اسی لئے تو وہ رخ پہ نقاب رکھتے ہیں، حسرت جے پوری


Page_51.jpg
اسے صرف اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ غیر اردو داں طبقوں کے اندر اردو کو زیادہ تر اچھی شاعری، بطور خاص احساسات کی آئینہ دار غزلوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اردو کی تاریخ پر سرسری نظر بھی ڈالئے تو اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ واقعتا اردو کا ما بہ الامتیاز سرمایہ اس کی شاعری ہی ہے۔ ولی دکنی، قلی قطب شاہ، میر درد، سودا، امیر، میر تقی میر، غالب، مومن، ذوق، داغ، اقبال، حسرت، جگر، اصغر، اختر شیرانی، ناصر کاظمی، فیض احمد فیض، احمد فراز، کلیم عاجز، شہریار، بشیر بدر اور پھر آج کی پوری کی پوری ادبی نسل کی شاعرانہ کاوشیں اس کو ظاہر کرتی ہیں۔ معتبر اور ادبی شاعری کے جیالوں کی فہرست تو خیر کافی لمبی ہے لیکن اگر ہم ان شعراءکی بات کریں جنہوں نے سامانِ تفریح تو بہت پہنچایا لیکن وہ تاریخ ادب یا نصاب ادب کا حصہ نہ بن پائے تو ان میں مشاعرے کے شعراءسے کہیں آگے وہ لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے فلموں کے اندر اپنی قسمت آزمائی اور جس میں بہت سے لوگ کامیاب بھی ہوئے۔
حسرت جے پوری جن کا اصلی نام اقبال حسین تھا، 15 اپریل 1922 کو جے پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انگریزی میڈیم اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے دادا جناب فدا حسین صاحب سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ لگ بھگ بیس سال کی عمر رہی ہوگی جب حسرت جے پوری نے شاعری کرنا شروع کر دیا۔ عنفوان شباب کے زمانہ ہی میں اقبال حسین کو ایک ہندو لڑکی رادھا سے محبت ہو گئی۔ اقبال حسین نے اس کے لئے ایک نظم تخلیق کی ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر تم ناراض نہ ہونا‘ جو آگے چل کر راج کپور کی فلم ’سنگم‘ میں بطور گیت شامل ہوئی اور کافی مشہور بھی ہوئی۔
حسرت 1940 میں بمبئی آئے اور ایک بس کنڈکٹر کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کی شروعات کی۔ مشاعروں کا چلن ان
Page_52.jpg
دنوں بہت تھا اور حسرت مشاعروں کے باضابطہ شاعر تھے۔ بمبئی کے ایک مشاعرے میں پرتھوی راج کپور نے ان کو پڑھتے سنا اور اپنے بیٹے راج کپور سے کہا کہ اسے اپنے یہاں فلموں میں آزماﺅ۔
ان دنوں راج کپور ’برسات‘ کے نام سے ایک لو اسٹوری کرنے کا پلان کر رہے تھے۔ حسرت نے اس فلم کے لئے اپنا سب سے پہلا گانا ’جیا بے قرار ہے‘ لکھا اور پھر ’چھوڑ گئے بالم‘۔ یہیں سے حسرت جے پوری کا فلمی کیرئیر شروع ہوا اور وہ کئی سارے سنگ میل عبور کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ شیلندر کے ہمراہ حسرت نے 1971ءتک راج کپور کی تقریباً ہر فلم کے لئے گانا لکھا لیکن جے کشن کی موت اور ’میرا نام جوکر‘ اور ’کل، آج اور کل‘ دو فلموں کی ناکامی کے بعد راج کپور نے حسرت کی بجائے دوسرے نغمہ نگاروں کی طرف رجوع کرناشروع کر دیا۔ لیکن پھر ’حنا‘ اور ’رام تیری گنگا میلی‘ کے کئی گیت حسرت سے لکھوائے گئے۔ شیلندر جب پروڈیوسر کے طور پر سامنے آئے تو انہوں نے ’تیسری قسم‘ کے گانے حسرت سے لکھنے کی درخواست کی۔ حسرت نے آخری بار فلم ’ہتیا‘ (2004) کے لئے گیت لکھا۔
حسرت کی فلمی شاعری کا کیرئیر کافی کامیاب رہا اور ایک وقت تو وہ بھی آیا جب فلمیں ان کی وجہ سے بھی پہچانی گئیں۔ انہیں دو مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پہلی بار 1966 میں ان کی گیت ’بہاروں پھول برساﺅ‘ کے لئے اور دوسری بار 1972 میں ’زندگی اک سفر ہے سہانا‘ کے لئے۔ اسی طرح انہیں برج بھاشا گیت ’جھنک جھنک توری باجے پایلیا‘ کے لئے ڈاکٹر امبیڈکر ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حسرت جے پوری کو اردو کانفرنس کی طرف سے جوش ملیح آبادی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا اور World University Round Table کی جانب سے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی تفویض کی گئی۔
ذاتی زندگی میں حسرت جے پوری کافی سادگی پسند تھے۔ ہوائی جہازوں میں سفر کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ریل گاڑی کے اندر سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک سفر کے دوران جب ان کے ایک مداح نے انہیں سیکنڈ کلاس میں سفر کرتے ہوئے دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا تو حسرت نے کہا، بھئی! میں بھی تو عام سا ہی انسان ہوں۔
حسرت کی شریک سفر کافی ہوش مند خاتون تھیں۔ انہوں نے حسرت کے پیسوں کو جائیداد بنانے میں خرچ کیا اور اس طرح حسرت مالی اعتبار سے کبھی تنگی کے شکار نہ ہوئے، اس وقت بھی جب انہیں آفر ملنے کم ہو گئے۔ حسرت نے 77 سال کی عمر پا کر 17 ستمبر 1999 میں وفات پائی۔
بنیادی طور پر ہم حسرت جے پوری کی شاعری کو دو خانوں میں رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فلمی شاعری، جو انہوں نے فلمی ضرورتوں کے مطابق لکھی اور دوسری غیر فلمی شاعری جس کا بیشتر حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔
اگر حسرت جے پوری کی فلمی شاعری پر سرسری نظر ڈالی جائے تو بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حسرت بھی دراصل مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی کی طرح فلمی شاعر ہونے کے باوجود زبان و بیان کا صاف ستھرا اور عمدہ ذوق رکھتے تھے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پوری فلمی شاعری کے اندر وہ ان دو چار شعراءمیں ایک تھے جنہوں نے فلمی گیتوں کو بھی کچھ حد تک ہی سہی، تہذیب و وقار سے ہمکنار کیا، تو غلط نہ ہوگا۔
لیکن ظاہر ہے کہ فلمی دنیا ادبی دنیا تو ہے نہیں، اس لئے پورے طور پر ادبیت کی تلاش بہت زیادہ قرین انصاف بھی نہیں۔ اس کے باوجود حسرت کے نغمے ان کے اونچے قد کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔
حسرت کی غیر فلمی شاعری کی بات کی جائے تو ہماری توجہ خود بخود ان کے غزلوں کے مجموعہ ’آبشار‘ کی طرف چلی جاتی ہے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے یہاں افکار کی سطح پر کوئی انوکھا پن یا کوئی بڑا ویژن تو نہیں اور نہ ہی فیض و غالب یا کم از کم ساحر کے جیسا ہی مربوط نظام فکر ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ غزلوں کے اندر سلاست ہے،روانی ہے اور جذبات کی ترجمانی میں کسی قسم کی رکاوٹ کا احساس دامن گیر نہیں ہوتا۔ مضامین عشق و محبت کے ارد گرد ہی گھومتے نظر آتے ہیں۔
ظاہر ہے ایسے میں بھلا یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ ناقدین ادب انہیں درخور اعتنا سمجھیں لیکن کیا وہ تمام شعراءجنہیں ادبی افق پر چمکانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں وہ بھی فکر و فن کی اتنی ہی بلندی پر براجمان رہتے ہیں؟ عام طور سے فلمی شعراءکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلم نے ان کے اندر کے بڑے فنکار کو ابھرنے کا موقع نہ دیا۔ حسرت کو پڑھتے ہوئے اس کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ شاید اگر وہ فلمی دنیا سے نہ جڑتے تو مشاعروں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے اور مشاعروں کے شعراءکا حشر بھی معلوم ہی ہے! اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسرت جے پوری کی پہچان اگر زیادہ تر فلمی گیتوں کے حوالے سے ہے تو وہ بہت غلط بھی نہیں ہے۔
اخیر میں حسرت جے پوری کے یہ غزلیہ اشعار قارئین کے لئے پیش ہیں جن سے ان کی قابلیت کاپتہ چلتاہے



ہم راتوں کو اٹھ اٹھ کر جن کے لئے روتے ہیں
وہ غیر کی بانہوں میں آرام سے سوتے ہیں

چھوڑ بھی دیجئے تکلف شیخ جی
جب بھی آئیں، پی کے جایا کیجئے

وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں
اسی لئے تو وہ رخ پہ نقاب رکھتے ہیں

کیسی گزر رہی ہے محبت میں زندگی
حسرت کچھ اپنا حال کہو، میں نشے میں ہوں

وہ آنکھوں میں کاجل، وہ بالوں میں گجرا
ہتھیلی پہ اس کی، حنا مہکی مہکی

اے دوست مجھے گردشِ حالات نے گھیرا
تو زلف کی کملی سے چھپانے کے لئے آ
مضمون بشکریہ
 
Top