محسن نقوی اب یہ خواہش ہے کہ اپنا ہمسفر کوئی نہ ہو

زبیر مرزا

محفلین
2j3h5ix-1.gif
اب یہ خواہش ہے کہ اپنا ہمسفر کوئی نہ ہو​
جز شبِ تنہا، شریک رہگزر کوئی نہ ہو​
رات کے پچھلے پہر کی خامشی کے خوف کو​
اس سے پوچھو شہر بھر میں جس کا گھر کوئی نہ ہو​
یا چراغ کم نفس کو صبح تک جلنا سکھا​
یا پھر ایسی شام دے جس کی سحر کوئی نہ ہو​
جل رہے ہیں بام و در اور مطمئن بیٹھا ہوں میں​
گھر کی بربادی سے اتنا بے خبر کوئی نہ ہو​
جستجو فن کی، متاعِ فن بچانے کا خیال​
پتھروں کے شہر میں بھی شیشہ گر کوئی نہ ہو​
درد اتنا ہو کہ بول اٹھے سکوت شہرِ جاں​
زخم ایسا دے کہ جس کا چارہ گر کوئی نہ ہو​
صحبتوں کے خواب دیکھوں رات بھر محسن مگر​
صبح دم آنکھیں کھلیں تو بام پر کوئی نہ ہو​
 
Top