آخرت کا تصور ہر وقت ہمارے سامنے ہوں

آخرت کا تصور وہ محور ہے جس کے ارد گرد تمام عبادتیں گردش کرتی ہیں ۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری تمام عبادتوں کا آخرت کے یقین، عند اللہ جواب دہی کے احساس اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے عقیدہ سے گہرا ربط ہے، اگر آخرت کا یقین نہ ہو تو موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں اور موسم سرما کی سخت ٹھنڈک کے دنوں میں نماز کے لئے مسجد کی طرف رخ کرنا انتہائی مشکل ہو گا، رمضان کے ایام میں بھوک و پیاس کی شدت اور محنت کی کمائی میں سے زکوٰۃ و صدقات کے نام پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حیرت کن عمل اسی لئے آسان ہے کہ موت کے بعد نہ ختم ہونے والی زندگی پر ایمان ہے، یعنی مرنے کے بعد نیک و بد ہر عمل کا حساب و کتاب ہو گا اور اچھے اور برے لوگوں کو ان کے ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا، ان تصورات کے بغیر نہ صرف عبادت بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا بھی محال ہے، کفار مکہ کے سامنے بے شمار معجزات پیش کئے گئے مگر انہیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین نہ ہوا، وہ کہتے تھے ا

إذَا مِتْنَا وَکُنَّا تَرَابًا وَّعِظَامًاا اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۔ (الواقعہ : ۴۷)

’’کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہم مٹی بن جائیں گے، ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو پھر دوبارہ ہمیں زندہ کیا جائے گا‘‘

دلائل کی کثرت کے باوجود آخرت کے عدم تصور کی وجہ سے ایمان نصیب نہیں ہوا اور نہ وہ اپنی بری حرکتوں سے باز آئے۔

آج مسلمانوں میں ظلم و زیادتی، لوٹ کھسوٹ، شراب نوشی، زنا کاری، سود اور رشوت خوری کا چلن اس لئے عام ہے کہ آخرت کا تصور کمزور ہو گیا ہے، ظاہر ہے کہ جب کسی گرفت کا احساس ہی نہ ہو یا ہو مگر برائے نام تو خواہشات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، ایک طاقتور انسان جب کسی غریب پر ظلم کر رہا ہو لیکن اس کو یہ احساس ہو جائے کہ مجھ سے قیامت کے دن اس عمل کا قصاص لیا جائے گا تو یقیناً وہ اپنی حرکت سے باز آ جائے گا، اسی طرح شراب نوشی یا زنا کاری کرتے ہوئے جب اللہ کا خوف پیدا ہو جائے اور آخرت میں جواب دہی کا تصور دل و دماغ میں بیٹھ جائے تو جسم پر لرزہ طاری ہو جائے گا اور زندگی سے چین و سکون ختم ہو جائے گا، یہاں تک کہ وہ صدق دل سے توبہ کر لے اور اللہ کے حضور میں ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے مغفرت کا امیدوار بن جائے۔

حدیث کی تقریباً تمام کتابوں میں حضرت ماعز اسلمیؓ اور غامدیہ صحابیہ کے زنا اور توبہ کا واقعہ درج ہے، بشری تقاضہ اور بعض مصالح خداوندی کی بنیاد پر جب حضرت ماعز اسلمیؓ سے زنا صادر ہو گیا تو وہ آخرت کے تصور سے بے چین ہو گئے، پہلے حضرت ماعز اسلمی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عظیم گناہ سے پاک کرنے کی درخواست کی، وہ نتیجہ سے بے خبر نہیں تھے، انہیں معلوم تھا کہ زنا کی اسلامی سزا شادی شدہ کے لئے رجم (سنگساری کے ذریعہ ہلاک کر دینا) ہے، وہ چاہتے تو اس عمل بد کو چھپا دیتے، اس لئے کہ دنیا میں اس پردۂ راز کو کوئی اٹھانے والا نہیں تھا، کسی کی نگاہ بھی ان پر نہیں پڑی تھی کہ خبر کے پھیلنے کا ڈر ہو یا ذلت و رسوائی کا خوف، اسلام نے زنا کی حد جاری کرنے کے لئے چار عینی گواہوں کو ضروری قرار دیا ہے جس کا مطلقاً یہاں فقدان تھا مگر کیا کیجئے
 
Top