ارمان لونی کی ہلاکت پر احتجاج: ’جو کام کے بندے ہوتے ہیں ریاست ان کو اٹھا لیتی ہے‘

جاسم محمد

محفلین
ارمان لونی کی ہلاکت پر احتجاج: ’جو کام کے بندے ہوتے ہیں ریاست ان کو اٹھا لیتی ہے‘
_105482807_arman.jpg

ابراہیم ارمان لونی اپنی بہن وڑانگہ لونی کے ہمراہ
پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے اپنے رہنما ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت کے خلاف منگل کو پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

ابراہیم ارمان رواں ماہ کے آغاز میں لورالائی میں پولیس کی جانب سے گرفتاری کی کوشش کے دوران مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

ان کی ہلاکت کے خلاف ان احتجاجی مظاہروں کی کال پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے دے رکھی ہے جس کے تحت منگل کو دنیا کے 32 شہروں میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

منظور پشتین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ابراہیم ارمان لونی کے قتل کے خلاف منعقد اس احتجاج میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوں گے۔ یہ احتجاجی مظاہرے مختلف شہروں میں اپنے مقامی اوقات کے مطابق ہو رہے ہیں جو دن کے مختلف اوقات میں جاری رہیں گے۔

احتجاجی مظاہرے شروع

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق پی ٹی ایم کی جانب سے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے علاوہ امریکہ کے شہر واشنگٹن اور نیو یارک، جاپان، جرمنی اور سویڈن کے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔

پاکستان میں یہ احتجاجی مظاہرے دن دو بجے شروع ہوئے ہیں جبکہ دیگر ممالک کے شہروں میں مقامی وقت کے مطابق ان مظاہروں کا آغاز ہوگا۔

_105483966_7bb3fdfe-4283-456f-ad41-82c69109a0a4.jpg

اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرے کے شرکا کو گرفتار کیا جا رہا ہے
پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین، اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ بھی ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ محسن داوڑ شمالی وزیرستان اور علی وزیر بنوں مظاہروں میں شریک ہوں گے۔

دوسری جانب بی بی سی کے نامہ نگار نیئر عباس کے مطابق اسلام آباد پریس کلب کے باہر پی ٹی ایم کے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہونے کے لیے آنے والے افراد کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔

_105483970_1a4ff43e-0545-42b4-b948-a8e7c560977b.jpg

پشاور میں احتجاجی مظاہرے کا اغاز ہو چکا ہے جہاں شرکا نعرے بازی کر رہے ہیں
اس کے علاوہ پشاور میں بھی احتجاجی مظاہرے کا آعاز ہو چکا ہے اور نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق اس وقت مظاہرین شعبہ بازار میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق فی الحال مظاہرین کی تعداد کم ہے تاہم وہ پرامن انداز میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔

جبکہ کوئٹہ سے ہمارے نامہ نگار محمد کاظم نے بتایا ہے کہ وہاں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن سے اس وقت ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی خطاب کر رہی ہیں۔

_105483968_bf192abc-0cdb-4438-93fa-acb381235e15.jpg

کوئٹہ میں ارمان لونی کی بہن مظاہرین سے خطاب کر رہی ہیں
ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کسی ایک مسئلے پر اتنے زیادہ شہروں میں ایک ہی دن میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہو۔

پشتون تحفظ مومنٹ کے زیر انتظام اس سے پہلے اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں دھرنے دیے گئے تھے اور یہ تمام دھرنے اور احتجاجی مظاہرے پرامن رہے تھے۔ پی ٹی ایم کے جلسوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے رہے ہیں۔

’وہ ہم سب لوگوں کا دوست تھا‘
ادھر ابراہیم ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کی زندگی میں شاید ان کے ارمان (خواہشات ) پورے نہیں ہوئے تاہم ان کی موت کے بعد پشتون جس طرح ان کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اس سے ان کے ارمان ضرور پورے ہو گئے۔

بی بی سی اردو کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے وڑانگہ لونی کا کہنا تھا کہ ایک بہن کی حیثیت سے ارمان لونی کا دنیا سے چلے جانا ایک تکلیف دہ بات ہے کیونکہ وہ ان کے لیے امید کی کرن تھے۔

_105482903_lll.png

وڑانگہ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بھائی کے مارے جانے کا غم نہیں کیونکہ ارمان نے پشتون قوم کے لیے قربانی دی
ان کا کہنا تھا کہ ’ان سے یہ امید تھی کہ وہ مظلوم پشتونوں کے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے لیکن جو کام کے بندے ہوتے ہیں ریاست ان کو اٹھا لیتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ پتہ ہو نہ ہو لیکن ریاست کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون کام کا آدمی ہے اس لیے ان کو وہ پہلے ہی اٹھا لیتی ہے۔‘

وڑانگہ لونی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ارمان صرف ان کا ہی بھائی نہیں بلکہ پوری پشتون قوم کا بھائی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری پشتون قوم ان کے لیے کھڑی ہوئی۔

’ان کے مارے جانے کا غم نہیں کیونکہ ارمان نے پشتون قوم کے لیے قربانی دی۔‘

وڑانگہ لونی نے بتایا کہ وہ اگرچہ ان کے بڑے بھائی تھے لیکن یوں محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ارمان ان کے بھائی تھے بلکہ وہ گھر میں سب کے دوست تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نہ صرف بہن بھائیوں بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی ان کا دوستانہ رویہ تھا۔ ہم بلاجھجک اپنے تمام معاملات پر ان کے ساتھ بات کرتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ 'قبائلی معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ بڑے کے سامنے نہیں بولنا یا اس طرح نہیں بیٹھنا ہے لیکن ارمان ایسا نہیں تھا بلکہ وہ نرم دل اور لبرل سوچ کا مالک تھا۔ وہ ہم سب لوگوں کا دوست تھا۔‘

_105483433_gettyimages-958274078.jpg
تصویر کے کاپی رائٹAFP
’ارمان لونی شروع سے ہی ایک سیاسی کارکن‘
ارمان لونی کی بہن نے بتایا کہ ان کے بھائی شروع سے ہی ایک سیاسی کارکن تھے۔ ’پشتون قوم جس طرح اندھیروں میں رہ رہی ہے وہ چاہتے تھے کہ پشتون قوم ان اندھیروں سے نکلے اور ترقی کرے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کور کمیٹی کے رکن بھی تھے۔

وڑانگہ لونی نے کہا کہ ارمان لونی کی پشتون تحفظ موومنٹ سے امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ ریاست سے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دن رات اس کے لیے کام کر رہے تھے۔
 
Top