زبیر مرزا
محفلین

اب یہ خواہش ہے کہ اپنا ہمسفر کوئی نہ ہو
جز شبِ تنہا، شریک رہگزر کوئی نہ ہو
رات کے پچھلے پہر کی خامشی کے خوف کو
اس سے پوچھو شہر بھر میں جس کا گھر کوئی نہ ہو
یا چراغ کم نفس کو صبح تک جلنا سکھا
یا پھر ایسی شام دے جس کی سحر کوئی نہ ہو
جل رہے ہیں بام و در اور مطمئن بیٹھا ہوں میں
گھر کی بربادی سے اتنا بے خبر کوئی نہ ہو
جستجو فن کی، متاعِ فن بچانے کا خیال
پتھروں کے شہر میں بھی شیشہ گر کوئی نہ ہو
درد اتنا ہو کہ بول اٹھے سکوت شہرِ جاں
زخم ایسا دے کہ جس کا چارہ گر کوئی نہ ہو
صحبتوں کے خواب دیکھوں رات بھر محسن مگر
صبح دم آنکھیں کھلیں تو بام پر کوئی نہ ہو