داغ اس نہیں کا کوئی علاج نہیں

یوسف سلطان

محفلین
اس "نہیں" کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں

کل جو تھا آج وہ مزاج نہیں
اس تلوان کا کچھ علاج نہیں

آئنہ دیکھتے ہی اترائے
پھر یہ کیا ہے اگر مزاج نہیں

لے کے دل رکھ لو کام اے گا
گو ابھی تم کو اختیاج نہیں

ہو سکیں ہم مزاج داں کیونکر
ہم کو ملتا ترا مزاج نہیں

چپ لگی لعل جاں فزا کو ترے
اس مسیحا کا کچھ علاج نہیں

دل بے مدعا خدا نے دیا
اب کسی شے کی اختیاج نہیں

کھوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹھہرا
درہم داغ کا رواج نہیں

بے نیازی کی شان کہتی ہے
بندگی کی کچھ اختیاج نہیں

دل لگی کیجیے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں

عشق ہے بادشاہ عالم گیر
گرچہ ظاھر میں تخت و تاج نہیں

دردِ فرقت کی گو دوا ہے وصال
اس کے قابل بھی ہر مزاج نہیں

یاس نے کیا بجھا دیا دل کو
کہ تڑپ کیسی،اختلاج نہیں

ہم تو سیرت پسند عاشق ہیں
خوب رو کیا جو خوش مزاج نہیں

حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بُتوں کا راج نہیں

صبر بھی دل کو داغّ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کا اختیاج نہیں





 
آخری تدوین:
Top