اقبال کے ’’جواب شکوہ‘‘ کا ایک بند ہے:
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟
یہ طویل نظم انھوں نے 1908ء کے آس پاس...