اب تو خواہش ہے یہ

Qaisar Aziz

محفلین
اب تو خواہش ہے یہ
ایسی آندھی چلے
جس میں پتوں کی مانند بکھر جائیں ہم
کوئی ہمدم نہ راہی نہ راحت ملے
ایک پل کی محبت نہ چاہت ملے

اب تو خواہش ہے یہ
ایسی آندھی چلے
دشت ہی دشت ہو ننگے پاوں چلیں
ہم سرِ بزم شمع کی مانند جلیں
ابن آدم کی چاہ کے کڑے جرم میں
اپنی ہی ذات کے کھوکھلے بھرم میں
اب تو خواہش ہے یہ کہ سزا وہ ملے
کوئی صحرا قلعہ یا بیابان ہو
جس میں سالوں تلک قیدہی قید ہو

اب تو خواہش ہے یہ۔۔۔
کہ روئے جاوں چپ نہ کرائے کوئی
دور جنگل میں یا کسی دشت میں
ہاتھ پکڑے میرا چھوڑ آئے کوئی
اب تو خواہش ہے یہ
ایسی آندھی چلے
 
Top