آدم نگری میں بنت حوا کیلئے ظلم سہنا لازمی تو نہیں

منقب سید

محفلین
دوپہر کا وقت تھا اور موسم گرما ابھی الوداعی جوبن پر تھا میں ایک دوست کے گھریلو دفتر میں بیٹھا اس کی واپسی کا منتظر تھا کہ اچانک میری حس سماعت نے غیر معمولی شور محسوس کیا۔ بظاہر گلی میں اس شور کا مخرج نظر نہیں آرہا تھا تاہم توجہ دینے سے اندازہ ہوا کہ محلے کے کسی گھر میں جنابِ شوہر اپنی زوجہ محترمہ کو بے نقط سُنا رہے ہیں۔ ایک تو طبیعت ویسے ہی انتظار سے بوجھل تھی دوسرا اس شور کے باعث مکدر بھی ہو گئی۔ رفتہ رفتہ شور میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور میری زباں پرمسلسل دعاء جاری تھی کہ اللہ دونوں کو شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ لیکن قبولیت کی گھڑی نہیں تھی شاید۔ شور میں اب خاتون خانہ کی چیخیں بھی شامل ہو گئیں۔ مجھے اس صورتحال میں ایئر کنڈیشنڈ کمرہ ہونے کے باوجود پسینا آ گیا دل تو بہت کر رہا تھا کہ جا کر دروازہ کھڑکا کر اس ابن آدم کو روکوں لیکن ماحول اور صورتحال دونوں ہی اجنبی تھے اور اس دوران راہگیر اور محلے والے بھی عجب مشینی انداز میں وہاں سے گذر رہے تھے اور کسی نے اس شور کو قابل توجہ نہ جانا۔ چند منٹوں کے بعد ایک گھر کا دروازہ کھلا اور اگلے ہی لمحے ایک خاتون کو لڑکھڑا کر گلی میں گرتے دیکھا۔ اس کے پیچھے ہی باریش شوہر صاحب باہر تشریف لائے اور بالوں سے پکڑ کے خاتون کو نہایت بے دردی سے گھسیٹنے لگے۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز تھا سو برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑا اور کود پڑا میدان عمل میں۔ ان صاحب کو پکڑ کر محترمہ سے دور کیا اس دوران اہل محلہ اور راہگیروں کی معقول تعداد بھی جمع ہو گئی تھی۔ مجھے امید تھی اب معاملہ ٹھنڈا یو جائے گا۔۔۔۔۔ لیکن وہ صاحب اپنا آپ چھڑوا کر مجھ سے لڑ پڑے کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے ذاتی معاملے میں دخل دینے والے؟ ابھی ہماری بحث جاری تھی کہ میرے وہ دوست جن کا میں منتظر تھا نہ جانے کہاں سے ٹپکے اور مجھے اپنے ہمراہ کھینچ کر واپس اپنے دفتر میں لے گئے۔ خاتون شاید واپس اپنے گھر جا چُکی تھیں۔ ابھی ہجوم چھٹا بھی نہیں تھا کہ دوبارہ وہی ڈرامہ شروع ہو گیا۔ اس مرتبہ دوست کے روکنے کے باوجود میں نے قانون کا سہارا لے لیا اور پولیس کو کال کی۔ خلاف توقع پولیس وہاں جلدی پہنچ بھی گئی لیکن تب تک خاتون کا چہرہ لہو سے بھر چُکا تھا اور وہ بے چاری تو چیچ بھی نہیں رہی تھی شاید تھک گئی تھی۔ پولیس کی آمد سے امید ہوئی کہ اب اس ظالم انسان کو اس کے قبیح عمل کا پھل ملے گا لیکن پولیس والے فقط سمجھا کر واپس چلے گئے۔ اس تمام معاملے کے بعد میرے دوست نے معلومات فراہم کیں کہ شوہر ویسے تو بہت اچھا ہے ایک جدید اسلامک سنٹر کا معلم ہے لیکن غصے کا تھوڑا سا تیز ہے اس وجہ سے اکثر مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ایسا ڈرامہ ہوتا ہے۔ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ صوم و صلواۃ کی پابند ہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں لیکن شادی کے بعد سے سب چھوڑ چھاڑ کر گھر داری میں مشغول ہیں اور امور خانہ داری سر انجام دینے کے دوران سر زد ہونے والے کسی نہ کسی کوتاہی کی سزا اس صورت میں پاتی رہتی ہیں۔
ان سب باتوں کا جان لینے کے بعد میری عقل تو دنگ تھی کہ ہم عورت پر تشدد کرنے کے بعد بھی کیسے خود کو پڑھا لکھا معاشرہ کہہ جاتے ہیں اور تشدد کی مذہبی اور معاشرتی طور پر ناپسندیدگی کے باوجود کس طرح فخر سے اس قبیح عمل کو کرتے اور ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
گو کہ اس موضوع پر بہت سی تنظیمیں اور ادارے حقوق نسواں کے دعویدار ہیں لیکن قابل صد افسوس کے ابن آدم کی بنت حوا کے بارے میں سوچ بدلنے کا کام ان میں سے کوئی بھی سر انجام نہیں دے رہا۔ اور تو اور بنت حوا اپنے مذہبی اور معاشرتی حقوق سے آگہی کے باوجود بھی مجبوریوں کے دھارے میں اس تشدد کو سہ کر جی رہی ہے۔
اس تحریر کو شامل کرنے کا مقصد پرانی بحث نئے انداز میں چھیڑنا ہرگز نہیں۔ فقط اپنی زندگی میں پیش آنے والا تلخ واقعہ شرکاء محفل کے گوش گذار کرنا مقصود تھا۔ سب سے التماس ہے کہ دنیا بھر میں جسمانی تشدد سہنے والے بے گناہ حوا کی بیٹیوں کے حق میں صرف ایک مرتبہ ہی دعاء کر دیں۔ کیا معلوم قبولیت کی گھڑی کونسی ہو اور آپ کی دعاء کے طفیل ہی اس کی جان چھوٹ جائے۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
اک تلخ حقیقت
کیسا عجب نصیب لکھا لکھنے والے نے ۔۔۔۔۔۔
پاؤں تلے جس کے جنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے کیسے دکھ سہتی ہے ۔
اللہ سوہنا سب بہنوں بیٹیوں کے نصیب میں آسانیوں بھری بہار مقدر فرمائے آمین
 

منقب سید

محفلین
اک تلخ حقیقت
کیسا عجب نصیب لکھا لکھنے والے نے ۔۔۔۔۔۔
پاؤں تلے جس کے جنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے کیسے دکھ سہتی ہے ۔
اللہ سوہنا سب بہنوں بیٹیوں کے نصیب میں آسانیوں بھری بہار مقدر فرمائے آمین
کاتب تقدیر کی مرضی ہے ۔
ثم آمین
 
Top