غزلِ
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضِیا دِل میں اِک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
بے حِس ہیں تمنّائیں نیند آئی کہ موت آئی
اب دِل کو کسی کروَٹ آرام نہیں مِلتا
اِک عُمْر کا رونا ہے دو...