غزل
اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اِس قدر ، بِیمار ہوجاتے ہیں ہم
مُضْطَرِب ٹھہْرے ، سو شب میں دَیر سے آتی ہے نِینْد!
صُْبْح سے پہلے مگر ، بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش، ہَمَیں کرتی ہے سرگرْمِ عَمَل
اِس عَمَل سے بھی مگر، بیزار ہوجاتے ہیں ہم
جُھوٹا وعدہ بھی اگر...