جوش آنسو اور تلوار

حسان خان

لائبریرین
کربلا کا گرم میداں، تمتماتا آفتاب
کشمکش، ہلچل، تلاطم، شور، غوغا، اضطراب
صورِ اسرافیل سے ملتا ہوا غوغائے جنگ
برچھیاں، نیزے، کٹاریں، تیر، تلواریں، تفنگ
غازیوں کا طنطنہ، بانگِ رجز کا دبدبہ
طبل کی دوں دوں، کمانوں کے کڑکنے کی صدا
آگ کی لپٹیں، شعاؤں کی تپش، گرمی کا زور
اسلحہ کی کھڑکھڑاہت، لو کی رو، قرنا کا شور
جنگ جو میدان میں تیغِ دو دم تولے ہوئے
اہلِ ہمت دھوپ میں کالے علم کھولے ہوئے
محفلِ باطل میں حق کی داستاں کہتا ہوا
سرخ ذروں پر جوانوں کا لہو بہتا ہوا
قلبِ اعداء پر حسین ابنِ علی کا رعب و داب
قطرۂ بے مایۂ شبنم پہ گویا آفتاب
رسم و راہِ حق سے ربط، آئینِ باطل سے عناد
عہدِ جاں بازی، ۔(؟)۔ مردانگی، عزمِ جہاد
شوقِ آزادی، خیالِ سرفروشی، ذوقِ مرگ
یہ تھے انصارِ حسین ابنِ علی کے ساز و برگ
تم بھی ہو منجملۂ انصارِ شاہِ کربلا
سچ کہو ان میں سے تم کو کیا وراثت میں ملا
چند اشکوں کے لطائف، چند شیون کے نکات
کیوں، یہی لے دے کے ہے یارو! تمہاری کائنات
اے عزیزو! اس بلا کی بے حسی کیا کیا علاج
چند آہیں، اور وہ بھی بستۂ رسم و رواج
ہاں ازل سے ہے یہ تقسیمِ وراثت کا اصول
مرد کو دیتے ہیں شعلوں کی لپک، عورت کو پھول
مرد کو ملتی ہے ترکے میں جھلکتی ذوالفقار
عورتوں کو شاخِ گل کا لوچ، شبنم کا نکھار
مرد کو ہوتا ہے حاصل فاتحانہ قہقہہ
عورتوں کو ہچکیوں کی گونج، شیون کی صدا
اے کہ تم پوشاکِ حربی کے عوض پہنے ہو 'گون'
دل میں خود سوچو، تم اس تقسیم سے ہوتے ہو کون؟
خیر اب تک جو بھی ہونا تھا عزیزو ہو چکا
لیکن اب حق اہلِ جرات کو یہ دیتا ہے صدا
جذبۂ مردانگی سے روٹھ کر منتا ہے کون
حاملِ عزمِ شہیدِ کربلا بنتا ہے کون
ناؤ اپنی خون کے دریا میں کھینے کے لیے
کون بڑھتا ہے علی کی تیغ لینے کے لیے
آج وہ ساونت آئے سامنے، جس کا شباب
دے سکے شیبِ حبیب ابنِ مظاہر کا جواب
کون ہے تم میں سے عبدِ خاصِ ربِ مشرقین
کس کی نبضوں کو عطا ہو آتشِ خونِ حسین
کون خوں اپنا بہا سکتا ہے پانی کی طرح
کون مٹ سکتا ہے اکبر کی جوانی کی طرح
کون سینے میں جلاتا ہے چراغ احساس کا
کون کاندھے پر اٹھاتا ہے علم عباس کا
آئے، تقلیدِ حسین ابنِ علی کرتا ہے کون
کامل آزادی سے جینے کے لیے مرتا ہے کون
کون میداں میں سنبھالے گا بصد شان و وقار
سورما عباس کا پرچم، علی کی ذوالفقار
مومنو! حق کی تمہیں سوگند ایماں کی قسم
یہ صدا سن کر بڑھو کہتے ہوئے 'حاضر ہیں ہم'
حکم دو تاریخ کو، دہرائے اپنی داستاں
یہ نہیں ہمت، تو ہاتوں میں پہن لو چوڑیاں
مرد و کب ہے بھنور سے جو ابھر سکتا نہیں
حق ہی جینے کا نہیں اس کو جو مر سکتا نہیں
(جوش ملیح آبادی)
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ
مومنو! حق کی تمہیں سوگند ایماں کی قسم
یہ صدا سن کر بڑھو کہتے ہوئے 'حاضر ہیں ہم'

جزاک اللہ
 
Top