اسے دیکھ دیکھ کے سوچنا اسے سوچ سوچ کے دیکھنا وہ عزیز کیا کہ عزیز تر کئی عادتیں بھی چلی گئیں

ضیاء حیدری

محفلین
وہ تو حشر تھا مگر اس کی اب وہ شباہتیں بھی چلی گئیں
جو رہیں تو شہر میں کیا رہیں کہ قیامتیں بھی چلی گئیں
ترے دم سے تھیں سبھی رونقیں وہ حبیب تھے کہ رقیب تھے
وہ قرابتیں تو گئی ہی تھیں وہ رقابتیں بھی چلی گئیں
ترا قرب گرچہ تھا جاں گسل وہی قرب تھا مری زندگی
ترے بعد مرگ و حیات کی وہ رفاقتیں بھی چلی گئیں
مری آرزو تھی کہ جاں بکف مری جستجو کہ نفس بہ پا
اب اے زندگی مجھے چھوڑ جا کہ یہ حالتیں بھی چلی گئیں
تو نے دی جو درد کی دولتیں وہ غزل غزل نہ سما سکیں
مرے ہاتھ سے ترے حسن کی یہ وراثتیں بھی چلی گئیں
اسے دیکھ دیکھ کے سوچنا اسے سوچ سوچ کے دیکھنا
وہ عزیز کیا کہ عزیز تر کئی عادتیں بھی چلی گئیں
 
Top