اسلام مسلمان اور گریکو رومن تیوہار (قسط ا وّل)

اسلام مسلمان اور گریکو رومن تیوہار !

تاریخ بتاتی ہے کہ جب اقوام نے اپنی بنیادوں سے اپنا واسطہ توڑا تو پھر انکی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو گیا اور یہ شکست و ریخت انکی مسلسل پستی پر ختم ہوئی اقوام و ملل کی دوبارہ تشکیل کا کام ایک طویل اور تکلیفدہ تخلیقی عمل ہوتا ہے .

گزشتہ ادوار میں قومیں دوسری قوموں کی زمینوں انکے ملکوں اور انکے لوگوں پر غالب ہوتی تھیں لیکن آج معاملہ مختلف ہے حملہ افکار کردار اور مذاہب پر ہے اور اسی فتنے کی نشاندہی اقوال رسول صل الله علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے .

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ۔ رضى الله عنه ۔ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ “. قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ ” فَمَنْ “؟.
( صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :2669 ، العلم)

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی ضرور پیروی کروگے ، بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ، حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کروگے ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا [پہلی قوموں سے مراد ] یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : پھر اور کون ۔
( صحیح بخاری و صحیح مسلم )

چڑھتے سورج کا ہر کوئی پجاری ہوتا ہے لیکن ایسے میں اپنی فطری قومی دینی حمیت کی حفاظت ہی اسکی بقاء کی ضامن ہوتی ہے

یہ دور تہذیبوں کی جنگ کا دور ہے سموئیل ہننگٹن

(SAMUEL P. HUNTINGTON is the Eaton Professor of the Science of Government and Director of the John M. Olin Institute for Strategic Studies at Harvard University. This article is the product of the Olin Institute's project on "The Changing Security Environment and American National Interests)

تہذیبوں کی جنگ میں لکھتا ہے

(It is my hypothesis that the fundamental source of conflict in this new world will not be primarily ideological or primarily economic. The great divisions among humankind and the dominating source of conflict will be cultural. Nation states will remain the most powerful actors in world affairs, but the principal conflicts of global politics will occur between nations and groups of different civilizations. The clash of civilizations will be the battle lines of the future.
)

چونکہ کمیونزم کی شکست کے بعد دنیا کا مقتدر نظام کپیٹل ازم ہے یہ ایک ایسا خبیث نظام ہے جس میں ہر چیز بکاؤ اور ہر شخص کی ایک قیمت ہے اور اس کا بنیادی ہتھیار کمزیومر کپیٹل ازم ہے ....

چونکہ مغربی استعمار خاص کر امریکہ کی اپنی کوئی تہذیبی ثقافتی اور دینی شناخت نہیں سو اس نے ایک تہذیب جدید تخلیق کی ہے اس تہذیب کا نام ہے موڈر نائی زیشن

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کہتا ہے

(modernization, in sociology, the transformation from a traditional, rural, agrarian society to a secular, urban, industrial society.

Modern society is industrial society. To modernize a society is, first of all, to industrialize it. Historically, the rise of modern society has been inextricably linked with the emergence of industrial society. All the features that are associated with modernity can be shown to be related to the set of changes that, no more than two centuries ago, brought into being the industrial type of society. This suggests that the terms industrialism and industrial society imply far more than the economic and technological components that make up their core. Industrialism is a way of life that encompasses profound economic, social, political, and cultural changes. It is by undergoing the comprehensive transformation of industrialization that societies become modern.

Modernization is a continuous and open-ended process. Historically, the span of time over which it has occurred must be measured in centuries, although there are examples of accelerated modernization. In either case, modernization is not a once-and-for-all-time achievement. There seems to be a dynamic principle built into the very fabric of modern societies that does not allow them to settle, or to achieve ... (200 of 15,593 words)

یہ دور کولونایزیشن کا نہیں بلکہ دنیا میں اپنے فکری کلونز اور کوپی کیٹس پھیلا دینے کا ہے اور اس عمل کو فکری بنیادیں فراہم کرنے کیلئے قدیم گریکو رومن تہذیب کا سہارا لیا گیا ہے ..

اسی تہذیب کا ایک رنگ جنم دن منانے کا کلچر ہے اگر اسلام کے مزاج اور اسکی سادگی کو دیکھیں تو اسمیں اسطرح کی خرافات کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی ...

ہمارے بعض اہل علم کو مغربی ایجادات کے استعمال سے دھوکہ لگتا ہے اور وہ انکی تہذیب کو بھی اپنانے کے حامی ہو جاتے ہیں اگر تہذیب ہی اپنانی ہے تو فطری طریقہ تو یہ ہے کہ کسی علاقائی یا قومی تہذیب کو اختیار کریں کہ جہاں ہم بستے ہیں سات سمندر پار کی تہذیب درآمد کرنے کی کیا تک ہے .....

اور یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ یہ تہذیب اصل میں مغربی اور جدید بھی نہیں بلکہ گریکو رومن مقابر پر کھڑی ہے جسکو میڈیا وائرس بنا کر دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے ..

جنم دن کی پوجا پاٹ بھی قدیم گریکو رومن اور پگان علامتوں کا جدید مظہر ہے

(The introduction of the Egyptian calendar became linked to astrology and fortune-telling. The keeping of birthdays, then, was important in ancient times, essentially due to the fact that the date of one's birth was directly related to the casting of a person's horoscope (Linton, Ralph and Adelin, The Lore of Birthdays, p. 12).)

سالگرہ اصل میں ( horoscope) یا جنم کنڈلی نکالنے کا ایک گریکو رومن طریق تھا اور ہم جانتے ہی ہیں کہ اسلام اس کہانت کے متعلق کیسی رہے رکھتا ہے .

لیجئے مزید ملاحظہ کیجئے

(It was also believed that one could be helped by good spirits or pursued by evil spirits on one's birthday. For this reason, people would gather around the birthday person to offer protection from evil spirits. The Greeks believed that everyone had a protective spirit that guarded over his birth and protected him during his life. This spirit, the Greeks believed, "had a mystic relation with the god on whose birthday the individual was born" (The Lore of Birthdays, p.8).)

یہ روحوں کی حاضری کا کھیل یا زائچوں کی تلاش کیا اسلام کا مزاج ہو سکتا ہے

یہ تو وہ غلاظت تھی جسے اسلام تو اسلام قدیم تحریف شدہ مسیحیت نے بھی رد کر دیا تھا

(The custom of celebrating one's birth was considered a pagan practice during the first and second centuries A.D. Because astrology was closely linked with the date of one's birth, many early church fathers rejected the notion of honoring birthdays because astrology was condemned in the bible (Isaiah 47:13))

جیسے قدیم مسیحیت میں کرسمس ، ایسٹر ، سانتا کلاز جیسی خرافات کا تذکرہ نہیں ملتا لیکن جدید مسیحیت نے اسے کیش کیا ہے ایسے ہی سال گرہ کا جواز بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ لوگوں کے پاس حضرت مسیح کی ولادت منانے کا جواز موجود رہے لیکن ہم مسلمانوں کے پاس اس کا کون سا جواز ہے یہ ہنوز ایک معمہ ہے .

حسیب احمد حسیب
 
Top