حزیں صدیقی اب کھلا ہستی کا افسوں ہی فنا پرور بھی تھا۔۔۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
اب کھلا ہستی کا افسوں ہی فنا پرور بھی تھا
خواب ہی میں خواب کی تعبیر کا منظر بھی تھا

میں نے دیکھا ایک نظّارہ پسِ منظر بھی تھا
رنگ کے پردے میں خوشبو کا حسیں پیکر بھی تھا

جس نے تولا وقت کی میزان میں تولا مجھے
کوئی پوچھے میں حصارِ وقت کے اندر بھی تھا

وہ مری دیوانگی کی آخری تصویر تھی
آئینہ بھی روبرو تھا ہاتھ میں پتھر بھی تھا

رہ گئے محروم ، سائے اوڑھ کر جو سو گئے
خانقاہِ شب میں جاری نور کا لنگر بھی تھا

تو نے خود ہی کردیا ساحل سے مجھ کو ہمکنار
میں تو اے دریا ترے طوفان کا خوگر بھی تھا

یاد سا آتا ہے گردوں پر چراغاں دیکھ کر
ایسی ہی روشن بلندی پر ہمارا گھر بھی تھا

لب سلے تھے آنسوؤں پر تو کوئی قدغن نہ تھی
عرضِ غم کے باب میں کچھ فرضِ چشمِ تر بھی تھا

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top