مصحفی آنکھوں سے رواں خونِ دلِ ریش رہے ہے

غزل

آنکھوں سے رواں خونِ دلِ ریش رہے ہے
یاں روز یہی واقعہ درپیش رہے ہے

نظروں میں کُھبی ہے مژہ اس شوخ کی جب سے
دل ساتھ مرے نت خلشِ نیش رہے ہے

منصور صفت گو کہ اسے دار پہ کھینچیں
حق گوئی سے کب مردِ حق اندیش رہے ہے

گہ لام تو گہ لام الف بنتی ہے بل کھا
زلف اس کی نہ برقائدہء خویش رہے ہے

اک روز تو کر مصحفی کی تو بھی زیارت
کوچے میں ترے کب سے یہ درویش رہے ہے
 
Top