اسلامی ممالک توڑنے والا ’’ اودد پلان‘‘

حاتم راجپوت

لائبریرین
495x278x5714_40423312.jpg.pagespeed.ic.bJ4xO4m3fI.jpg

اسرائیلی حکومت کے ایک خفیہ منصوبے کا چشم کشا ماجرا **** یہ 1982ء کی بات ہے، صہونیوں کی پہلی تنظیم، ورلڈ زیونسٹ(Zionist) آرگنائزیشن کے سہ ماہی ترجمان رسالے ’’خیونیم‘‘(Kivunim) نے اودد ینیون ( Oded Yinon)کا لکھا مقالہ ’’عشرہ 1980ء میں اسرائیل کے لیے حکمت عملی‘‘(A Strategy for Israel in the 1980's) شائع کیا۔ اودد ینیون اسرائیلی محکمہ خارجہ سے وابستہ ایک اعلیٰ افسر تھا۔
یہ مقالہ جلد ہی اسرائیلی حکومت، فوج اورانٹیلی جنس کے لیے رجحان ساز ثابت ہوا اور امت مسلمہ سے نمٹنے کی خاطر ان کی بنیادی حکمت عملی بن گیا۔ اودد ینیون نے مقالے میں جو نکات بیان کیے،تب سے ہراسرائیلی حکومت ان پر من وعن عمل کررہی ہے۔
مقالے میں صہیونی تزویراتی ماہر نے واضح کیا کہ اسرائیل کیمپ ڈیوڈ جیسے امن معاہدے کرکے اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکتا… اسرائیل اسی صورت قائم رہے گا جب وہ آس پڑوس کے اسلامی ممالک کو چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کردے۔ صہیونی اودد نے اپنی حکومت کے کارپردازان پہ واضح کیا کہ تقریباً ہر اسلامی ملک میں نسلی، لسانی اور مذہبی اختلافات موجود ہیں۔ یعنی ان میں مختلف نسلوں، مذاہب اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے گروہ آباد ہیں جنہیں استعماری طاقتوں (برطانیہ ، فرانس، امریکہ وغیرہ ) نے بزور یکجا کردیا۔ لہٰذا اسرائیلی انٹیلی جنس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان گروہوں کے مابین زیادہ سے زیادہ اختلافات پیدا کرے تاکہ وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو جائیں۔ یوں رفتہ رفتہ یہ خانہ جنگی شدت اختیار کر کے کئی اسلامی ممالک کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دے گی۔ یہ ننھی منی ریاستیں پھر ایٹم بم کے حامل طاقتور اسرائیل کے واسطے کوئی خطرہ نہیں رہیں گی۔ مزید براں اس منصوبے کی تکمیل کے بعد اسرائیلی حکومت سرزمین موعودہ(دریائے نیل تا دریائے فرات)قائم کرنے کے سلسلے میں بھی اقدامات کر سکتی ہے۔
آج ذرا عالم اسلام پر نظر دوڑائیے، پاکستان سے لے کر مالی اور نائیجیریا تک کیا درج بالا اسرائیلی حکمت عملی کارفرما نظر نہیں آتی؟ کئی اسلامی ممالک مثلاً مالی، لیبیا، تیونس، پاکستان، شام، مصر، بحرین، یمن، افغانستان، عراق، سوڈان، صومالیہ، نائیجیریا ، چاڈ، اردن،بنگلہ دیش وغیرہ میں نادیدہ طاقتوں نے انتشار وبے چینی کے جراثیم پھیلا رکھے ہیں ۔ کہیں مسلمان آپس میں ہی دست وگریباں ہیں تو کہیں غیرملکیوں نے ان پر یلغار کر رکھی ہے ۔
کئی مسلم و غیرمسلم دانش وروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے اسلامی ممالک میں اپنے خفیہ ایجنٹ وکارندے چھوڑ رکھے ہیں۔ وہ متحارب مذہبی و نسلی گروہوں میں شامل ہوکر اختلافات کو ہوا دیتے، جلتی پر تیل چھڑکتے اور سعی کرتے ہیں کہ کسی قسم کے امن مذاکرات نہ ہونے پائیں۔
21اگست کو مغربی میڈیا نے اس خبر کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی کہ شامی حکومت نے کیمیکل ہتھیار چلاکر خواتین وبچے مارڈالے۔ اس ضمن میں تصاویر بھی دکھائی گئیں۔ یہ خبر منظر عام پر آتے ہی امریکہ اور برطانیہ نے طبل جنگ بجا دیا۔ امریکی و برطانوی رہنمائوں کے بیانات آنے لگے کہ شامی حکومت کی سفاکی پر ان کا دل خون کے آنسورورہا ہے۔ وہ انسانی حقوق کی اس صریح خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہ سکتے …چنانچہ شام پر حملہ کرنا ان کا حق بن چکا ۔
شامی حکومت کی غلطیاں وکوتاہیاں اپنی جگہ، سوال یہ ہے کہ جب اسرائیل بے بس فلسطینیوں پر کیمیائی بم برساتا اور آگ و بارود کی بارش کرتا ہے، تو ان کی حسِ انسانیت وجذبہ ہمدردی کہاں جاسوتی ہے؟ تب انہیں انسانی حقوق کیوں یاد نہیں آتے ؟ الٹا وہ اسرائیل کو دفاع کا حق دے کر اس کے خوفناک جرائم میں شریک مجرم بن جاتے ہیں۔اسی طرح جب قاہرہ میں مصری فوج اپنے ہی عوام پہ پل پڑی تو وہ خاموش رہے اور اسے مصر کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔یہ منافقت اور دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟
عالم اسلام کے دگرگوں حالات دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ 41 برس قبل جو’’ اودد پلان‘‘ سامنے آیا، اسرائیلی حکومت اس پر شدومد سے عمل کررہی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اپنے عزائم کی تکمیل میں اسے اپنے دوستوں…امریکی، یورپی اور بھارتی حکومتوں کی پوشیدہ یا عیاں مدد بھی حاصل ہو۔ یہ ٹولہ سوڈان کو تو تقسیم کر چکا،اب اس کی شاطرانہ نگاہیں شام،عراق،لیبیا،صومالیہ ،مالی اور پاکستان پر مرکوز ہیں۔ وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ عالم اسلام میں بسنے والے تمام مسلم گروہ نسلی، لسانی و مذہبی اختلافات پس پشت ڈال کر ایکا کرلیں۔ تبھی وہ اپنی صفوں میں گھسے غیرملکی ایجنٹوں کو پہچان کر دشمنوں کی سازشیں ناکام بناسکیں گے۔ ورنہ آنے والے برسوں میں خاکم بدہن ، کرہ ارض پر مسلمان مزید کمزور ہو سکتے ہیں۔
شاعر مشرق کا ’’جواب شکوہ‘‘ یاد آکر بدن میں سنسنی دوڑا رہا ہے۔ خوابیدہ دل ودماغ کو جھنجھوڑنے کی خاطر اسی سے کچھ اشعار پیش ہیں:
منعفت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبیﷺ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ٭…٭…٭

ربط۔
 
Top