود ہوتے ہیں(مندرجہ ذیل تین صلاحیتوں کی طرف اشارہ ہے یعنی ریاضت،طریقت اورشریعت)۔اب شیخ کامل جو جذبہ طبیعتِ سالک میں زیادہ ساری فی الوجود و الطبع دیکھتا ہے اسی کی طرف سالک کی راہنمائی کرتا ہے اور اشغال و مراقبات اسی جہت سے تعلیم کرتا ہے ۔


اذکار سے تزکیہِ نفس کرتے ہیں اس میں ہر طرح کے اذکار اور اوراد وغیرہ شامل ہیں ۔اشغال سے تصفیہِ قلب کرتے ہیں اس میں ہر طرح کے اشغال شامل ہیں اور مراقبات سے تجلیہ روح کرتے ہیں ۔
ان سب کے جو مل کر اثرات پیدا ہوتے ہیں ان کا نام تخلیہ سر ہے ۔
انسان فکر و نظر کے بہت سے زاویے رکھتا ہے انسانی فکر بہت اعلیٰ شئے ہے یہی ایک زینہ ہے جو بندہ کو حق کو تعالیٰ تک لے جاتا ہے فکرو تخیل کے زاویے کو درست کرنے کا نام تصوف و سلوک ہے۔خیال کو صحیح کرنا کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں
ہستی کے مت فریب میں اجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
روحانی لطافت کے ذرائع میں دراصل فکرصحیح کا خاص کردار ومقام ہے انسان اگر جذبہ درست کرے اورعملی طور پر اپنا کردار درست کرے اور مثبت طرزِ فکر اختیار کرے نوعِ انسان کے لیئے ضرر رساں نہ ہو تو فکری اصلاح کے لیئے بعض اشغال سریع الاثر ثابت ہوتے ہیں ۔
ان اشغال کا اصول کیا ہے اور یہ کیوں اثر کرتے ہیں ؟
ان کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟
یہ کیوں کرنے چاہیئے ہیں؟
ان کا ماحصل کیا ہے؟
یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات میں مضمون ھٰذا میں تفصیلاً اور گاہ اِجمالاً لکھ رہا ہوں تاکہ سالک خود اپنی استعداد کو دیکھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوکر نام نہاد بزرگانِ دین کے چنگل سے نکل سکے۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اللہ تبارک تعالیٰ قرآنِ حکیم میں فرماتے ہیں ۔ فَاِ ذَا سَوَّیتُہ وَ نَفَختُ فِیہِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَہ سٰجِِدِینَ(ص۔۲۷)اس میں نفخ (ہوا ) یا سانس کو روح یعنی ریح یا ریحان سے تشبیہ دی گئی ہے۔سانس حرکت اور زندگی کی علامت ہے یعنی جسمِ مادی ذا ت ترابی میں جب سانس اور ہوا سے قوت تحریک پیدا ہوجائے یعنی قوائے عالم اسے سجدہ کرنا۔یعنی حرکت میں قوت تسخیر ہے ۔آگے چل کر قرآن حکیم میں آتا ہے وَیَسَلُونَکَ عَنِ الرُّ وحِ ۔ اوریہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے ۔قُلِ الرُّ وحُ مِن اَمرِ رَبِی آپ ﷺ کہہ دیجئے(کہ روح میرے رب کے امر سے ہے)۔یہاں روح کو امر فرمایا گیا یہ امر کیا ہے سورۃ یٰسین میں امر کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے انما امرۃ اذا اراد شئی ان یقول لہ کن فیکون۔اس کا امر ایسا ہے کہ جس شئے کا ارادہ کرتا ہے اس سے کہتا ہے حرکت میں آ پس وہ حرکت میں آجاتی ہے ۔
1۔روح 2۔امر 3۔ارادہ 4۔حرکت
اب ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ چاروں ارکان کا اعتدال دراصل روح کے مظاہر ہیں ۔روح امر میں (مضمر)ہے اور امر ارادہ میں (مضمر)ہے اور ارادہ کا ظہور حرکت میں ہے ۔ہمارے ہاتھ جو چیز لگی ہے وہ حرکت ہے اسی حرکت کے علم کو اگر ہم دنیوی شعبہ ہائے زندگی میں اعتدال پر لاتے ہیں تو انسان کی زندگی کے مختلف شعبے بنتے ہیں اور اگر ہم روحانیت میں حرکت کو تسخیر کرتے ہیں تو اللہ کریم تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔
حرکت دو طرح کی ہے ایک مادی ایک روحانی مادی حرکت کا تعلق تو ذاتِ ترابی (یعنی)جسم سے ہے اور روحانی حرکت کا تعلق اسی ذات ِترابی میں جو ذاتِ روحانی(پوشیدہ) ہے اس سے ہے۔
مادی (حرکت ) ذاتِ ترابی کی حرکت ہے (اس حرکت سے )امور دنیوی کی مختلف انواع ،صنعت و حرفت اور خصائص و خصائل اور اوصافِ انسانیہ ترتیب پاتے ہیں۔
اور روحانی حرکت سے معرفت و حقائق و معارف تجلیاتِ ذات و صفات تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔اب ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ہمارا موضوع تھا اشغال و مراقبات، دراصل جب ذاتِ ترابی سکون میں ہوتی ہے تو ذات روحانی بیدارہوجاتی ہے لِھٰذا جس قدر اوراد و اشغال اور مراقبات وضع ہوئے ہیں(جیسے اہل ہنود و بدھ مذہب میں کنڈال شکتی کو بیدار کرنا یا چکراز وغیرہ) وہ ذاتِ ترابی(ذات ترابی یعنی گوشت پوست کا بنا ہوا بدن) کو سکون دینے کے لیئے ہیں تاکہ ذاتِ روحانی بیدار ہوجائے اور حرکت میں آجائے ۔عام حالات میںذاتِ روحانی نزول کرتی رہتی ہے اور حرکات و سکنات ِ ذاتِ مادی ترابی کاسبب بنتی ہے لیکن جیسے ہی یہ مٹی کی ذات سکون میں آتی ہے اور ظاہری و باطنی حرکات کا بوجھ ذاتِ ترابی سے اتارتی ہے تو ذاتِ روحانی صعود کرکے اعلیٰ علیین جو کہ اس کا اصل مقام ہے میں پہنچ جاتی ہے۔جو شغل کیا جاتا ہے یا مراقبہ کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد متعلقہ حواسِ ظاہری یا باطنی کو حرکت سے سکون کی طرف لانا ہے جیسے ہی ہم کسی حِس کو حرکت دیتے ہیں تو روح بیدار ہوکر ظاہر کی طرف رجوع کرتی ہے اور جب متعلقہ حِسِ ظاہری وباطنی حرکت سے سکون کی طرف لے جاتے ہیں تو اس میں باطن کے احکام بیدار ہوجاتے ہیں۔اور وہ اپنے اصل موطن کی طرف صعود کرنے لگتی ہے اور ذات سے قریب ہوجاتی ہے جسے ذاتِ حق کہا جاتا ہے روح اور ذاتِ حق میں فرق ہے وہ یہ کہ ذات میں حرکت اور سریان نہیں مگر روح میں حرکت اور سریان ہے ۔
اشغال میں حواسِ خمسہ ظاہری کی تہذیب کی جاتی ہے اور مراقبات میں حواسِ خمسہ باطنی کی تہذیب کرتے ہیں۔
حواسِ خمسہ ظاہری کے باطنی پہلو کا نام حواسِ خمسہ باطنی ہے ہر حِس کا اپنا ایک اثر ہے اور لذت ہے ۔
ذاتِ ترابی میں تمام حرکات ذاتِ روحانی اورارادہ کی ہیں اور ان کا اظہار مختلف حسیات علم ،ارادہ، قدرت، سمع ،بصر اورحیات کی صورت میں ہوتا رہتا ہے ۔
جیسے نگاہ حرکت میں
اس میں تمام تر حرکت روح کی وجہ سے ہے روح نگاہ میں آکر حرکت کی صورت میں اپنا اظہار کررہی ہے اسکا اپنا منشاءہے کہ ذاتِ ترابی کو اس حرکت کی وجہ سے عالم ظاہر سے آشنا کررہی ہے۔
جیسے ہی ہم نگاہ کو ہر زاویہ سے ساکن کرکے ایک نقطہ پر مرکوز کرتے ہیں تو حرکت سے سکون میں آتے ہیں نگاہ ذات کی بہت سی قوتوں سے مملو(بھری ہوئی) ہوجاتی ہے ۔آپ نے عام حالات میںبھی دیکھا ہوگا کہ جب آپ اِدھر اُدھر کے عام حالات کے علاوہ کبھی ایک دم خاص بات پر نظر ڈالتے ہیں (مثلاً روڈ ایسکسڈینٹ یا کسی واردات یا کسی قتل کے واقعے کا عینی گواہ ہونا)نظر ساکت ہوجاتی ہے ایسے میں جو واقعہ یا شئے نگاہ دیکھتی ہے اس کو اپنے پیچھے چھپے ہوئے باطنی محافظ خانوں میں محفوظ کرلیتی ہے۔
تو علم ہوا کہ نگاہ کا کام ہے دیکھنا حرکت میں ہو یا سکون میں حرکت کرتے ہوئے جب دیکھتی ہے تو عمومی نگاہ ہوتی ہے اور جب ساکن ہوکر دیکھتی ہے تو خصوصی نگاہ بن جاتی ہے حرکت مادہ کے زیادہ قریب ہونے سے ہوتی ہے اور سکون ذات سے زیادہ قرب کی بنا پر ہوتی ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا علمائے مشرق نگاہ کو کسی ایک زاویہ و نقطہ پر مرکوز کرکے کیسے کیسے کارہائے عجائب و غرائب اور خرق عادات پیدا کرلیتے ہیں ۔حرکت سے سکون کی طرف آنا گویا قوتوں کا خزانہ لیکر آتا ہے ایسے ہی تمام اشغال میں حرکتِ جسمانی کو کم کرنے یا نہ کرنے کا کہا جاتا ہے تاکہ عالمِ مثال سے ربط میں آسانی پیدا ہو اور انسان مادی تحریک کو روک کر روح کی اصل کے ساتھ متصل ہو۔
پورے عالمِ ظاہری و باطنی میں حرکت اور سکون کے قانون کا احاطہ ہے خواہ ظاہری ایجادات ،مثلاً بجلی،ٹیلی فون ،ریڈیو،ٹیلیویژن وغیرہ ہوں یا باطنی مثلاً وہم ،خیال،ارادہ،تصورو حیات وغیرہ۔
سب میں حرکت و سکون ہی روح رواں ہے۔
حرکت گرمی اورسکون سردی ۔طب و علم الابدان میں بھی عضو کی حرکت اور سکون کو ہی ملحوظ رکھ کر علاج کیا جاتا ہے مثلاً تحریک جگر دل و دماغ سے ہی علاج ممکن ہے(اس پر ہم نے ایک الگ تحقیق کی ہے جس کا اگر اصرار کیا گیا تو ضرور بالضرور پیش کریں گے) تحریک اصل ہے جہاں تحریک ہوگی وہاں قریب تحلیل پیداہوگی اور جہاں سے دور ہوگی وہاں سکون پیدا کرے گی اصل تحریک ہے حرکت خواہ کتنی ہی خفیف ہو ردِ عمل پیدا کرتی ہے بلکہ جس قدر لطیف ہوتی چلی جاتی ہے ردعمل زیادہ شدید پیدا کرتی چلی جاتی ہے(ہارپ ٹیکنالوجی کی روح رواں بھی Extremely Low Frequency Waves ہیں)۔جیسے ارادہ و خیال کی حرکت آخر یہ جتنے بھی مظاہر مادی دنیا میں ایجادات و تعمیرات وغیرہ کے موجود ہیں ارادہ و خیال کے ہی مظاہر ہیں اسی کی تحریک ہے۔حرکت جتنی مادی ہوگی تصرف اتنا ہی محدود اورکمزور ہوگا اور جتنی روحانی و لطیف تر ہوگی تصرف اتنا ہی شدید اور قوی ہوگا ہر مادی شئے ظاہری وباطنی دونوں تحریک رکھتی ہے ۔ہومیو پیتھی علاج بھی ادویہ کی باطنی تحریکات پر مشتمل ہے اور طب اشیاءو ادویہ جڑی بوٹیوں وغیرہ کی ظاہری خاصیتوں یعنی تحریک ظاہری کا علم ہے ۔جس طرح ادویہ ظاہری اور باطنی تحریک رکھتی ہیں اسی طرح انسان بھی ظاہری وباطنی تحریک رکھتا ہے ۔جیسا کہ ہم نے نگاہ کا قانون بیان کیا کہ جب نگاہ کی ظاہری حرکت کو ہم ایک نقطہ پر مرکوز کرکے بند کردیتے ہیں تو اس کی خاصیت مسمریزم اور ہپناٹنزم اور علمِ الاشراق جیسی قوتوں کا سرچشمہ بن جاتی ہے ۔ایسے ہی باطنی نگاہ یعنی ” توجہ “ کو جب ہم ایک مرکز پر نقطہِ روشن یا نقطہِ سیاہ وہمی پر مرکوز کرتے ہیں تو نگاہ بیدار ہو کر عالم باطنی کے احکام صادر ہونے کی وجہ سے عالمِ روحانی باطنی کے مشاہدہ کے قابل ہوجاتی ہے۔
اس مقصد کے لیئے آنکھیں بند کرکے جو سیاہ چادر نظر آتی ہے اس پر نگاہِ توجہ سے ایک نقطہِ خیالی یا نقطہِ روشن یعنی اسم ” اللّٰہ “ ذات کا خیال کرتے ہیں یا بعض صوفیاءکرام کانوں پر نگاہ توجہ کرتے ہیں اور وہم خیال و ادراک کو ایک صوتِ سرمدی(اہل ہند شغل انہد کہتے ہیں اور تکنیکی نام صلصلۃ الجرس ہے) پر مرکوز کرکے مختلف آوازوں کی تحریک کو ختم کرکے ایک آواز کی حرکت متصل و منفصل پر لگاتے ہیں جس سے انسان کی سماعت بیدار ہوکر آوازِ کن فیکون یعنی آواز حق تک الہام الٰہی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔
یا بعض نگاہِ ظاہری کے لیئے شغلِ "محموداً" یا "نصیرا" کرتے ہیں دراصل جیسے ہی ارادہ میں یکسوئی آتی ہے تو شغل میں یا مراقبہ میں کامیابی ہوجاتی ہے ۔دراصل ارادہ چونکہ روح یا حرکت کا محل و ظروف ہے۔ اس لیئے انسان ارادہ کو کسی ایک نقطہِ ظاہری یا فکر باطنی پر مرکوز کرکے اس کی حرکتِ کثرت کو روک دے اور وحدت پیدا کرے تو انسان ذاتِ حق کے زیادہ قریب ہوجائے گا۔
درحقیقت ہم جس طرف متوجہ ہوتے ہیں ارادہ اس طرف حرکت شروع کردیتا ہے اورظاہری و باطنی تمام حواس کو اسی طرف تحریک دینا شروع کردیتا ہےاورادراک اور وہم و خیال کو اپنا اپنا کام کرنے کے لیئے کہتا ہے اور متعلقہ حواس کو حرکت میں لے آتا ہے ۔دراصل ارادہ ذات ہے اور صورت و ہیکلِ انسانیہ میں مظہر ذات ہے ۔
انسان جب ایک فکر و خیال پر مطمئن ہوجاتا ہے اور دل و جان سے اس کو تسلیم کرلیتا ہے اور صمیم قلب سے اس کو قبول کرلیتا ہے توایسے تفکر پر ارادہ اور نفس ناطقہِ انسانیہ اس رنگ یعنی اس فکر کےرنگ کو قبول کرلیتا ہے ۔اب یہ فکر الٰہی ہو یعنی اللہ کا کوئی رنگ ہو یا مخلوق کا کوئی رنگ ۔جب انسان اس رنگ کو قبول کرلیتا ہے تو متعلقہ فکر غالب ہوجاتی ہے اور اپنے احکام سے پوری طرح ظاہر ہوجاتی ہے ۔فکر صحیح ہی وہ قوت ہے جو صاحبِ مراقبہ کی معراج ہے ۔فکر کو درست کرنا ہی اصل بات ہے قوتِ خیال ،وہم وغیرہ تو اسی کے مناسبت سے حرکت کرتے ہیں۔فکر و نظر کے دونوں زاویوں میں جب ایک توازن قائم ہوجاتا ہے تو مشاہدہ کھل جاتا ہے اگر نظر کے زاویے تو درست ہوں لیکن فکر کے زاویے تاریک ہوں تو مشاہدہ جہل تو ہوسکتا ہےیعنی کہ شیطان اچک لے مگر درست صراطِ مستقیم کی طرف مشاہدہ کھلنا ممکن نہیں ہے۔اسی لیئے تو کتاب اللہ کی آخری اور حتمی شکل(Last and Final Version)جس کو قران کہتے ہیں میں اِسی بات کو بالکل شروع میں کہا گیا ہے ۔الم (1)ذَلِکَ الکِتَابُ لاَ رَیبَ فِیہِ ہُدًی لِّلمُتَّقِین۔اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور ہدایت ہے اہل تقویٰ کے لیے۔
مثلاً اسمِ اللہ اگر نظرکے زاویے درست کرکے آپ تصور کررہے ہیں تو جب تک فکر یعنی خیال کو اللہ کے متعلق درست نہیں کریں گے اور تصورِ اسم ذات اللہ کے ساتھ ساتھ قوتِ ” فکریہ “ اپنے زاویے درست نہیں کرے گی تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اسم اللہ اپنی باطنی شان سے بندہ میں جلوہ گری کرے یا مسمیٰ سے تعلق کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا
جب تک فکر و نظر کے زاویوں میں توازن نہیں ہوگا اور ہم آہنگی نہیں ہوگی کسی قسم کا معاملہ روحانی بیدارنہیں ہوسکتا ۔جب اس معاملے کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا تو بات کھل کر سامنے آجائے گی۔
اس میں بہت سے عوامل بروئے کار لائے جاتے ہیں جیسے استغراق۔ گہرے استغراق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یقظہ(نیند کا خمار۔یا نیند اور بیداری کی درمیانی شکل ) کی کیفیت رکھنا اور
طاری کرنا بہت ضروری ہے ۔
دراصل انسان جس کو بیدارای سمجھتا ہے وہ نیند ہے اور جو نیند ہے وہ ہلکی بیداری ہے اور جو موت ہے وہ مکمل بیداری ہے النّاس نیامُُ فاذا ماتُو فانتبھو۔ لوگ سوئے ہیں جب مریں گے تو جاگ جائیں گے اس حال کو مد نظر رکھیں۔
انسان اپنی اسی بیداری کی کیفیت میں نیند کے حواس اگر لے آئے تو بیدار ہوجائے گا ۔اسی مقصد کے لیئے اولیاءکرام شب بیدار رہے ۔شب بیداری کے سلسلہ میں ہر دین کے لوگ مختلف ریاضات شاقہ کرتے ہیں۔ جس کو ہم بیداری کہتے ہیں دراصل یہ لطیفہِ قلب کی حالت ہے چونکہ ہم اس کو بیداری سمجھتے ہیں اس لیئے ہم کواسی حالت میں کچھ نظرآئے تواس کوحقیقت کہتے ہیں اورجواس حالت کے علاوہ نظر آئے اسکو خواب ،وہم اورخیال کہتے ہیں صوفیاءکرام نے اسی حالت قلبی کی تہذیب کے لیئے تصفیہِ قلب کر کےاورغیر انسانی خواہشات کو نکال کرتہذیب کی ہے لیکن اس کی صفائی کے بہت سے طریقے ہیں ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ نیند اور بیداری کی مختلف حالتوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو
ہمیں چند کیفیات حاصل ہوتی ہیں۔
مثلاً بیداری ،خوشی یا غمی کی کیفیت ہلکی نیند یعنی اونگھ کی کیفیت ،نیند کی کیفیت اور گہری نیند کی کیفیت پھر گہری نیند کے بعد ہلکی نیند کی کیفیت اور نیند کے بعد جب آنکھ ابھی نہیں کھلی ہوئی ہوتی،خمار کیفیت ۔ان مختلف کیفیتوں اور حالتوں کا نقشہ پیش خدمت ہے۔

بحیثیت مسلمان ہمیں دو طرح کی زندگی کا شعوردیا گیا ہے اورشریعت مطہرہ کا تقاضہ ہے کہ انسان اس بات پر ایمان لے آئے۔ملاحظہ فرمائیے:
ایمان مفصل: اٰمَنتُ باللّٰہ و ملآئِکَتہ و کتبہ و رُسُلہ و الیوم الاٰخر والقدر خیرہ و شرہ من اللّٰہ تعالیٰ والبعث بعد الموت۔(میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے سب فرشتوں پر اور اسکی سب کتابوں پر اور اس کے سب رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر)
جس طرح ایک ظاہری زندگی ہے بالکل اسی ہی طرح ایک باطنی زندگی بیداری کے بعد شروع ہوتی ہے ۔اسی طرح باطنی زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے ۔گویا اصل حیثیت بیداری اور موت کو حاصل ہے اور زندگی کی تمام تر حرکات بعد میں شروع ہوتی ہیں ۔گویا روح کا کام حرکت ہے یہ بیداری کے بعد اور موت کے بعد جاری رہے گی۔
روح جسم کے بغیر بھی حرکت کرسکتی ہے ۔انسان گرزندگی میں موت جیسی حالت کا تصور کرے تو وہ نیند کو نظرِ تفکر سے دیکھے ۔اس کی ساری مشابہت موت کی طرح ہے ۔سوائے ایک دو امتیازی خصوصیات کے سب حرکاتِ نیند ،موت سے مشابہ اور قریب تر ہیں انسان اس میں ایک زندگی کی سی تحریک خواب میں دیکھتا ہے خواب کی زندگی سے ہرانسان بخوبی متعارف ہے خواہ آپ اسے ایک خیالی بات کہیں مگر خواب میں انسان زندگی کے متعدد سال گزارتا ہے ۔جب انسان سو جاتا ہے تو روح اپنی زندگی کی حرکات کو جاری رکھتی ہے اور خواب میں منتقل کردیتی ہے ۔پھر انسان چلتا پھرتا ہے اور کھاتا پیتا ہے۔اگر کوئی کہے کہ خواب کی باتوں کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا تو ہم کہتے ہیں کہ زندگی کی باتوں کا بھی انسان کو پتہ نہیں چلتا جب تک انسان متوجہ نہیں ہوتا اور حاضر ذھن نہیں ہوتا ہے۔اپنے شعور کو حرکت دےکر ہی حرکت واقفیت پیدا کی جاسکتی ہے ۔جب ذھن بے خیالی کا شکار ہوگا تو حرکت خواہ بیداری میں ہو خواہ خواب میں آپ حرکتِ روحی سے واقف نہیں ہوسکیں گے۔مشاہدہ کا اصول یہیں سے وضع ہوتا ہے کہ انسان بیداری یا خواب سے مشاہدہ کیسے کرسکتا ہے توجہ کو بیدار کرکے
آپ مشاہدہ کے مقام پر فائز ہوسکتے ہیں ۔اب رہا یہ معاملہ کہ توجہ کو بیدار کیسے کیا جائے ۔
تو اس کے لیئے ذرا غور کریں اور دیکھیں کہ بیداری یا نیند اب چونکہ موت تو ہمیں مرنے کے بعد حاصل ہوگی۔بیداری میں موت کی بہن یعنی نیند کو موت سمجھ کر موت کے بعد کی زندگی کا تجزیہ کریں ۔نیند جب گہری اور دائمی ہوتی ہے تو موت بن جاتی ہے (النوم اخ الموت) یا (موتو قبل انتموتو) اسی لیئے فرمایا گیا کہ موت نیند کی بہن ہے یا مرنے سے قبل مر جاو۔جیسا کہ نقشہ سے ظاہر ہے کہ استغراق کی کیفیت کے مختلف مدارج ہیں بیداری ایک کیفیت ہے جو مثلِ نور ہے دراصل
بیداری ہی ایک نور ہے اور باقی کیفیات ظلمت یا سیاہ نور ہے ۔
مثلاً بیداری کے بعد حواس یقظہ یعنی خمارِ نیند اونگھ کا شکار ہوئے ہیں اس وقت بیداری کا نور اونگھ جسے سنۃ عربی میں کہتے ہیں منتقل ہوجاتا ہے پھر بیداری کا نور ہلکی نیند میں چلا جاتاہے پھر گہری نیند میں عوام الناس کا سفر تو یہاں تک پہنچ کر واپسی کا سفر اختیار کرلیتا ہے ۔
لیکن خواص کا سفر گہری نیند کے موت جیسے استغراق میں چلا جاتا ہے پھر موت اور بعد ازاں موت سے بھاری اور گہرے استغراق میں چلا جاتا ہے دراصل عام لوگ موت جیسے استغراق کو قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ درجہ بدرجہ چل کر استغراق کی منزلیں عبور نہیں کرتے لیکن جو لوگ درجہ بدرجہ بتدریج منازل استغراق قطع کرتے ہیں وہ اس قسم کے استغراق میں زندہ رہتے ہیں بلکہ موت کے بعد بھی زندہ ہی رہتے ہیں ان پر معنوی موت واقع ہوتی ہے دراصل وہ قبور میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں۔
 
عوام الناس اپنی بیداری کے نورِ حواس کو یقظہ میں ہی قائم نہیں رکھ سکتے اور ان کے حواس جواب دے جاتے ہیں اور معطل ہو کر عدم میں چلے جاتے ہیں ۔علمِ ا لتصوف کے ماہرینِ صوفیاءکرام کثرتِ مجاہدہ سے مشاہدہ کی منزل پر فائز ہوتے ہیں اور اپنے حواس ظاہری کے نور کو عالمِ رویاءمیں لے جاتے ہیں اور جو چیزیں عوام خواب میں دیکھ سکتے ہیں یہ بیداری میں ہی دیکھ لیتے ہیں ۔یہ دوطرح سے ہے ایک تو یہ ہے کہ حواسِ باطنی حواسِ ظاہری پر مسلط ہوجاتے ہیں۔
ایسے بندے کو مجذوب کہتے ہیں دوسرا حواسِ ظاہری کو باہوش و حواس حواسِ باطنی میں منتقل کرلیتے ہیں یہ سالک ہوتے ہیں ۔
علماء ظاہر کا کہنا ہے کہ موت کے بعد ہی دیدارِ خداوندی ہوسکتا ہے لیکن یہ لوگ اس بات کا شعورنہیں رکھتے کہ صوفیاءِ کرام نے ایک ایسا علم سیکھا ہے اور اس کے قواعد وضع کیئے ہیں کہ وہ جیتے جی ہی موت کا مزہ چکھ لیتے ہیں اور جو سفر حواس مرنے کے بعد شروع کرتے ہیں وہ ان حواس کو بیداری میں منتقل کرنے کا علم جانتے ہیں ۔
زندگی سے قبل انسان موت سے بھاری استغراق میں تھا(یعنی مقام جابلقا) پھر جب مادرِ رحم میںزندہ ہوا توموت جیسا استغراق تھا پھر رحمِ مادر سے باہر آنے کے بعد بھی موت سے ملتا جلتا استغراق طاری رہا ۔آہستہ آہستہ بیدارہوا اور باشعور بن گیا ۔
انسانی ذہن کوسونے کی (یعنی نیند کی، جو کہ موت کی بہن ہے)عادت ہے اور اس میں ایک صلاحیت ہے جسے موت کہا جاتا ہے اگر اس صلاحیت کو بیدار کیا جائے توپھر انسان سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی چلتی پھرتی تصویر بن جاتا ہے جن کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی (اَوَمَن کَانَ مَیتًا فَاَ حیَینٰہُ وَجَعَلنَا لَہ نُورًا یَّمشِی بِہ فِی النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہ فِی الظُّلُمٰتِ لَیسَ بِخَارِجٍ مِّنھَا۔ الانعام۔122) انسان چلتا پھرتا مردہ ہے جسے اللہ اپنے نور سے زندہ کردیتا ہے اور یہ اسی نور سے لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا دوسرے لوگ جن میں یہ صلاحیت نہیںاس کے برابر ہوسکتے ہیں؟۔
ہستی کے مت ،فریب میں آجائیو اسد عالم تمام حلقہِ دامِ خیال ہے
مشاہدہ کے لیئے سب سے پہلے ذہن کو کثرت سے ہٹانا ضروری ہے ۔جب انسان اپنے اردگرد سے توجہ ہٹالیتا ہے اور ذہن کو اچھے برے خیالات سے خالی کرلیتا ہے تو اسی استغنائے ذہنی یا خالی الذھنی
کی کیفیت میں بیداری سے موت کی طرف سفر کرنا آسان ہوسکتا ہے لیکن بصورت دیگر مشکل ہے ۔
صوفیاءکرام نے تصوف و سلوک اور خانقاہی نظام میں جتنے اوراد واشغال و اذکار وضع کیئے ہیں وہ ذہن کو ادھر اُدھر کے فاسد خیالات کی کثرت سے نکالنے کے لیئے وضع کیئے ہیں تاکہ انسان خالی
الذہن ہوجائے اور تبتل (کٹ جانا باقی چیزوں سے )کی کیفیت پیدا ہوجائے ۔کہ وہ سب سے کٹ کر اللہ ہی کی طرف سفر کرنے کے لیئے تیار ہوجائے جو موت کے بعد ممکن ہے اور اس موت کو بیدرای میں خود پر طاری کرلے۔ وَاذکُرِ اسمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّل اِلَیہِ تَبتِیلاً ۔المزمل۔08)
انسان کا ایک داخل ہے اور ایک ظاہر ۔داخل میں وحدت ہے ہر شئے وحدت کی حیثیت رکھتی ہے اور ظاہر میں کثرت ہے چونکہ داخل میں مکانیت نہیں ہے اس لیئے زمانیت بھی نہیں ہے خارج میں مکانیت ہے اس لیئے زمانیت بھی ہے داخل میں انسان اگر دیکھنا چاہتا ہے تو زمانیت اور مکانیت نہ ہونے کی وجہ سے براہِ راست دیکھتا ہے اور خارج میں زمانیت اور مکانیت ہونے کی وجہ سے بالواسطہ دیکھتا ہے جو چیز دیکھتا ہے اس کا عکس اول اس کے داخل میں موجود ہوتا ہے اسی لیئے ظاہر میں اشیاءکو دیکھ پاتا ہے اور خارج میں محض احساس ہے احساس بیدار نہیں ہے جیسے ہی احساس بیدار ہوتا ہے خواہ کوئی زاویہ فکر محکم ہو (یعنی حکم کے درجے میں آجائے)جیسے وحدت الوجود یاوحدت الشہود یاعشق و جذبہ، سکینیت و وجد یا اویسی نسبتوں میں سے کوئی نسبت یا پھر نگاہ بیدار ہو جو داخل میں مشاہدہ کا کام کرتی ہے ۔دراصل مشاہدہ ہی وہ احساس ہے جو غیر موجود ہے جب مشاہدہ ہوجاتا ہے تو شاہد اور مشہود بھی موجود ہو جاتے ہیں (یعنی وجود میں آجاتے ہیں)۔گویا شاہد اور مشہود کے ظہور میں آنے کا سبب گویا مشاہدہ ہے ۔
اس سے قبل شاہد اور مشہود گو موجود تھے مگر احسا س نے شاہد اور مشہود میں ظہور نہیں کیا تھا جیسے ہی شاہد نے مشہود پر توجہ کی تو مشاہدہ کی حالت رونما ہوئی پھر شاہد اور مشہود کا وجود بھی خود پر ظاہر ہوتا چلاگیا ۔
حضرت محی الدین ابنِ عربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں!
الحقُّ محسوس والخلق معقول
دراصل احساس ہی شاہد کو شاہد اور مشہود کو مشہود بنا دیتا ہے اور مشاہدہ کو ظاہر کردیتا ہے ۔
وہ بارِ امانت جس کے متحمل ہونے کی صلاحیت آسمان و زمین نے اپنے میں نہ پائی جس کی تاب پہاڑ نہ لاسکے ۔جو بوجھ نہ صرف آسمان بلکہ آسمان والوں سے بھی نہ اٹھ سکا ۔اور حضرتِ انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا ۔وہ ظہور وجود ہے ۔ظہورِ وجود یعنی ظہورِ ذات مع الصفات والاسماءکا حامل صرف انسانِ کامل ہے ۔ذات و اسماءو صفات کے پرتو (مظہریت یا عکس) کی قبولیت کی استعداد و صلاحیت صرف انسانِ کامل ہی میں پائی جاتی ہے ۔(اِنَّا عَرَضنَا الاَمَانَۃ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ وَالجِبَالِ فَاَبَینَ اَن یَّحمِلنَا وَاَشفَقنَ مِنہَا وَ حَمَلَھَا الاِنسَان۔اِنَّہ کَانَ ظَلُومًاجَھُولًا۔)تحقیق روبرو کیا تھا ہم نے امانت کو اوپر آسمان اور زمین کے اور پہاڑوں کے پس انکار کیا سب نے اس سے کہ اٹھاویں اس کو اور ڈر گئے اُس سے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے تحقیق وہ تھا ظلومی جہولی۔ (الاحزاب:۲۷) ظلوماً جہولاً سے یہی مراد ہے کہ انسان میں اس بارِ گراں کے تحمل کی استعداد تھی ۔ظلومی سے یہاں مراد ظلم نہیں بلکہ ظلمت ہے اور ظلمت ضد ہے نور کی ۔جہل بھی تاریکی ہے جو ضد ہے علم کی اور علم نور ہے اس ظلمت اور جہل نے زنگار کا کام دیا اور انسان نے الٰہیت کے پرتو(reflex) کو قبول کیا ۔دراصل ظلمتِ طبیعت ،احساس کے نور سے روشن ہوتی ہے اور جہل علم اور معلوم کے نور سے روشن ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اور ان میں رہنے والوں نے اسے قبول نہ کیا
ہم ایک کثیف دیوار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اس میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں مگر دیوار ہمارے چہرے کے عکس کو قبول نہیں کرتی ۔ہم چہرے کو ایک لطیف اور شفاف شیشے میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی عکس کو قبو ل نہیں کرتا پھر ہم اپنے چہرے کو ایک ایسے آئینے کے سامنے لاتے ہیں جو ایک طرف سے تو نہایت اجلا صاف اور چمکدار ہے اور دوسری طرف اس کے زنگار لگی ہوتی ہے تو چہرہ فوراًاس میں ظاہر ہوجاتا ہے آئینہ زنگاری نے ہماری شکل کو قبول کرلیا زنگاری میں عکس کے نمایاں ہونے کی صلاحیت ہے۔جس کا اظہار اس نے ہمارے چہرہ کے سامنے آتے ہی کردیا۔شفاف آئینہ یا دیوار میں یہ صلاحیت نہ تھی اس لیئے اللہ کی ذات و صفات کے پرتو کو آسمان والوں نے قبول نہ کیا کیونکہ وہ مثل شفاف آئینوں کے تھے اور نہ زمین و پہاڑ وں نے اسے قبول کیا کیونکہ وہ مثل کثیف دیوار کے تھے انسان نے اسے فوراً قبول کرلیا کیونکہ انسان مثلِ آئینہ زنگاری کے ہے اس کی ایک جانب لطافتِ ملکوتی ہے اور دوسری جانب کثافتِ حیوانی ،ایک جانب وجود کا نور ہے دوسری جانب عدم کی ظلمت، ایک جانب علم کی روشنی ہے دوسری جانب جہل کی تاریکی ہے اس جامعیت نے انسان کو اس قابل بنادیا کہ امانتِ جامعیتِ ذات و صفات کو اٹھا لے۔
ٍ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہِ بادِ بہاری کا(غالب)
تو اب ظلوماً سے مراد ظلمت ہوئی جس میں نور چمکا اور جہولاً سے مرادجہالت ہوئی جس میں علم چمکا اس طرح قانون یہ بنا کہ انسان میں دوطرح کی تاریکی ہے ایک تاریکی نورسے روشن ہوتی ہے اور دوسری ” علم “ سے روشن ہوتی ہے ۔قرآن حکیم میں جہاں کتاب اور وحی کے نزول کا تذکرہ ہوتا ہے جو کہ علم ہے تو اس کے ساتھ ساتھ نور کے نزول کا بھی ذکر ہوتا ہے ۔اگر ” نور “ کی ہم عام زبان میں تشریح کریں تو یہ احساس ہے اور احساس علم ہے ،اصل چیز زاویہ نگاہ ہے جو ” علم “ ہے دراصل علم ہی نگاہ ہے ہر انسان ایک ” احساس “ ہے جب اس احساس کی روح حرکت کرتی ہے تو نگاہ یا علم بن جاتی ہے ۔داخل میں احساس ہے جو وحدت کی حیثیت رکھتا ہے جیسا
کہ ” الحق محسوس “ داخل حق ہے.
اور کثرت یا خارج، نگاہ ہے جیسا کہ فرمایا ” والخلق معقول “ انسان اولاً کسی چیز کا علم حاصل کرتا ہے ۔خواہ یہ علم اس کے احساس کا یا خودی کا ہی کیوں نہ ہو جب انسان کا علم احساس میں حرکت پیدا کرتا ہے تو براہِ راست علم کا حصول کرتا ہے اور جب کثرت اور خارج میں علم حاصل کرتا ہے تو بالواسطہ علم کا حصول کرتا ہے واسطہ پھر بھی داخل کا احساس ہی بنتا ہے کیونکہ احساس اپنی داخلی حیثیت میں ہر شئے سے واقف ہے اسی عرفان کی وجہ سے وہ خارجی طور پر حسیات سے دیکھی گئی چیز کو شناخت کرسکتا ہے ورنہ وہ کبھی بھی دیکھی گئی چیزوں کو شناخت نہ کرپاتا ۔احساس حرکت کرکے علم کو تحریک دیتا ہے اور خیال بن جاتا ہے پھر نگاہ کو حرکت دیتا ہے تو چیز نظر آنا شروع ہوجاتی ہے پھر کانوں سے جھانکتا ہے تو سننا شروع کردیتا ہے ،پھر ناک سے محسوس کرتا ہے تو سونگھ لیتا ہے ۔حتیٰ کہ وہ اس چیز کو چھو لیتا ہے ۔دراصل احساس ہی علم کے درجہ میں آکر سب حسیات کے ذریعے نگاہ بن جاتا ہے ۔احساس کی نگاہ کا نام ہی حسیات ہیں۔اور احساس حق ہے گویا حق ہی علم خیال ،نگاہ،شامہ،لامسہ اور ذائقہ بن جاتا ہے اصل چیز زاویہِ نگاہ کا حصول ہے جس طرح بھی ممکن ہو۔
دراصل حواسِ خمسہ ظاہری سے کسی چیز کے معلوم کرنے کو احساس کہتے ہیں ۔اور جو چیزیں کہ حواسِ خمسہ ظاہری سے معلوم کی جاسکتی ہیں انھیں ” محسوسات “ کہتے ہیں ۔ان حواسِ ظاہری کے مقابلے میں باطن میں حواسِ باطنی ہیں ۔جو باطنی طور پر کیفیات و معنی کا ادراک کرتے ہیں ان باطنی قوتوں ہی کی تہذیب پر کشفِ حقائق کا انحصار ہے ۔
قوت ِلامسہ : باطن میں ذوق و شوق کے مقابل ہے
قوت ِ باصرہ: باطن میں ادراک ہے
قوت ِ سامعہ: باطن میں القاءو الہام ہے اور اخذ کرنے کی صلاحیت ہے
قوت ِ ذائقہ: باطن میں محویت ہے
اس طرح ظاہری حسیات یعنی فکر و نظر سے حاصل کردہ معلومات حواسِ خمسہ ظاہری کا علم کہلاتی ہیں ۔جس سے عقل تعمیر ہوتی ہے اورحواسِ خمسہ باطنی یعنی ذوق و شوق ادراک القا و الہام اور محویت سے حاصل کردہ علم نور کہلاتا ہے جسے ” حق “ کہا جاتا ہے۔
مشاہدہ کا اصول بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم ظاہر میں اشیائے ظاہرہ کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ باطنی مشاہدہ کرتے وقت باطن میں حسیاتِ ظاہرہ کے باطن سے کام لیتے ہیں ۔اور ظاہر میں حسیاتِ ظاہر سے مشاہدہ کرتے ہیں ۔
ذوق و شوق کا باطن میں بیدار ہونا بہت ضروری ہے جو لمس کے مشابہ ہے۔
نظر ادراک کرواتی ہے۔
سماعت القا و الہام کا جو کہ انسان کو منزل بہ منزل ترقی کرواتی رہتی ہے۔
قوت ذائقہ باطنی مشاہدہ میں محویتِ تامہ کے حصول کا ذیعہ بنتی ہے ۔جب انسان آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرتا ہے تو اولاً ایک نقطہ روشن کا خیال کرتا ہے اب خواہ یہ نقطہ روشن کوئی خیالی نقطہ ہو جو نظرِ توجہ سے دیکھنے کی کوشش کررہا ہو(یعنی مبتدی یا سالک)یا کوئی فکری نقطہ جو خیال میں ترتیب دیا گیا ہو ۔جبلی اور فطری ودیعت ایک خاص قسم کے رحجان کو واضح کرتی ہےکہ انسان جبلت اور فطرت کو نورانی کرچکا ہے یا نہیں۔یہ بات ضرور قابلِ غور ہے اگر جبلت اور فطرت ہنوز ابھی حیوانیت اور ظلمت کا شکار ہے اور روشن نہیں ہوئی تو مشاہدہ بھی ازقسم ظلمات و شیطانیت پر مشتمل ہونگے اور اگر جبلت فطرتِ صحیحہ و اسلام پر آچکی ہے تومشاہدات بھی نور اور اعلیٰ علین کی قسم سے ہونگے ۔فطرت کا نورانی ہونا صرف موھبت الٰہی و صحبتِ اولیاءکرام یا محبتِ حق سے ممکن ہے ۔(التصوف ھو تصیح الخیال یعنی تصوف خیال کی درستگی کا نام ہے)
اس کے بعد باری آتی ہے تصیح علم کی اور دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے صحیح ہونے کے بعد بھی کیا جہالت دور ہوچکی ہے (یا نہیں) جہالت سے مراد دنیاوی علوم سے آراستہ ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے باطنی علم مراد ہے جب باطنی علم اور جبلت فطرتِ صحیحہ پرآجاتی ہے اور ایک میزان وضع ہوجاتی ہے تو خود بخود علوم از غیب انسان کے مشاہدہ میں آنے شروع ہوجاتے ہیں اس حالت میں وہ روح کی حرکات کو حق سے مشاہدہ کرتا ہے اور قرب و وصل کے مزے لیتا ہے ۔عالمِ غیب اس کے لیئے اس ظاہری عالم سے بھی فزوں تر ظاہر ہوتا ہے ۔ملاءِ اعلیٰ اور انبیاءکرام سے ملاقی ہوتا ہے عرش لوح کرسی اور خضر علیہ السلام اور اصحابِ تکوین کی محافل میں شامل ہوتا ہے ۔تصرف کرنا اس کے معمولات میں شامل ہوجاتا ہے ۔اس (مقصد )کے لیئے اسے کسی مادی یا روحانی ذرائع کی ضرورت نہیں ہوتی یہ تصرف کرنا اس کے لیئے ایسے ہی ہے جیسے اپنی ذات پر متصرف ہے ۔ جزو لا یتجزیٰ (Atom)کی صورت میں ذرات کائنات میں سریان (گھل مل) کرجاتا ہے ۔پھر جب شہود الٰہی سے جب اس پر شہود کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ عام انسانوں کی طرح بن جاتا ہے ۔مگر پھر بھی وہ اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اس شرف سے مشرف رہتا ہے۔
دراصل نگاہ صرف ذہن کی ایک حرکت کا نام ہےاورذہن ہی نگاہ ہے کیونکہ علم کا مرکز ظرف یا محل ذہن ہے تو یہ ذہن ہی ہے جو دیکھتا ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ذہن دیکھنے کا کام نگاہ یا نظر کے ذریعے کرتا ہے ۔اصل بات اور قانون یہی بنا کہ نگاہ دراصل ذہن ہی ہے ۔انسان کی عادت بن چکی ہے کہ وہ دن جاگ کراوررات سُو کر گزارتا ہے سونا اور جاگنا بھی ذہن کا کام ہے نظر تو صرف ذہن کی اتباع کرتی ہے جہاں کہتا ہے دیکھو اسے دیکھتا ہے اور جو نہیں دکھاتا ۔خواہ نظر دیکھ بھی رہی ہو تو نہیں دیکھ پاتی ۔طبعیت کا تقاضہ ہی یہ بن چکا ہے کہ انسان جاگتا ہے جاگنے کی حالت میں حواسِ خمسہ ظاہری یعنی بصر ، سمع، ذائقہ،لامسہ کو حرکت د ے کر ذہن اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا رہتا ہے کہیں پر تو ذہن حاضر رہتا ہے اور کہیں غیر حاضر ۔جن نقوش کو ذہن حضوری سے دیکھتا ہے حافظہ ان نقوش کو ریکارڈ کرلیتا ہے اور جن کو غیر حاضری سے دیکھتا ہے ۔حافظہ ان باتوں کو ریکارڈ نہیں کرتا ۔
ذہن کا کام دیکھنا ہے اور وہ یہ کام نگاہ کے ذریعے سرانجام دیتا ہے اگرچہ نگاہ سے ہماری مراد حواسِ خمسہ ہی ہیں کیونکہ ہر حس اپنی حدود میں ذہن کے لیئے نگاہ کا کام ہی کرتی ہے۔
ذہن جب ظاہری حواس کو بند کرلیتا ہے تو وہ دیکھتا رہتا ہے مگر یہ عرصہ بعض دفعہ ہمارا بے شعوری یا نیند میں گزر جاتا ہے اگر ہم ذہن کو حاضر رکھیں اور حواسِ خمسہ ظاہری کو بند کرتے چلے جائیںجو کہ استغراق کی مشق کے ذریعے ممکن ہے تو حواسِ خمسہ ظاہری بند ہوتے ہی حواسِ خمسہ باطنی بیدار ہوجائیں گے۔
مراقبہ کی صورت میں جس نقطہ(Point)پر آپ سوچ رہے ہونگے یا دیکھ رہے ہونگے تو بصر میں جو ادراک کی صلاحیت ہے نتیجہ اخذ کرنا شروع کردے گی۔
مراقبہ دراصل آنکھیں بند کرکے دیکھنے کا نام ہے ۔مثلاً اسم اللہ کو دیکھ رہے ہیں تواب نگاہ بصری بصیرت بن کر یعنی فکر صحیح بن کر ۔کیونکہ فکر صحیح کے بغیر اسم پر نظر کرنا ایسے ہی جیسے روح کے بغیر جسم کیونکہ نورِ طبیعت ہی نورِ علمِ صحیح کو جلا بخشتا ہے جب انسان تصوراتِ اسم اللہ کرے تو یہ دراصل اسم کی طرف توجہ ہے جب تک اسی اسم کے مسمیٰ سے متعلق اپنی فکر کے زاویے کودرست نہیں کرلیتا۔باطن اسمِ ذات کو روشن نہیں کرے گا جب اسم ذات پر توجہ جماتا ہے اور فکر صحیح کرتا ہے تونگاہِ بصیرت اخذ اور ادراک کا کام کرتی ہے لامسہ ذوق و شوق بن کر بیدار ہوجاتی ہے جب تک ذوق و شوق بیدار نہیں ہوتا ۔بےزاری کی وجہ سے مشق ادھوری رہتی ہے مشق کرتے کرتے جب انسان میں ذوق و شوق پیدا ہو تو سمجھ لے کہ اب باطن میں قوت لامسہ چھونے کی حس پیدا ہوگئی ہےاورجب ادراک اور اخذ کرنا نصیب ہو تو سمجھے کہ باطنی نگاہ پیداہورہی ہے جو اولاً ادراک ہی بن کر ظاہر ہوتی ہے پھر واردات بند آنکھوں سے ہونے لگتی ہے اور بعد ازاں یہی واردات کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے جس کو فتح یا فتحِ کبیر اور شہود کہتے ہیں جب قوتِ سامعہ بیدار ہوتی ہے تو اولاً باطنی طور پر القاءہوتا ہے یعنی اچانک دل میں کوئی بات بیٹھ جاتی ہے اور انسان کو یوں لگتا ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور پھرویسا ہی ہوجاتا ہے مثلاً اچانک ماں بیٹھے بیٹھے پریشان ہوجاتی ہے کہ بیٹے کو کچھ ہوگیا ہے اس بے چینی کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی ہوتی نہ کوئی ظاہری ذریعہ ہوتا ہے جو اسے بتا سکے بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ٹھیک اسی وقت اس کے بیٹے کو حادثہ پیش آگیا ہوتا ہے تو یہ القا ہے جو بالآخر الہام بن جاتا ہے جو ایک کیفیت ہے جس کو اہلِ معاملہ ہی بہتر جانتا ہے یہ دراصل قوتِ سمع کی بیداری ہے ۔جب انسان باطن میں نگاہ کو کسی زاویہ پر مرتکز کرتا ہے تو جب تک محویت حاصل نہ ہوجائے تو کچھ نہیں ہوسکتا ۔محویت دراصل قوتِ ذائقہ کا باطن ہے جب انسان کی قوتِ ذائقہ باطن میں بیدار ہوتی ہے تو محویت پیدا ہوجاتی ہے جو استغراق ہے بلکہ استغراق کی اصل ہے ۔انسان یہ کام زیادہ سے زیادہ جاگنے کا اہتمام کرکے کرسکتا ہے۔ کم سونا ،کم بولنااور کم کھانا اور بہت کم لوگوں سے ملنا بہت ضروری ہے(قلت طعام،قلت کلام اور قلت منام) ۔ریاضت کے دوران ارادی حرکاتِ جسم کو بھی معطل کرنا بہت ضروری ہے۔
نقطہِ سیاہ​
آگے چل کر آنکھ کی تشریح کے سلسلہ میں آپ مطالعہ کرسکیں گے کہ عصب بصری کے ریشے خود براہِ راست روشنی سے متاثر نہیں ہوسکتے اسی وجہ سے جس مقام پر وہ آنکھ سے داخل ہوتا ہے وہ بالکل اعمیٰ اور سیاہ ہے ۔کیونکہ اس جگہ عصبی ریشے کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی ۔شبکیہ کی اور تہیں اس مقام کے ارد گرد سے شروع ہوتی ہیں ۔اس نقطہ کا ثابت کرنا کچھ دشوارنہیں داہنی (راست)آنکھ بند کرکے بائیں(چپ) سے گول سیاہ نقطہ کو دیکھیں اور اس کاغذ کو جس پر سیاہ بڑا گول نقطہ ہو اس کو حرکت دیں دائیں سے بائیں طرف نگاہ جما کر رکھیں ایک فٹ کی دوری پر یہ نقطہ موجود ہو کچھ دیر بعد یہ معلوم ہوگا کہ سیاہ ٹکیہ غائب ہوگئی ہے لیکن جب صفحہ جس پر یہ نشان نقطہ سیاہ ہے قریب یا دور ہوتا ہے تو نظر آنا شروع ہوجاتا ہے جب یہ نقطہ عصبِ بصری کے محاذی قائم ہوتا ہے تو اندھیرا ختم ہوجاتا ہے کیونکہ ایک نقطہ سیاہ اندرعصبِ بصری کے مقابل بھی واقع ہے ۔نقطہِ اعمیٰ کے باہر شبیہہ کی حیثیت مختلف مقامات پر مختلف ہوتی ہے اور قعرِ چشم (آنکھ کے اندر گہرائی)پر سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
قعرِ چشم ایک چھوٹا سا گڑھا ہے جو عصبِ بصری کے مدخل کے باہر واقع ہے اس کے گرد شفاف عصبی ریشے ہوتے ہیں جو اس پر گزر نہیں جاتے بلکہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں قعر پر اور طبقات بھی نہیں ہوتے ۔بلکہ اس میںصرف اسطوائے اور مخروط ہی کل شبکیہ کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے حوالی میں شبکیہ کی حسیت(Sensitivity) بتدریج کم ہوتی جاتی ہے جہاں نہ تو شکلوں اور رنگوں کا پوری طرح سے احساس ہوتا ہے اور نہ تعدادِ اراتسامات کی اچھی طرح سے تمیز ہوتی ہے بالعموم دونوں آنکھوں کے ڈھیلے ادھر اُدھر گھومتے رہتے ہیں ۔مقصود اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو شئے توجہ کو اپنی طرف منعطف کرے اس کے دونوں شبیہہ قعرین پر پڑ جائیں گے کہ قعرین پر نظر سب سے زیادہ تیز ہوتی ہے یہ غیر ارادی طور پر ہوتا ہے جس کا ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جس وقت حوالی قعر کی کوئی شئے توجہ کو اپنی طرف منعطف کرتی ہے اس وقت آنکھوں کی اس کی طرف پھیرنے سے محترز رہنا ناممکن ہوتا ہے آنکھوں کا پھرانا ہی ڈھیلوں کی گردش و حرکت کا دوسرا نام ہے جس سے قعر پر اس شئے کا عکس پڑ جاتا ہے ۔
اب قانونِ ریاضی کو ملحوظ رکھیں ۔مشاہدہ میں دراصل نگاہ باہر روشن عالم کی بجائے اندر سیاہ عالم میں دیکھنے کا عمل سرانجام دیتی ہے لِہٰذا اس میںنقطہِ اعمیٰ یعنی نقطہِ سیاہ اہم کردار ہے ۔نگاہ کے مختلف زاویے بنتے ہیں اب ہم ان زاویوں کی تشریح کرتے ہیں۔
دراصل انسان کی دونوں آنکھوں کے دیکھنے کا انداز یکساں نہیں ہے دائیں آنکھ نور کو جذب کرتی ہے اور بائیں آنکھ ظلمت کا تاثر قبول کرتی ہے ۔اشیائے کونیات اپنی ذات میں نور اور ظلمت لیئے ہوئے ہیں یہ نور اور ظلمت اس نور اور ظلمت سے الگ ہے جو آنکھوں کو اندھیرے اور روشنی کی صورت میں نظر آتا ہے دراصل تفہیم کے لیئے نظر جب اندر حرکت کرتی ہے تو اس کا قانون ظاہری نور وظلمت سے ہٹ کر باطنی نور اور ظلمت میں قانون وضع کرتی ہے۔اسی قانون کو سمجھنے پر مشاہدہ کا دارو مدار ہے اب
قانون یہ ہوا:
۱۔ نور X ظلمت = ظلمت
۲۔ ظلمت X نور = ظلمت
۳۔ ظلمت X ظلمت= نور
۴۔ نور X نور = نور
اول ظلمت غالب نور مغلوب یہ عوام الناس کی مثال ہے جس میں نظرِ ظلمت اخذ اور وصول زیادہ ظلمت اور نور کم ہے ۔
دوئم نور زیادہ ظلمت کم ہے یہ نیک لوگ ہیں طالبِ آخرت اور جنت کے امیدوار۔
سوئم صوفیاءکرام ہیں جنہوں نے اپنی ظلمت کو ظلمتِ باطنی سے ملا کر باطن میں ظلمت کو ختم کیا اوراسفل السافلین سے اعلیٰ علین تک پہنچے۔
چہارم نور سے نور تک انبیاءکرام کا مقام ہے جو ازل سے نور تھے اور اس دنیامیں آکر اس نور کو پایا۔
دراصل انسان کے نفس میں نورِ لامحدود ہے جس نے کائنات کی موجودات کا احاطہ کر رکھا ہے اسی لیئے فرمایا سَخَر لکم ما فی السموات و مافی الارض جمیع منہ(تسخیر کردیا تمہارے لیئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اور جو کچھ من اللہ تعالیٰ ہے )۔
یہاں نفسِ انسانی ہی کی طرف تسخیر کا حوالہ ہے اس لیئے کہ نفس کی روشنیوں نے ہر شئے کا احاطہ اور سریان سے تحقق حاصل کیا ہے اور تسخیر کیا ہے ۔
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا )حسیات میں لطیف ترین حِس بصارت ہے جو ادراک بن کر تصویری اور معنوی خدوخال کا احاطہ کرتی ہے اورپھرکنہ تک پہنچ جاتی ہے ۔ہر شئے تہہ در تہہ کچھ وجود رکھتی ہے خواہ یہ شئے اعتقاد سے وابستہ ہو یا موجود ات سے مثلاً قرآن ،کلمہ،کعبہ،نماز اور روزہ وغیرہ یا انسان ،حیوان ،نباتات وجمادات وغیرہ ۔
مثلاً لفظ اللہ ایک وجودِ خارجی لفظی رکھتا ہے جو چار یا پانچ حرفی مرکب ہے ۔ہماری وابستگی اس اسم سے فقط اسی قدر ہے کہ یہ ایک متبرک اسم ہے قرآن نے اسے اُس ذات کے لیئے بیان فرمایا ہے جو
خالق و مالک ہے قادر ہے اور ربِّ کائنات والانسان ہے۔
اب اسی لفظ کی تہہ اور گہرائی میں جو معنی کارفرما ہیں وہ ایک خیال ہے ۔جس کو ہم جتنا بھی واضح کریں گے وہ اس خیال کا ظاہری روپ ہوگا مگر اس کے باوجود خیال میں کچھ نہ کچھ ایسے پہلو ہونگے جو پوشیدہ ہونگے اور ذہن پر اُن کے نقوش واضح نہ ہوئے ہونگے ۔جو نقوش واضح ہوتے چلے جائیں گے وہ نظرِ ادراک میں موجود ہوتے رہیں گے اور جو نظرِ ادراک سے دور خیال ابھی اندھیرے میں ہے اس کو وہم کہیں گے جو موجود تو ہے مگر اس کے خدوخال ابھی ذہن اور خیال کے
دائرے میں داخل نہیں ہوئے گویا وہ موہوم ہے ،مدہم ہے ابھی واضح نہیں ہوا۔
اک موہوم تمنا کے سہارے نکلے
رات آئی تو ترے ہجر کے مارے نکلے
اب لفظ اللہ یا تو تصور میں قائم رہے گا یا اپنے اندر کی گہرائی اور معنویت یعنی خیال میں محکم ہوگا یا پھر اپنی وراءالوراءثم وراءالوراءکی کیفیت یعنی وہم میں اسی طرح کلمہ قرآن ،نماز اور انسان خود اپنی معنویت کو دیکھے اب انسان خود بھی ایک عجیب تصوراتی شاہکار ہے انسان خود کے متعلق ہر جانبداری کے تصور کو ہٹا کر غور کرے تو ایک عجیب و غریب شاہکار ہے اس کے متعلق خیال اور وہم میں عجیب عجیب اسرار و رموز ہیں۔ایک انسان اس انسان کو بندر کی ترقی یافتہ شکل کہتا ہے تودوسرا انسان اسے حق کہتا ہے ۔ایک ہی چیز کے متعلق سمجھنے میں اتنا فرق ۔پس اسی سے اندازہ کریں کہ انسان کتنا محیر العقول ہے اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیئے ہمارے پاس دو طریقے ہیں ایک بحیثیت جانب دار مثلاً ہم یہ کہیں کہ ہم نے پالیا جس کو ہم پہلے نہیں جانتے تھے اسے ہم نے پالیا یا ہم نے اسے پالیا جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ کے نام سے کیا گیا ہے ہم اسے پہلے نہیںجانتے تھے ۔ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک ہے، جو ہر شئے پر قادر ہے وہ بتوں اور مظاہر میں نہیں ہے بلکہ وہ عرش پر قائم ہے۔ ہم نے اسے پالیا کہ کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا مگر اس کے باوجود وہ ہمارے پاس ہے قریب ہے ہم اس کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دن رات مدد کے طلبگار ہیں ۔وہ ہمارا اول ہے آخر ہے ظاہر ہے باطن ہے ہم جہاں کہیں ہوتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہوتا ہے(وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم) ہمارے اندر باہر اول آخر وہی وہ ہے اور دوسرا کوئی نہیں ہے ۔
جب ہم لفظ اللہ کو تصور یا خیال میں حاضر فی الذہن کرتے ہیں اور ذہن ،فکر اور ارادہ کو باربار اس لفظ کی معنوی حیثیت کی طرف راغب کرتے ہیں اور جانب دار بنتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں بحر و بر ،شجر و حجر ،زمین و آسمان ،نباتات و جمادات و انسان میں اور خود تیری ذات و صفات تیرا ہی رنگ جھلکتا ہے تیرا ہی ظہور ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ تو اللہ ہے۔
 
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ھمعات میں فرماتے ہیں !
بات یہ ہے کہ نوعِ انسانی میں بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر وجود کا حکم زیادہ موثر ہوتا ہے ۔یعنی ان کی طبیعت کا اقتضاءفطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کائنات کی تمام اشیاءکو اصلِ وجود میں فنا میں ہوتے دیکھتے ہیں کُلُّ مَن عَلَیھَا فَانٍ وَّیَبقٰی وَجہُ رَبِّکَ ذولجلال ولاکرام۔الرحمٰن۔27.26۔وہ ہر چیز کو اسی وجود میں جاری و ساری ہوتے دیکھتے ہیں اور وہ محسوس بھی کرتے ہیں کہ دنیا میں جو چیز موجود ہے اس کے موجود ہونے کا تمام تر انحصار اسی وجود پر ہے ۔الغرض یہ لوگ مقامِ وجود پر فائز ہوتے ہیں چنانچہ جو کچھ وہ بولتے ہیں اسی مقام سے بولتے ہیں اور جو کچھ سمجھتے ہیں اسی مقام سے
سمجھتے ہیں ۔
ایک توحید علمی ہے جو باتیں سن کر اور وحدت الوجود کے علمی لوگوں میں بیٹھ کر حاصل ہوتی ہے اس سے سوفسطائیت(وہم ) اور تساہل ،سُستِی،غفلت) اور فضولیت و دلیل بازی بیدار ہوتی ہے ۔
دوسری توحید حالی ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں باقی رہا توحید حالی کا معاملہ۔ سو توتوحید حالی تو ایک بہت بڑا کمال ہے کہ زبان اس کے مطالب کو ادا کرنے سے قاصر ہے۔
اب دوسری حیثیت اسم ” اللہ “ کے اندر تحقق کی بحیثیت غیر جانبدارانہ کوشش ہے کہ اسم اللہ کے پیچھے خیال اور فکر کو معنوی اعتبار سے وہم میں شاہد حِس کے ساتھ ایسی حیثیت کو موجود پایا جائے کہ جس کے بارے میں اولاً میں قلندر بابا اولیاءرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اقتباسات پیش کروں گا ۔باباجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں الف انوارِ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے ایسی صفت جس کا تجزیہ ہم ذاتِ انسانیہ میں کر سکتے ہیں ۔یہی صفت انسان کا لاشعور ہے عمومی طرزوں میں لاشعور اعمال کی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کا علم عقلِ انسانی کو نہیں ہوتا اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غور و فکر سے مائل ہوجائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتے ہیں یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویت اور مفہوم ہمارے ذہن میں حرف ” لا “ کی ہوتی ۔یعنی ہم اس کو صرف نفی تصور کرتے ہیں ۔
ہر ابتداءکا قانون لوحِ محفوظ کی عبارتوں میں ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جب ابتداءکی معنویت سے بحث کرتے ہیں یا اپنے ذہنی مفہوم میں کسی چیز کی ابتداءکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت ہمارے تصور کی گہرائیوں میں صرف ” لا “ کا مفہوم ہوتا ہے ۔یعنی ہم ابتداءکے پہلے مرحلے میں صرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں ۔حالانکہ عقل کی عام قدروں نے اس معنی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔
لیکن لوحِ محفوظ کا قانون ہمیں اس حقیقت کو پوری طرح سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔اس لا کا تجزیہ کیئے بغیر ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ہر وہ حقیقت جس سے ہم کسی بھی طور چاہے توہماتی طور پر یا خیالاتی طرز پر یا تصوراتی طرز پر آشنا ہیں عالم مثال میں ایک مقام رکھتی ہے خواہ وہ ہستی ” لا “ نفی یا اثبات ہو۔جب ہم لوحِ محفوظ کی طرزوں کو سمجھ چکے ہوتے ہیں تو کسی حقیقت کو خواہ وہ نفی ہو یا اثبات ہو ایک ہی تصور کی روشنی میں دیکھیں گے ۔جب ہم اثبات کو ” ہے “ کہتے ہیں یعنی اس کو ایک ہستی سمجھتے ہیں تو نفی کو ” نہیں ہے “ کہتے ہیں یعنی اس کو بھی ایسی ہستی قرار دیتے ہیں جس کے ہونے کاعلم ہمیں حاصل نہیں گویا ہم لاعلمی کا نام نفی رکھتے ہیں اور علم کا نام اثبات ۔جس کا نام ہم علم یا اثبات رکھتے ہیں وہ بغیر اس کے کہ ہم لاعلمی سے واقفیت رکھتے ہوں ہماری شناخت میں نہیں آسکتا۔باالفاظ دیگر پہلے ہم نے لاعلمی کو پہچانا پھر علم کو ۔جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہوگی خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو بہرصورت معرفت ہے اور ہرمعرفت، لوحِِ محفوظ کے قانون میں ایک حقیقت ہوا کرتی ہے ۔پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لاعلمی کی معرفت کا نام بھی علم ہی رکھیں ۔
اہلِ تصوف لاعلمی کی معرفت کو علمِ ” لا “ اور علم کی معرفت کو علمِ ” اِلَّا “ کہتے ہیں ۔یہ دونوں معرفتیں الف کے انوار کی دو تجلیاں ہیں ایک تجلیِ ” لا “ دوسری تجلیِ ” اِلَّا “ ۔
جب کوئی فرد اپنے ذہن میں ان دونوں حقیقتوں کو محفوظ کرلے تو اُس کے لیئے شہود کے اجزاءکو سمجھنا آسان ہے چنانچہ ہر شہود کے یہی دو اجزاءہیں ۔جن میں سے پہلا جُز یعنی علمِ ” لا “ کو لاشعور کہتے ہیں ۔جب کوئی طالبِ روحانیت لاشعور یعنی علمِ ” لا “ سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اسے خارجی دنیا کے تمام توہمات ،تصورات و خیالات کو بھول جانا پڑتا ہے اس کو اپنی ذات یعنی ذہن کی داخلی گہرائیوں میں فکر کرنی چاہیئے ۔یہ فکر ایک ایسی حرکت ہے جس کو ہم کسی فکر کی شکل و صورت میں محدود نہیں کرسکتے ہیں ۔ ہم اس فکر کو فکرِ ” لا “ کہتے ہیں یعنی ہمارے ذہن میں تھوڑی دیر کے لیئے یا زیادہ دیر کے لیئے ایسی حالت وارد ہوجائے جس میں ہر زاویہ لاعلمی کا ہو اس فکر ِ ” لا “ کو ہم عمل استرخاءکے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں ۔عملِ استرخاءکے تواتر سے ذہن کے اندرونی دائرے ہر فکر سے خالی ہوجاتے ہیں ۔(آنکھ کو ایک نقطے پر عمل کرنے کے شغل کو عمل استرخاءکہتے ہیں)
گویا اس وقت ذہن فکرِ لا میں مستغرق ہوجاتا ہے ۔اس استغراق میں لاشعور کا شہود حاصل ہوجاتا ہے
” لا “ کے انوار ” الم “ کے انورا کا جزو ہے ۔’ الم “ کے انوار کو سمجھنے کے لیئے ” لا “ کے انوار کا تعین اور ان کی تحلیل ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔(اگر اس کو پسند کیا گیا اور کسی نے فرمائش کی تو حروف مقطعات پر بھی تحریر پیش کی جاسکتی ہے)
” لا “ کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہے ۔ ” لا “ کے انوار سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے ۔یہی وہ نقطہِ اول ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے ۔یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس کو بعض لوگ فنائیتِ الٰہی بھی کہتے ہیں جب تک کسی سالک کے ذہن میں ” لا “ کے انوار کی پوری وسعتیں پیدا نہ ہوجائیں ۔وہ اس وقت تک ” لا “ کے مفہوم یا معرفت سے روشناس نہیں ہوسکتا ۔
کوئی سالک ابتداءمیں ” لا “ کے انوار کو اپنے ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے ۔یہ احساس شعور کی حدوں سے بہت دور اور بعید تر رہتا ہے ۔اسی لیئے اس احساس کو شعور سے بالاتر یا ” لاشعور “ کہہ سکتے ہیں۔
جب تصور میرا چپکے سے تجھے چھو آئے
اپنی ہر سانس میں مجھ کو تیری خوشبو آئے
لیکن فکر کی پرواز اس کو چھو لیتی ہے وہ حالت جو عام طور پر اللہ تعالیٰ کی محبت کا استغراق پیدا کرتی ہے سالک کے ذہن میں اس فکر کو تخلیق کرتی ہے اور تربیت دیتی ہے ۔تفہیم کے اسباق میں پہلا سبق جو جاگنے کا عمل ہے اوریہ عمل استغراق کے حصول میں بڑی حد تک معاون ہوتا ہے ۔
جب اس سبق کے ذریعے صوفی کا ذہن استغراق کے نقش و نگار کی ابتداءکرچکتا ہے اور اس کے اندر قدرے قوتِ القاءپیدا ہوجاتی ہے تو تفکر کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں۔ پھر استرخاءکے ذریعے اس فکر میں حرکت آب و تاب اور توانائی آنے لگتی ہے ۔
جب یہ نشونما پاچکتی ہے اس وقت ” لا “ کے انوار، ورود میں نگاہِ باطن کے سامنے آنے لگتے ہیں پھر ان انوار کا ورود اس فکر کو اور زیادہ لطیف بنادیتا ہے ۔جس سے لایعنی شہود نفسی کی بنا (Base)قائم ہوجاتی ہے اس ہی لایعنی شہود(مشہود) کے ذہن میں خضر علیہ السلام ،اولیائے تکوین اور ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے۔اور ان سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے اس ہی لا، شہود نفسی کی ایک صلاحیت، خضر علیہ السلام اولیائے تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے رفتہ رفتہ سوال و جواب کی نوبت آجاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے ہیں۔
لاکے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔مناسب ہے کہ کوئی روئیں دارتولیہ رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جاتا ہے ۔جس کا رواں لمبا،نرم اورموٹا ہونا چاہیئے۔بندش میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آنکھوں کے پپوٹے تولیہ یا کپڑے کی گرفت میں آجائیں یہ گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہیئے اور نہ اتنی سخت کہ آنکھیں درد محسوس کرنے لگیں ۔مقصد یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے تھوڑا سا دباومحسوس کرتے رہیں ۔ مناسب دباو سے آنکھوں کے ڈھیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطل ہوجاتی ہے اس تعطل کی حالت میں جب نگاہ سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ کی باطنی قوتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی کہہ سکتے ہیں حرکت میں آجاتی ہے ۔مراقبہ کی حالت میں باطنی نگاہ سے کام لینا ہی مقصود ہوتا ہے ۔یہ مقصد اس ہی طرح پوار ہوسکتا ہے ۔آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے زیادہ معطل رکھا جائے ۔آنکھ کے ڈیلوں کے تعطل میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر باطنی نگاہ کی حرکت بڑھتی جائے گی۔دراصل یہی حرکت روح کی روشنی میں دیکھنے کامیلان پیداکرتی ہے۔ آنکھوں کے ڈیلوں میں تعطل ہوجانے سے لطیفہِ نفسی میں اشکال ہونے لگتا ہے ۔اور یہ اشغال باطنی نگاہ کی حرکت کے ساتھ تیز تر ہوتا جاتا ہے ۔جو شہودمیں معاون ثابت ہوتا ہے ۔
مثال : انسان کے جسم کی ساخت پر غور کرنے سے اس کی حرکتوں کے نتائج اور قانون کا اندازہ ہوسکتا ہے۔بیداری میں آنکھوں کے ڈیلوں پر جلدی غلاف متحرک رہتاہے جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے تو ڈیلوں پر ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ایک لمحے کے لیئے روشنیوں سے منقطع کردیتا ہے ۔غلاف کی اس حرکت کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خارجی چیزیں جس قدر ہیں آنکھ ان سے تدریجاً مطلع ہوتی ہیں اورجس جس طرح مطلع ہوتی جاتی ہے ۔ذہن کو بھی اطلاع پہنچاتی رہتی ہے ۔اصول یہ بنا کہ مادی اشیاءکا احساس ہلکی ضرب کے بعد روشنیوں سے انقطاع چاہتا ہے ۔اس اثنا میں وہ ذہن کو بتا دیتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا ہے۔
جب چیزوں کو ہم مادی خدوخال میں محسوس کرتے ہیں توان چیزوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لیئے آنکھوں کے مادی ڈیلے اور غلاف کی حرکات ضروری ہیں اگر ہم ان ہی چیزوں کی معنوی شکل وصورت کا احساس بیدار کرنا چاہیں تو اس عمل کے برخلاف اہتمام کرنا پڑے گا ۔اس صورت میں آنکھ کو بند کرکے آنکھ کے ڈیلوں کو معطل اور غیر متحرک کردینا ضروری ہے۔مادی اشیاءکا احساس مادی آنکھ میں نگاہ کے ذریعے واقع ہوتا ہے اور جس نگاہ کے ذریعے مادی احساس کا یہ عمل وقوع میں آتا ہے وہی نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل و صورت دیکھنے میں بھی استعمال ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ نگاہ مادی حرکات میں اور روحانی حرکات میں ایک مشترک آلہ ہے دیکھنے کا کا م بہر صورت نگاہ ہی سرانجام دیتی ہے ۔جب ہم آنکھ کے مادی وسائل کو معطل کردیں گے اور نگاہ کو متوجہ رکھیں گے تو لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے قوتِ القاءاپنا کام انجام دینے پر مجبور ہے پھر نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل و صورت کو لازمی دیکھے گی۔اس لیئے کہ جب تک نگاہ دیکھنے کا کام انجام نہ دیدے قوتِ القاءکے فرائض پورے نہیں ہوتے اس طرح جب ہم کسی معنوی شکل و صورت کو دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔
اہلِ تصوف نے اس ہی قسم کے دیکھنے کی مشق کا نام مراقبہ رکھا ہے ۔یہاں ایک اور ضمنی قانون بھی زیرِ بحث آتا ہے جس طرح لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے مادی اورروحانی دونوں مشاہدات میں نگاہ کا کام مشترک ہے اس ہی طرح مادی اور روحانی دونوں صورتوں میں ارادے کا کام بھی مشترک ہے۔
جب ہم آنکھ کھول کر کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی حرکت ارادہ کرتا ہے یعنی پہلے قوتِ ارادی میں حرکت پیدا ہوتی ہے ۔اس حرکت سے نگاہ اس قابل ہوجاتی ہے کہ خارجی اطلاعات کو محسوس کرسکے۔اسی طرح جب تک قوتِ ارادی میں حرکت نہ ہو نگاہ معنوی شکل و صورت کی اطلاعات فراہم نہیں کرسکتی ۔اگر کوئی شخص عادتاً نگاہ کو معنوی شکل وصورت کے دیکھنے میں استعمال کرنا چاہے تو اسے پہلے ارادہ کی حرکت کو معمول بنانا پڑے گا ۔یعنی جب مراقبہ کرنے والاآنکھیں بند کرتا ہے تو سب سے پہلے ارادے میں تعطل واقع ہوتا ہے ۔اس تعطل کو حرکت میں تبدیل کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے ۔یہ بات مسلسل مشق سے حاصل ہوسکتی ہے ۔جب آنکھ بند کرنے کے باوجود ارادے میں اضمحلال پیدا نہ ہو اور ارادے کی حرکت متوسط قوت سے جاری رہے تو نگاہ کومعنوی شکل و صورت دیکھنے میں تساہل نہ ہوگا اور مخفی حرکات کی اطلاعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔جب مراقبہ کی مشق مکمل ہوچکے گی تو اسے آنکھیں کھول کر دیکھنے میں یا آنکھیں بند کرکے دیکھنے میں کوئی فرق محسوس نہ ہوگا ۔لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے قوتِ القاءجس طرح مادی اثرات پیدا کرنے کی پابند ہے اسی طرح معنوی خدوخال کے تخلیق کی بھی ذمہ دار ہے جتنا کام کسی شخص کی قوتِ القاءمادی قدروں میں کرتی ہے اتنا ہی کام روحانی قدروں میں انجام دیتی ہے ۔دو آدمیوں کے کام کی مقدار کا فرق ان کی قوتِ القاءکے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
اب آنکھ کی ہم کچھ مزید تشریح کرتے ہیں ۔آنکھ کی شکل کچھ چپٹے سے کرہ کی ہے ۔اس پر سفید رنگ کا ایک سخت پردہ ہوتا ہے ۔جس کو صلبیہ کہتے ہیں
اس کرہ کے اندر ایک عصبی سطح اور بعض انعطافی واسطے ہوتے ہیں اس سطح کے عدسہ اوران واسطوں کو رطوبات کہتے ہیں ان کے ذریعے سے خارجی عالم کی تصویر آنکھ میں بنتی ہے ۔آنکھ کی حالت ایک چھوٹے سے آلہ عکس یا کیمرہ کی سی ہے ۔جس کا اہم ترین حصہ حساس پردہ ہوتا ہے آنکھ میں اس حساس پردہ کو شبکیہ کہتے ہیں ۔عصبِ بصری طبقہِ صلبیہ میں گھس کر اس کے اندر کی طرف اپنے ریشے ہر سمت پھیلادیتا ہے ۔اس سے باریک و شفاف جھلی بن جاتی ہے ۔یہ ریشے مختلف پیچیدہ واسطوں سے گزر کر جن اسطوانوں اور مخروطوں پر ختم ہوتے ہیں یہ روشنی کی مواج کو قبول کرنے کے مخصوص آلات ہیں ۔ان اختتامی آلات میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ان کا رخ سامنے پتلی کی طرف نہیں ہوتا بلکہ طبقہِ صلبیہ کی طرف ہوتا ہے ۔
نقطہِ اعمیٰ اور قعر کا بیان ہم پیچھےکرچکے ہیں ۔
نظر کے دیکھنے میں مختلف زاویے استعمال ہوتے ہیں ۔مثلاً مطابقت (مطابقت و قرب و بعد) ضیائی حسوں کی مدت ،ظلمت و روشنی،روشن اشیاءکی شدت ،منفی تمثالات مابعد۔دراصل مشاہدہ ایک باطنی نظر ہے اور باطنی نظر کے قوانین ظاہری نظر ہی کے قوانین سے اخذ ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بہت ہی خاص محفل میں جب ہم نے اپنا یہ مقالہ پڑھا تو تو محفل میں موجود ایک شخص نے یہ سوال پوچھا
سوال: اشغال میں حواسِ خمسہ ظاہری کی تہذیب کی جاتی ہے اور مراقبات میں حواسِ خمسہ باطنی کی تہذیب کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ مراقبہ اور اشغال میں کیا فرق ہے؟
جواب: اشغال ،حواس کو مجتمع کرنے کا نام ہے یعنی جیسے صوتِ سرمدی وغیرہ
اور مراقبہ کہتے ہیں خیال اور خواہش کو یکجا کرنا ۔یعنی طبیعت میں اتنا گداز پیدا ہوجائے کہ ہر بندہ کی خواہش سالک کو اپنی خواہش لگے۔اور ہر بندے کا غم یا خوشی سالک کو اپنی خوشی یا غم لگے ۔یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے ۔
صوفیاءکرام کی روحانی تبلیغ کا مقصد تھا لوگوں کو صاحبِ رسیدُ یافت بنانا اور مکمل نفسِ مطمنہ حاصل کرنا یہ غالباً صلحِ کل کے بغیر دشوار و ناممکن ہے سب سے بڑا سکھ اور راحت اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب تعصب اور حسد سے پاک دل مل جائے بغض و کینہ نام کو نہ رہے سب کو ایک نظر سے دیکھے چھوٹی چھوٹی باتوں سے کافر اور ملحد کے القابات سے ایک دوسرے کو نہ نوازے
حافظا ! گر وصل خواہی، صلح کن بہ خاص و عام
بہ مسلماں اللّٰہ اللّٰہ ، بہ برہمن رام رام (حافظ شیرازی)
اور یہ خصوصیات ایک صوفی کمال مشقتوں کے بعد اور صحبت کی تاثیر سے طالب میں پید کرسکتا ہے یہ تصوف اور روحانیت کیا ہے اس پر تھوڑاسا لکھنا ضروری ہے یہ علمی نقطہِ نظر سے انسانی نفس کی ایک خاص امنگ یا ہیجان ہے یہ ایک خاص حالت ہے جسے حال کہا جاتا ہے یہ قال نہیںہے
قال رابہ گزار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملِ پامال شو
یہ امنگ یا ھیجان یا دوسرے لفظوں میں حال، کسی مرشدِ روحانی کے زیرِ سایہ رہنے سے یا خود جب اپنی ہستی پر غورو فکر کرتا ہے تو ایک خاص نتیجے پر پہنچتا ہے جو ایک خاص ہیجان پیدا کرتا ہے جسے حال کہا جا تا ہے یا نسبت کے ناموں سے تعبیر کیا جا تا ہے اس امنگ یا ھیجان یا حال کا باعث القا ،الہام اور کشف ہوتے ہیں جو اس امنگ یا ھیجان کو وجد و جذب اور قرب کی کیفیات میں ڈھال کرایک نسبتِ ربطِ قربِ الہٰی پیدا کردیتے ہیںاوریہ نسبت یا تو عشق و قرب و محبت کا جذبہ بیدار کرتی ہے یا پھر جذب و مستی، وحدت الوجود یا وجد و سکینہ یا یاداشت کی حالت کو نفس میں پیوست کردیتی ہے اس نسبت اور کیفیت خاص کی وجہ سے نفس میں چھپی ہوئی قوتیں فعال و بیدار ہوکر اس سالک یا صوفی کے کاموں میںاور اس اسکے پاس آنے والوں کے کاموں میں معاون اور مددگار ہوتی ہیں اور اس سالکِ راہِ مستقیم کی فلاح و بہبود میں کوشاں ہوجاتی ہیں اور انسان اسی مادی دنیا میں بہشت اور اطمینانِ کامل سے لذت یاب ہوکر برد لاعیش فی الدنیا والآخرکا مزہ چکھ لیتا ہے حقانیت کا مشاہدہ تصوف ہی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس کے احساس وادراک کو” حقیقت“ کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس مشاہدہ کی لذت فردوس کی ہر بڑی سے بڑی لذت سے بھی اعلیٰ ہوتی ہے۔
غور و غوص یا صحبتِ مرشد سے امنگ یا ہیجان پیدا ہوتا ہے نفس کی امنگ کی ہر حالت کو جسکو انگریزی میں Attitudeکہتے ہیں اسکے کم وبیش 3 پہلو ہوتے چونکہ تصوف کا تعلق نفس سے ہے اس لیئے یہاں کسی قدر وضاحت کی ضرورت ہے کہ نفس کس کو کہتے ہیں انسان جسکو ” میں“ کہتا ہے اور جسکو ” تُو “ اور ” وہ“ ہے الگ سمجھتا ہے اسکو اصطلاحاً ” ایغو“ کہتے ہیں جسکو ہر شخص عام زبان میں میرا نفس ، میرا دل کہتا ہے ۔
۱۔ کسی چیز کو اپنے لیئے حاصل کرنے کی کوشش مثلاً کو ئی غذا اپنے لیئے کسی نہ کسی ترکیب سے پیدا کرنے کی سعی میرے ایغو کا خاصہ ہے جسکو اصطلاحاً ” ھیجہ“ کہتے ہیں
۲۔ کیا چیز مجھے کیسے مل سکتی ہے اس کا جاننا اور پہچاننا مثلاً سیب کیا ہے اور کیوں مل سکتاہے اس کا علم میرے ایغو کا لوازمہ ہے جسکو اصطلاحاً ” وجدہ“ کہتے ہیں ۔
۳۔ کسی چیز کے احساس سے میرے جسم کے اندرونی حالات میں تبدیلی واقع ہونا مثلاً خوش نما آم کو دیکھ کر منہ میں پانی بھر آنا جو ایک قسم کا جذبہ ہے وہ میرے ایغو کی قوت ہے جسکو اصطلاحاً ”جذبہ“
کہتے ہیں ۔
پس3 چیزیں سعی ، علم، جذبہ یا اصطلاحاً ھیجہ، وجدہ، جذبہ ایغو کے 3 پہلو ہیں جو میری خواہش یا شغف میں جمع رہتے ہیں۔
وجد۔ جذبہ ،ھیجہ یہ تینوں کیفیات مختلف انسانوں پر مختلف اوقات میں طاری رہتی ہیں چونکہ طبائع انسانی مختلف ہیں ہر ایک کی طبیعت کے مطابق اسکی ایک روحانی مسرت اور اورا منگ ہوگی کسی کی طبیعت میں جذبہ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ وجدہ و ھیجہ کو دبا رکھتا ہے اور کسی کے نفس میں ھیجہ ”ہیجان“ اس قدر شدت سے ہوتا ہے کہ اسکے مقابل نسبتاً وجدہ و جذبہ قلیل ہوتا ہے۔
زیرِ نظرموضوع میں صوفیاءکے وجد اور جذب کے احوال و نسبتوں سے قطع نظر سالکین کے ہیجانِ نفس کو پیشِ نظر رکھیں گے غرض تصوف نفسِ انسان کی ایک امنگ اور تہیج (ابھرنا، مشتعل، برانگیختہ) کی حالت کا نام ہے جو تصوف کا نتیجہ یا ما حاصل ہے اور تصوف یہی ہے
کہ کوئی شخص Individualجو اپنے آپ کو لفظ ” میں “ سے منسوب کرلیتا ہے ۔
ا۔ میں کیا اور کون ہوں ؟چہ؟
ب۔ میں کیوں یہاں آیا ہوں؟ چوں؟
ج۔ میں کس لیئے یہاں ہوں ؟ چرا؟
اگر ان تینوں سوالوں کے جوابات اسکی تسلی و تشفی کے مطابق اسکو مل جائیں اور اسکو اس پر یقین آجائے تو وہ صوفی ہو جاتا ہے اس وقت اسکے نفس میں جو خاص ہیجان یا تہیج پیدا ہوتا ہے وہی اسکے غور کا نتیجہ یا ماحاصل ہوتا ہے جسے تصوف یا روحانیت کہتے ہیں اس تصوف کا اثر جو اسکے اطوار و اقوال و افعال پر پڑے گا وہی اسکا سلوک ہوگا اگرچہ ہر شخص کا تصوف ایک ہی وضع کا ہوتا ہے لیکن کہا نہیں جاسکتا ہے کہ اس تصوف کا لازمی نتیجہ ایک ہی ہوگا
کیونکہ ہر ایک سبب کے نتائج متعدد و مختلف ہوتے ہیں
جیسے سورج کی گرمی سے موم پگھلتا ہے
کیچڑ سخت ہوجاتا ہے
پانی بخار بن کر اڑ جاتا ہے
اسی طرح ہر شخص کی طبیعت یا خصلت یا مزاج جدا گانہ ہونے سے ہر آدمی کا تصوف ، نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے جداگانہ ہوتا ہے۔
جس علم سے عمل ظہور میں آئے جس تصوف کا اثر جو سلوک (Behavior)ہے وہی اسکی نیکی یا بدی کا پیمانہ (Standard)ہے کسی صوفی کا سلوک غیظ و غضب (Emotional)پیدا کرنے والا جلالی ہوتا ہے اور کسی کا امن و امان پیدا کرنے والا جمالی ہوتا ہے لیکن علیٰ العموم صوفیاءاپنے مریدوں میں ایسا تصوف اور ایسا سلوک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے یہی عالم جس کو ہم دنیا کہتے ہیں مرید کے حق میں بہشت ہوجاتا ہے اور وہ مرید اپنے ماحول کوفردوس (Haven) بنانے کی کوششِ بلیغ کرتا ہے۔
تصوف کی حالت اگر بار بار کسی نفس پر طاری ہوتی ہے تو اس کے جذبہ میں کچھ ایسی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ اسی میں رہنے کے واسطے بلاتامل اپنا تن من دھن وقف کردیتا ہے۔وہ اپنے نفس مطمنہ ہی کو اپنے واسطے ہزار بہشت کی ایک بہشت سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو ہر شئے و ہر شخص میں دیکھتا ہے(یعنی لذتِ سریان) گویا وہ شخص خود اپنے آپ ہے یا وہ شئے یا اس شئے کی صفت خودآپ میں ہے اسکے نزدیک کوئی غیریت نہ ہوگی ہر ” میں “ کہنے والے کو وہ خود آپ ہی سمجھے گا
ہر چیز کے حسن و قبیح میں اپنے آپ کو پائے گا دوسروں کے اغراض کو اپنے اغراض تصور کرے گا۔
جب کسی فرقہ یا گروہ کے افراد میں سے اسطرح غیریت اٹھ جائے اور ہر ایک اپنے اغراض کو دوسروں کے اغراض کے مخالف تو کیا یکساں بلکہ ایک ہونا خیا ل کرے گا تو اس گروہ میں صلح و امن
کی ایسی لہر پیدا ہوجائے گی جس کے دیکھنے والے یہی کہیں گے
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
 
Top