آپکو زرداری کیسا لگا

مہوش علی

لائبریرین
ابتک مجھے موقع نہیں ملا تھا کہ زرداری کو براہ راست سٹڈی کر سکوں۔ چنانچہ زرداری کی پہچان صرف میڈیا کے حوالے سے ہے [یعنی میڈیا میں دیگر لوگ جنکی بڑی تعداد زرداری کے خلاف تھی انہی کے بیانات سے زرداری کو جانا جاتا ہے اور یہ امیج انتہائی خطرناک، نیم وحشی قسم کا ہے]

بہرحال کچھ دنوں سے زرداری کو براہ راست جاننے کا بھی کچھ موقع ملا اور مجھے کسی حد تک خوشگوار حیرت ہوئی ہے کہ اس نے کافی میچور سیاست کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا آغاز بینظیر کی شہادت سے ہوا جب سندھی نوجوان پنجاب اور پاکستان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر زرداری نے صورتحال کو بہت عقلمندی سے سنبھالا ورنہ حالات کافی بگڑ سکتے تھے۔ زرداری کا یہ طرز عمل دیکھ کر مجھے جماعت اسلامی کی پروفیسر غفور احمد کا انٹرویو یاد آ گیا جس میں انہوں نے بینظیر کو ملک دشمن ماننے مکمل انکار کیا اور کہا کہ سندھ کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ اگر بینظیر اتنی محب وطن نہ ہوتی تو سندھ کو الگ ہونے میں صرف چند گھنٹے لگتے۔

پھر اب زرداری کے حکومت سازی وغیرہ کے متعلق انٹرویو آ رہے ہیں، اس میں وہ کافی بردبار اور سیاسی پختگی کے ساتھ جوابات دے رہا ہے۔ یہ سیاسی پختگی مجھے ابتک بہت کم سیاستدانوں میں نظر آئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ صرف ایک نقاب ہے، یا پھر میڈیا نے پہلے جو اسے نیم وحشی خطرناک قسم کے آدمی کا لبادہ اوڑھایا ہوا تھا وہ ایک نقاب تھا۔

میرا پیپلز پارٹی اور زرداری سے سیاسی اختلاف ایک طرف، مگر اسکے اس تحمل بھرے انداز پر اسکی تعریف نہ کرنا میری طرف سے زیادتی ہو گی۔
 

پاکستانی

محفلین
پہلے والے زرداری سے یہ زرداری واقعی مختلف ہے، بہرحال اس بارے ٹھیک رائے ایک دو ماہ گزرنے کے بعد ہی قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ تب تک دودھ پانی کا فرق واضح ہو جائے گا۔
 
سیاسی نطریات میں اختلاف اپنی جگہ ۔ ۔پر یہ بات ماننے والی ہے پچھلے چند ماہ مین کافی بردباری کا مطاہرہ کیا ہے- جو یقینا اسے سیاست کے تمام رموز سے واقف سیاست دان ثابت کر رہی ہے-

شاید اس کے اس سمجھدار انداز اور رویے کی وجہ سے ہی ان کے بارے میں سابقہ رائے کی نسبتا بہتر رائے قائم ہو رہی ہے-
 

باسم

محفلین
بندے کا تو حکومت میں آنے کے بعد پتہ چلے گا کہ بدلا ہے یا نہیں لیکن سیاست میں ضرور آگے لگ رہا ہے
 

اعجاز

محفلین
جن لوگوں نے بھی 90 کی سیاست دیکھی ہے ان کو معلوم ہوگا کہ زرداری کبھی بھی وحشی اور غیر بردبار سیاست دان نہیں‌ گردانا جاتا تھا ۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر نے تو ایک دفعہ اپنے کالم میں‌ اسے 'مرد آہن' لکھا تھا۔ یہ سچ ہے کے بے نظیر کی 2 حکومتیں زرداری نے ہی پہلے چلائیں تھیں۔ اگرچہ وہ سامنے نہیں‌آتا تھا اور ایک دفعہ تو بس وزیر ماحولیات بنا رہا :)
لیکن جب سے نیوز ویک اور ٹائم نے مسٹر ٹین پرسینٹ‌ کے قصے چلائے اور سرے محل اور دوسری کہانیاں‌ منظر عام پر آئیں تو پھر لوگوں نے اس کی نئی تصویریں بنانی شروع کردیں۔ اور شاید اب لوگوں کو وہ وحشی ؤغیرہ لگنے لگ گیا تھا۔ زرداری لوگوں سے بہت زیادہ گھلنے ملنے والا آدمی ہے اور کہنے والے کہتے ہیں‌ کے دوست بنانے کے فن سے آشنا۔
11 سال زندگی کے سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد یقیناً اب وہ بہت پھونک پھونک کر قدم رکھے گا۔

اب تک کی اسکی تمام باتوں‌ سے تو حب الوطنی کی بو آتی ہے ۔ پر سوئس بنک والے اور سرے محل اگرچہ آسانی سے پیچھا نہیں‌ چھوڑیں گے ;)
 

ظفری

لائبریرین
قوم کی پاس کوئی چوائس ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ پاور شئیرنگ گروپ میں ہی سے کسی ایک کو منتخب کرلے ۔ کوئی عام آدمی اب حکومت کرنے سے تو رہا ۔ جب حکمران کا انتخاب کرنا ، اسی گروپ سے ٹہرا تو اب زرداری کیا ، نواز شریف کیا ۔ رہی زرداری کے بارے میں رائے تو فطری طور سے وہ ایک انتہائی ہوشیار بزنس مین اور شاطر بندہ ہے ۔ ملک اور قوم کے بارے میں جو سوچ ، دوسرے سیاستدانوں ، جاگیرداروں اور وڈیروں‌کی ہے ۔ اسی سوچ کا پہلو زرداری میں بھی اُجاگر ہے ۔ بینظیر کی وفات کے بعد گویا اس کی لاٹری کھل گئی ہے ۔ سیاہ و سفید کے سب اختیارات اسی کے پاس آگئے ہیں ۔ اگر کوئی پارٹی میں اس سے اختلاف کرتا ہے تو اختلاف کرنے والے کو ہی نقصان ہوگا کہ بینظیر کے بعد زرداری ایک معصوم اور مظلوم شوہر کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ لہذا ٰ پیپلز پارٹی کے حمایتیوں کی اکثریت زرداری کیساتھ ہے ۔ نواز شریف اور زرداری نے کافی سالوں خاک چھانی ہے ۔ اس لیئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ انہیں آئندہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے ۔ مگر یہ سب وقتی ہے ۔ عدلیہ کی بحالی سے لیکر ڈاکٹر قدیر خاں کو صدر بنانے تک کے عمل میں ان کے درمیان جو اختلافات آنے والے ہیں ۔ قوم کو جلد ہی ان کا اندازہ ہوجائے گا ۔ کیونکہ اس عمل کے لیئے سیاستدانوں کو اپنی روایتی روش چھوڑنی پڑے گی جو کہ ایک ناممکن چیز ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ زرداری شادی سے قبل اپنی آبائی جائیداد کی آخری نشانی یعنی اپنے سینما گھر میں ٹکٹیں بیچتا تھا اور یہ بھی کہ 2007 میں یہ پاکستان کا تیسرا امیر ترین بندہ شمار ہوا ہے
 
Top