آغا نثار ۔۔۔۔۔جب زہر کا کسی کو پیالا دیا گیا

فیصل عزیز

محفلین
جب زہر کا کسی کو پیالا دیا گیا
سقراط کا یا میرا حوالا دیا گیا

کیا کیا نہ یاد آئے تھے ہجر کے دُکھ مجھے
جب پنچھیوں کو دیس نکالا دیا گیا

توڑا ہزار بار شبوں کے غرور کو
جگنو سے جب تلک اُجالا دیا گیا

نیزے میں میرا جسم پِرونے کے واسطے
مجھ کو فلک کے سمت اُچھالا دیا گیا

دیمک زدہ زبانیں، ہوس کے اسیر لوگ
مجھ کو تو عہدِ فن بھی نرالا دیا گیا

شاید میں شہر کا نہیں جنگل کا ہوں مکین
تلوار دی گئی ہے بھالا دیا گیا ہے

صحرا تمھاری آنکھ میں کیوں نقش ہو گیا
تم کو تو شہر چاہنے والا دیا گیا

اک دُکھ کی پروریش کے لیے عمر بھر نثار
ایندھن بدن کا، خون کا نوالا دیا گیا

آغا نثار
 
Top