اسلام آباد فروٹ منڈی دھماکا، طالبان ہی کے ملوث ہونے کا زیادہ شبہ کیا جا رہا ہے

اسلام آباد فروٹ منڈی دھماکا، طالبان ہی کے ملوث ہونے کا زیادہ شبہ کیا جا رہا ہے

اسلام آباد(عامر متین)اگرچہ تحریک طالبان نے اسلام آباد فروٹ منڈی بم دھماکے سے اظہار لاتعلق کیا اور یو بی اے نے ذمہ داری قبول کی ہے تاہم سکیورٹی ایجنسیوں نے ابھی بھی طالبان کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔سکیورٹی ایجنسیوں کے انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق فروٹ مارکیٹ میں حملے کی منصوبہ بندی بھی انہیں عناصر نے کی تھی جنہوں نے 3 مارچ کو اسلام آباد کچہری پر حملہ کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں 10 افراد مارے گئے تھے۔اس کے باوجود کہ تحریک طالبان نے فوری طور پر کچہری حملے سے اظہار لاتعلقی کیا تھا اور احرار الہند نامی گروپ نے ذمہ داری قبول کرلی تھی تاہم سکیورٹی ایجنسیوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ فدائی آپریشن کا حکم طالبان کی اعلیٰ قیادت نے دیا تھا تاکہ حکومت پر اپنے مطالبات ماننے کے لئے دبائو ڈالا جاسکے۔فروٹ منڈی دھماکے کی تفتیش کرنے والوں کو پتہ ہے کہ اس کارروائی میں تحریک طالبان کا مہمند ایجنسی والا گروپ ملوث ہے۔اس گروپ کا سربراہ خالد خراسانی ہے جس نے ایف سی کے 23اہلکاروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔تفتیش کاروں کے مطابق فروٹ منڈی دھماکے میں مہمند ایجنسی کے طالبان کمانڈر قاری منصور اور مفتی حسن کے ملوث ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ مہمند ایجنسی کے درجنوں لوگ فروٹ منڈی میں کام کرتے ہیں ان میں سے چار لوگ مارے گئے جن کی لاشیں مہمند ایجنسی اسی روز لے جائی گئیں۔پولیس دھماکے کے بعد گرفتار ہونے والے مہمند ایجنسی کے لوگوں سے بھی تفتیش کررہی ہے۔ذرائع نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کچہری کارروائی یکم مارچ کو جنگ بندی کے اعلان کے محض 36 گھنٹے بعد عمل میں آئی جبکہ اسلام آباد فروٹ منڈی دھماکا توسیع شدہ جنگ بندی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے محض 24گھنٹے قبل ہوا ہے۔واضح رہے کہ فروٹ منڈی دھماکے سے ایک روز قبل طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے میڈیا کو دو صفحات پر مشتمل خط لکھا تھا جس میں ان کے مطالبات تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے حکومت کی لیت و لعل پر اظہار تشویش کیا گیا تھا۔انہوں نے مطالبات کو دہراتے ہوئے وزیرستان میں امن زون کے قیام، غیرعسکری قیدیوں کی رہائی اور ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کے خلاف کریک ڈائون ختم کرنے پر زور دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ مذاکراتی عمل کے دوران حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہ ہونے پر طالبان کی قیادت کو تحفظات ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کی سنجیدگی جانچنے کے لئے 80 سویلین قیدیوں کی فہرست دی لیکن ابھی تک ایک بھی قیدی رہا نہیں کیا گیا۔تاہم خالد خراسانی نے اپنے بیان میں جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے اور ملک میں جلد حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ہمارے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اس لئے مزید حملے کئے جائیں گے جس سے عام لوگ متاثر ہوں گے کیونکہ بامقصد مذاکرات کے لئے مخلص نہیں ہیں۔ حکومت نے ان بیانات پر تشویش کا اظہار کیا تاہم طالبان شوریٰ کے ایک سینئر رکن اعظم طارق نے وضاحت کی کہ شاہد اللہ شاہد اور خراسانی کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ وہ طالبان شوریٰ سے منظور شدہ نہیں ہیں۔ اسلام آباد فروٹ منڈی کارروائی سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے شاہد اللہ شاہد نے عوامی مفادات اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے کو شرعاً حرام قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ طالبان نے گزشتہ 10 برسوں میں 40 ہزار لوگوں کو کیوں مارا ہے۔ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے تک تو طالبان ترجمان بڑے فخر کے ساتھ خودکش حملوں کی ذمہ داریاں قبول کیا کرتے تھے اس سے ان کی طرف سے عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کو حرام قرار دینا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اسلام آباد فروٹ منڈی کی تحقیقات کرنے والوں کا خیال ہے کہ یو بی اے کی طرف سے کارروائی کو اپنے ذمہ لینا محض سستی شہرت حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے‘ وزارت داخلہ کے ایک ذریعے نے پہلے ہی کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یو بی اے کا اس کارروائی سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق یو بی اے کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنا حیران کن نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کی ڈانڈے کہیں اور سے ملتے ہیں تاہم انہوں نے ان عناصر کا نام ظاہر نہ کیا کیونکہ غالباً وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے تاکہ ریاست پاکستان اور غیر ریاستی عناصر جن کو مذاکراتی عمل میں برتری حاصل ہے کے درمیان مذاکرات کا ماحول خراب نہ ہو جائے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے باخبر ذرائع کا ابھی بھی یہی خیال ہے کہ تحریک طالبان کی قیادت امن معاہدے کے حوالے سے مخلص نہیں ہے اور مذاکرات کو شمالی وزیرستان میں فوجی ایکشن روکنے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے ان عہدیداروں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جن کے افغانستان اور بھارت سے رابطے ہیں اور جن کا پاکستان فیصلہ کر کے امارات طالبان قائم کرنے کا ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے تمام معروف مطالبات آئین اور قانون سے متصادم ہیں۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے باخبر حلقوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ برسر اقتدار سیاسی اشرافیہ خاکی قیادت پر دبائو ڈال رہی ہے کہ وہ طالبان کے وہ مطالبات بھی تسلیم کرے جو مٹھی غیر ریاستی عناصر کے سامنے ریاست کے سرنڈر ہونے کے مترادف ہے۔ اصل وجہ تنازع طالبان کی طرف سے وزیرستان میں امن زون کیلئے فورسز کے انخلا کا مطالبہ ہے۔ خاکی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ ماضی کی طرح طالبان کی طرف سے وزیرستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کا ہتھکنڈاہوسکتا ہے۔ خاکی حلقوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا علاقہ جہاں ریاست کی عملداری نہ ہو وہ طالبان کا محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ جہاں سے وہ سکیورٹی فورسز کیخلاف مکمل جنگ شروع کرسکتے ہیں۔ دوسری وجہ تنازع 750 طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ ابھی تک یکطرفہ رہا ہے جس میں حکومت نے قیدیوں کو رہا کیا ہے اور مزید طالبان قیدیوں کو کیس ٹو کیس بنیادوں پر رہا کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک کمیٹی پہلے ہی بنا دی گئی ہے۔ لیکن طالبان نے ابھی تک قیدی رہا نہیں کیا ہے۔ حالانکہ پروفیسر اجمل‘ حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر کی رہائی کا بار بار مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس لئے خاکی قیادت کی طرف سے چند غیر ریاستی عناصر کے ساتھ اس یکطرفہ سودے بازی پر تحفظات بالکل درست ہیں۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=189088
 
حقائق و واقعات کی روشنی میں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات قرین قیاس ہے کہ اسلام آباد سبزی منڈی بم دہماکہ طالبان ہی کا کام ہے، اور ایسا کرنے میں طالبان کا محرک یا سبب جسے قانونی زبان میں ہم موٹو Motive کہتے ہیں۔ حکومت پر دباو ڈال کر امن مزاکرات میں اچھی پوزیشن میں آنا دکھائی دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد سبزی منڈی میں دھماکہ
http://awazepakistan.wordpress.com
 
Top